یکم مئی: محنت کشوں کا عالمی دن

ڈاکٹر محمد ساجدخاکوانی

1884ء کو امریکہ کے شہر شکاگو میں مزدوروں نے مطالبہ پیش کیا کہ انکے اوقات کار سولہ گھنٹے کی بجائے آٹھ گھنٹے کیے جائیں، مطالبہ مسترد ہونے کے بعد انہوں نے ہڑتال کا فیصلہ کیا، دوسال کی قلیل مدت میں یکم مئی 1886 تک یہ تحریک اپنا مکمل زور پکڑ چکی تھی۔ تین مئی کو مقامی پولیس نے مظاہرین پر گولیاں چلائیں اور چار مزدور ہلاک ہوگئے جبکہ بہت سے زخمی بھی ہوئے۔ اس واقعے کے بعد پولیس نے موقف اختیار کیا کہ مظاہرین کی طرف سے ایک دستی بم پھینکا گیا تھا جس کے نتیجے میں ایک پولیس والا ہلاک ہو گیا اور ایک مقدمہ بنا کر آٹھ مزدور راہنماؤں کو پھانسی کی سزا سنادی گئی، جن میں سے چار افراد کو11 نومبر1887 کو پھانسی دے دی گئی، ایک نے جیل میں خود کشی کر لی اور بقایا تین کو 1893 میں معاف کر دیاگیا۔ اس وقوعے کے بعد 1899 میں فیصلہ کیا گیا کہ ان ہلاک شدگان کی یاد کے طور پر ہر سال یکم مئی عالمی مزدوروں کے دن کے حوالے سے منایا جائے گا۔ بہت جلد یہ دن پوری دنیامیں ایک بین الاقوامی اہمیت اختیار کر گیا۔

لیکن یہ ایک ظاہری بات تھی اس دن کی پوشیدہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دن سیکولر یورپی تہذیب میں ’’فلورا‘‘ نامی یونانی دیوی کی یاد میں منایا جاتا ہے، یہ پھولوں کی دیوی ہے اور اسکی شادی ہوا کے دیوتا کے ساتھ ہوئی جس کی خوشی میں یہ دن یورپی تہذیب میں مزدوروں کے عالمی دن سے بھی پہلے سے منایا جاتا تھا بلکہ قدیم یونان میں مئی کے آغاز میں ’’فلورا‘‘ نام سے بہار کا میلہ بھی منعقد کیا جاتا تھا جس کی روایت آج تک یورپ کے متعدد علاقوں میں قائم ہے۔ یونانی قدیم کہانیوں میں پھولوں کی اس دیوی ’’فلورا‘‘ کو ہرکولیس کا دوست بھی بتایا گیا ہے۔ مذہب عیسائیت کے لٹریچر میں پھولوں کی اس ملکہ کو ’’ملکہ مئی‘‘ بھی کہا گیا ہے۔ ’’سیکولرازم‘‘ ایک تحریک منافقت کے سوا کچھ نہیں، پوری دنیا کو مذہب سے راہ فرار سجھاتے ہیں اور خود اندر خانے مذہب پر اس سختی سے کاربند ہیں کہ جن مشرکانہ عقائد کو آج سائنس نے بالکلیہ مسترد کر دیا ہے ان کو بھی نام بدل بدل کر سینے سے لگائے ہوئے ہیں اور پوری دنیا پر اس کو نافذ کرنے کی فکر میں غلطاں ہیں، یہ یکم مئی کا دن درحقیقت ’’ملکہ مئی‘‘ کی یاد میں پوری دنیا کو بے وقوف بنا کر اپنے سانچے میں ڈھالنے کے مکروفریب کے سوا کچھ نہیں۔ اکیسویں صدی کی دہلیز پر تہذیبوں کے تصادم کا ڈھونگ رچانے والے دراصل مذاہب کی جنگ برپا کر کے تو اپنے مذہب کے تحفظ کی جنگ لڑ رہے تھے، جس کا عندیہ ان کی صف اول کی قیادت اس صدی کے آغاز سے کھیلے جانے والی خون کی ہولی میں دے چکی ہے۔ اور اب تو روز روشن کی طرح یہ حقیقت عیاں ہو چکی ہے کہ ’’سیکولرازم‘‘ کی جنگ خاص طور پر صرف اسلام اور مسلمانوں کے ہی خلاف ہے۔ وہ ’’سیکولرازم‘‘ کے کار پرداران ہوں یا مسلمانوں کے درمیان ان کے خریدے ہوئے گماشتے، ان سب کا تیر ہدف تاریخ اسلام، مشاہیر اسلام اور شعائر اسلام ہی ہیں۔ لیکن اس جنگ میں شکست خوردہ ’’سیکولرازم‘‘ کے نام نہاد ’’دانشور‘‘ماضی قریب سے ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ کا راگ الاپنے والے اب ’’مکالمہ بین المذاہب‘‘ کا جال بچھا رہے ہیں اورمسلمانوں کا بے پناہ خون بہا کر اب مستقبل میں اپنے لیے مذہبی رواداری کی آڑ میں تحفظ تلاش کرنے کی کوشش کی جانے لگی ہے۔ لیکن آخر کب تک یہ ’’سیکولرازم‘‘ انسانوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتا رہے گا، پروپیگنڈا کے سر پر باندھاجانے والا جھوٹ کا طلسم اب ٹوٹاچاہتاہے اوردنیا اپنے حقیقی رب کی طرف اور حقیقی راہنما محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف تیزی سے پلٹتی چلی آرہی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اصل میں مزدوروں کا دن بارہ ربیع الاول ہے جس دن اس دنیا کی سب سے بڑی مزدورہستی نے جنم لیااورغربت و فاقہ کشی کے عالم میں اپنے پیٹ پر دودوپتھر باندھ کر مزدوروں کی طرح کدال چلاکراور مسجد نبوی کی تعمیر میں اپنی پنڈلیوں کو گارے میں بھگوکراور اپنے کندھوں پر پتھر اٹھا اٹھا کر صرف مزدوروں کے ہی نہیں کل انسانیت کے حقوق کا تحفظ کیاوہی دراصل جہاں محسن انسانیت ہیں وہاں محسن مزدوراں بھی ہیں، صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم۔ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پوری زندگی ایک محنت کش کی زندگی سے عبارت ہے۔ آغاز شباب میں ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکے والوں کی بھیڑیں چرانے کے کام کاآغاز کردیاتھ، والدین سے محروم یہ مقدس بچہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مزدور کی طرح اپنے شعور کے آغازسے ہی محنت و مزدوری کر کے نان شبینہ کاانتظام کرنے لگا۔ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح سے شام تک بھیڑیں چراتے تھے اور شام کے اوقات میں بھیڑیں لوٹا کر اپنی حق حلال کی مزدوری وصول کرتے تھے اور ایک صالح اور سعادت مندبیٹے کی مانند وہ تمام رقم اپنے عم محترم حضرت ابوطالب کو تھمادیاکرتے تھے۔ عنفوان شباب میں بی بی خدیجہ رضی اﷲ عنھاکامال لے کر ملک شام کاسفرکیااور دیانتداری کے ساتھ معاملات سرانجام دیے کہ آجراوراجیرکا تعلق زوجیت کے بندھن کامقدمہ بن گیا۔ کیادنیاکی کوئی اور تاریخ یادیگرفلسفہ ہائے حیات وادیان عالم ایسے کسی مزدور کی مثال پیش کرسکتے ہیں؟

مدینہ منورہ میں جب یہ مقدس ومحترم و بزرگ مزدور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسند حکمرانی پر براجمان ہواتوماضی قریب کے اشتراکیوںاورنام نہاد ’’مزدورراہنماؤں‘‘کی مانند اپنامعاشرتی طبقہ تبدیل نہیں کرلیااور امراء و روساء جیسا شان و شوکت نہیں اپنالی، بلکہ اپنی مزدورانہ شان برقرار رکھی اورغریبوں کی طرح اور غریبوں کے درمیان رہنا پسند فرمایا۔ اپنے لیے مراعات و تفوقات کو کبھی پسند نہیں کیابلکہ ایک مزدور کی سی زندگی اس طرح بسر کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اﷲ تعالی سے عرض کیا اے بارالہ مجھے ایک وقت کاکھانا دے اور ایک وقت کا فاقہ دے تاکہ میں تجھ سے مانگوں۔ تعمیرمسجدنبوی میںجاں نثاران بار بار عرض کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف رکھیں ہم یہ سارا محنت و مشقت والامزدورانہ کام کر لیں گے لیکن اس سب سے بڑے مزدور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس عرضداشت کو درخور اعتناء نہ سمجھااور پنڈلیاں مبار ک گارے میں اٹی رہیں اور سب مسلمانوں کے شانہ بشانہ اس مقدس تعمیراتی کام میں اپنا مبارک حصہ ڈالا۔ غزوہ احزاب میں جب خندق کی کھدائی کے دوران ایک چٹان آڑے آ گئی اور بڑے بڑے پہلوان مسلمان بھی اس کوتوڑنے میں ناکام رہے تو باردیگر پھر اس سب سے بڑے مزدور اورمزدور راہنم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست محنت و مشقت کی گئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے مزدور راہنماتھے جوانسانیت کو خوشخبریاں دینے تشریف لائے تھے چنانچہ پہلی ضرب لگائی اور ارشادفرمایاایران فتح ہوگی، دوسری ضرب پر فرمایا روم فتح ہوگی، تیسری ضرب پر ارشاد ہواخداکی قسم بحرین کے سرخ محلات میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہاہوں اور اگلی ضرب پر وہ چٹان پاش پاش ہوگئی اور اس غزوہ میں بھی فتح و کامرانی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم مبارک چومے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مزدورانہ تعلیمات میں وہ حدیث سرفہرست ہے کہ’’مزدور کی مزدوری اس کے پسینہ خشک ہونے پہلے اداکردو‘‘۔ اس حدیث کاایک توظاہری مفہوم ہے جو سنتے ہی سمجھ میں آگیادوسرابین السطورمضمون یہ ہے کہ مزدور بھی محنت اس طرح کرے کہ اسے پسینہ تو ضرور آئے۔ پسینہ کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے چہرے پر عرق مشقت ٹپکنے لگے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کام اس کے ذمہ لگایاجائے اس کی بجاآوری میں وہ حتی المقدوراپنی کل صلاحیتیں اس طرح بروئے کار لائے کہ جہاں اس کام کا حق ادا ہو سکے وہاں اس کوملنے والا رزق بھی حلال ہو جائے۔ اسلامی تہذیب اور سیکولرمغربی تہذیب میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ سیکولرازم نے حقوق کے نام پر معاشرے کے طبقات کو باہم دست و گریبان کردیاجیسے مزدوراور مالک کے درمیان حقوق کی جنگ برپاکردی جبکہ اسلام نے فرائض کے پلیٹ فارم پر معاشرے کے تمام طبقات کو باہم شیروشکر کردیاہے۔ پس محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جہاں مزدورکے حقوق کی بات کی ہے وہاں اس کو اسکا فرض منصبی بھی یاددلایاہے تاکہ انسانی معاشرہ پیارومحبت اور امن و آشتی کا منبع و مرقع بن جائے اور یہی کسی سچے نبی کے شایان شان بھی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے محنت کرکے کمانے والے کو خداکادوست بھی قراردیااور ساتھ یہ بھی تعلیم دی کی اخراجات میں میانہ روی اختیارکرواور اپنی چادر سے زیادہ پاؤں مت پھیلاؤ۔

آج سودی معیشت کی حامل انسانیت کااستحصال کرنے والی اور ٹیلی ویژن کی سکرین پر تعیشات کی بے پناہ اشتہاربازی کے باعث ان تعیشات کو لوازمات بناکر اور فلموں اور ڈراموں میں بلندترین معیارزندگی دکھاکراسے سودی قرضوں سے پوراکروانے والی تہذیب کس منہ سے مزدور کی بات کرتی ہے؟ یہ تومزدورکاخون چوسنے والی تہذیب ہے جسے مرداس لیے قبول نہیں کہ وہ عائلی بوجھ کے باعث زیادہ مزدوری کاتقاضاکرتے ہیں جبکہ خواتین قابل قبول ہیں تاکہ اپنے ذاتی مفادات کو پورا کیا جاسکے۔ خواتین نوازی کایہ رویہ آج پوری دنیامیں جرائم کے بے پناہ اضافے کی وجہ بن چکاہے کہ، مرد، جو فطری طورپر مزدورہے، اسے اس کی مزدوری سے دورکر کے اس تہذیب نے مجبورکیاہے کہ وہ جرائم کی اندھیری غارمیں اپناروزینہ تلاش کرے۔ مردجرائم کی طرف سدھارگئے اورخواتین کسب معاش کی طرف اورخاندانی نظام تباہ بربادہوکررہ گیااور پھر بھی یہ تہذیب انسانیت کی سب سے بڑی ٹھیکیدار ہے۔ کفرسے تو حکومت رہ سکتی ہے ظلم سے نہیں کے مصداق کیمونزم کازوال ہم نے دیکھااب سیکولرازم کی باری ہے بس کچھ ہی دن ہیں کہ یہ مداری بھی تماشادکھاکرگیاکہ گیااور سب سے بڑے مزدور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اورنورتوحید کی سحراس عالم انسانیت کا مقدر حقیقی ہے، ان شاء اﷲ تعالی۔