ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے تفسیری تفردات و امتیازات(تیسری قسط)

علامہ محمد حسین آزاد

منہاج یونیورسٹی کالج آف شریعہ سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تفسیری خدمات کے حوالے سے پہلا ایم فل کرنے کا اعزاز جامعہ کے ابتدائی فاضلین میں سے علامہ محمد حسین آزاد نے حاصل کیا ہے جو جامعۃ الازہر سے ’’الدورۃ التدریبیہ‘‘ میں بھی سند یافتہ ہیں اور مرکزی ناظم رابطہ علماء و مشائخ کے علاوہ مجلہ دختران اسلام کے منیجنگ ایڈیٹر ہیں جن کا مقالہ قارئین کے استفادہ کے لئے بالاقساط شائع کیا جارہا ہے۔

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے حالات زندگی اور علمی و تحقیقی خدمات

حالات زندگی

ڈاکٹر محمد طاہر القادری19 فروری 1951 ء کو پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر جھنگ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد گرامی حضرت علامہ ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمتہ اللہ علیہ( 1918 ۔1974ء /1339۔1395ھ) علم و حکمت کے شہسوار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے لخت جگر کو بھی درّ نایاب بنانا چاہتے تھے ۔ وہ جب 1948ء میں حج بیت اﷲ کیلئے گئے تو مقام ملتزم پر پر کھڑے ہو کر غلاف کعبہ تھام کر نہایت درد مندی کے ساتھ یہ دعا کی تھی۔

’’ پروردگار عالم! مجھے ایسا بچہ عطا فرما جو تیری اور تیرے دین کی معرفت اور محبت سے لبریز ہو ۔ جو دنیا و آخرت میں تیری بے پناہ رضا کا حقدار ٹھہرے اورفیضان رسالتمآب ا سے بہرہ ور ہو کر دنیائے اسلام میں ایسے علمی، فکری، اخلاقی اور روحانی اسلامی انقلاب کا داعی ہو جس سے ایک عالم متمتع ہو سکے۔ ‘‘

اسی سال 1948ء میں حرم کعبہ میں آپ کو رویائے صالحہ میں نبی اکرم ا کی طرف سے بشارت ملی کہ ہم تمہیں ایک لڑکے ’’ طاہر ‘‘ کی بشارت دیتے ہیں۔ یہ پر مسرت اور روح پرور بشارت پانے کے بعد آپ نے روضہ اطہر پر حاضری دی۔ اور سروردو عالم ا سے وعدہ کیا کہ یا رسول اللہ ا آپ کی بشارت کے مطابق اللہ تعالیٰ جب مجھے طاہر عطا فرمائے گا تو میں اسے سن شعور کو پہنچتے ہی آپ کی خدمت اقدس میں پیش کروں گا۔بیٹا پیدا ہوتے ہی ’’محمد طاہر‘‘نام رکھا گیا۔ پرائمری سکول اور ناظرہ قرآن کی تعلیم کے بعد جب آپ کی عمر بارہ تیرہ سال کے لگ بھگ تھی اور آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے توڈاکٹر فرید الدین قادری رحمتہ اللہ علیہ خواب میں پھرزیارت مصطفیٰ ا سے نوازے گئے اور نبی کریم ا نے وعدہ یاد دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’طاہر اب سن شعور کو پہنچ گیا ہے اسے حسب وعدہ ہمارے پاس لے آؤ‘‘

لہٰذا ارشاد رسول اکرم ا کے مطابق ’’محمد طاہر‘‘نے پہلی مرتبہ 1963ء میں اپنے والدین ماجدین کی معیت میں حج بیت اللہ اور زیارت روضہ اطہر کی سعادت حاصل کی۔ 1963ء ہی میں مدینہ طیبہ میں قطب مدینہ حضرت مولانا ضیاء الدین مدنی رحمۃ اللہ علیہ (1971۔1401ھ/ 1987۔ 1983ء) خلیفہ مجاز حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ  (1827۔ 1403ھ/ 1856۔ 1921ء) کے ہاں آپ کی رسم بسم اللہ بروز پیر بعد نماز فجر ادا ہوئی۔ اس طرح آپ کی باقاعدہ تعلیم کاسلسلہ باب جبرائیل کے بالمقابل مدرسۃ العلوم الشرعیہ سے ہوا۔

مدینہ طیبہ سے واپسی پرسیکریڈ ہارٹ سکول سے دل اچاٹ ہونے پر 1964ء میں آپ نے اسلامیہ ہائی سکول جھنگ میں جماعت نویں میں داخلہ لے لیا۔ 1966ء میں آپ نے جھنگ صدر سے میٹرک کا امتحان سائنس مضامین کے ساتھ فرسٹ ڈدیژن میںپاس کرنے کے بعد گورنمنٹ ڈگری کالج فیصل آباد میں میڈیکل میں داخلہ لیا۔اس سال آپ نے قدوۃ الاولیاء ،شیخ المشائخ حضرت پیر سیدنا طاہر علاؤ الدین القادری الگیلانی البغدادی قدس سرہ العزیز (1352۔1410ھ/1933۔1991ء) کے دست حق پرست پر سلسلہءِ قادریہ میں بیعت کی اور اس عظیم نسبت کے حصول کے بعد ’’محمد طاہرالقادری ‘‘بن گئے۔ 1968ء میں آپ نے ایف۔ ایس ۔سی میڈیکل کا امتحان فرسٹ ڈویژن سے پاس کیا۔ 1970ء میں پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان بھی نمایاں پوزیشن کے ساتھ پاس کیا۔

جامعہ قطبیہ رضویہ جھنگ میں 1963ء سے 1970ء تک مختلف اوقات میں حضرت علامہ عبدالرشید رضوی صاحب سے اکتساب علم بھی کرتے رہے۔یہاں آپ نے موقوف علیہ تک ، فقہ ، حدیث، تفسیر، معقولات ، منقولات کے جملہ فنون اور درس نظامی کی تعلیم کے جملہ علوم دینیہ متداولہ کی تکمیل کی اور بعد ازاں لاہور کے زمانہ قیام کے دوران بھی ابوالبرکات حضرت علامہ سید احمدقادری رحمۃ اللہ علیہ (1344۔ 1399ھ / 1906۔ 1978ء)  کے درس حدیث میں شریک ہوتے رہے اور بعد ازاں غزالی زماں حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی امروہی رحمتہ اللہ علیہ (1331۔ 3141ھ/ 3191۔ 9951ء) کی صحبت اورشاگردی اختیار کی جہاں سے آپ کی دینی قابلیت اور علمی استعداد و بصیرت کے پیش نظر طریقہ محدثین پر آپ کو سند حدیث عطا کی گئی۔

آپ نے مفکر اسلام حضرت ڈاکٹر برھان احمد فاروقی رحمتہ اللہ علیہ (905ا۔995اء) سے اسلامی فلسفہ پڑھا۔ ان کے خصوصی تلمذ اور اکتساب فیض نے آپ کی فکری اور نظریاتی جہتوں کے تعین میں انتہائی اہم کردار ادا  کیا۔ آپ نے اسی عرصہ کے دوران فی البدیہ تقریری مقابلہ میں اول آنے پر طلائی تمغہ قائد اعظم حاصل کیا۔ علاوہ ازیں آپ نے اپنی زندگی کو احیاء اسلام اور اقامت دین کے لئے وقف کرتے ہوئے قدوۃ الاولیاء حضرت پیر سیدنا طاہر علاؤ الدین القادری الگیلانی رحمتہ اللہ علیہ  (1352۔ 1410ھ/ 1933۔ 1991ء) کے دست اقدس پر بیعت انقلاب کی اورحلف اٹھایا۔ اس عرصہ کو آپ کے انقلابی فکر کا تکنیکی دور بھی کہا جا سکتا ہے۔ اسی زمانہ میں آپ نے انقلابی اور تحریکی نقطہ نظر سے قرآن و سنت کا از سر نو مطالعہ کیا اور قرآنی فلسفہ انقلاب پر کام کیا جس کے نتیجے میں آپ نے مطالعہ قرآن کا ایک خاص منتخب نصاب مقرر کیا۔

1973ء میں ایم ۔ اے علوم اسلامیہ کا امتحان جامعہ پنجاب میں اول پوزیشن کے ساتھ پاس کر کے گولڈ میڈل حاصل کیا۔ 1974ء ہی میں پنجاب پبلک سروس کمیشن کی واحد سیٹ پرکامیابی حاصل کر کے گورنمنٹ کالج عیسیٰ خیل ضلع میانوالی میں بطور لیکچرار علوم اسلامیہ مقرر ہوئے۔

اسی سال آپ نے جھنگ صدر میں محاذ حریت کے نام سے نوجوانوں کی ایک تنظیم قائم کی جس کے تحت درس قرآن، تربیتی نشستیں اور اجتماعات ہوتے رہے۔

78-1977ء میں جھنگ صدر میں آپ کی پہلی تصنیف لطیف ’’نظام مصطفی ایک انقلاب آفریں پیغام‘‘  کی تقریب رونمائی ڈسٹرکٹ کونسل ہال جھنگ میں منعقد ہوئی جس میں ملک کی نامور شخصیات نے شرکت کی اور آپ کی تخلیقی، علمی اور فکری کاوش کو بھرپور انداز میں خراج تحسین پیش کیا گیا۔ اسی سال آپ جھنگ سے لاہور منتقل ہو گئے اور اپریل 1978ء میں آپ پنجاب یونیورسٹی کے لاء کالج میں بطور لیکچرار (اسلامک لاء) مقرر ہوئے۔ آپ نے بہت جلد یونیورسٹی میں نمایاں مقام حاصل کر لیا۔ ابتدائی دو تین ہی برسوں میں آپ پنجاب یونیورسٹی سنڈیکیٹ سینٹ اور اکیڈمک کونسل کے ممبر منتخب ہو گئے۔ اس طرح آپ نے یونیورسٹی میں مقبولیت کے علاوہ یونیورسٹی کے اساتذہ، طلباء اور انتظامی عملے کے دلوں میں نمایاں جگہ پیدا کر لی اور اسی اثناء میں مرکزی وزارت تعلیم حکومت پاکستان نے آپ کو ’’قومی کمیٹی برائے نصابات اسلامی‘‘میں بطور ایکسپرٹ نامزد کیا۔ حکومت نے وفاقی شرعی عدالت پاکستان کا مشیر بھی مقرر کیا۔ چنانچہ یہ عدالت بڑے اہم اورنازک مسائل میں آپ سے راہنمائی حاصل کرتی رہی۔

1980 ء میں شادمان کالونی میں سلسلہ درس قرآن کا آغاز کیا جسے بعد ازاں افادہ عام کے لئے جامع مسجد رحمانیہ شادمان کالونی میں منتقل کر دیا گیا۔جو بعد ازاں پورے ملک میں پھیل گیا۔ آپ نے اپنے سلسلہ درس قرآن کے تفسیری مجموعہ کو’’تفسیر منہاج القرآن‘‘ کا نام دیا۔

علمی و تحقیقی خدمات

ڈاکٹرمحمد طاہر القادری کی علمی و تحقیقی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو روز روشن کی طرح عیاں ہوتا ہے کہ ان کی زندگی مسلسل محنت، جدوجہد اور عزم مصمم کی خوبصورت کڑی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک زمانہ آپ کی علمی قدرو منزلت کا معترف ہے اور اپنے پرائے سب اس کا اعتراف کرتے ہیں۔ اگر ان کے اعزازات کا جائزہ لیا جائے تو ان کی فہرست بڑی طویل ہے۔ جن میں سے چند اہم اعزازات درج ذیل ہیں۔

  • 1971ء میں آل پاکستان مسلم ایجوکیشنل کانفرنس نے آپ کو قائداعظم گولڈ میڈل سے نوازا۔
  • 1972ء میں پنجاب یونیورسٹی سے گولڈ میڈل حاصل کیا۔ اسی سال پاکستان کلچرل گولڈ میڈل بھی ملا۔
  • 1984ء میں ملی خدمات کے اعتراف میں کاروان شفقت پاکستان نے گولڈ میڈل اورسند امتیازسے نوازا۔
  • 1984ء ہی میں نمایاں خدمات کے صلے میں آپ کوقرشی گولڈ میڈل کے علاوہ سند امتیاز دی گئی۔
  • انٹرنیشنل بائیو گرافیکل سنٹر (IBC ) آف کیمبرج انگلینڈ کی طرف سے تعلیم اور سماجی بہبود کیلئے دنیا بھر میں عظیم خدمات کے صلے میںآپ کوThe International Man of the Year 1998-99 قرار دیا گیا ۔
  • امریکن بائیو گرافیکل انسٹی ٹیوٹ (ABI )کی طرف سے دنیا کے سب سے بڑے غیر حکومتی تعلیمی منصوبہ چلانے‘ 250 کتب ( جبکہ اب کتابوں میں خاصا اضافہ ہوچکا ہے) کے مصنف ہونے ‘ 5000 سے زائد موضوعات پر دنیا کے مختلف خطوں اور اداروں میں لیکچر ز دینے ‘تحریک منہاج القرآن کے بانی اور منہاج انٹر نیشنل یونیورسٹی کے چانسلر ہونے کی خدمات کے صلے میں’’دی انٹر نیشنل کلچرل ڈپلومہ آف آنر ‘‘ (The International Cultural Diploma of Honour) دیا گیا۔
  • امریکن بائیو گرافیکل انسٹی ٹیوٹ (ABI) کی طرف سے دنیا بھر میں مختلف میدانوں میں معاشرے کیلئے غیر معمولی خدمات کے اعتراف پر International Who's who of contemporary achievement  کے پانچویں ایڈیشن میں پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری پر ایک باب شامل اشاعت کیا گیا ہے ۔
  • بیسویں صدی کے International Who is Who  کی طرف سے آپ کو Certificate of Recognition دیا گیا۔
  • مختلف شعبہ ہائے زندگی میں موثر خدمات انجام دینے پر بیسویں صدی کا Achievement Award دیا گیا۔
  • امریکن بائیو گر افیکل انسٹیٹیوٹ (ABI) کی طرف سے آپ کو بیسویں صدی کی غیر معمولی شخصیت
  • (Outstanding Man of the 20th Century) کا خطاب دیا گیا۔
  • بیسویں صدی میں غیر معمولی علمی خدمات پر Leading Intellectual of the World  کا خطاب دیا گیا۔
  • فروغ تعلیم کیلئے آپ کی بے مثال خدمات پر International Who is Who  کی طرف سے Individual Achievement Award  دیا گیا۔
  • بے مثال تحقیقی خدمات پر آپ کو A.B.I  کی طرف سے Key of Success  کا اعزاز دیا گیا۔

علاوہ ازیں قومی ا ور بین الاقوامی جامعات (Universities) میں آپ کی فکر و شخصیت اور خدمات پر تحقیقی کام بھی ہورہے ہیں۔

ڈاکٹر محمدطاہر القادری نے اپنی دعوت کی بنیاد قرآن مجید کو بنایا اور اپنے مشن اور تحریک کا نام ہی ’’منہاج القرآن‘‘ رکھا۔ گویا انہوں نے امت مسلمہ کو دعوت دی کہ آؤ ہم اپنے عقائد، معاملات، عبادات اور مکمل نظام زندگی کو قرآن پر پرکھتے ہیں اور اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو استوار کرتے ہیں۔

اس عظیم قائد نے امت مسلمہ کے مرض کا ایسا علاج تجویز کیا کہ جس میں اختلاف یا انکار کی کوئی گنجائش موجود نہیں تھی۔ گویا انہوں نے پوری قوم کو سفیر امن بن کر دعوت عام دی کہ آؤ ہم مردہ اقدار حیات کو پھر سے زندگی بخشیں اور انتشار و افتراق اور تفرقہ پرستی کی دلدل سے نکل کر پھر سے اتحاد امت اور وحدت و یگانگت کا خواب شرمندہ تعبیر کریں۔ اس دعوت عمل سے بالخصوص نوجوان طبقہ کو امید کی کرن دکھائی دی اور جوق در جوق اس قافلہ عشق و مستی میں شامل ہوتے گئے۔ تحریک منہاج القرآن بپا کرنے کے عزم صمیم کے ساتھ ہی تحریک کے جو چھ بنیادی عناصر تشکیل دیئے گئے ان میں رجوع الی القرآن کو بنیادی حیثیت حاصل تھی جس کے لئے اس عظیم قائد نے ملک عزیز کے طول و عرض میں دروس قرآن کا جال پھیلادیا اور جب TV پر پاکستان میں ’’فہم القرآن‘‘ کا سلسلہ شروع ہوا اور 1992ء میں ابوظہبی اور متحدہ عرب امارات کے ٹیلیویژن پر انگریزی زبان میں Islam in Focus ا ور Reflection of Quran  کے موضوع پر خطابات نشر ہوئے تو اس کے اثرات عالمگیر سطح پر رونما ہوئے۔ اس طرح انہوں نے درج ذیل تین بنیادوں پر فروغ دعوت کا عمل کرکے فکر نوکی بنیاد رکھ دی۔

  • اسلام کی روحانی دعوت
  • Spiritual Presentation of Islam

  • اسلام کی عملی دعوت
  •  Practical Presentation of Islam

  • اسلام کی سائنسی دعوت
  • Scientific Presentation of Islam

عالمگیر سطح پر اس دعوت کا نتیجہ یہ نکلا کہ مغربی افکار و خیالات کا حامل آج کا نوجوان جو اپنے مسلمان ہونے پر نادم و شرمندہ تھا آج فخر کے ساتھ عقلی و نقلی بنیادوں پر اپنے اعتراضات کا تسلی بخش جواب پاکر دوبارہ سوئے منزل صراط مستقیم پر گامزن ہوا۔

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری جو اس وقت 3 سو سے زائد کتب کے مصنف اور 6000 سے زائد موضوعات پر لیکچر Deliver کرچکے ہیں، منہاج یونیورسٹی (چارٹرڈ) کے بانی ہیں۔ تحریک منہاج القرآن انٹرنیشنل کے سرپرست اعلیٰ ہیں ۔

آپ کی علمی و تحقیقی خدمات کے چند نمایاں پہلو درج ذیل ہیں:

ا۔ 1988ء میں آپ نے جناح ہال لاہور میں انٹرنیشنل مسلم لائرز فورم کے زیر اہتمام خطبات لاہور دیئے۔ یہ خطبات نہایت اہمیت کے حامل تھے۔ ان خطبات کو سننے کے لیے Well educated طبقہ نے بھرپور شرکت کی۔ ان خطبات کے موضوعات اسلام اورجدید سائنسی تحقیقات، اسلام اور جدید تصور قرآن، اسلام اور تصور معیشت وغیرہ تھے۔ ماہ اکتوبر 1993ء میں انہوں نے موچی دروازہ لاہور میں لاکھوں لوگوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بلاسود بنکاری نظام اور سود کا متبادل اسلامی نظام معیشت کا خاکہ پیش کیا اور تقریباً سو ایسے مالیاتی اداروں اور بنکوں کا حوالہ دیا جو غیر سودی بنیادوںپر کام کررہے ہیں۔

1995ء میں اپنے سکاٹ لینڈ قیام کے دوران ڈاکٹر صاحب نے جدید ترین تحقیق پر مبنی تخلیقی کارنامہ Quran and creation and evaluation of universe سرانجام دیا جس پر عالمی شہرت یافتہ سائنسدان ڈاکٹر کیتھ ایل مور (ٹورنٹو یونیورسٹی) نے آپ کی کاوش کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’’جو کام میں برسوں کی تحقیق کے بعد نہ کرسکا وہ آپ نے صرف 12 دن میں پایہ تکمیل تک پہنچا کر واقعی بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے‘‘۔