فرمان الہی و فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

{فرمان الہٰی}

وَاعْبُدُوا اﷲَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِه شَيْئًا وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِی الْقُرْبٰی وَالْيَتٰمٰی وَالْمَسٰکِيْنِ وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيْلِلا وَمَا مَلَکَتْ اَيْمَانُکُمْ ط اِنَّ اﷲَ لَا يُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَا. فَاِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلٰوةَ فَاذْکُرُوا اﷲَ قِيَامًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِکُمْ ج فَاِذَا اطْمَاْنَنْتُمْ فَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَج اِنَّ الصَّلٰوةَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ کِتٰـبًا مَّوْقُوْتًاo

(النساء،4:36،103)

’’اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں (سے) اور نزدیکی ہمسائے اور اجنبی پڑوسی اور ہم مجلس اور مسافر (سے)، اور جن کے تم مالک ہو چکے ہو، (ان سے نیکی کیا کرو)، بے شک اللہ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو تکبرّ کرنے والا (مغرور) فخر کرنے والا (خود بین) ہوo پھر (اے مسلمان مجاہدو!) جب تم نماز ادا کر چکو تو اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر (لیٹے ہر حال میں) یاد کرتے رہو، پھر جب تم (حالتِ خوف سے نکل کر) اطمینان پالو تو نماز کو (حسبِ دستور) قائم کرو۔ بے شک نماز مومنوں پر مقررہ وقت کے حساب سے فرض ہے‘‘۔

(ترجمة عرفان القرآن)

{فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم}

عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها کَيْفَ کَانَتْ صَلَاةُ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ: مَا کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَزِيْدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَی إِحْدَی عَشْرَةَ رَکْعَةً يُصَلِّي أَرْبَعًا فَـلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُوْلِهِنَّ ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا فَـلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَ طُوْلِهِنَّ ثُمَّ يُصَلِّي ثَـلَاثًا قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوْتِرَ؟ فَقَالَ: يَا عَائِشَةُ، إِنَّ عَيْنَيَّ تَنَامَانِ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

’’حضرت ابو سلمہ بن عبد الرحمن ص سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے دریافت کیا: رمضان المبارک میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کیسی ہوتی تھی؟ تو انہوں نے فرمایا: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک میں اور اس کے علاوہ بھی (نماز تہجد) گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے چار رکعتیں پڑھتے۔ تو ان کے ادا کرنے کی خوبصورتی اور طوالتِ (قیام)  کے متعلق کچھ نہ پوچھو۔ پھر چار رکعات پڑھتے ان کے ادا کرنے کی خوبصورتی اور طوالتِ قیام کے متعلق کچھ نہ پوچھو۔ پھر تین رکعتیں پڑھتے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا: میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! بے شک میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔‘‘

(المنهاج السوی من الحديث النبوی صلی الله عليه وآله وسلم ، ص:216)