ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے تفسیری تفردات و امتیازات

علامہ محمد حسین آزاد

(قسط چہارم)

منہاج یونیورسٹی کالج آف شریعہ سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تفسیری خدمات کے حوالے سے پہلا ایم فل کرنے کا اعزاز جامعہ کے ابتدائی فاضلین میں سے علامہ محمد حسین آزاد نے حاصل کیا ہے جو جامعۃ الازہر سے ’’الدورۃ التدریبیہ‘‘ میں بھی سند یافتہ ہیں اور مرکزی ناظم رابطہ علماء و مشائخ کے علاوہ مجلہ دختران اسلام کے منیجنگ ایڈیٹر ہیں جن کا مقالہ قارئین کے استفادہ کے لئے بالاقساط شائع کیا جارہا ہے۔

4 مارچ 2005ء میں پاکستان کے دل لاہور کی سرزمین پر عظیم عالمی تحریک، تحریک منہاج القرآن کے مرکز پر ایک عظیم اجتماع میں سینکڑوں علماء و مشائخ، دینی سکالرز اور ہزارہا خواتین و حضرات سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ’’امام ابوحنیفہ (80۔150ھ)، امام الائمہ فی الحدیث‘‘ کے موضوع پر تاریخی اور یادگار علمی و تحقیقی خطاب فرمایا جس کی پہلی جلد نو سو (900) صفحات پر مشتمل اب کتابی صورت میں بھی منظر عام پر آچکی ہے۔ اس عظیم علمی اجتماع کی نقابت مایہ ناز خطیب، ادیب اور محقق حضرت علامہ ڈاکٹر پروفیسر عبدالرحمن بخاری نے فرمائی۔ اس موقع پر نامور علماء و مشائخ اور صاحبان علم و دانش موجود تھے۔ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی علم حدیث میں خدمات کے حوالے سے تین گھنٹے پر مشتمل اس تحقیقی خطاب کوسننے کے بعد شرکاء اپنے حنفی ہونے پر فخر کررہے تھے۔ امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کو فقہ میں تو امام اعظم تسلیم کیا جاتا ہے مگر آج شرکاء میں سے ہر فرد نے علم حدیث میں بھی امام اعظم ابوحنیفہ کی امامت کا لوہا مان لیا۔ اس علمی و تحقیقی خطاب میں شیخ الاسلام نے جن اہم موضوعات پر سیر حاصل بحث کی وہ یہ ہیں: فہم قرآن و حدیث کے لئے فقہ کی ناگزیریت، علم الحدیث اور فقہ الحدیث میں فرق، امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت، نسب اور بلند پایہ فقاہت، امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے حق میں بشارت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ائمہ فقہ و حدیث میں صرف امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا تابعی ہونا، امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے اخذ علم الحدیث کے مراکز، امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ اکابر صحابہ کرام رحمۃ اللہ علیہ کے علم الحدیث کے وارث، امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ ائمہ اہل بیت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم الحدیث کے وارث، امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ اکابر تابعین کے علم الحدیث کے وارث، امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے شیوخ حدیث اور ان کی ثقاہت، امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ (194۔256ھ/0ا8۔870ء) کے شیخ الشیوخ ہونا، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی ثلاثیات کے راوی امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے تلامذہ، امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا ائمہ صحاح ستہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ (150۔204ھ/ 767۔819ء) اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ (164۔241ھ/780۔755ء)کے شیوخ میں سے ہونا، امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی عدم روایت کی وجوہات، امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے مروی احادیث۔

اس طرح 5دسمبر2005ء کو جمعۃ المبارک کے عظیم اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ظہور امام مہدی علیہ السلام کے حوالے سے اشکالات کا علمی محاکمہ کیا اور اصل حقائق کا ایمان افروز بیان فرمایا۔ شروع میں خطاب کی اہمیت اور موضوع کے اسباب کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا:

i۔ سیدنا امام مہدی علیہ السلام کے حوالے سے مختلف قسم کے اعتقادی فتنے پیدا ہورہے ہیں۔ ان میں سے پہلا فتنہ یہ ہے کہ بعض اہل علم کے نزدیک امام محمد مہدی علیہ السلام نام کی کوئی شخصیت نہیں ہے اور کسی معین شخص کو اس نام سے نہیں آنا بلکہ ہر دور میں ایک مہدی ہوتا ہے۔ اس خیال کے پیش نظر بہت سے لوگوں نے اپنے آپ کو مہدی خیال کیا اور گمراہ ہوگئے۔ یہ فتنہ بعض اہل علم کے علمی اور فکری مغالطے کی وجہ سے پیدا ہوا۔ اس تصور کو فتنہ اس لئے قرار دے رہا ہوں کیونکہ امام مہدی ایک معین شخص اور ایک معین امام ہیں جن کی آمد کا ذکر حضور انے صراحۃً فرمایا لہذا ان کی آمد کا انکار دراصل گمراہی اور فرمان نبوی ا سے بغاوت ہے۔

ii۔ اس موضوع پر اظہار خیال کرنے کا دوسرا سبب یہ ہے کہ آج یہ فتنہ پیدا ہوچکا ہے کہ کچھ لوگ خود امام مہدی ہونے کا اعلان کررہے ہیں۔ انہی میں ہندوستان سے غلام احمد قادیانی بھی ایک تھا جس نے ابتدا ً مہدی ہونے کا دعویٰ کیا اور نبوت کے جھوٹے دعوے سے پہلے مہدیت کی سیڑھی پر قدم رکھا پھر اس کو خبر ہوئی کہ امام مہدی کے زمانے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول بھی ہوگا تو اس نے خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہونے کا دعویٰ بھی کردیا حالانکہ حقیقت میں وہ نہ مہدی تھا اور نہ عیسیٰ بلکہ وہ دجال تھا۔

iii۔ اس موضوع کو اختیار کرنے کا تیسرا سبب یہ ہے کہ آج جس سے خود مہدی ہونے کا اعلان نہ ہوسکا وہ یہ دعویٰ کر بیٹھتا ہے کہ امام مہدی پیدا ہوچکے ہیں اور اس خیال و تصور کو بعض علماء، خطباء، نام نہاد مفکر اخبارات اور کتب و رسائل میں بھی لکھ رہے ہیں اور TV پر بھی بیان کررہے ہیں۔ یہ فتنہ صرف پاکستان اور ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ عالم عرب بھی اس فتنہ کی لپیٹ میں ہے کہ امام مہدی پیدا ہوچکے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ وہ 1960ء کے پیدا ہوچکے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ میں ان سے ملا بھی ہوں حتی کہ مجھ سے خود کئی لوگوں نے کہا ہے کہ ہم امام مہدی سے مل چکے ہیں۔ کوئی انہیں یمن میں ٹھہرائے ہوئے ہے، کوئی پاکستان میں اور کوئی سوڈان، ملائیشیا اور ایران میں امام مہدی کے پیدا ہوچکنے کی اطلاع دے رہا ہے۔

iv۔ چوتھا سبب یہ ہے کہ بعض لوگ امام مہدی علیہ السلام کے حوالے سے شکوک و شبہات میں بھی گھرے ہوئے ہیں اور آپ کی آمد کو توہمات اور خصوصاً شیعہ حضرات کی گھڑی ہوئی باتیں تصور کرتے ہیں۔ یہ خیال سراسر باطل ہے اس لئے کہ امام مہدی علیہ السلام کے حوالے سے حضورا کے ارشادات کثرت سے کتب حدیث میں منقول ہیں۔ لہذا امام مہدی کی آمد کا انکار کرنا حقیقت میں فرامین مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انکار کے مترادف ہوگا۔

اس نہایت علمی، فکری اور تحقیقی خطاب سے امام مہدی علیہ السلام کے متعلق عقیدہ روز روشن کی طرح عیاں ہوگیا۔ اس نہایت اہمیت کی حامل تبلیغی و علمی خدمت اور فتنہ کی سرکوبی کا سہرا بھی ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے سر پر سجا ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ’’عرفان القرآن‘‘ کے نام سے موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق قرآن حکیم کا ایسا ترجمہ کیا ہے جو تفسیری شان اور فکری معنویت کا حامل ہے۔ انہوں نے جہاں آیات کے مفہوم کو کماحقہ اردو میں سمونے اور اس کے ابلاغ کو مکمل بنانے کی سعی کی ہے وہاں ترجمہ میں بھی الفاظ کے چناؤ اور آیات کے ساتھ اس معنوی لغوی اور تفسیری مناسبت کو بھی ملحوظ خاطر رکھا ہے۔ جہاں کہیں آیات میں مذکورہ الفاظ کا مفہوم واضح نہ ہورہا ہو وہاں انہوں نے قوسین میں ضروری وضاحت کردی ہے مگر خاص بات یہ ہے کہ اس وضاحت سے ترجمے کا تسلسل اور ربط نہیں ٹوٹتا بلکہ قاری اسے روانی اور تسلسل کے ساتھ پڑھتا ہے اور آیات کے مفہوم کو سمجھنے میں کسی قسم کی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا بلکہ قاری آیات کے مفاہیم اور معانی کو اپنے قلب و باطن میں اترتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ لہذا دیکھا جائے تو شیخ الاسلام کا یہ اتنا بڑا کام ہے جو قاری کو تفسیری سے بے نیاز کردیتا ہے۔

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے حدیث نبوی اپر جتنی عرق ریزی اور جانفشانی کے ساتھ کام کیا ہے وہ اُن ہی کا خاصہ ہے۔سال 2006ء میں انہوں نے UK برمنگھم کی جامع مسجد گھمکول میں صحیح البخاری شریف کا دورہ کروایا ۔ جس سے انہوں نے عقائد اہل سنت اور فقہ حنفی سے متعلق متعدد اشکالات کا ازالہ فرمایا۔ آپ نے ابتدائی گفتگو میں سند اور اسناد کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے اہل سنت پر شخصیت پرستی کا لیبل لگانے والوں کا علمی محاکمہ کیا۔ نیز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے اساتذہ و تلامذہ اور فقہ حنفی کے فروغ میں ان کے کردار پر گفتگو فرمائی۔ انہوں نے صحیح البخاری کے ترجمۃ الباب اور حدیث الباب کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ صحیح البخاری کے ترجمۃ الباب، امام بخاری کا اجتہاد اور ان کی فقہ ہے نہ کہ حدیث مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ اس لئے کہ صحیح بخاری صرف حدیث ہی کی کتاب نہیں بلکہ امام بخاری کی فقہ بھی ہے اور وہ اپنی فقہ یعنی اجتہاد کو ترجمۃ الباب میں ذکر کرتے ہیں لہذا امام بخاری کی فقہ اور اجتہاد سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے صحیح البخاری کے تراجم الباب پر بحث کرتے ہوئے رفع یدین، آمین بالجہر، قرات خلف الامام اور امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ پر ہونے والے دیگر اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی فقہ حنفی احادیث صحیحہ پر قائم ہے۔ انہوں نے دورہ صحیح البخاری میں نہایت علمی اور تحقیقی گفتگو کرتے ہوئے بخاری شریف کی احادیث کی روشنی میں مقام و محبت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، تمثل ارواح، علم الغیب، حقیقت بدعت، شخصیت پرستی، محبت الاولیاء، رؤیائے صالحہ، اصلاح قلب اور تصوف جیسے موضوعات پر عقلی و نقلی دلائل بیان فرمائے۔ اسی طرح انہوں نے بخاری شریف کی کتاب العلم کو موضوع بناتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریعی حیثیت کے حوالے سے عقیدہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ، شان قاسمیت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، معرفت مقام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، زیارت روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلماور عظمت و شان اولیاء کرام اور عقیدہ توسل کے حوالے سے گفتگو فرمائی۔اسی طرح آپ نے صحیح المسلم اور صحیح الترمذی، کتب صحاح ستہ اور دیگر کتب حدیث پر بھی دروسِ حدیث دیئے اور اُمت مسلمہ کے عقائد کی اصلاح کا فریضہ سرانجام دیا۔علاوہ ازیں موصوف نے کئی کتب حدیث کو بھی مدون فرمایا ہے جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

  1. المنہاج السوی من الحدیث النبوی
  2. الاربعین فی فضائل النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
  3. الاربعین بشری للمومنین فی شفاعۃ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
  4. البدر التمام فی الصلوۃ علی صاحب الدنو والمقام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
  5. احسن السبل فی مناقب الانبیاء والرسل
  6. العقد الثمین فی مناقب امہات المومنین
  7. غایۃ الاجابۃ فی مناقب القرابۃ (اہل بیت اطہار کے فضائل و مناقب)
  8. القول الوثیق فی مناقب الصدیق رضی اللہ عنہ
  9. القول الصواب فی مناقب عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ
  10. روض الجنان فی مناقب عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ
  11. کنز المطالب فی مناقب علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ
  12. السیف الجلی علی منکر ولایت علی رضی اللہ عنہ (اِعلانِ غدیر)
  13. الدرۃ البیضاء فی مناقب فاطمۃ الزہراء سلام اﷲ علیہا
  14. مرج البحرین فی مناقب الحسنین علیہما السلام
  15. کنز الانابۃ فی مناقب الصحابۃ (صحابہ کرام کے فضائل و مناقب)
  16. القول المعتبر فی الامام المنتَظر علیہ السلام (اِمام مہدی علیہ السلام)
  17. روضۃ السالکین فی مناقب الاولیاء والصالحین
  18. الکنز الثمین فی فضیلۃ الذکر والذاکرین
  19. العبدیۃ فی الحضرۃ الصمدیۃ (آداب و حقوقِ بندگی)
  20. اللباب فی الحقوق والآداب (انسانی حقوق و آداب سے متعلق مجموعہ احادیث)
  21. البینات فی المناقب والکرامات (اولیاء اﷲ کے فضائل اور ظہورِ کرامت کا جواز)
  22. الصلاۃ عند الحنفیۃ فی ضوء السنۃ النبویۃ (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریقہ نماز)
  23. التصریح فی صلاۃ التراویح (بیس رکعت نمازِ تراویح کا ثبوت)
  24. الدعاء بعد الصلاۃ (نماز کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگنے کے جواز پر اَحادیث)
  25. الانتباہ للخوارج والحروراء (گستاخان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں منتخب احادیث نبوی)

حدیث پاک پر مندرجہ بالا علمی اور تحقیقی کام کے علاوہ ’’جامع السنہ‘‘ کے نام سے ایک عظیم الشان اور شاہکار علمی ذخیرہ جمع کرنے کا کام زیر تکمیل ہے جس میں کم و بیش پچیس ہزار سے زائد احادیث مبارکہ درج ذیل موضوعات کے تحت نئی ترتیب اور مروجہ تخریج کے ساتھ مرتب ہونگی۔

  1. کتاب المناقب
  2. کتاب فضائل النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
  3. کتاب شمائل النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
  4. کتاب معجزات النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
  5. کتاب العقائد
  6. کتاب العبادات
  7. کتاب الاحکام
  8. کتاب الآداب
  9. مسند اہل البیت
  10. مسند الزواج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
  11. مسند خلفاء الراشدین
  12. مسند الامام الاعظم ابی حنیفۃ
  13.  کتاب الدعوات السبعۃ
  14.  کتاب فضائل الاماکن

’’جامع السنہ‘‘ کے نام سے درج بالا مجموعہ حدیث میں سے پہلی جلد کتاب المناقب شائع ہوکر منظر عام پر آچکی ہے جس کی نمایاں خصوصیات میں سے حدیث الباب اور ترجمۃ الباب کی مطابقت، سلیس اردو ترجمہ، جدید تحقیق و تخریج اور انتخاب حدیث میں موزوں اور صحیح ترین احادیث کا چناؤ قابل ذکر ہیں۔

ڈاکٹر صاحب کی نئی تصانیف میں سے ایک تصنیف ان کا دہشت گردی کے خلاف مبسوط تاریخی فتویٰ پر مشتمل ہے جس کا عنوان’’ دہشت گردی اور فتنہ خوارج ‘‘ہے۔ یہ 605 صفحات پرمشتمل ہے جوایک ہی موضوع پر نہایت علمی وتحقیقی شاہکار ہے۔ اس کتاب کے صرف ابواب اورفصول کا جائزہ لیا جائے تومعلوم ہوتا ہے کہ دین اسلام کے تصورامن وسلامتی پرکتنی جامع کتاب ہے۔ اس کتاب کے 9 ابواب ہیں۔ پہلا باب اسلام کے معنی و مفہوم پر مشتمل ہے جس میں دلائل کے ساتھ اسلام کو دین امن وسلامتی ثابت کیا گیا ہے۔ دوسرا باب مسلمانوں کے قتل کی ممانعت پر مشتمل ہے۔ جس میں تین فصلیں قائم کی گئی ہیں۔ فصل اوّل کا عنوان ’’مسلمانوں کے قتل کی ممانعت ‘‘ہے ۔ فصل دوم کا عنوان مسلمانوں کو اذیت دینے اور قتل کرنے کی سزا ہے ۔ فصل سوم کا عنوان ’’خودکشی فعل حرام ہے‘‘۔ اسی طرح باب سوم کا عنوان ’’غیرمسلموں کے قتلِ عام اور ایذا رسانی کی ممانعت ‘‘ ہے ۔ باب چہارم کا عنوان ’’دوران جنگ بھی غیر مسلموں کے قتل ِ عام اور دہشت گردی کی ممانعت‘‘ ہے ۔ باب پنجم کا عنوان ’’غیر مسلموں کے جان و مال اور عبادت گاہوں کا تحفظ ‘‘ ہے ۔ جو تین فصلوں پر مشتمل ہے۔ فصل اوّل میں عہدِ رسالت مآب ااور عہد خلفائے راشدین میں غیر مسلم شہریوں کے تحفظ کو دلائل سے ثابت کیا گیا ہے جبکہ فصل دوم میں غیرمسلموں پر اپنا عقیدہ مسلط کرنے اور ان کی عبادت گاہیں منہدم کرنے کی ممانعت پر مشتمل ہے اور فصل سوم میں اسلامی ریاست میں غیرمسلم شہریوں کے بنیادی حقوق سے متعلق قواعد بیان کئے گئے ہیں ۔ باب ششم میں مسلم ریاست اورنظم اجتماعی کے خلاف مسلم بغاوت کی ممانعت کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ۔یہ باب پانچ فصلوں پر مشتمل ہے ۔ فصل اوّل کا عنوان ہے ’’ بغاوت کیا ہے اور باغی کون ہو تا ہے؟۔‘‘ فصل دوم کا عنوان ہے’’جرم بغاوت کی سنگینی اور اس کی سزا‘‘۔ فصل سوم کا عنوان ہے ’’ فاسق حکومت کے خلاف قتال کی شرعی حیثیت۔ ‘‘ فصل چہارم کا عنوان ’’ دہشت گردی اور بغاوت کے خلاف ائمہ اربعہ و دیگراکابرین اُمت کے فتاوی‘‘۔ فصل پنجم کا عنوان ہے ’’ باغیوں کے بارے میں معاصر سلفی علماء کے فتاویٰ۔ باب ہفتم میں فتنہ خوارج اور عصر حاضر کے دہشت گردوں کے بارے میں تحقیق کی گئی ہے ۔ یہ باب چار فصلوں پر مشتمل ہے ۔ فصل اوّل کا عنوان ہے۔ ’’فتنہِ خوارج کا آغاز‘‘ عقائد و نظریات اور بدعات۔ فصل دوم کا عنوان ہے ’’ دہشت گرد خوارج کے بارے میں فرامین رسول ا ‘‘ فصل سوم کا عنوان ہے ’’ خوارج کی تکفیر اور وجوبِ قتل پر آئمہ دین کی تصریحات‘‘ فصل چہارم عنوان ہے ۔ ’’عصرِ حاضر کے دہشت گرد خوارج ہیں ‘‘ باب ہشتم میں مسلم ریاست میں اعلاء کلمہِ حق کا پرامن منہاج بیان کیا گیا ہے جبکہ آخری باب نہم دعوتِ فکر و اصلاح پر مشتمل ہے ۔ جس میں اہلِ اقتدار، عالمی طاقتوں اور وارثانِ منبر و محراب اور اہل خانقاہ سے التماس توجہ خصوصی کی گزارش کی گئی ہے۔

اس فتویٰ نے دین اسلام کے روشن چہرہ پر لگے ہوئے دہشت گردی کے بدنما داغ کودھودیا۔ مسلمانوں کو قرآن و سنت کی اصلیت سے روشناس کروایا اور انسانیت کو بھی دہشت گردی کی دہکتی آگ سے نجات دلانے کی بھرپور کوشش کی۔