ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں

ملکہ صبا

ماہ شعبان المعظم میں ایک رات ایسی آتی ہے جو بڑی فضیلت و بزرگی والی رات ہے۔ جلیل القدر تابعی حضرت عطار بن یسار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

ما من لیلة بعد لیلة القدر افضل من لیلة نصف شعبان۔

(لطائف المعارف لابن رجب الحنبلی ص 145)

لیلۃ القدر کے بعد شعبان کی پندرھویں شب سے زیادہ کوئی رات افضل نہیں ہے۔

عرف عام میں اس رات کو شب برات کہتے ہیں کیونکہ شب فارسی زبان کا لفظ ہے اس کے معنی رات کے ہیں اور براَت عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی بری ہونا، نجات پانا اور گناہوں سے پاک ہونا ہیں۔ اس شب سے متعلق کئی احادیث مبارکہ بیان کی گئی ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔

  1. حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تبارک و تعالیٰ شعبان کی پندرھویں رات نظر رحمت فرماکر تمام مخلوق کی مغفرت فرمادیتے ہیں سوائے مشرک اور کینہ ور کے۔ (شعب الایمان للبیہقی ج 3، ص 382، فضائل الاوقات للبیہقی، ص 132)
  2. حضرت مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب شعبان کی پندرھویں شب آئے تو رات کو نماز پڑھو اور اگلے دن روزہ رکھو کیونکہ غروب شمس سے لے کر صبح صادق کے طلوع ہونے تک اللہ تبارک وتعالیٰ آسمان دنیا پر رہتا ہے اور فرماتا ہے ’’ہے کوئی مجھ سے بخشش مانگنے والا کہ میں اسے بخش دوں؟ ہے کوئی رزق طلب کرنے والا کہ میں اسے رزق دے دوں؟ ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اسے مصیبت سے نجات دوں؟ ہے کوئی ایسا، ہے کوئی ویسا؟ (کنزالعمال، ج 12، ص 214، الترغیب والترہیب، ج 2، ص 242)
  3. حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ تعالی عنہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب شعبان کی پندرھویں شب ہوتی ہے تو (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) ایک پکارنے والا پکارتا ہے کہ کیا کوئی مغفرت کا طالب ہے کہ میں ا سکی مغفرت کردوں، کیا کوئی مانگنے والا ہے کہ میں اس کو عطا کردوں اور اس وقت خدا سے جو مانگتا ہے اس کو ملتا ہے سوائے بدکار عورت اور مشرک کے۔ (شعب الایمان للبیہقی، ج 3، ص 383)
  4. حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ انبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں معلوم ہے اس رات یعنی شعبان کی پندرھویں شب میں کیا ہوتا ہے؟ انہوں نے دریافت کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا اس شب میں یہ ہوتا ہے کہ اس سال میں جتنے بھی پیدا ہونے والے ہیں وہ سب لکھ دیئے جاتے ہیں اور جتنے اس سال مرنے والے ہیں وہ سب بھی اس رات میں لکھ دیئے جاتے ہیں۔ اس رات میں سب بندوں کے اعمال (سارے سال کے) اٹھائے جاتے ہیں اور اسی رات میں لوگوں کی مقررہ روزی اترتی ہے۔ (مشکوٰۃ، ص115)

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے تھوڑی دیر گزرنے نہ پائی تھی کہ آپ نے دوبارہ باہر جانے کی تیاری کی۔ مجھ کو خیال آیا کہ آپ اپنی ازواج مطہرات میں سے کسی اور کے پاس جارہے ہیں اس لئے مجھے بہت غیرت آئی، میں آپ کے پیچھے پیچھے ہولی، جاکر دیکھا تو آپ جنت البقیع میں مسلمان مردوں اور عورتوں کے لئے استغفار کررہے ہیں میں نے دل میں کہا کہ آپ پر میرے ماں باپ قربان جائیں آپ خدا کے کام میں مصروف ہیں اور میں دنیا کے کام میں، میں وہاں سے واپس اپنے حجرے میں چلی آئی (اس آنے جانے میں) میرا سانس پھول گیا۔ اتنے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے اور دریافت فرمایا یہ سانس کیوں پھول رہا ہے؟ میں نے عرض کیا: آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں آپ میرے پاس تشریف لائے اور آپ نے جلدی سے دوبارہ کپڑے پہن لئے، مجھ کو یہ خیال کرکے سخت رشک ہوا کہ آپ ازواج مطہرات میں سے کسی اور کے پاس تشریف لے گئے ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ میں نے آپ کو خود بقیع غرقد میں جا دیکھا کہ آپ کیا کررہے ہیں؟

آپ نے فرمایا: عائشہ کیا تمہارا یہ خیال تھا کہ خدا اور خدا کا رسول تمہارا حق ماریں گے؟ (اصل بات یہ ہے کہ) جبرائیل علیہ السلام میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ یہ رات شعبان کی پندرھویں رات ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ اس رات میں بہت سے لوگوں کو دوزخ سے آزاد کرتا ہے جو کہ قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ ہوتے ہیں مگر اس میں اللہ رب العزت مشرکین، کینہ پرور، رشتے ناطے توڑنے والے، ازار ٹخنوں سے نیچے رکھنے والے، والدین کے نافرمان اور شراب کے عادی لوگوں کی طرف نظر رحمت نہیں فرماتا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ کیا تم مجھے آج رات قیام کرنے کی اجازت دیتی ہو؟ میں نے کہا کہ بے شک آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔ پھر آپ نے قیام کے بعد ایک طویل سجدہ کیا یہاں تک کہ مجھ کو خیال ہوا کہ آپ کی وفات ہوگئی ہے۔ میں نے چھونے کا ارادہ کیا اور آپ کے تلوؤں پر اپنا ہاتھ رکھا تو کچھ حرکت معلوم ہوئی میں نے آپ کو سجدہ میں یہ دعا مانگتے سنا:

اعوذ بعفوک من عقابک واعوذبک منک جل وجهک لا احصی ثنآء علیک انت کم اثنیت علی نفسک۔.

صبح کو میں نے اس دعا کے حوالے سے آپ سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا کہ اے عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ ! تم اس دعا کویاد کرو گی؟ میں نے عرض کیا، جی ہاں آپ نے فرمایا: ’’سیکھ لو، مجھ کو یہ کلمات جبریل علیہ السلام نے سکھائے ہیں کہ سجدہ میں ان کو بار بار پڑھا کرو‘‘۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان، ج3، ص384)

اب ہم شب براَت سے متعلق احادیث بیان کرنے کے بعد اپنا محاسبہ نفس کریں گے کہ وہ رب العزت جو ہر وقت اپنے بندوں کی طرف مائل ہے۔ اس کے بندے اپنی بندگی کا حق بھی اداکررہے ہیں یا پھر ان دنیاوی کھیل تماشوں میں اپنا تمام وقت ضائع کررہے ہیں۔ وہ رب جو ستر مائوں سے زیادہ پیار کرتا ہے جو ہر رات خود آسمان دنیا پر جلوہ افروز ہوتا ہے اور اپنے بندوں کو پکارتا ہے، ہے کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا، مدد طلب کرنے والا، خوشنودی طلب کرنے والا، حاجتیں و مصیبتیں دور کرانے کے لئے دعائیں کرنے والا، دیدار کی طلب رکھنے والاکہ بندہ مجھ سے مانگے اور میں اس کو اپنے غیب کے خزانوں سے مالا مال کردوں۔ وہ سال بھر اپنے بندوں کو ندائیں دیتا رہتا ہے لیکن چند راتیں کبھی شب معراج، کبھی شب براَت، کبھی لیلۃ القدر کہہ کر ایسی رکھ دیں جن کی فضیلت و برتری بتاکر اپنے غافل بندوں کو راغب کرنا چاہا۔ چونکہ ان راتوں میں ہر محلہ، ہر گلی کی مساجد میں رتجگوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ وعظ و نصیحت کی جاتی ہے، نوافل ادا کئے جاتے ہیں، توبہ کی جاتی ہے لہذا وہ بندہ جو تنہا عبادت و توبہ کی طرف مائل نہ ہوتا تھا مگر اس وقت بیشتر لوگوں کو عبادت کرتا دیکھ کر اس کا دل اپنے رب کی طرف میلان کرتا ہے تب رب خوش ہوکر اس بندے کو ان تمام برگزیدہ بندوں کے سبب معاف کردیتا ہے سوائے مشرک، کینہ ور، بدکار عورت، رشتے ناطے توڑنے والے، والدین کے نافرمان، مغرور و شراب نوشی کرنے والوں کے۔

انہی راتوں میں ایک رات وہ بھی رکھی جس میں سارے سال کے فیصلے کئے جاتے ہیں۔ اس رات کو ہم سب شب براَت کے نام سے جانتے ہیں۔ وہ رب کتنا عظیم ہے جس رات وہ بندے کے سارے سال کے فیصلے کرتا ہے اس رات کو بھی اپنے بندوں پر عیاں کررہا ہے اور وہ اس رات (جو حدیث مبارکہ سے ثابت ہے) غروب آفتاب کے بعد سے ہی آسمان دنیا پر آجاتا ہے اور بندوں کو ندا دینا شروع کردیتا ہے اور ساری رات اپنے بندوں کا انتظارکرتا ہے کہ کوئی مجھ سے رات کے کسی بھی پہر میں میری نعمتیں مانگ لے، بخشش مانگ لے تاکہ میں اسے معاف کرکے سال بھر کی روزی میں وسعت عطا کردوں اور نیک و صالح بنادوں۔ وہ غروب آفتاب سے اس لئے ندائیں دیتا ہے کہ اگر کوئی بیمار ہو تو جلد عبادات کرکے آرام کرلے یا پھر کوئی غافل ہو تو وہ دوسروں کو عبادت و ریاضت میں دیکھ کر شاید رات کے کسی پہر میں میری طرف مائل ہوجائے اور میں اسے بخش دوں۔ ہمارا رب وہ عظیم رب ہے کہ یہ بھی بتاتا ہے کہ دعا کس وقت مانگو تو زیادہ قبول ہوتی ہے اور کس ادا سے مانگو تو میں اپنے بندے کو معاف کردیتا ہوں۔ حتی کہ وہ الفاظ بھی شب براَت جبرائیل امین علیہ السلام کے ذریعے اپنے محبوب کو بتاتا ہے تاکہ اس کے امتی بھی پیروی کرتے ہوئے اسکے سبب نجات پاجائیں لیکن چند بندے ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس وقت بھی رب کی طرف مائل نہیں ہوتے اور دنیاوی کھیل تماشے مثلاً بم اور پٹاخوں میں لگے ہوتے ہیں۔ پھر بھی اللہ رب العزت ان کو عذاب میں مبتلا نہیں کرتا بلکہ ان کو مہلت دیتا ہے کہ شاید بندے اس سال نہ سہی تو اگلے سال ضرور راغب ہوجائیں۔ لیکن ہر شخص پر اس کی برداشت کے مطابق آزمائش دیتا ہے تاکہ بندہ اس کو پکارے کیونکہ جب بچہ تکلیف میں ہوتا ہے تو ماں کو ہی پکارتا ہے اور ماں بھی اس وقت اپنے رونے والے بچے کی زیادہ تیمار داری کرتی ہے۔ اسی طرح رب کا بندہ جب اس کو تکلیف کے باعث پکارتا ہے تو وہ رب نہ صرف اس کے گناہ معاف کردیتا ہے بلکہ اس پر اپنی رحمتوں اور برکتوں کی حد کردیتا ہے۔ جب وہ خودہماری طرف (اپنے بندوں کی طرف) مائل ہے تو پھر کیا وجہ ہے جو ہم اپنے رب کی طرف میلان نہیں کرتے۔ بقول شاعر

ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے رہروِ منزل ہی نہیں

وہ ہر رات ہمیں آکر پکارتا ہے ہم تب بھی اپنی بخشش و نجات کا سبب نہیں کرپاتے اور اس کو نہیں مناسکتے کیا ہمیں دنیاوی لذتیں، آرام، رات کی نیند زیادہ عزیز ہے جو اپنے رب سے قریب نہیں ہونے دیتی، جبکہ ہم یہ بھی جانتے ہیں یہ دنیا عارضی ہے اور جلد ختم ہوجانے والی ہے اور وہ دنیا ابدی ہے اور کبھی بھی ختم ہونے والی نہیں ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر ہم اس دنیا میں رب کو منالیں گے تو وہ رب جو ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتاہے نہ صرف اخروی زندگی بلکہ دنیاوی زندگی میں بھی ہمیں سرخرو وکامیاب کرے گا کیونکہ جتنے بھی اہل اللہ، صالحین، عابدین بندے گزرے ہیں وہ ہمیشہ اس دنیا پر بھی لوگوں کے دلوں پر بھی راج کرتے رہے بلکہ آخرت میں بھی دوسروں کی نجات کا باعث ہوں گے۔ ہم یہ سب جانتے ہوئے بھی کیوں رب کی بندگی بجا نہیں لاتے؟

آیئے آج ہم اپنے آپ سے وعدہ کریں کہ اس شب براَت کو ضرور اپنے رب کو منالیں گے اور اس کے سامنے اپنا سرخم کردیں گے کہ رب تعالیٰ ہم بہت گناہگار ہیں، تیرے دربار میں حاضری کے قابل بھی نہیں مگر تیری رحمت بہت بڑی ہے لہذا توہماری طرف نہ دیکھ ہمارے گناہوں کی طرف نہ دیکھ بلکہ اپنی رحمت و مامتا کو دیکھتے ہوئے ہمیں معاف فرمادے۔