علم نافع اور عمل صالح قربِ الہٰی کا باعث ہے

منہاج کالج برائے خواتین میں تربیتی نشست سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا خصوصی خطاب

ترتیب و تدوین: صاحبزادہ محمد حسین آزاد
معاونت: ملکہ صبا

بسم اللہ الرحمن الرحیم

معزز قائدین تحریک، اساتذہ کرام، معلمات اور عزیز طالبات۔ آپ تمام بیٹیاں اس مشن کی بیٹیاں ہیں جو اس کالج میں پڑھ رہی ہیں آپ میری آنکھوں کانور ہیں۔ اس مشن میں میرا حوصلہ ہیں، میرا سہارا ہیں، اس مشن کی عزت اور اس کا مستقبل ہیں اور مصطفوی انقلاب کا ہر اول دستہ ہیں۔ اس لئے میں آپ سب کو کثرت سے تسلیمات و دعا کے ساتھ پیار کرتا ہوں اور دنیا و آخرت کی برکت و سعادت کے لئے دعا گو ہوں۔

چند ضروری باتیں سمجھانا چاہتا ہوں کیونکہ آپ سب میری بیٹیاں ہیں۔ اس لئے میں چاہتا ہوں کہ آپ کے علم پر بھی محنت ہو اور علم آپ کا علم نافع بنے اور اس علم میں نور ہو، اندھیرا نہ ہو، تاریکی نہ ہو اور علم میں نور صرف اس شرط پر آتا ہے اگر اس کے ساتھ عمل صالح، زہد، ورع اور تقویٰ ہو۔ علم کے ساتھ ادب، زہد اور تقویٰ شامل نہ ہو تو اس علم اور صاحب علم کا حال ایسا ہوتا ہے جیسے کتابوں کا انبار گدھے کی پشت پر لاد دیا جائے۔ وہ بہت سی کتابیں اٹھاکر سفر تو کرتا ہے مگر وہ کتابیں بوجھ ہوتی ہیں۔ اس بوجھ سے زیادہ اسکے لئے کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔

علم دو طرح کا ہے ایک وہ علم جو نور پیدا کرتا ہے۔ ایک وہ علم جو تاریکی پیدا کرتا ہے۔ اگر علم میں للہیت ہو، خالص اللہ کے لئے ہو اور اس نیت سے حاصل کیا جائے کہ اس سے اللہ کا قرب ملے، اس کی رضا ملے، یاد رکھیں یہ رضا اور قرب اللہ کی محبت کے سوا حاصل نہیں ہوتا۔ ایک قاعدہ ہے کہ جس کو جس سے محبت نہیں ہوتی اس کو اس کا قرب نہیں ملتا اور اگر محبت کے بغیر قرب مل جائے تو وہ بے فیض و بے برکت ہوتا ہے جیسے ابوجہل و ابولہب اور کفار و مشرکین کو جسمانی قرب اس قدر ملا کہ جہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گھر تھا انہیں گلیوں میں ان کا بھی گھر تھا تو کفار و مشرکین آتے جاتے دیکھتے تھے یا نہیں؟ دن میں کئی بار آمنا سامنا ہوتا اور ملاقات ہوتی۔ ایک ہی گلی کوچہ میں رہائش ہو اور آتے جاتے دیکھنا بھی ہو تو ظاہری اعتبار سے زیادہ قرب اور کیا ہوسکتا ہے۔ پھر یہ لوگ کفارو مشرکین بھی کعبۃ اللہ میں جاتے تھے اور جب تک آق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ مکرمہ میں رہے آق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی جاتے تھے۔ دروازہ بھی ایک تھا جس سے آتے جاتے تھے (باب بنی قریش)، باپ دادا بھی اوپر جاکر پردادا میں مل جاتے تھے۔ اب اس سے زیادہ ظاہری و جسمانی قرب ہوسکتا ہے لیکن اس قرب کا انہیں کوئی فائدہ پہنچا؟ نہیں ہرگز نہیں ابولہب کے لئے آیت اتری۔

تَبَّتْ يَدَآ اَبِیْ لَهَبٍ وَّتَبَّo

(اللهب،111:1)

’’ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ تباہ ہو جائے (اس نے ہمارے حبیب پر ہاتھ اٹھانے کی کوشش کی ہے)‘‘۔

میں سمجھانا یہ چاہتا ہوں اور اس سے خاص نقطہ یہ اخذ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ایمان سے محروم تھے اور ایمان کیا ہے؟ قلبی تصدیق کا نام ہے یعنی دل کا کسی کو مان لینا، کسی کی طرف راغب ہوجانا، کسی کی تصدیق کرنا، کسی کی طرف جھک جانا، کسی کا ہوجانا۔ آق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان نہ ہونے کی حقیقت یہ ہے کہ دل کو قرب نہیں تھا۔ جسمانی، جغرافیائی، مکانی اور ظاہری اعتبار سے قرب تھا مگر باطن بعید تھا۔ اصل میں باطن کا ہی قریب و دور ہونا ہوتا ہے۔

ادھر یمن کے رہنے والے اویس قرنی ہیں وہ کبھی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملے ہی نہیں اور آق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زمانہ پانے کے باوجود ظاہری قرب بھی نہیں ملا مگر چونکہ باطن جڑا ہوا تھا۔ لہذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام حضرت عمرو علی رضی اللہ عنہما کو فرمایا کہ یمن میں ایک اویس رہتا ہے تم دونوں ملنے جانا اور کہنا میری امت کے لئے دعا کریں۔ اتنا باطنی قرب کیوں ملا؟ کہ محبت نے دور رہ کر بھی جوڑ دیا۔ کتابوں میں بعض بزرگوں نے لکھا ہے کہ جس کی سند تو صحیح نہیں ہے مگر کتابوں میں روایت آئی ہے۔ ممکن ہے درست بھی ہو۔ بعض اوقات ایک واقعہ لکھا جاتا ہے جس کی سند صحیح نہیں ہوتی مگر سند صحیح ہونے کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ سرے سے وہ واقعہ ہی غلط ہے۔ اس کے صحیح ہونے کا امکان باقی رہتا ہے۔ لہذا محبت نے اتنا جوڑ دیا تھا کہ جب خبر ملی کہ آق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دندان مبارک شہید ہوگیا ہے تو انہوں نے پتھر سے اپنا دانت بھی توڑ دیا۔ یہ کیوں کیا؟ کیونکہ محبت چاہتی ہے جیسا میرا محبوب ہو ویسا ہی میں بھی ہوں حتیٰ کہ محبوب کا دانت کا ایک کنارہ ٹوٹ گیا ہے تو میرا بھی ٹوٹا ہوا ہو، محبوب جو کھاتا ہے میں بھی وہ کھؤں، محبوب جو پہنتا ہے میں بھی وہ پہنوں، وہ جس طرح بولتا ہے میں بھی ویسا ہی بولوں، وہ جس کو پسند کرتا ہے میں بھی اس کو ہی پسند کروں۔ محبوب جنہیں ناپسند کرتا ہے میں بھی انہیں ناپسند کروں، محبوب کو جو طریقے اچھے لگتے ہیں بس میں بھی انہی طریقوں پر عمل کروں اور محبوب کو جو طریقے اچھے نہیں لگتے ان سے نفرت کروں اور محبوب جس طرز زندگی سے راضی ہے مرجؤں مگر اس طرز زندگی کو نہ چھوڑوں اور جس طریقے کے طرز عمل اور طرز زندگی سے نفرت ہے ایسی نفرت میں بھی کروں کہ اس راستے کی طرف میں نہ دیکھوں۔ اس حوالے سے ایک شعر ہے۔

کعبہ بنتا ہے جس طرف کو ریاض
رخ جدھر کو وہ موڑ دیتے ہیں

اور جس طرف وہ نظر نہیں آتے
ہم وہ رستہ ہی چھوڑ دیتے ہیں

یہ محبت کے تقاضے ہیں۔ اب ہم یہاں جمع ہیں، ہم نے مشن بنایا، آپ کے لئے درسگاہ بنائی، تربیت گاہ بنائی اس لئے کہ اس جگہ سے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قرب کا راستہ کھلے اور اس راستے کی سواری کا نام محبت ہے۔ اگر آپ گھوڑے یا اونٹ پر چڑھ کر بیٹھ جائیں اور کچھ نہ کریں تو کیا گھوڑا چلے گا اس گھوڑے کی سواری آپ کو منزل پر پہنچانے کے لئے تب کام آئے گی جب آپ اس کی لگام ہاتھ میں رکھیں گے۔ سواری کو کنٹرول لگام کرتی ہے۔ اس لگام کا نام اتباع ہے۔ اس طرز عمل کی جو آپ کے محبوب نے آپ کو دیا ہے اور وہ گاڑی جو آپ کی سواری ہے اس گاڑی کا نام محبت ہے جو محبوب کے گھر تک لے جائے گی۔ پھر جب آپ اس راستہ پر جارہے ہوں گے تو کئی گلیاں راستہ میں آئیں گی۔ کچھ ادھر کچھ ادھر، کچھ دائیں کچھ بائیں جانے والی ہونگی۔ اگر آپ نے وہ راستہ ترک کردیا اور دائیں بائیں چل نکلے تو کبھی منزل پر نہیں پہنچیں گی۔ لہذا جب منزل پر پہنچنا ہو تو ایک جانب ایک راستہ پر چلتے ہیں اور دائیں بائیں کے راستوں کو نہیں دیکھتے۔ چاہے وہ جتنے بھی اچھے کیوں نہ ہوں، وہ سب شیطانی راستے ہوتے ہیں۔ یہ تمہیدی بات اس لئے سنائی کہ آپ نے سیدھے راستے پر جانا ہے۔

مزید وضاحت کے لئے حضرت رابعہ بصری کا واقعہ سناتا ہوں۔ آپ سفر میں تھیں، ایک مقام پر ایک ولی اللہ ملے وہ ولی اللہ ابتدائی درجے کے ہوں گے۔ اس نے مل کر آپ کے آداب بجا لائے اور کہا کہ میں دور سے آیا ہوں اور مجھے للہ آپ سے بڑی محبت ہے۔ جب اس نے دعویٰ محبت کیا تو رابعہ بصریہ رضی اللہ عنہا نے تھوڑی دیر رک کر کہا اچھا! دیکھ۔ اللہ نے تیرے دل میں میری محبت ڈالی ہے اور تو مجھ سے محبت کرتا ہے۔ آپ نے کبھی میری بہن کو دیکھا ہے۔ اس نے کہا نہیں۔ انہوں نے کہا اوہو! آپ کہاں پھرتے رہے میری بہن اتنی حسین و جمیل ہے کہ اس کے حسن کو کوئی دیکھ لے تو وہ دیوانہ ہوجائے۔ وہ بہت حسین ہے میں تو کچھ بھی نہیں، اس نے پوچھا کدھر ہے تو فرمایا کہ دیکھ میری دائیں طرف پیچھے کھڑی ہے۔ اس نے ایک دم ادھر مڑ کر دیکھا تو رابعہ بصری نے اسے زور سے تھپڑ مارا اور کہا کہ دعویٰ محبت مجھ سے اور مڑ کر کسی اور کو دیکھ رہا ہے۔ اگر مجھ سے محبت ہوتی تو مڑ کر کسی حسین تر کو کیوں دیکھتے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ تو کسی اور چیز کا منتظر و متلاشی ہے۔ اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ بیٹیو! جب اللہ اور رسول سے محبت کا سبق سیکھنے آئیں تو پھر ایک راستہ رکھیں اور دائیں بائیں کے سارے راستے چھوڑ دیں اور جو دائیں بائیں گھور کر دوسرے راستوں کو دیکھتے ہیں وہ کبھی منزل پر نہیں پہنچتے۔

ایک مرتبہ حضرت ذوالنون مصری اپنے بھائی کے ساتھ سفر میں تھے تو دیکھا کہ ایک نوجوان کو چھوٹے چھوٹے بچے پتھر مار رہے تھے۔ آپ ان کے قریب گئے اور کہا کہ یہ جوان تمہیں کچھ نہیں کہہ رہا پھر تم کیوں اسے پتھر مار رہے ہو؟ بچوں نے کہا کہ یہ پاگل و مجنوں ہے۔ پوچھا کیسے پاگل ہے؟ بچوں نے کہا یہ کہتا ہے کہ میں اللہ کو دیکھتا ہوں۔ اللہ کا جلوہ اور نظارہ کرتا ہوں۔ یہ سن کر حضرت ذوالنون مصری نے اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑا اور کان میں کہا کہ یہ کام کا آدمی لگتا ہے ؤ اس سے اکیلے میں اس کا حال معلوم کرتے ہیں۔ وہ ا سکے قریب گئے اور کہا اے جوان! یہ تمہیں کہتے ہیں تم پاگل اور مجنوں ہو۔ اس نے کہا ہاں زمین والوں کے لئے پاگل ہی ہوں مگر آسمان والوں کے لئے پاگل نہیں ہوں، یعنی زمین والے دیوانہ جانتے ہیں مگر آسمان والے فرزانہ جانتے ہیں۔ پھر انہوں نے پوچھا یہ تمہیں پاگل کیوں کہتے ہیں؟ کیا تم دعویٰ کرتے ہو کہ میں اللہ کا نظارہ کرتا ہوں؟ اس نوجوان نے ہنس کر جواب دیا۔ ’’عاشقوں کی نظر سے اللہ اوجھل ہی کب ہوتا ہے‘‘۔ یعنی میں تو ہر وقت اُسی کو تکتا رہتا ہوں۔

حضرت ذوالنون مصری نے جب اسے یہ کہتے سنا تو آپ کی چیخ نکل گئی اور اسے ایک طرف لے گئے اور کہنے لگے یہ تو بتا کہ اس محبوب خالق کے ساتھ تیرا تعلق کیسا ہے؟ یعنی اس کے ساتھ آپ کا حال کیا ہے؟ (بیٹو! آپ عہد کریں جو جملہ آگے آنے والا ہے آج کے دن کے بعد اس جملے پر آپ پابند ہوجائیں گی۔ ) جب حضرت ذوالنون مصری نے اس نوجوان سے پوچھا اس مالک کے ساتھ تیرا حال اور تعلق کیا ہے؟ تو اس مجنوں اور عاشق نوجوان نے جواب دیا کہ ’’جس دن سے اس کو جان لیا ہے اور میری اس کے ساتھ شناسائی ہوگئی ہے اس دن سے اس کے ساتھ بے وفائی نہیں کی‘‘۔ (اب آپ سب اس جملے کو اپنے دل سے اور باری تعالیٰ کا جو عشق ہے اسے تصور میں لاکر جواب دیں کہ شناسائی اس درجے کی نہ سہی مگر رہنمائی تو ہوگئی ہے۔ کوئی ایسی ہے جو کہے کہ رہنمائی بھی نہیں ہوئی۔ رہنمائی ہوگی تو شناسائی ہوگی اور اگر شناسائی سے پہلے بیوفائی شروع ہوجائے تو کیا وہ بیوفؤں کے دل میں آتا ہے اور جو اللہ کی نافرمانی کرتا ہے یعنی کوئی ایسے کام کرتاہے جس سے اللہ نے منع فرمایا ہو تو اس کی بیوفائی ہوگی یا وفاداری ہوگی۔ لہذا اگر آپ اپنے اندر اللہ کی وفا شامل کرلیں تو پھر آپ میری بیٹیاں نور بن جائیں گی۔ ) جب وہ جوان حضرت ذوالنون مصری کو بتاچکے کہ جب سے اس سے شناسائی ہوئی ہے اس سے بیوفائی نہیں کی تو انہوں نے پوچھا کہ جوان ایک سوال کا جواب اور دے دے یہ بتا کہ اس سے شناسائی کب سے ہوئی ہے؟ کتنا عرصہ ہوا ہے؟ اس نے کہا کہ ’’جب سے اس نے میرا نام مجانین (پاگلوں) میں لکھ دیا ہے تب سے میں اس کو جاننے لگا ہوں‘‘۔ یعنی وہ پاگلوں میں نام لکھتا ہی اس وقت ہے جب لوگ اس سے شناسا ہوجاتے ہیں اور جو اس کا شناسا ہوتا ہے وہ دنیا کے طور طریقوں کو چھوڑ دیتا ہے۔

ایک اور جگہ حضرت ذوالنون مصری فرماتے ہیں کہ میں حج کے موقع پر ایک مرتبہ طواف کررہا تھا کہ دوران طواف میں نے ایک نوجوان دیکھا اور وہ اللہ والا تھا (دنیا میں اس کے جتنے ولی اور مقرب بنے ان کا سفر جوانی سے ہی شروع ہوا۔ آپ کی ابھی یہی عمر ہے بیٹے! اس عمر سے گزر جائیں گی تو پھر پچھتائیں گی کہ زندگی بیکار ہوگئی مگر کچھ بھی ہاتھ نہ آئے گا۔ ابھی آپ کا وقت ہے۔ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہتر اور کوئی شے نہیں ہے۔ جدھر گھوم پھر کر دیکھو اس راستے سے بہتر کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ لہذا توبہ کرلو اور آج سے عہد کرلو کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیوفائی نہیں کرو گی)۔ حضرت ذوالنون مصری فرماتے ہیں میں نے دیکھا وہ مفلوک الحال جوان طواف کررہا تھا۔ مجھے اس کی حالت پر رحم آیا۔ طواف کے دوران دوڑ کر میں اس کے بالکل قریب ہوگیا اور جب کندھے سے کندھا ملا تو جو درہم و دینار اسے دینے کے لئے میں نے ہاتھ میں بند رکھے تھے نکال کر تیزی سے اس کے ہاتھ میں دیئے کہ وہ لے لے مگر اس نے انہیں پکڑنے کی بجائے میرے ہاتھ کو پکڑ لیا اور مجھ سے پوچھا کیا کررہے ہو؟ میں نے کہا کہ آپ کا خستہ حال دیکھا ہے۔ سوچا کہ حاجت مند ہوں گے۔ آپ کا لباس پھٹا ہوا ہے، چہرے پر فاقے کے آثار ہیں، میں نے یہ حالت دیکھی تو مجھے دکھ ہوا اور سوچا کہ میرے پاس جو کچھ تھا وہ آپ کو دے دوں کہ آپ اپنی ضروریات پوری کرلیں۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے روک لیا اور کہا کہ دنیا تو دنیا جنت الفردوس میں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے جو کچھ بنایا ہے اس کی ساری متاع اگر کوئی مجھے لاکر دے اور کہے یہ حالت بیچ دو، اس جنت اور اس کے مال و متاع کے عوض تو میں پھر بھی یہ حال نہیں بیچوں گا اور تم چار درہم کے عوض میرا یہ حال خریدتے ہو۔ تمہیں کیا خبر مجھے اس حال میں کیا ملتا ہے؟

اس جوان نے جنت کے عوض بھی یہ حالت نہیں بیچی۔ اب ذہن میں سوال آتا ہے کہ وہ حالت کیا تھی؟ اس حالت کو کہتے ہیں ’’التعلق مع اللہ‘‘ جب بندے کا قلب و باطن اللہ سے جڑ جاتا ہے تو اس کا رشتہ اس سے جڑ جاتا ہے۔ وہ دنیا میں رہتا ہے چلتا پھرتا ہے۔ ادھر ادھر جاتا ہے، مختلف کام کرتا ہے۔ دنیا اور مخلوق میں پھرتا ہے۔ جسم اس کا ادھر ہوتا ہے مگر قلب اس کا اللہ کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ اللہ کی مجلس میں رہتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ یہ تعلق دائمی ہوجائے تو پھر وہ تو ساری کائنات کے عوض بھی یہ حال نہیں بیچتا۔ آج آپ کے پاس آنے کا مقصد یہ تھا کہ آپ کو نصیحت کروں کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تعلق کو جوڑ لو اور باقی خواہشات، شہوات، دنیا کی ہر شے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دور لے جانے والی ہے اسے چھوڑ دو۔ ہر روز تہجد کے لئے اٹھیں، یہ اللہ سے تعلق جوڑنے کے لئے بہترین ہے۔ کتنا اچھا ہو کہ رات کے اندھیرے میں ہر بیٹی نیند چھوڑ کر مصلیٰ پر کھڑی ہو، نفل پڑھے، رو رہی ہو اور اللہ سے اللہ کو مانگ رہی ہو۔

اس سے آپ اندازہ کریں کہ اللہ تعالیٰ کتنا راضی ہوگا کہ ہر بیٹی پورے ہاسٹل میں اور گھروں میں رات کو مصلیٰ پر کھڑی رو رہی ہو۔ دنیا کی خواہشیں، شہوتیں، گندی چیزیں، گندی رنجشیں، گندی محبتیں جو جہنم میں لے جانے والی ہیں ان کو ٹھوکر مار کر اپنے پؤں کے نیچے کچل دیں۔ سب اللہ کی ہوجائیں۔ آق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہوجائیں۔ بولئے اچھا سودا ہے یا برا۔ بیٹیو! چند سال کی زندگی یہاں رہنے کو ملی ہے یہ زندگی پلٹ کر نہیں آئے گی۔ بعد میں آپ اس زمانے اور اس وقت کو ترسیں گی۔ یہ وقت یہ زمانہ پلٹ کر نہیں آئے گا۔ اس زمانے میں آپ اللہ والیاں ہوجائیں۔ رسول والیاں ہوجائیں۔ اپنے اندر نور بھرلو، تقویٰ بھرلو، زہد و ورع بھرلو۔ میری اس نصیحت کو کیسٹس میں ساری زندگی سنتی رہیں۔ امی ابو کو بھی گھروں میں جاکر سنائیں۔ اپنی سہیلیوں کو سنائیں اور ان کو سنائیں جنہیں اس سودے کی طلب ہے۔ نماز تہجد سے آپ کے اندر طہارت آئے گی، تقویٰ آئے گا، پرہیزگاری آئے گی، نور آجائے گا، بیٹے! آپ کے بشری پیکر، نور سے بھر جائیں گے۔ اللہ پاک آپ کو صالحات کے زمرے میں شامل کردے۔ قبل اس کے آپ یہاںسے جائیں بڑی منزلیں پاکر جائیں۔ پانچ چیزیں اپنے اندر پیدا کرلیں۔ علم، ادب، تقویٰ، عبادت اور اخلاق۔ بالخصوص اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے لئے میں نے آپ کو یہاں بلایا تھا کہ یہاں آکر یہ سبق سیکھیں ورنہ دنیا میں اور بہت جگہیں ہیں آپ وہاں چلی جائیں مگر جب یہاں آئی ہیں تو اپنی زندگیوں میں نور بھر کر واپس جائیں۔ میں یہاں ہوتا ہوں یا کہیں بھی کعبۃ اللہ کے سامنے ہوں یا آق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در اقدس میں، اللہ گواہ ہے آپ کے لئے دعائیں کرتا ہوں۔ اللہ پاک آپ پر ہمیشہ اپنا فضل و کرم کرے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت کرے۔ چونکہ آپ بھی میری روحانی اولاد ہیں اور آپ کی عزت و عظمت کی حفاظت بھی میرے ذمے ہے لہذا میں آپ کی اجازت سے چند پابندیاں عائد کرنا چاہتا ہوں۔

1۔ آپ تمام بیٹیاں تنہا سفر نہیں کریں گی کیونکہ ہم دور فتن سے گزر رہے ہیں۔ لہذا آپ جب بھی سفر کریں تو اپنے باپ، بھائی، ماں یا بڑی بہن کے ساتھ سفر کریں۔ ہم آپ کی باجیوں کو بھی تنہا کہیں نہیں بھیجتے۔ لہذا میں آپ کے بارے میں بھی اسی طرح سے فکر مند رہتا ہوں آپ سب کو قبول ہے اگر کسی کا جائز عذر ہو تو اس کے بارے میں پرنسپل کی ہدایات پر عمل کریں۔

2۔ تمام بیٹیاں انٹرنیٹ Living Room میں استعمال کریں۔ یہ بہت معلومات فراہم کرتا ہے۔ اس کے استعمال کی اجازت دیتے ہیں مگر اکیلے اپنے کمروں میں نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہمیں آپ پر یا کسی پر اعتماد نہیں مگر بات صرف تربیت کی ہے۔ آپ کی عمر ایسی ہے کہ اس میں تربیت کی اشد ضرورت ہوا کرتی ہے۔ آپ تمام بیٹیاں راضی رہیں اپنے اندر ولایت کے آثار پیدا کریں۔ میں آپ کی زندگیوں میں عبادت کا نور، معرفت کا نور اور تقویٰ کا نور دیکھنا چاہتا ہوں تاکہ آپ کی اگلی زندگی آسان ہو۔ اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت کرے اور نیکی و تقویٰ اور پرہیزگاری پیدا فرمائے۔

آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم