حافظ محمد سعید رضا بغدادی

عرفان القرآن کورس
درس نمبر50 آیت نمبر109 تا 110 (سورۃ البقرہ)

تجوید
اقسامِ وقف کا بیان

سوال: وقف کی اقسام بتائیں؟

جواب: اقسامِ وقف درج ذیل ہیں۔

  • وقفِ تام
  • وقفِ حَسَن
  • وقفِ قبیح
  • وقفِ بالاسکان
  • وقفِ بالرَّوم
  • وقف بالاشْمام
  • وقفِ اِختیاری
  • وقف اِضطراری
  • وقفِ اِختباری
  • وقفِ اِنتظاری

سوال: وقفِ تام کی تعریف بتائیں؟

جواب: جہاں مضمون ختم ہو رہا ہو اور آیتِ وقف (O) بھی موجود ہو تو وہاں ٹھہرنا ’’وقفِ تام‘‘ کہلاتا ہے۔

مثلًا: هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ کو هُمُ الْمُفْلِحُوْنْO پڑھیں گے۔

سوال: وقفِ حَسَن کسے کہتے ہیں؟

جواب: وقفِ حسن ایسے وقف کو کہتے ہیں جہاں وقف کرنا تو ٹھیک ہے مگر مابعد والے حرف سے ابتداء کرنا

درست نہ ہو مثلًا: ’’اَلْحَمْدُ ِﷲِ‘‘ پر وقف کرنا تو ٹھیک ہے مگر ’’رَبِّ الْعَالَمِيْن‘‘سے شروع کرنا ٹھیک نہیں، اس وقف کو ’’وقفِ حَسَن‘‘  کہتے ہیں۔

سوال: وقفِ قبیح کسے کہتے ہیں؟

جواب: ایسی جگہ وقف کرنا کہ بات کی کچھ سمجھ نہ آئے۔ مثلاً: ’’بِسْمِ اﷲِ‘‘ کی بجائے ’’بِسْمْ‘‘ پر وقف کر دیا۔ ایسے وقف کو ’’وقفِ قبیح‘‘  کہتے ہیں۔

سوال: وقفِ بالاسکان کسے کہتے ہیں؟

جواب: کسی متحرک حرف کی حرکت کو ختم کر کے اس پر ٹھہرنا ’’وقف بالاسکان‘‘  کہلاتا ہے۔ مثلاً: نَسْتَعِیْنُ سے نَسْتَعِیْنْ۔

ترجمہ

وَدَّ کَثِيْرٌ مِنْ أَهْلِ الْکِتَابِ لَوْ يَرُدُّوْنَکُمْ مِنْ بَعْدِ اِيْمَانِکُمْ کُفَّارًا.

متن

وَدَّکَثِیْرٌ

مِنْ

اَھْلِ

الْکِتَابِ

لَوْ

یَرُدُّوْنَکُمْ

مِنْ بَعْدِ اِیْمَانِکُمْ

کُفَّارًا

لفظی ترجمہ

چاہتے ہیں بہت

سے

اہل

کتاب

کاش

لوٹادیں تمہیں

تمہارے ایمان کے بعد

کفر کی حالت میں

عرفان القرآن

بہت سے اہل کتاب کی یہ خواہش ہے ‘ تمہارے ایمان لے آنے کے بعد پھر تمہیں کفر کی طرف لوٹادیں

حَسَدًا مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا َتبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ.

متن

حَسَدًا

مِنْ

عِنْدِ

اَنْفُسِہِمْ

مِنْ بَعْدِ

مَا

تَبَیَّنَ

لَہُمُ

الْحَقَُّ

لفظی ترجمہ

بسبب حسد کے

سے

پاس

اپنے دلوں کے

بعد (اس کے)

جو

خوب ظاہر ہو گیا

ان پر

حق

عرفان القرآن

اس حسد کے باعث جو ان کے دلوں میں ہے‘ اس کے باوجود کہ ان پر حق خوب ظاہر ہو چکا ہے۔

فَاعْفُوْا وَ اصْفَحُوْا حَتّٰی يَأتِیَ اللّٰهُ بِأَمْرِه ط

متن

فَاعْفُوْا

وَ

اصْفَحُوْا

حَتّٰی

یَاْتِیَ

اللّٰہُ

بِاَمْرِ

ہہ

لفظی ترجمہ

پس تم معاف کرو

 

اور

نظر اندازنہ کرو

یہاں تک کہ

لے آئے

اللہ

حکم

اپنا

عرفان القرآن

سو تم درگذر کرتے رہو اور نظراندازکرتے رہو ‘ یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم بھیج دے۔

إِنَّ اللّٰهَ عَلٰی کُلِّ شَئٍ قَدِيْرٌO

متن

اِنَّ

اللّٰہَ

عَلٰی

کُلِّ

شَئٍ

قَدِیْرٌ

لفظی ترجمہ

بیشک

اللہ

پر

ہر

چیز

کامل قدرت والا

عرفان القرآن

بیشک اللہ ہرچیز پر کامل قدرت رکھتا ہے۔

وَأَقِيْمُوْالصَّلٰوةَ وَاٰتُوْا الزَّکٰوةَ ط وَمَا تُقَدِّمُوْا لِأَنْفُسِکُمْ

متن

وَ

اَقِیْمُوْا

الصَّلٰوۃَ

و

اٰتُوْا

الزَّکٰوۃَ

وَمَا

تُقَدِّمُوْا

لِاَنْفُسِکُمْ

لفظی ترجمہ

اور

قائم رکھو

نماز

اور

ادا کرو

زکوۃ

اور جو کچھ

تم بھیجوگے

اپنی جانوں کیلئے

عرفان القرآن

اور نمازقائم (کیا) کرو اور زکوٰۃ دیتے رہا کرو‘ اور تم اپنے لئے جو نیکی بھی آگے بھیجوگے

مِنْ خَيْرٍ تَجِدُوْه عِنْدَ اللّٰهِ ط إِنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌO

متن

مِنْ

خَیْرٍ

تَجِدُوْہ

عِنْدَ

اللّٰہِ

اِنَّ

اللّٰہَ

بِمَا

تَعْمَلُوْنَ

بَصِیْرٌ

لفظی ترجمہ

سے

بھلائی

پائوگے اسے

پاس

اللہ کے

بیشک

اللہ

جوکچھ

تم کرتے ہو

دیکھتا ہے

عرفان القرآن

اسے اللہ کے حضور پالوگے‘ جو کچھ تم کررہے ہویقینا اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔

تفسیر

وَدَّ کَثِيرٌ مِنْ اَهْلِ الْکِتَابِ.

شان نزول

اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ حضرت عمار بن یاسر اور حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہما غزوہ احد سے واپس ہو رہے تھے کہ یہود کی ایک جماعت سے ملاقات ہوئی جنہوں نے از راہِ طعن یہ کہا کہ یہودی مذہب برحق ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اگر برحق نبی ہوتے اور اللہ ان کے ساتھ ہوتا تو وہ اپنے ساتھیوں کو کیوں قتل کرا بیٹھتے؟ اس پر عمار رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اچھا بتلاؤ بد عہدی کرنے والا تمہارے نزدیک کیسا ہے؟ کہنے لگے کہ نہایت ذلیل ہے۔ حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے مرتے دم تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اتباع کا عہد کیا ہے۔ اس، کبھی اس کو نہیں توڑ سکتے۔ یہود نے الزام لگایا کہ تم صابی ہو گئے ہو۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا۔

رَضِيْتُ بِاللّٰهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِيْنًا وَالْکَعْبَةِ قِبْلَةً وَالْقُرْآنِ إِمَامًا وَ الْمُوْمِنِيْنَ إِخْوَانًا.

’’میں راضی ہو گیا اللہ کو رب ‘ اسلام کو دین‘ کعبہ کو قبلہ ‘ قرآن کوامام اور مومنوں کو بھائی مان کر‘‘

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو جب اس واقعہ سے با خبر کیا تو آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا:

اَصَبْتُمَا الْخَيْرَ وَافْلَحْتُمَا.

 ’’تم دونوں نے خیر کی بات کی اور فلاح پا گئے۔ ‘‘

اور یہ آیت نازل ہوئی۔

جہاد وعفو ودرگزر

چونکہ اس وقت مسلمانوں کی موجود حالت کا تقاضا تھا کہ پورے صبر وسکون اور عدم تشدد کے ساتھ وقت گزار کر اپنی طاقت کو مجتمع کیا جائے،اس، حق تعالیٰ نے تسامح اور چشم پوشی کامشورہ دیا اورقوم کو حقیقی اور اندرونی قوت وطاقت فراہم کرنے کا اس سے بہتر طریقہ ممکن نہیں تھاکیونکہ نا سازگار ماحول اور ناپسندیدہ حالات برداشت کرنے کی عادت ڈالنے سے اخلاقی اور روحانی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے اور بڑے سے بڑے کٹھن اور سنگین حالات خندہ پیشانی سے جھیلنے کی مشق ہو جاتی ہے۔ اس مصلحت سے روحانی اور اخلاقی طاقت کے سر چشمہ کی طرف رخ پھیرنے کے، نماز ‘ روزہ،زکوۃ وغیرہ عبادتی احکام کا پروگرام بتلا دیا کہ فی الحال بدنی اور مالی مشقتیں جھیلنے کا عادی بناؤ۔ تا کہ جنگی احکام کے قابل اپنے آپ کو بنا سکو۔ ورنہ بلا تیاری کے ایک دم جنگی احکام بے سود ہو کر رہ جائیں گے۔

 (تفسير جلالين)

مضامین

  • اہل کتاب کا مسلمانوں سے حسد وعناد‘ اہل کتاب سے درگزر کرنے کا حکم،اس کے بعد اسلام کے استحکام کے زمانے میں دوسرا حکم نازل ہوا جس میں ان کی ولایت واعتماد سے کلیۃً منع کر دیا گیا۔
  • نماز ا ور زکوٰۃ کا حکم۔
  • ہر نیک کام کا صلہ اللہ تعالیٰ کے پاس محفوظ رہتا ہے۔

 (تفسير منهاج القرآن)

حدیث

عَنْ بُرَيْدَةَ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِصلی الله عليه وآله وسلم: کُنْتُ نَهَيْتُکُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ فَزُوْرُوْهَا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَزَادَ: فَأِنَّهَا تُذَکِّرُکُمُ الْآخِرَةَ.

"حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں زیارتِ قبور سے منع کیا کرتا تھا، پس اب تم زیارتِ (قبور) کیا کرو۔ بیشک یہ تمہیں آخرت کی یاد دلاتی ہیں۔"