ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا

راضیہ نوید

آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبوب ترین رفیقہ حیات کا نام حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا ہے۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا ایک دریا دل، عالی ظرف، غریبوں کی ہمدرد و غمگسار، خواتین کے حقوق کی علمبردار اورمال و دولت سے مستغنیٰ اور بے نیاز خاتون تھیں۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے اپنی روحانی اولاد کو دین و شریعت اور حکمت کی تعلیم دینے کے لئے بے مثال کردار ادا کیا۔ تمام اہل ایمان آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا کو اپنی عظیم ماں اور بلند پایہ معلمہ تصور کرتے ہیں اور خصوصاً آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا کے علم و فضل سے خواتین نے بے پناہ فیض حاصل کیا۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا ہی وہ عظیم ہستی ہیں جن کی صداقت و شرافت کی گواہی خود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دی ہے۔

آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا نبوت کے پانچویں سال، شوال کے مہینے میں پیدا ہوئیں۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا نام عائشہ رکھا گیا۔ والد کا نام عبداللہ، کنیت ابوبکر اور لقب صدیق تھا۔ والدہ کا نام زینب اور کنیت ام رومان تھی۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا شجرہ نسب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ والد کی طرف سے آٹھویں پشت اور والدہ کی طرف سے بارہویں پشت پر جاکر ملتا ہے۔ مورخین نے آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا شجرہ نسب کچھ اس طرح بیان کیا ہے:

عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنھا بن قحافہ بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم مرہ بن کعب بن لوی۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے جس گھر میں آنکھ کھولی وہ توحید و رسالت کی روشنی سے منور تھا۔ اس گھر میں اللہ رب العزت کی عبادت کی جاتی اور قرآنی آیات کی تلاوت کی جاتی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کا شرف تقریباً روزانہ حاصل ہوتا۔ اس پاکیزہ ماحول نے آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا کے معصوم ذہن پر اخلاقی و روحانی اعتبار سے کافی مثبت اثرات مرتب کئے۔ بچپن میں آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا کھیل کی شوقین تھیں۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا کے اردگرد بچوں کا ہجوم رہتا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ قدرت نے ان میں باہمی میل جول اور روابط قائم کرنے کی صلاحیت رکھی تھی۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا پسندیدہ کھیل گڑیوں سے کھیلنا اور جھولا جھولنا تھا۔ بچپن ہی سے آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا کے انداز گفتگو اور اطوار سے ذہانت و فطانت جھلکتی تھی۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا کی قوت حافظہ بڑی تیز تھی۔ کھیل کود کے دوران بھی اگر کوئی آیت سن لیتیں تو فوراً حفظ کرلیا کرتی تھیں۔

نبوت کے دسویں سال رمضان المبارک میں ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالٰی عنھا انتقال فرماگئیں۔ ان کی وفات سے گھر کا نظام درہم برہم ہوگیا اور تبلیغی کوششوں میں بے پناہ رکاوٹیں آئیں چنانچہ ایک روز حضرت خولہ رضی اللہ تعالٰی عنھا بنت حکیم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئیں اور آپ کو دوسرے نکاح کا مشورہ دیا اور بیوائوں میں حضرت سودہ رضی اللہ تعالٰی عنھا اور کنواریوں میں سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا نام تجویز کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا مندی معلوم کرنے کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنھا کے پاس گئیں اور رشتے کا ذکرکیا۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے اس رشتے کو قبول کرلیا چنانچہ شوال 10نبوی میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنھا نے اپنی بیٹی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا نکاح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کردیا۔ اس موقع پر پانچ سو درہم حق مہر مقرر ہوا۔ اس کے علاوہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس نکاح کی بشارت بھی مل چکی تھی۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کو مخاطب کرکے فرمایا:

’’میں تین رات خواب میں تمہیں اس طرح دیکھتا رہا کہ ایک فرشتہ ریشم کے سفید کپڑے میں تیری تصویر میرے سامنے لاتا اور کہتاکہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیوی ہے۔ میں تصویر کا پردہ اٹھاکر چہرہ دیکھتا تو وہ تمہارا ہی چہرہ ہوتا اور میں یہ کہا کرتا کہ اگر یہ اطلاع خدا کی طرف سے ہے تو وہ خود ہی اسے پورا بھی فرمائے گا‘‘۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقریب نکاح نے عرب میں رائج مختلف رسوم و رواج کو ختم فرمادیا۔

  1. منہ بولے بھائی کی بیٹی سے شادی نہ کرنے کی رسم ختم ہوگئی کیونکہ ان رشتوں کو بنیاد بناکر نکاح کے لئے جائز اور وسیع حلقے کو تنگ کرنا قطعاً درست نہ تھا۔
  2. شوال میں شادی نہ کرنا جبکہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا کی شادی اور رخصتی شوال میں ہوئیں۔ عرب شوال کو منحوس خیال کرتے تھے کیونکہ ایک دفعہ عرب میں اس مہینے میں طاعون کی سخت وبا پھیلی جس سے لاتعداد لوگ لقمہ اجل بن گئے لہذا موہوم خیالات و افکار کی بنیاد پر بعض دنوں اور بعض مہینوں کو منحوس قرار دینا غیر فطری اور عقل و دانش کے خلاف ہے۔

  3. نکاح کی یہ تقریب انتہائی سادگی سے انعقاد پذیر ہوئی جس میں تمام مشرکانہ اور مسرفانہ رسموں اور پابندیوں کا خاتمہ کیا گیا مثلاً دلہن کے آگے آگے آگ جلانا اور شوہر پہلی ملاقات محمل کے اندر کرنا وغیرہ تاکہ سادگی کا رواج عام کیا جائے۔

ہجرت مدینہ کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان کے چند افراد کے علاوہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا بھی مکہ میں رہ گئیں۔ بعد میں حضرت عبداللہ بن ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنھا اپنی والدہ ام رومان رضی اللہ تعالٰی عنھا اور دونوں بہنوں حضرت اسماء رضی اللہ تعالٰی عنھا اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کو لے کر مدینہ پہنچے۔

قدرت نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے تعلیم و تربیت کا اہم کام لینا تھا لہذا آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا کی تعلیم و تربیت کا خصوصی بندوبست کیا۔ دس سال تک آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا اپنے والد حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنھا کے زیر تربیت رہیں جن کا دل اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سے معمور تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنھا علم الانساب کے ماہر تھے، شعر و ادب کا بے پناہ ذوق رکھتے تھے۔ معاملہ فہمی کی صلاحیت رکھنے کے ساتھ خوابوں کی تعبیر بتانے میں بھی ماہر تھے لہذا آپ رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے والہانہ محبت، علم الانساب میں مہارت، معاملہ فہمی کی صلاحیت اور تعبیر الرئویاء کی استعداد میکے سے ہی اپنے ساتھ لائی تھیں۔ جب آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا شانہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تشریف لائیں تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قربت کے ساتھ ساتھ تعلیم و تربیت کا وہ عظیم موقع ملا جس نے آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا کو پوری امت مسلمہ کی عظیم معلمہ کے منصب پر فائز فرمایا۔ دیگر ازواج مطہرات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نکاح میں بیوہ ہوکر آئیں اور بعض کے ساتھ انکے سابق شوہروں کی اولاد بھی تھی اور وہ عمر کے اس حصے میں تھیں جہاں پڑھنے، لکھنے اور سیکھنے کی صلاحیتیں کمزور پڑجاتی ہیں۔ صرف حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا ہی کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ لڑکپن میں حرم نبوت کا حصہ بنیں جب پڑھنے، علم حاصل کرنے اور نئی معلومات جاننے کی قوتیں موجود ہوتی ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر عنایت نے بھی ان کے قلب و ذہن کو بے پناہ وسعت عطا فرمائی۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا کو لکھنا نہیں آتا تھا لیکن قرآن کے مطالب، احکام اور تعلیمات وغیرہ سیکھنے کے لئے مواقع بکثرت موجود تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنفس نفیس آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا کے پاس موجود ہوتےآپ رضی اللہ تعالٰی عنھا ان کی باتیں سنتی، اعمال و افعال کا مشاہدہ کرتیں اور جب مسجد میں درس و تدریس کی مجلس لگتی تو آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا اپنے حجرہ میں بیٹھ کر بآسانی استفادہ کرلیتیں۔ جس بات کو سمجھنے میں مشکل پیش آتی وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کرلیتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ صرف ان کی حوصلہ افزائی فرماتے بلکہ سوالات کا تسلی بخش جواب عنایت فرماتے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کی روحانی اور اخلاقی تربیت کے لئے ایک ایسے گھر کا انتخاب کیا جہاں سوکنوں کے علاوہ سوتیلی اولاد بھی تھی۔ مگر آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے ہر موقع پر بے پایاں تحمل اور رواداری کا مثالی مظاہرہ کیا بلکہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے ایسی متعدد احادیث روایت کی ہیں کہ اگر سوکن اور سوتیلی اولاد کے حوالے سے تھوڑا سا بھی دل میں بغض ہوتا تو وہ بیان نہ کرتیں۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا کے تعلقات ہمیشہ نہایت صاف ستھرے اور خوشگوار رہے۔

شعبان 2 ہجری میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اطلاع ملی کہ قبیلہ بنو مصطلق دوسرے قبائل کو ساتھ ملا کر جنگی تیاریاں کررہا ہے لہذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے لشکر کے ساتھ وہاں پہنچے تاکہ فتنے کو سر اٹھانے کا موقع نہ ملے۔ اس مہم میں بہت سے منافقوں کے ساتھ عبداللہ بن ابی بھی شامل تھا۔ منافق گروہ کے سب سے بڑے دشمن حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنھا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنھا تھے۔ اسی بناء پر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا اور حضرت حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کو بدنام کرنے میں منافقین کی ناکام کوششوں کا بڑا حصہ صرف ہوا۔ اس سفر میں آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا بھی تھیں۔ عبداللہ بن ابی اس سفر کے دوران مسلمانوں میں فتنے کی چنگاریاں بھڑکاتا رہا مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بابرکت شخصیت اپنے مدبرانہ طرز عمل سے معاملات سلجھاتی رہی مگر اس سفر میں ایک ایسے خطرناک فتنے نے سر اٹھایا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کمال ضبط، صبر، تحمل اور حکمت و دانائی سے کام نہ لیتے تو مدینہ کی زمین پر سخت خانہ جنگی برپا ہوجاتی۔ یہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا پر تہمت کا فتنہ تھا جسے تاریخ میں واقعہ افک کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ تقریباً ایک ماہ کے صبر آزما اور اذیت ناک مرحلے کے بعد اللہ رب العزت نے آیات برات نازل فرمائیں جن میں آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا کی پاکدامنی کی شہادت دی گئی۔ گویا آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا کو برات کا ایسا شرف ملا جس میں امت کی کوئی اور خاتون شریک نہیں اور یہ آیات برات قیامت تک تلاوت ہوتی رہیں گی۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کے کردار کا ایک اہم عنصر جرات و دلیری تھا اس لئے خطرناک موقعوں پر بھی ثابت قدم اور مطمئن رہتیں۔ 3 ھ میں جب غزوہ احد پیش آیا تو بعض روایات کے مطابق آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا لشکر کے ساتھ تھیں اس وقت آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا اپنی پیٹھ پر مشک لاد کر زخمیوں کو پانی پلاتیں اور جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ مبارک زخمی ہوا تو انہوں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنھا اور حضرت صفیہ رضی اللہ تعالٰی عنھا بنت عبدالمطلب کے ساتھ مل کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زخموں کو دھویا۔ 5 ہجری میں عرب کی فوج نے مدینہ کا محاصرہ کرلیا اور مسلمانوں نے شہر کے گرد خندق کھود کر اپنا دفاع کیا۔ اس موقع پر عورتوں اور بچوں کو ایک قلعہ میں جمع کردیا گیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا قلعہ کے باہر آکر محاذ جنگ کا معائنہ کیا کرتی تھیں۔

ماہ صفر 11ہجری کے آخری دنوں میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا کے پاس تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعت ناساز تھی۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا تیرہ دن بیمار رہے۔ ان میں سے پانچ دن دوسری ازواج کے پاس گزارے جبکہ آٹھ دن حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کے پاس قیام پذیر رہے۔ 12 ربیع الاول کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وصال فرماگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر انور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کی گود میں تھا۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا کے حجرہ مبارک کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آخری اور ابدی آرام گاہ ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا تقریباً بتیس برس کی عمر میں بیوہ ہوئیں غم و اندوہ کا پہاڑ ٹوٹ پڑا مگر آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے بڑے وقار اور صبر کے ساتھ اس صدمے کو برداشت کیا۔

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد تقریباً سینتالیس برس زندہ رہیں آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے اپنی ساری زندگی لوگوں کی تعلیم و تربیت کے لئے وقف کردی۔ عطاء تابعی کا قول ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سب سے زیادہ فقیہہ، صاحب علم اور صائب الرائے تھیں۔

(حاکم مستدرک)

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے علم نبوت کو افراد تک منتقل کرنے کے لئے دن رات محنت کی۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا چھوٹے بچوں اور بچیوں کو اپنی کفالت میں لے کر نہ صرف ان کی پرورش کرتیں بلکہ زیور تعلیم و تربیت سے بھی آراستہ کرتیں اور ان کی شادیاں بھی اپنی سرپرستی میں کرتیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کی سفارش پر آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں کی تعلیم و تربیت کے لئے الگ دن اور وقت مقرر فرمادیا تھا لہذا سب خواتین مقررہ وقت پر حاضر ہوجاتیں اور بحر نبوت سے فیض یاب ہوتیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد بھی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کے گھر پر درس گاہ باقاعدہ قائم رہی۔ خواتین بڑے ذوق و شوق سے اس میں شریک ہوتیں۔ نہ صرف خواتین بلکہ مردوں کے لئے بھی تعلیم و تربیت کا انتظام فرمایا کرتی تھیں۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا کے حجرہ کے دروازے پر پردہ ڈال دیا جاتا اور آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا اوٹ میں بیٹھ جایا کرتی تھیں اور لوگ حجرے کے سامنے مسجد میں بیٹھ جاتے۔ وہ سوالات کرتے اور جوابات دیتی جاتیں۔ اس درسگاہ میں جلیل القدر صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنھا بھی ہوتے اور تابعی رضی اللہ تعالٰی عنھا بھی۔ یہی وہ شاگرد ہیں جنہوں نے آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے اکتساب علم کرنے کے بعد امت کی آنے والی نسلوں میں منتقل کیا۔ مدینہ منورہ کے باہر سے آنے والے بھی آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا کے علم سے فیض یاب ہوتے۔ مردوں کے علاوہ عورتوں کے وفود بھی بیرونی علاقوں سے حاضر خدمت ہوتے اور آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا ان کی تعلیم و تربیت فرماتیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا یہ معمول رہا کہ اپنی وفات تک ہر سال حج کے لئے تشریف لے جاتیں تاکہ دور دراز سے آنے والے لوگ آسانی سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کی تفصیل اور حکمتیں جان سکیں۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے اپنے عمل اور کردار سے ثابت کیا کہ عورت اسلام کی عائد کردہ تمام حدود و قیود کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے علمی، مذہبی، اجتماعی، اصلاح و ارشاد اور ملک و ملت کی بھلائی کے کام انجام دے سکتی ہے۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا اپنے انہی فرائض کو انجام دیتے ہوئے 67 سال کی عمر میں رمضان المبارک 57ھ کے ابتدائی دنوں میں بیمار ہوئیں اور 17 رمضان المبارک کو رحلت فرماگئیں۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے وصیت فرمائی تھی کہ انہیں رات کے و قت ہی جنت البقیع میں دفن کیا جائے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنھا نے نماز جنازہ پڑھائی۔ جب آپ رضی اللہ تعالٰی عنھا کا وصال ہوا تو صرف ازواج الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے صرف حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنھا حیات تھیں۔ انہوں نے اس موقع پر فرمایا کہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کے لئے جنت واجب ہے کیونکہ وہ رسول خد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سب سے پیاری بیوی تھیں۔

بنت صدیق آرام جان و نبی
اس حریم برات پہ لاکھوں سلام

یعنی ہے سورہ نور جن کی گواہ
اس کی پرنور صورت پہ لاکھوں سلام