فرمان الٰہی و فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

فرمان الٰہی

وَمَالَکُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اﷲِ وَالْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ هٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ اَهْلُهَا ج وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِيًّا ج وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِيْرًا. اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اﷲِ ج وَالَّذِيْنَ کَفَرُوْا يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ الطَّاغُوْتِ فَقَاتِلُوْا اَوْلِيَآءَ الشَّيْطٰنِ ج اِنَّ کَيْدَ الشَّيْطٰنِ کَانَ ضَعِيْفًا.

(النساء،3: 75، 76)

’’اور (مسلمانو!) تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں (مظلوموں کی آزادی کے لیے) جنگ نہیں کرتے حالانکہ کمزور، مظلوم اور مقہور مرد، عورتیں اور بچے (ظلم و ستم سے تنگ آ کر اپنی آزادی کے لیے) پکارتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی سے نکال لے جہاں کے (وڈیرے) لوگ ظالم ہیں اور کسی کو اپنی بارگاہ سے ہمارا کارساز مقرر فرما دے اور کسی کو اپنی بارگاہ سے ہمارا مددگار بنا دے!۔ جو لوگ ایمان لائے وہ اللہ کی راہ میں (ظلم و اِستحصال کے خاتمے اور اَمن کی بحالی کے لیے) جنگ کرتے ہیں اورجنہوں نے کفر کیا وہ شیطان کی راہ میں (طاغوتی مقاصد کے لیے) جنگ کرتے ہیں، پس (اے مومنو!) تم شیطان کے دوستوں (یعنی اِنسانیت کے دشمنوں) سے لڑو، بے شک شیطان کا داؤ کمزور ہے۔‘‘

(ترجمہ عرفان القرآن)

فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم: اُنْصُرْ أَخَاکَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا. فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ! أَنْصُرُهُ إِذَا کَانَ مَظْلُوْمًا، أَرَأَيْتَ إِنْ کَانَ ظَالِمًا کَيْفَ أَنْصُرُهُ؟ قَالَ: تَحْجُزُهُ أَوْ تَمْنَعُهُ مِنَ الظُّلْمِ، فَإِنَّ ذَلِکَ نَصْرُهُ.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! اگر وہ مظلوم ہو تب تو میں اس کی مدد کروں لیکن مجھے یہ بتائیے کہ جب وہ ظالم ہو تو میں اس کی مدد کیسے کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اسے ظلم سے باز رکھو، یا فرمایا: اُسے (اس ظلم سے) روکو، کیونکہ یہ بھی اس کی مدد ہے۔‘‘

(المنهاج السوي من الحديث النبوي صلی الله عليه وآله وسلم، ص: 121)