اسوہ بتول سلام اللہ علیہ

 نازیہ عبدالستار

سیدہ کائنات حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا کی رفعت و عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کے والد گرامی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبع نور ہدایت ہیں۔ آپ کے شوہر نامدار باب العلم ہیں۔ آپ کے بیٹے سرداران جنت ہیں، آپ کے انوار میں نور مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلوہ گر ہے۔ آپ کے رگ و ریشہ میں خون مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجزن ہے۔ آپ کی پوری زندگی تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عملی تصویر پیش کرتی ہے۔

کتب سیرت میں سیدہ کائنات حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے بہت سے اسمائے گرامی بیان ہوئے ہیں۔ ان میں سے چند کا تذکرہ اس مضمون میں کیا جائے گا جس سے قارئین کے دلوں میں سیدہ کائنات کے ساتھ والہانہ عقیدت و محبت میں نہ صرف اضافہ ہوگا بلکہ سیدہ کائنات رضی اللہ تعالی عنہا کی عظمت و مقام مرتبہ سے بھی شناسائی ہوگی۔ ذیل میں سیدہ کائنات کے اسمائے گرامی ان کی وجہ تسمیہ اور پس منظر بیان کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسوہ بتول رضی اللہ تعالی عنہپر احادیث کی روشنی میں تبصرہ بھی کیا گیا ہے۔

 فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا

لفظ فاطمہ باب فاعلہ سے ہے جس کا معنی بالکل علیحدہ کردیا جانا ہے۔ لسان العرب کے مطابق اگر لکڑی کے ایک حصے کو کاٹ کر الگ کردیا جائے تو اسے تغطیم کہتے ہیں۔ بزار، طبرانی اور ابونعیم نے روایت کیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: فاطمہ! جانتی ہو میں نے آپ کا نام فاطمہ کیوں رکھا؟ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ فرمادیجئے کہ ان کا نام فاطمہ کیوں رکھا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فاطمہ اور ان کی اولاد کو نار جہنم سے بالکل الگ کررکھا ہے‘‘۔ (الاستیعاب، ج 2، ص 752)

اس معانی میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سم بامسمی ہیں۔ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا اور آپ کی اولاد کو دوزخ کی آگ سے محفوظ رکھنا اس امر کی طرف نشاندہی کرتا ہے کہ آپ کا عزوشرف اللہ کی بارگاہ میں بہت زیادہ ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ رضی اللہ تعالی عنہا کو پیار سے فاطم کہہ کر پکارتے تھے۔ اسی طرح حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی آپ کو فاطم کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔

بتول رضی اللہ تعالی عنہا

سیدہ کائنات حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو بتول کے لقب سے بھی پکارا جاتا ہے۔ معانی کے لحاظ سے یہ لفظ بتل سے نکلا ہے جس کا معنی سب سے ٹوٹ کر اسی کے ہو رہنا۔ سورۃ مزمل میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

واذکر اسم ربک وتبتل الیه تبتیلا.

(المزمل:8)

’’اے حبیب اپنے رب کا ذکر کیا کریں اور سب سے ٹوٹ کر‘‘۔

احمد بن یحییٰ سے سیدہ کائنات حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے متعلق پوچھا گیا کہ ان کو بتول کیوں کہا جاتا ہے توانہوں نے جواب دیا کہ اس کا سبب یہ ہے کہ آپ اپنے وقت میں امت کی خواتین سے الگ تھلگ رہا کرتی تھیں اور عفت و پاکیزگی اور فضل و عبادات اور حسب و نسب کے شرف سے آپ کا ایک منفرد مقام تھا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس لئے بھی بتول کہا جاتا تھا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنے آپ کو دنیا سے قطع تعلق کرلیا تھا۔ (لسان العرب، ص:207)

الزہراء رضی اللہ تعالی عنہا

سیدہ کائنات کو اکثر الزہراء کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ جس کا معنی ہے سفید کلی۔ ابن الاعرابی نے اسے سفید نور کہا ہے۔ اسی طرح اس سے مراد دنیا کا حسن و جمال ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

یہ وہ کلی ہے جس کی خوشبو کو سجدہ کرتی ہیں خود بہاریں
یہ وہ ستارہ ہے جس سے روشن ہیں آسمان کی رہ گزاریں

حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی والدہ سے سیدہ کائنات کے متعلق پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ ایسے ماہتاب کی مانند تھیں کہ جو چودھویں رات میں ماہ تمام بن کر منور ہورہا ہو یا پھر اس آفتاب کی مانند تھیں جو کہ سفید بادلوں کی اوٹ سے نمودار ہورہا ہو۔ آپ کا رنگ سفید تھا جس میں سرخی ظاہر ہوا کرتی تھی اور آپ کے بال سیاہ تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہت رکھتی تھیں۔ (المستدرک علی الصحیحین، رقم4813)

انہی خوبیوں کی وجہ سے آپ کو زہراء کے لقب سے جانا جاتا ہے۔

الطاہرہ رضی اللہ تعالی عنہا

سیدہ کائنات الطاہرہ کے لقب سے بھی جانی جاتی ہیں۔ جس کا مطلب پاکیزہ ہے۔ آنکھ کھلی تو سیدہ خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ تعالی عنہاکی گود ملی، نگاہیں اٹھیں تو انوار مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دیکھنے کو ملا۔ آپ کی والدہ ماجدہ طاہرہ کے لقب سے مشہور تھیں اور والد گرامی بھی طاہر و مطہر تھے۔ جب آپ جوان ہوئیں تو اللہ رب العزت نے ان کی طہارت کے متعلق آیت تطہیر نازل فرماکر کامل تطہیر سے نوازا۔ لفظ تطہیر عربی گرائمر میں باب تفعیل سے ہے جس کا مطلب ہے ایسی طہارت تامہ جس میں کسی قسم کی کوئی کمی یا کسر اٹھا نہ رکھی گئی ہو۔

الزکیہ

نگاہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو ہر خاص و عام مسلمان کا تزکیہ نفس کردیتی تھیں۔ فیضان اور محبت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ رضی اللہ تعالی عنہاکو ایسا تزکیہ اور ظاہری و باطنی پاکیزگی عطا کی تھی کہ جس میں آپ رضی اللہ تعالی عنہاکا کوئی ثانی نہ تھا۔

عابدہ اور زاہدہ

سیدہ کائنات کے بابا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غار حرا میں عبادت خداوندی میں کئی کئی دن مشغول رہتے تھے۔ اکثر سیدہ کائنات بھی ان کی خلوت میں شریک ہوتیں جیسے سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہاکا غار حرا میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے ملنا ثابت ہے یہ ایک بدیہی حقیقت ہے ننھی فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کیسے پیچھے رہ سکتی ہوں گی۔ ویسے بھی غار حر امیں وہ جگہ آج بھی معروف ہے جہاں سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہااپنی بیٹیوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملانے لے جایا کرتی تھیں۔ رسول خدا دن رات عبادت خداوندی میں مشغول رہتے تھے۔ وہ سیدہ کائنات جن کا کردار، اخلاق، نشست و برخاست، لب و لہجہ، شرم و حیاء، صبرواستقامت ہو بہو آقا علیہ السلام کی حیات مبارکہ میں ڈھلا ہوا تھا تو کیا سیدہ کائنات کی عبادت و ریاضت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عبادت کا عکس نہ جھلکتا ہوگا۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہازندگی کے ہر پہلو میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشابہ تھیں۔

ام ابیہ

سیدہ فاطمہ الزہراء کی کنیت ام ابیہا تھی۔ (استیعاب) ظہور اسلام کے بعد کفارو مشرکین آپ پر طرح طرح کے ظلم و ستم ڈھاتے تو دفاع مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فریضہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نبھاتی۔ حیات خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا میں اور بعد میں آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس طرح خدمت کی کہ لوگ کہہ اٹھے کہ آپ صرف بیٹی ہی نہیں بلکہ ایک ماں کی طرح اپنے بابا کا خیال رکھتی ہیں۔ نجی محفلوں میں آپ ام ابیہا کے نام سے مشہور ہوگئیں۔

راضیہ والمرضیہ

حیات بشری میں کونسا پہاڑ ہے جو آپ پر نہ ٹوٹا ہو۔ امتحان کی ہر بھٹی میں کندن بن کر نکلنے والی یہ ننھی کلی نے دفاع مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تھپڑ بھی کھائے۔ کفار کی جھڑکیاں بھی سہیں، مشرکین کی چیرہ دستیاں بھی برداشت کیں۔ اس ننھی کلی نے اس وقت جہاد کیا جب ابھی جہادی حکم نازل نہیں ہوا تھا۔ جب حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کا وصال ہوگیا تو اس ننھی بتول نے نہ صرف اپنی ماں کی جدائی کو برداشت کیا بلکہ اپنے بابا کا اپنی ذات سے بڑھ کر خیال رکھا۔ شادی کے بعد آپ نے مشقت و محنت کی زندگی بسر کی۔ گھر کا سارا کام خود کرتی، مشکیزہ بھر کر لاتیں، چکی پیستے پیستے آپ کی ہتھیلیاں گھس گئیں لیکن کبھی زبان پر شکوہ نہ آیا بلکہ ہر لحظہ قرآن خوانی میں اپنی زبان کو تر رکھتی۔ ذکر خدا سے کبھی غافل نہ ہوتیں۔ جگر گوشوں کی شہادت کی خبر آپ کو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کی حیات مبارکہ میں ہی دے دی تھی مگر آفرین آپ کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی۔ اس لئے کہ راضیہ و مرضیہ تو صرف رضائے الہٰی پر راضی رہنا جانتی تھیں۔

الصدیقہ

بعض سیرت نگاروں نے سیدہ کائنات کے لئے الصدیقہ کا لقب استعمال کیا ہے جیسے بچوںمیں سب سے پہلے اسلام کی تصدیق کرنے والے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ تھے اسی طرح بچیوں میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا تھیں جنہوں نے اسلام کی تصدیق کی۔ اس لئے آپ کو الصدیقہ کہا جاتا ہے۔

سیدہ نساء العالمین

سیدہ کائنات تمام عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں۔ عورت کے مقام کو اجاگر کرنے کے لئے سیدہ کائنات کا وجود نہایت اہم سنگ میل کی حیثیت کا حامل ہے۔ آپ کا کامل اسوہ حسنہ دنیا و آخرت میں سرخروئی و سرفراز کا پروانہ ہے۔ مومنین کی مائیں بہنیں بیٹیاں اور بیبیاں جس ہستی سے مکمل رہنمائی حاصل کرسکتی ہیں وہ سیدہ کائنات حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی ذات مبارکہ ہے۔ لہذا وقت کی اہم ضرورت ہے کہ مومنات کے کردار کو سنوارنے کے لئے سیدہ کائنات کے کردار اور اسوہ حسنہ کو پھر سے اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔

ذیل میں سیدہ کائنات کے اسوہ حسنہ کا ایک جائزہ پیش کیا جارہا ہے تاکہ عورت کی زندگی میں نکھار پیدا ہوجائے۔ حضرت عبداللہ بن ام مکتوم جو کہ نابینا تھے آپ علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدہ کائنات کے گھر پر تشریف فرما تھے۔ حضرت ام مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ نے اندر آنے کی اجازت چاہی تو سیدہ کائنات پردہ پوشی کی غرض سے حجرے کے ایک کونے میں چھپ گئیں۔ جب وہ چلے گئے تو پھر باہر آئیں۔ بعد ازاں جب آپ سے اس کی وجہ دریافت کی گئی تو آپ رضی اللہ تعالی عنہا نے فرمایا وہ نابینا تھے میں تو نابینا نہیں تھی۔ معلوم ہوا کہ نابینا کے سامنے آنے میں کوئی حرج نہیں مگر سیدہ کائنات حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے تقویٰ کا معیار عام لوگوں سے بہت بلند ہے۔ اس لئے انہوں نے اپنے نکتہ نظر کو بیان کردیا۔ ثابت ہوا کہ امت کی مائیں، بہنیں، بیویاں سیدہ کائنات حضرت فاطمہ کے سیرت و کردار میں ڈھل کر اپنے اخلاق و کردار کو سنواریں۔ پردہ اور حجاب کو اپنا شعار بنائیں کہ حجاب سیدہ کائنات حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی سنت ہے۔ پیروی کرنے والے کو سیدہ کائنات حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے تقویٰ کا فیض ملتا جس سے انسان بہت سی قباحتوں سے بچ جاتا ہے۔

ملا علی قاری نے سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تحریر کیا ہے کہ سیدہ ام ایمن نے بیان کیا کہ ایک بار جب رمضان المبارک کا مہینہ تھا اور سورج نصف النہار پر اپنے جوبن کی گرمی برسا رہا تھا۔ میں کسی کام کی غرض سے سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے مکان پر حاضر ہوئی دروازہ بند دیکھ کر دستک دینے کا سوچ رہی تھی۔ میں نے دریچہ سے جھانک کر دیکھا تو حیران رہ گئی کہ سیدہ تو چکی کے پاس زمین پر سو رہی تھی اور چکی خود بخود چل رہی تھی اور پاس ہی حسنین کا پنگھوڑا بھی خود بخود ہل رہا تھا۔ میں نے تعجب میں یہ ماجرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس شدت کی گرمی میں فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا روزہ سے تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر نیند کا غلبہ کردیا تاکہ انہیں گرمی اور پیاس محسوس نہ ہو اور فرشتوں کو حکم فرمایا کہ وہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے کام سرانجام دیں۔ (الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ، 3 : 173)

اس حدیث مبارکہ سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اہل بیت اطہار کا مقام و مرتبہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں بہت اعلیٰ ہے۔ اہل بیت کا گھرانہ نور کا ہے۔ اس لئے اس گھرانے کی خدمت پر نورانی مخلوق کو معمور کیا گیا۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا۔

تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کا

کتب سیر میں سیدہ کائنات کی بہت سی کرامات کا تذکرہ ملتا ہے۔ ان میں صرف ایک کو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔ حالانکہ سیدہ کائنات حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کا مقام و مرتبہ ہر مسلمان پر روز روشن کی طرح عیاں ہے جو کرامات کا محتاج نہیں ہے۔

ایک مرتبہ سیدہ بتول جگر گوشہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے کچھ سوت کاتا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ اسے بازار میں فروخت کر آئیں تاکہ کھانے کا بندوبست ہوسکے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اس سوت کو بازار میں چھ درہم میں فروخت کردیا۔ اس سے قبل کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ خوردونوش کی کوئی چیز خریدتے تو انہوں نے آواز سنی۔ ہے کوئی جو مجھے اللہ کے نام پر عطا کرے۔ آپ نے وہ تمام درہم اس سائل کو عطا کردیئے۔ خود خالی ہاتھ گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ ابھی تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ جبرائیل علیہ السلام ایک بدو کی شکل میں سامنے آئے۔ ان کے ہاتھ میں اونٹنی کی مہار تھی۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے کہنے لگے یہ اونٹنی خریدتے ہو؟ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سوچ میں پڑ گئے۔ تو وہ بدو کہنے لگا میں اسے ادھار پر دینے کے لئے تیار ہوں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے وہ اونٹنی سو درہم میں خرید لی۔ ابھی خرید کر گھر جاہی رہے تھے کہ راستے میں حضرت میکائیل علیہ السلام انسان کی شکل میں آئے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے کہنے لگے آپ رضی اللہ تعالی عنہاس اونٹنی کو بیچتے ہو میں اس کو ایک سو ساٹھ درہم کے عوض خریدنے کے لئے تیار ہوں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے وہ اونٹنی ایک سو ساٹھ درہم میں فروخت کردی۔ راستے میں جبرائیل علیہ السلام انسانی شکل میں ملے اور کہا کہ سودا ہوگیا؟ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں سو درہم لوٹا دیئے اور ساٹھ درہم لے کر گھر تشریف لے آئے۔ سیدہ کائنات حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے پوچھا یہ رقم کہاں سے ملی؟ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا ہم نے چھ درہم کی تجارت کی۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ساٹھ درہم عطا فرمائے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بارگاہ رسالت مآب میں حاضر ہوئے اور اپنا سارا واقعہ سنایا۔ اس پر آقا علیہ السلام نے فرمایا: اے علی رضی اللہ تعالی عنہ ! جانتے ہو کہ یہ اونٹنی والے کون لوگ تھے۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بیچنے والے جبرائیل امین علیہ السلام تھے اور خریدنے والے حضرت میکائیل علیہ السلام تھے اور وہ اونٹنی دراصل جنت الفردوس کی وہ ناقہ تھی جس پر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا جنت میں سواری کیا کریں گی۔ (نزہۃ المجالس، ص:304)

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا: کیوں نہ میں تمہیں اپنے اور فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق کچھ بتاؤں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا تمام اہل خانہ سے زیادہ عزیز تھیں۔ وہ اپنے ہاتھوں سے چکی پیسا کرتی تھیں یہاں تک کہ ان کے ہاتھوں میں چھالے پڑگئے تھے۔ خود پانی بھرکر لاتیں یہاں تک کہ ان کی گردن پر نشان پڑ گئے تھے۔ اپنے ہاتھوں سے گھر میں جاروب کشی کرتی جس سے ان کے کپڑے غبار آلود ہوجاتے تھے۔ چولہے میں آگ خود جلایا کرتی تھیں جس سے ان کے کپڑے سیاہ ہوجاتے تھے اور انگلیاں جھلس جایا کرتی تھیں۔ ہمیں پتہ چلا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کچھ باندیاں آئی ہیں۔ میں نے کہا کہ اپنے بابا کی خدمت میں عرض کریں ایک باندی ہمیں بھی عنایت فرمائیں۔ پس سیدہ کائنات رضی اللہ تعالی عنہ بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوئیں تو اس وقت کچھ لوگ بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر تھے لہذا سیدہ کائنات کچھ کہنے سے ہچکچائیں اور واپس آگئیں۔ دوسرے روز سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے گھر تشریف لائے جب کہ ہم لحاف میں تھے تو آقا علیہ السلام حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے سرہانے کی جانب تشریف فرما تھے۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے فرط حیا سے اپنا چہرہ لحاف کے اندر کرلیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا بیٹی! کیا حاجت تھی؟ کہ کل آپ کو میرے ہاں آنا پڑا۔ دو مرتبہ پوچھا لیکن آپ رضی اللہ تعالی عنہا خاموش رہیں پھر میں نے عرض کیا۔ ی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے پاس کچھ باندیاں آئی ہیں تو میں نے فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کروں کہ مجھے بھی ایک عنایت فرمائیں۔ اس پر حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے فاطمہ! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ اپنے رب کے فرائض ادا کرو اور اپنے گھر کا کام خود کیا کرو پھر جب سونے لگو تو 33 بار سبحان اللہ پڑھو، 33 بار الحمدللہ پڑھو، 34 مرتبہ اللہ اکبر کا ورد کیا کرو۔ یہ آپ کے لئے غلام سے بہتر ہے۔ اس حدیث میں مزید روایات بھی ملتی ہیں کہ سیدہ کائنات حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا حاملہ تھیں اور جب وہ تنور پر روٹیاں پکاتی تو آپ کے شکم کو تکلیف پہنچتی تھی اس لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں کہ کسی خادمہ کا بندوبست ہوسکے۔ مگرحضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں ہر گز غلام نہیں دے سکتا۔ کیا میں اصحاب صفہ کو چھوڑ دوں جن کے پیٹ بھوک سے دہرے ہورہے ہیں؟ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیوں نہ میں آپ کو اس سے بہتر چیز عطا کروں۔ (مسند ابو یعلیٰ) تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو تسبیح فاطمہ عنایت کی۔

میری قارئین بہنوں سے درخواست ہے کہ وہ سیدہ کائنات حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے اسوہ حسنہ کو پڑھیں ان کے اطوار و اخلاق کو اپنے اندر اتارنے کی کوشش کریں گی تو انہیں دنیاوی تکالیف و مصائب سے نجات حاصل ہوگی۔ بلکہ دنیاوی آزمائش کے بعد ہمیشہ ترقی ہوتی ہے جیسے کہ ایک طالب علم محنت کرتا ہے۔ دن رات جاگ کر پیپر کی تیاری کرتا ہے پھر پیپر دیتا ہے اور چند دنوں بعد اس کی محنت و ریاضت کا اسے اجر ملتا ہے اور اسے نئی کلاس میں پروموشن مل جاتی ہے۔ گو کہ دنیاوی زندگی بہت مشکل ہے لیکن ہر مشکل کے بعد آسانی بھی آتی ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: انما العسر یسرا۔

سیدہ کائنات نے دنیا کی ہر پریشانی کو اپنے گلے سے لگایا تو اللہ نے انہیں نہ صرف دنیا میں اجر عطا کیا بلکہ آخرت میں تمام جنتی عورتوں کی سردار بنادیا۔ آج کی عورت کو بھی بہت سے چیلنجز درپیش ہیں اگر وہ بھی استقامت اور صبر کے ساتھ مشکلات کو برداشت کرتی ہے اور سیدہ کائنات حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے اسوہ میں خود کو ڈھال کر زندگی بسرکرتی ہے تو وہ دنیا و آخرت میں سرخرو اور کامیاب ہوگی۔