طنز و مزاح اور ظرافت آج کے دور کی اہم ضرورت

رابعہ الرّب

لفظ، طنزو مزاح، عمومی معانی میں مذاق و ہنسی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ طنز کے لغوی معانی تو کسی کو طنز و طعن کا نشانہ بنانا ہے۔ جس سے اس کی دل آزاری ہو اور دین اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ البتہ ادب میں یہ الفاظ ایک ساتھ مروج ہیں لیکن اس میں بھی طنز، ایسا لفظ یا جملہ ہے جس سے دوسروں کی دل آزاری نہ ہو۔ جس کا مقصد عامیانہ مزاح پیدا کرنا نہ ہو۔

طنز و مزاح یا شگفتگی و ظرافت آج کے دور کی اہم ضرورت بن چکا ہے بلکہ یہ ہر دور کی ہی اہم ضرورت رہا ہے لیکن فرق اتنا ہے کہ ہر پہلا دور ہر آنے والے دور کی نسبت پرامن تھا۔ جس طرح کھانے کے بعد میٹھا ضروری ہوتا ہے چاہے کم مقدار میں ہی کیوں نہ ہو۔ یونہی موجودہ دور میں ظرافت کی شیرینی لازمی ہے۔

مزاح وہ دوا ہے جو دو نمبر بھی ہو تو اس کے اثرات مثبت ہی ہوتے ہیں۔ سائنسی تحقیق سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ مسکرانے سے انسانی خلیوں اور عضلات پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اور تناؤ کم ہوتا ہے۔ انسان توانا رہتا ہے اور عمر میں اضافہ ہوتا ہے اور بڑھاپا دیر سے آتا ہے۔

آج ہم جس معاشرے و ماحول میں سانس لے رہے ہیں ہر جا ٹینشن، عجیب خبروں اور حالات کے تغیر، مہنگائی و کم آمدن نے انسانی اعصاب کو مسلسل تناؤ کا شکار کر رکھا ہے۔ انسان ان سے فرار کی راہ نشہ اور اس قسم کی دوسری عادات میں تلاش کرتا ہے جو کسی بھی مسئلے کا حل نہیں۔ البتہ شگفتگی و ظرافت کسی حد تک انسان کو ہلکا پھلکا کر دیتے ہیں۔

ایک عام انسان کے تجربے میں یہ بات عموماً آتی ہے کہ اگر کوئی شخص اداسی و تناؤ کا شکار مسلسل ہو جائے تو کہا جاتا ہے کہ وقتی طور پر اس کا ماحول تبدیل کر دو اور اگر اسے ہنسی مزاح کرنے والے ساتھی میسر آ جائیں تو وہ اگرچہ اپنے غم سے چھٹکارا تو نہیں پاتا مگر بے حال بھی نہیں ہوتا۔

ظرافت انسان میں جہاں توانائی پیدا کرتی ہے وہیں رجائیت و امید کی بھی ایک صورت ہے کہ انسان مایوس اور ناامید نہیں ہوتا۔ زندگی کی شمع ڈگمگاتی ہے مگر روشن رہتی ہے۔

ظرافت و شگفتگی یا طنزو مزاح خوش اخلاقی کی اعلیٰ ترین صورت ہے جو ہمارے دین کا اہم حصہ ہے کہ ہمارے تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی خوش اخلاق تھے۔ یہ ایک ایسا وظیفہ بھی ہے کہ جو انسانوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے، پُرکشش ہے جو انسان کو دوسروں میں عزت و مقبولیت عطا کرتا ہے۔

آج ہم جس افراتفری و اضطراب و ہیجان کے دور سے گزر رہے ہیں اس میں اگر کوئی وظیفہ کام آ سکتا ہے تو مزاح ہے۔ اگر کوئی دوا اصلی ہے تو ظرافت و شگفتگی ہے مگر دھیرے دھیرے یہ معدوم ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اگر یہی روش رہی تو انسان مایوسی کے اندھیروں میں چلا جائے گا اور ہمارا دین مایوسی کو ناپسند کرتا ہے۔

بارش کافی عرصہ نہ ہو تو زمین بنجر ہو جاتی ہے اور اس زمین پر فصل نہیں اگ سکتی۔ قحط زدگی ہونے لگتی ہے اور علاقہ کو آفت زدہ قرار دے دیا جاتا ہے۔ یونہی مزاح و شگفتگی کے بغیر زندگیاں قحط زدہ ہو جاتی ہیں اور نسل انسانی اعتماد کے زیور سے خالی ہو جاتی ہے بچے جو نوید نو ہوتے ہیں مرجھائے پھول بن جاتے ہیں کیونکہ ان کی نمو و پرورش کرنے والے اذہان آفت زدگی کا شکار ہوتے ہیں۔

اللہ نے انسان کو منع فرمایا کہ زمانے کو برا نہ کہو زمانہ میں ہوں اور نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہر آنے والے دور سے بہتر پہلا دور ہوگا۔۔۔ تو اسے صاف ظاہر ہے کہ ہم قیامت کی طرف سفر تو کر رہے ہیں مگر وقت و زمانے کو برا کہہ کر گناہ کمانے سے بہتر ہے حالات کی کڑوی گولی پر مزاح کی شیرینی چڑھا کر اس کو کھا لیا جائے۔

ہمیں مزاح و شگفتگی کی بہت عمدہ مثالیں اپنے دین اسلام میں ہی مل جاتی ہیں۔ ’’ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم اکٹھے بیٹھے کھجوریں کھا رہے تھے اور کھجوروں کی گٹھلیاں سب اپنے سامنے رکھتے جا رہے تھے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی گھٹلیاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گھٹلیوں میں رکھ رہے تھے۔ جب سب کھا چکے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ دیکھتے ہیں سب سے زیادہ کھجوریں کس نے کھائیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ بھی دیکھئے کہ گھٹلیوں سمیت کھجوریں کون کھا گیا؟

ایک مرتبہ خلفاء راشدین میں حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ، حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کہیں اکٹھے تشریف لے جا رہے تھے۔ درمیان میں سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ تھے اور دائیں بائیں دونوں اصحاب تھے۔ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا قد مبارک دونوں کی نسبت قدرے چھوٹا تھا۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مزاحاً ارشاد فرمایا : حضرت علی رضی اللہ عنہ ہمارے درمیان ایسے معلوم ہو رہے ہیں جیسے لفظ لَناَ میں ن ہوتا ہے۔ اس پر سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے جواباً مزاح فرماتے ہوئے بڑا پیارا جواب ارشاد فرمایا کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر درمیان سے ن کو نکال دیا جائے تو لا رہ جاتا ہے یعنی باقی کچھ بھی نہیں بچتا۔

اس سے ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کے درمیان محبت و پیار، اتفاق و اتحاد اور اخوت و بھائی چارے کا درس بھی ملتا ہے کہ ان کے درمیان تناؤ نہیں بلکہ خوشگوار اور کھلا ماحول تھا جیسے آج ہم سب کو اپنانے کی ضرورت ہے۔