منصب دعوت اور اس کے اجزائے ترکیبی

منہاجینز ڈے کے موقع پر صدر سپریم کونسل محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کا خصوصی خطاب
دوسرا اور آخری حصہ
ترتیب و تدوین: صاحبزادہ محمد حسین آزاد معاونت: ملکہ صبا

اس کے بعد دعوت کے وہ عناصر ہیں جو داعی کے اندر ہونے چاہئیں۔ اِس دعوت کے بھی چار عناصر ترکیبی ہیں۔ پہلے جو بتائے وہ داعی کے Ingredients تھے کہ وہ داعی اس دعوت کے قابل بنتا ہے جس میں یہ خوبیاں پائی جائیں۔ ان چار عناصر ترکیبی میں پہلا عنصر ’’المعرفۃ‘‘ ہے کہ جس دعوت پر داعی کو فائز کیا جارہا ہے اس کی معرفت کا ہونا ضروری ہے۔ جس کو معرفت ہی نہیں اس نے کسی کو کیا معرفت دینی ہے جسے خود خبر نہیں کہ یہ کس کی دعوت ہے؟ کیوں جانا ہے؟ کیسے جانا ہے؟ تو وہ دوسرے کو کیا قائل کرے گا؟ جب انقلاب کی راہ پر چل پڑیں تو پھر پیچھے ہٹنے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ چلنے سے پہلے پوچھنا ہوتا ہے کہ کیوں ہے؟ کب ہے؟ کیسے ہے؟ جب چل پڑے تو پھر کشتیاں جلاکر چل پڑے۔ معرفت کا علم اور اس کا عرفان اور نور بھی ضروری ہے جس سے اسے شرح صدر ہوتا ہے۔ ایک کو عارف کہتے ہیں ایک کو عالم کہتے ہیں۔ عالم کئی ملتے ہیں مگر عارف کوئی کوئی ہوتا ہے۔ علم ملنے سے ضروری نہیں کہ اسے معرفت مل گئی۔ علم کتابوں سے بھی مل سکتا ہے جبکہ معرفت صحبت کے بغیر نہیں مل سکتی۔ علم کتابوں سے مل سکتا ہے۔ ضرب یضرب کتابوں سے سمجھا جاسکتا ہے مگر معرفت کسی صاحب معرفت کے قدموں میں گرے بغیر اور کسی کی صحبت میںآئے بغیر نہیں مل سکتی۔ کسی کے سامنے پیکر ادب بنے بغیر نہیں مل سکتی۔ کسی کے سامنے خدمت کئے بغیر نہیں مل سکتی۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام سمجھتے تھے باری تعالیٰ تو نے مجھے اس دنیا اور کائنات میں سب سے زیادہ علم دیا ہے اس پر آپ کو فخر تھا۔ ایک دن پوچھنے لگے: مولا! روئے زمین پر کوئی مجھ سے بڑا بھی عالم ہے۔ فرمایا: ہاں تجھ سے بڑا ایک عالم ہے جو فلاں جگہ پر مرج البحرین کے مقام پر رہتا ہے۔ اب اسی عالم کی معرفت کو پانے کے لئے اس کی تلاش میں سفر شروع کردیا۔ پتہ چلا علم تھا معرفت نہ تھی مگر جس معرفت کے پاس لے جایا جارہا تھا اس کا سفر شروع کروایا۔ معلوم ہوا کہ معرفت کسی کے پاس جانے سے ملتی ہے اور علم اپنی جگہ رہنے سے بھی مل سکتا ہے۔ جس علم کو علم نافع کہتے ہیں وہ علم معرفت کے بغیر نہیں ملتا۔ پھر علم والے بہت ہیں مگر معرفت والا کوئی کوئی ہوتا ہے۔ معرفت کا علم ظاہراً تو سمجھ آجاتا ہے مگر جو غوطہ زن ہو اُسی کو اندر کا حال پتہ چلتا ہے۔ وہی جانتا ہے اس علم کے اسرار کیا ہیں؟ اس علم کی کیفیت کیا ہے؟ اس علم میں چھپا ہوا نور کیا ہے؟ ہر شے میں چھپا ہوا ایک نور ہوتا ہے۔ ہر عبادت، ہر جز ، ہر عمل اور ہر علم کا ایک نور ہوتا ہے۔ وہ کسی بھی شے کا علم ہو اگر صدق و اخلاص کے ساتھ حاصل کیا جائے تو وہ نور بن جاتا ہے۔ جب وہ علم نور بنتا ہے تو شرح صدر عطا کردیتا ہے۔ پھر آپ آنکھیں بند کریں تب بھی نظر آتا ہے کھولیں تب بھی نظر آتا ہے۔ یہی معرفت ہے جو خدا کی بارگاہ سے ملتی ہے۔ خدا کی بارگاہ کی یہ معرفت اولیاء کی بارگاہ میں آئے بغیر نہیں ملتی۔ یہ معرفت کاملین کی سنگت اور ادب سے ملتی ہے اور جس کو معرفت مل جائے اس کے سامنے پھر علم کچھ نہیں ہوتا۔

دوسری چیز ’’التربیۃ‘‘ ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے یہ معرفت ملے کیسے؟ جواب یہ ہے کہ یہ تربیت سے ملتی ہے اور کسی کے در پر آکر رہنے سے ملتی ہے۔ اگر معرفت تربیت کے بغیر ملا کرتی تو پھر تربیت کرنے والوں، اساتذہ، مشائخ اور انبیاء کی ضرورت نہ تھی۔ پھر ان کی سنگتوں اور صحبتوں کی ضرورت نہ تھی۔ اس کی مثال یوں ہے کہ جب کسی مقناطیس کے ساتھ کسی لوہے کے پیس کو لگایا جاتا ہے اور اسے جب اس کی صحبت میں چند دن رکھا جاتا ہے تو پھر جب اسے اٹھایا جاتا ہے تو اس میں بھی کشش پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے اندر کچھ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ وہ جو اثرات ہوئے اسے اس مقناطیس کی معرفت مل گئی کیونکہ اس لوہے کو سمجھ میں آگیا کہ اس مقناطیس میں کچھ ہے۔ اس لئے اس کے ساتھ جڑ گیا۔ جب عرفان مل گیا تو اس کو یقین آگیا اور عقیدہ کامل ہوگیا تو جڑ گیا۔ اگر عقیدہ کامل نہ ہوتا تو چھوڑ کر آجاتا۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ وہ لوہے کا پیس کیوں جڑا؟ اسے کیا ضرورت تھی؟ وہ کسی بڑے لوہے کی طرف چلا جاتا۔ اپنی ذات کا لوہا ڈھونڈ لیتا۔ اس سے پوچھا کہ مقناطیس کی ذات اور ہے اور تمہاری ذات اور ہے تم نے مقناطیس کو کیوں چن لیا؟ اس نے کہا کہ مجھے سمجھ آگئی کہ اس میں کچھ ہے۔ یہی معرفت ہے اور جب معرفت حاصل ہوجائے تو پھر تربیت میں رہا جاتا ہے۔ اس سے عقیدہ کامل ہوجاتا ہے پھر وہ کچھ ملنا شروع ہوجاتا ہے جس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی مثال موبائل فون ہے اس کے اندر ایک Function ہوتا ہے اسے Connectivity یا Bluetooth کہتے ہیں۔ اس کا Function یہ ہوتا ہے کہ اگر میں نے اپنے موبائل سے ڈیٹا کسی کے موبائل میں منتقل کرنا ہوتو اپنا Bluetooth آن کروں گا تو یہ ڈیٹا کسی کے موبائل میں Transferہوگا اور اگر آپ کا موبائل On ہوا اس کا Off ہو تو اس کا ڈیٹا منتقل نہیں ہوسکتا۔ اگر کسی کا موبائل لے کر تین دن کے لئے آپ اپنے موبائل کے ساتھ رکھ دیں اور سمجھیں کہ اب تو یہ مقناطیس بن چکا ہوگا اور اس میں Data منتقل ہوچکا ہوگا۔ مگر تین دن کے بعد دیکھا تو اس میں کچھ بھی نہیں آیا۔ کسی صاحب معرفت سے پوچھا آخر ماجرہ کیا ہے؟ وہ کہتا ہے تیرا Bluetooth On تھا مگر اس کا Off تھا۔ قریب رہنے سے Data Transfer نہیں ہوتا بلکہ معرفت کا بٹن آن کرنے سے ہوتا ہے۔ وہ Connectivity اس کی معرفت تھی یہ بٹن دبانا علم تھا۔ آپ نے اپنے علم پر تکیہ کرتے ہوئے دو چیزوں کو جوڑ دیا۔ سمجھا تھا کہ دو چیزوں کو ساتھ رکھیں تو فیض مل جاتا ہے۔ یہ علم تھا مگر معرفت کامل نہ تھی۔ معرفت کہتی تھی نہیں اس علم کا تقاضا ہے کہ تمہیں Connectivity کا Function بھی آتا ہو۔ اس کا مقصد بھی سمجھ آئے۔ اس کی معرفت بھی کامل ہو۔ اسی معرفت نے کہا نہیں اپنا بھی آن کرو۔ اس کا بھی آن کرو پھر بے شک قربت نہ بھی ہو تو منتقل ہوجاتا ہے۔ پھر میں موبائل دور کردیتا ہوں اپنا بھی آن کرتا ہوں اس کا بھی آن کرتا ہوں تو دور رہ کر بھی جب تک Range میں ہوتے ہیں ڈیٹا ملتا رہتا ہے۔ بات یہ ہے قریب رہنے کی شرط نہیں۔ حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ بن کر اپنی معرفت کا بٹن آن کردیں تو سب کچھ ملتا ہے۔ قریب رہنے والوں کو وہ نہ مل سکا جو دور رہ کر حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ اپنا Bluetooth On کرکے حاصل کرگئے۔

لہذا معرفت حاصل کرنے کے لئے تربیت کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ اگر کوئی کہے کہ میں خود بخود عالم بن گیا تو وہ خود بخود جاہل بھی ہوجائے گا کیونکہ علم نہ خودبخود کسی کو آیا نہ خودبخود کسی کو دیا گیا۔ اب معلم کائنات خدا خود تھا لیکن اپنے آپ کو اپنے مصطفی کے لئے معلم مصطفی بنایا۔ پتہ چلا کہ ہر علم والے کے لئے صاحب معرفت ہوتا ہے۔ جب لوہے سے پوچھا کہ تم کیوں جڑے ہو؟ اس نے کہا مجھے سمجھ آگئی اور اس کی معرفت مل گئی تھی۔ یہاں وزن و حجم کی بات بھی نہیں ہے کیونکہ حجم ہوتا تو بڑے بڑے لوہے کے شاہکار موجود تھے۔ کسی کے ساتھ جڑ جاتا مگر معرفت تھی کہ نہیں کشش لینی ہے لہذا اتنا سا مقناطیس بھی کافی ہے۔ اللہ کی معرفت والے تھوڑے بھی ہوں تو وہ سینکڑوں اور ہزاروں پر فائق ہوتے ہیں اور معرفت کے بغیر جاہل پوری دنیا کے برابر بھی ہوں تو وہ ایک عارف باللہ کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ آپ کہیں گے التربیۃ تک پہنچیں کیسے؟ التربیۃ تک پہنچنے کے لئے التخطیط ہوتی ہے اس سے مراد Planning ہے کہ التربیۃ تک پہنچنے اور کسی کی تربیت میں آنے کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں۔ اگر ہر کوئی تربیت میں آنے والا ہوتا تو وہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بن چکا ہوتا۔ اب نہ ان کا قد دیکھا جاتا ہے؟ نہ قامت دیکھی جاتی ہے، نہ شکل دیکھی جاتی ہے، نہ ناک دیکھی جاتی ہے، نہ رنگ دیکھا جاتا ہے، نہ نسل دیکھی جاتی ہے کیونکہ اس نے محبوب کو منانے اور اس کے پاس رہنے کے آداب سیکھے ہوتے ہیں۔ ادب سیکھنا بھی ایک Planning ہے۔

دعوت اگر بغیر Training کے ہوتی تو اللہ رب العزت اپنے انبیاء کو بکریوں کا چرواہا کیوں بناتا؟ ہر نبی کو اللہ رب العزت نے Management کیوں سکھائی؟ انسانوں کے پاس بھیجنے سے پہلے بکریوں کو ان کی بارگاہ میں بھیجا یہ حکمت اور Management ہے کیونکہ بکری نہ بول سکتی ہے نہ مافی الضمیر بیان کرسکتی ہے۔ ان کی زبان کی خبر کسی کو نہیں ہوتی۔ مگر انبیاء کو ان کے ذریعے Managementکا درس سکھایا کہ سینکڑوں بکریوں کا ریوڑ لے کر صبح چلتے ہیں پھر اس کی حفاظت کرتے ہیں پھر اس کی خبر رکھتے ہیں پھر اس کی گنتی کرتے ہیں پھر پتہ ہوتا ہے ادھر نہ چلی جائے ادھر نہ چلی جائے۔ پھر پتہ ہوتا ہے میری فلاں بکری نے آج کیا کھایا ہے؟ یا کھائے بغیر واپس آگئی ہے۔ اگر بیمار ہے یا پیٹ میں درد ہے تو بکری تو بتا نہیں سکتی۔ پھر نبی کی بصیرت و فراست ہے کہ وہ سمجھ جاتا ہے کہ یہ جو سر جھکا کر بیٹھی ہے اس کا مطلب ہے کہ وہ بیمار ہے۔ خود اس کی پرورش کرتا ہے۔ اسے پالتا ہے۔ دیکھ بھال بھی کرتا ہے۔ اس کی دوا بھی کرتا ہے، مداوا بھی کرتا ہے۔ پھر رات کو غروب آفتاب سے پہلے آکر ایک ایک کو گنتا ہے۔ پھر گن کر اپنے گھر واپس لاتا ہے۔پھر دیکھتا ہے کہ آج کوئی شکار تو نہیں ہوگئی۔ پھر صبح گن کر لے کر جاتا ہے اور گن کر لاتا ہے۔ لہذا جو بے زبان جانور کو Manage کرسکتے ہیں تو ان کے لئے زبان والے انسانوں کو Manage کرنا تو کوئی بات ہی نہیں۔ پھرانہیں منزل تک پہنچانے، مقصد دینے اور دعوت پر فائز کرنے سے پہلے وہ نبی کے لئے کسی نیک صحبت کو ڈھونڈتا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کو بطور رسول مبعوث کرنے سے پہلے شعیب علیہ السلام کے پاس بھیجا پھر موسیٰ علیہ السلام کو خضر علیہ السلام کے پاس بھیجا پھر ان کے پاس یوشع بن نون علیہ السلام کو بھیجا کہ ایک طرف تربیت لے رہے ہیں ایک طرف دوسرے نبی کو تربیت دے رہے ہیں۔ پھر جب تربیت میں ہوں تو منصب کام نہیں آتے وہاں معرفت کام آتی ہے۔ پھر نبی ہوں یا ولی تربیت میں رہنے والے یہ نہیں پوچھتے کہ بھیجا کس نے ہے؟ کیونکہ بھیجنے والا قائد اگر کامل ہے تو پھر بھیجا جانے والا اور جس کے پاس بھیجا جارہا ہے وہ بھی ضرور کامل ہوگا۔