ام المومنین حضرت سودہ رضی اللہ عنہا بنت زمعہ

راضیہ نوید

حضرت سودہ رضی اللہ عنہا بنت زمعہ کو آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوسری زوجہ محترمہ ہونے کا شرف اور اعزاز حاصل ہے۔ حضرت ابو طالب اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غمگسار زوجہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے وصال کے بعد کٹھن اور مشکل حالات میں آپ رضی اللہ عنہا کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفاقت کا شرف ملا اور آپ رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دکھ اور غم کا بوجھ ہلکا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کا تعلق قریش کے ایک معزز قبیلے عامر بن لوی سے تھا۔ آپ رضی اللہ عنہا کے والد کا نام زمعہ اور والدہ کا نام شموس تھا۔ آپ رضی اللہ عنہا کا شجرہ نسب کچھ اس طرح سے ہے : سودہ رضی اللہ عنہا بنت زمعہ بن قیس بن عبد الشمس بن عبدود بن نصر بن مالک بن حسل بن عامر بن لوی۔ آپ رضی اللہ عنہا کے نانا قیس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پردادا ھاشم کی بیوی سلمٰی کے بھائی تھے۔ اس طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کی ننھیال ایک ہی بنتی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا کی شادی دور جاہلیت میں ہی ان کے چچا زاد سکران بن عمرو سے ہو گئی تھی۔

سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا فطرتا ً اور طبیعتاً ایک صالح، حق پسند اور دور اندیش خاتون تھیں۔ بزرگوں کی اطاعت، بچوں سے محبت اور سب کی خدمت کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہا سنجیدہ مزاج تھیں اور قبول اسلام سے قبل بھی زمانہ جاہلیت کے رسوم و رواج کو پسند نہیں کرتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے توحید ورسالت کا اعلان فرمایا تو آپ رضی اللہ عنہا نے اس پیغام کو فوراً قبول فرما لیا اور دعوت توحید کے تین سالہ دور میں جن 133 افراد نے اسلام قبول کیا ان میں آپ رضی اللہ عنہا کا نام بھی نمایاں طور پر شامل ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا اپنے قبیلے بنی لوی میں سب سے پہلے مشرف بہ اسلام ہوئیں اور آپ رضی اللہ عنہا کی کو ششوں سے آپ رضی اللہ عنہا کے شوہر، میکے اور سسرال کے خاندانوں کے بہت سے افراد نے بھی اسلام قبول کیا۔ جن میں حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ بن سہیل بن عمرو، حضرت حاطب رضی اللہ عنہ بن عمرو، حضرت سلیط رضی اللہ عنہ بن عمرو، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ بنت علقمہ، حضرت مالک رضی اللہ عنہ بن زمعہ، حضرت ابو صبرہ رضی اللہ عنہ بن ابی رہم اور حضرت سکران رضی اللہ عنہ بن عمرو شامل ہیں۔

مکہ معظمہ کی سرزمین جب توحید و رسالت کے پروانوں پر تنگ کر دی گئی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے توحید و رسالت کے ان متوالوں کو وطن چھوڑ کر حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت مرحمت فرما دی چنانچہ نبوت کے پانچویں سال گیارہ مردوں اور چار عورتوں پر مشتمل ایک دستہ حبشہ پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس سے اگلے سال اٹھارہ عورتیں اور بیاسی مرد بھی حبشہ پہنچ گئے۔ ان بہادر، اولوالعزم اور بلند حوصلہ افراد میں سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا اور آپ رضی اللہ عنہا کے شوہر بھی شامل تھے۔ وہ اہل ایمان جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اجازت سے حبشہ ہجرت کر گئے تھے ان میں سے کچھ تو حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کے ساتھ وہیں مقیم رہے اور وہ غزوہ خیبر کے موقع پر مدینہ منورہ پہنچے لیکن ان کی کثیر تعداد کچھ عرصہ بعد مکہ وا پس آ گئی ان میں حضرت سودہ رضی اللہ عنہا بھی شامل تھیں۔ حبشہ سے واپس آنے کے بعد حضرت سکران رضی اللہ عنہ بن عمرو کا انتقال ہو گیا اور سیدہ رضی اللہ عنہا پر رنج و غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔

نبوت کے دسویں سال رمضان المبارک کے مہینے میں ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبرٰی رضی اللہ عنہا کا وصال ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کا نظام درہم برہم ہو گیا کیونکہ چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہ تھا۔ اس صورت حال میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مغموم اور پریشان تھے۔ حضرت ابو طالب رضی اللہ عنہ کی وفات کی وجہ سے قریش کی جو پشت پناہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاصل تھی وہ بھی ختم ہو گئی اور کفار کی دشمنی کھل کر سامنے آئی۔ کفار نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف پہنچانے اور ستانے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے راستے میں کانٹے بچھانے شروع کر دیے، گھروں کا کوڑا کرکٹ اور ذبح شدہ بکریوں اور بھیڑوں کے اوجھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کے صحن میں پھینکتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھتے تو یہ ہنسی اڑاتے، سجدے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گردن پر اوجھڑی لا کر ڈال دیتے، گلے میں چادر ڈال کر اس زور سے کھینچتے کہ گردن مبارک پہ خراشیں پڑ جاتیں، شریر لڑکوں کو آوازیں لگانے کے لئے پیچھے لگا دیتے غرضیکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر طرح سے تکلیف اور ایذا پہنچانے کی کوشش کرتے۔ ان کٹھن اور صبر آزما حالات میں حضرت خولہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دوسرے نکاح کا مشورہ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اجازت سے پیغام نکاح لے کر سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کے والد کے پاس گئیں۔ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا اس وقت بیوہ تھیں اور عمر پچاس برس سے تجاوز کر چکی تھی۔ ان کا ایک بیٹا بھی تھا جو اب جوان ہو چکا تھا لہذا آپ رضی اللہ عنہا اپنے فیصلے میں آزاد اور خود مختار تھیں۔ جب آپ رضی اللہ عنہا سے اس رشتے کے حوالے سے رائے طلب کی گئی تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : ’’میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائی ہوں، وہ میرے ہادی بھی ہیں اور میرے رہنما بھی، میری ذات کے متعلق انھیں کلی اختیار ہے۔ وہ جو چاہیں فیصلہ فرمائیں۔‘‘

پیغامِ نکاح آنے سے قبل سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نے دو خواب دیکھے جن میں سے ایک میں آپ رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے پاس تشریف لا کر ان کی گردن پر اپنا پاؤں رکھا ہے۔ یہ خواب انہوں نے اپنے شوہر کو بتایا تو وہ کہنے لگے کہ میں جلدی فوت ہو جاؤں گا اور رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم سے نکاح فرمائیں گے۔ چند روز بعد آپ رضی اللہ عنہا نے دوبارہ خواب دیکھا کہ ٹیک لگائے بیٹھی ہیں آسمان سے چاند اترا اور ان کی جھولی میں آ گیا۔ جب یہ خواب انھوں نے حضرت سکران رضی اللہ عنہ کو سنایا تو انہوں نے کہا کہ تم سچ کہتی ہو، میں جلدی فوت ہو جاؤں گا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ رضی اللہ عنہا سے نکاح کی خواہش ظاہر فرمائیں گے چنانچہ سکران رضی اللہ عنہ اسی دن علیل ہو گئے اور چند دنوں بعد وصال فرما گئے۔ الغرض نکاح کے لئے تاریخ اور وقت کا تعین ہو گیا اور چار سو درہم مہر کے بدلے آپ رضی اللہ عنہا کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نکاح کر دیا گیا۔ نکاح کی یہ تقریب بعض روایات کے مطابق رمضان 10 بعثت میں اور بعض روایات کے مطابق شوال 10 بعثت میں منعقد ہوئی۔ یہاں دوسری بات ہی زیادہ صحیح ہے۔

مکہ مکرمہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر شدائد و مصائب کا سلسلہ بڑھتا گیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتل کا منصوبہ تیار ہو گیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ سے بخیریت مدینہ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدینہ تشریف لے جانے کے بعد تقریباً چھ ماہ تک سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بچیوں کی سرپرستی، دیکھ بھال اور حفاظت کی سخت اور کٹھن ذمہ داریوں کو پوری جانفشانی اور خوش اسلوبی سے ادا کیا۔ مدینہ تشریف آوری کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد کی تعمیر کے علاوہ اس کے ساتھ ہی دو حجرے تیار کروائے۔ ایک ام المومنین حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے لئے اور دوسرا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے لئے جن سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نکاح ہو چکا تھا مگر ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان 1 ہجری کو حضرت زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ اور ابو رافع رضی اللہ عنہ کو مکہ کی طرف بھیجا کہ وہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر والوں کو لے آئیں چنانچہ انہوں نے بخیریت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر والوں کو مدینہ پہنچا دیا۔

مدینہ منورہ میں آپ رضی اللہ عنہ کو جو حجرہ مہیا کیا گیا اس کی دیواریں کچی اور چھت کجھور کی شاخوں کی تھی۔ اس کی لمبائی پندرہ فٹ، چوڑائی دس فٹ اور اونچائی اتنی تھی کہ کھڑا آدمی اپنے ہاتھ سے چھو سکتا تھا۔ اس کے دروازے پر کواڑ کے بجائے کالے بالوں والے کپڑے کا پردہ پڑا تھا۔ مکہ میں ہادی عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا گھر شہر کے غیظ و غضب اور نفرت و حقارت کا محور تھا لیکن مدینہ میں ان کا یہ گھر بستی والوں کی عقیدتوں اور محبتوں کا مرکز تھا۔ عام طور پر ایک خاتون کے لئے اپنی سوتیلی اولاد سے رحمت کا برتاؤ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے مگر آپ رضی اللہ عنہا نے بچیوں سے قابلِ رشک مشفقانہ سلوک کیا اور پوری فراخدلی سے انھیں حقیقی ماں کا پیار دیا۔ حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کم و بیش پانچ چھ سال تک حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کی زیرِ نگرانی رہیں لیکن کہیں کوئی ایسی روایت نہیں ملتی جو باہمی تلخی کی ہلکی سے ہلکی بھی نشاندہی کرتی ہو۔

ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبرٰی رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت سودہ رضی اللہ عنہا وہ واحد خوش قسمت خاتون ہیں جنہیں پورے چار سال بلا شرکت غیرے کاشانہء نبوت کو اپنی مہر و وفا، والہانہ خدمت اور غمگساری سے روشن رکھنے کا شرف حاصل ہوا۔ آپ رضی اللہ عنہا بہت عالی ظرف اور بلند حوصلہ تھیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اس حوالے سے فرماتی ہیں : ’’میں نے سودہ رضی اللہ عنہا کے سوا کسی اور عورت کو جذبہء رقابت سے خالی نہیں دیکھا۔ نیز ان کے سوا کسی اور عورت کو دیکھ کر میرے دل میں یہ خواہش پیدا نہ ہوئی کہ اس کے جسم میں میری رو ح ہو۔‘‘

10 ہجری میں خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حج کا ارادہ فرمایا تو سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا سمیت تمام ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہم کو ساتھ لیا۔ سیدہ رضی اللہ عنہا دراز قد اور بھاری جسم کی تھیں، تیز چلنا دشوار تھا۔ اس لیے مزدلفہ میں قیام کے دوران آپ رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست کی کہ : ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میرے لیے بھیڑ میں چلنا مشکل ہے اس لئے مجھے اجازت مرحمت فرما دیں کہ میں رات ہی کو منٰی واپس چلی جاؤں۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں خصوصی اجازت مرحمت فرما دی اور وہ رات ہی کو مزدلفہ سے منٰی کے لئے روانہ ہو گئیں اور صبح کی نماز منٰی میں ادا کی۔ اس حج کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : ’’اس حج کے بعد گھروں میں بیٹھنا۔‘‘ چنانچہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا بنت حجش نے اس حکم کی نہایت سختی سے تعمیل کی آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد کبھی گھر سے باہر نہ نکلیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کے کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی مگر سابق شوہر حضرت سکران رضی اللہ عنہ سے ان کا ایک بیٹا عبد الرحمٰن تھا۔ عہدِ فاروقی میں عراق کی مکمل آزادی کا آخری معرکہ 16ھ میں جلولا کے مقام پر حضرت سعد رضی اللہ عنہ بن ابی وقاص کی زیرِ قیادت برپا ہوا جس میں عبد الرحمٰن رضی اللہ عنہ نے نا صرف شرکت کی بلکہ جامِ شھادت بھی نوش کیا۔ یوں حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو ایک شہید کی ماں ہونے کا لازوال شرف حاصل ہوا۔ آپ رضی اللہ عنہا نے زندگی کے آخری ایام میں اپنا حجرہ مبارک حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے نام ہبہ فرما دیا تھا۔ حافظ ابنِ حجر کے نزدیک آپ رضی اللہ عنہا کا وصال 55 ہجری میں جبکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک 22ھ میں ہوا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق ان کا انتقال عہدِ فاروقی میں ہوا اور یہ رائے زیادہ قرینِ قیاس ہے۔