میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی

فریال احمد

میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی
میں اسی لئے مسلماں میں اسی لئے نمازی

تاریخ انسانی کے لئے اگر نمایاں خدمات انجام دینے والی شخصیات اگر مطالعہ کیا جائے تو تاریخ اسلام بے شمار ایسے ناموں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے اپنے کردار و عمل کے ذریعے اسلام کو تقویت پہنچائی لیکن جب ہم آج کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو عالم اسلام میں کوئی ایسی شخصیت ہمیں نظر نہیں آتی جو اسلام کی صحیح اور حقیقی تعلیمات کے فروغ کے لئے عالمی سطح پر اہم کردار اداکررہی ہو۔ پاکستان چونکہ ایک نظریاتی ملک ہے اور ایک مقصد کے تحت قائم ہوا ہے لیکن آج تک کروڑوں عوام اپنے بنیادی حقوق سے لاعلمی کی بنا پر محروم ہیں اور ایک سازش کی بناء پر بیداری شعور سے محروم رکھا گیا ہے۔ قوم کی یہ تعلیمی پستی ہر مقام ہر پاکستانی عوام کو پست کر رہی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بہترین قدرتی وسائل سے مالا مال کررکھا ہے۔ یہاں وسائل کی کمی ہے نہ ٹیلنٹ کی۔ کمی تو صرف گڈگورننس کی ہے جوکہ نااہل سیاستدانوں کی وجہ سے پاکستان کو نصیب نہ ہوسکی۔ پاکستان کو درپیش مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ قیادت کا فقدان ہے۔ بدقسمتی سے قائداعظم کے بعد اس قوم کو کوئی مخلص، دیانتدار، قابل لیڈر نصیب نہ ہو سکا۔

پاکستان جو پاک لوگوں کی سرزمین ہے اور جس کے قیام کی بنیاد لاالہ الا اللہ کا نظام رائج کرنا قرار پایا تھا جس کی بنیادوں میں شہداء کا لہو شامل ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا شہداء کی قربانیاں رائیگاں جائیں گی؟ کیا پاکستان کے عوام چند مفاد پرست لوگوں کے ہاتھوں کھلونا بنے رہیں گے؟ کیا قیام پاکستان کے مقاصد کبھی پایہ تکمیل کو پہنچے گے؟ کیا یہاں کبھی امن ہوگا؟ انصاف کی بالادستی ہوگی؟ خوشحالی ہوگی؟ اقوام عالم میں پاکستان ایک بلند مقام حاصل کرسکے گا؟ ایٹمی پاور ہوتے ہوئے یہاں لوڈشیڈنگ ختم ہوگی؟ آج ہر شخص کی زبان پر انقلاب اور تبدیلی کی خواہش تو ہے کیا کبھی یہاں حقیقی جمہوری تبدیلی اور فکری انقلاب آسکے گا؟ کیا یہ ملک یونہی زوال اور تنزلی کا شکار رہے گا؟

میرے یہ چند سوالات ہیں جو ساری پاکستانی عوام کے خاموش سلگتے جذبات کی ترجمانی کررہے ہیں۔ مرد مومن مرد حق کہلانے والے کون سی کچھاروں میں جا چھپے ہیں۔ ہمارے حکمران آج دہشت گردی کے خلاف بڑی بڑی تقاریر کررہے ہیں۔ اس ملک کو دہشت گردی کی دلدل میں دھکیلنے والے کون ہیں؟

آج بدقسمتی سے حالت یہ ہوگئی ہے کہ ملت اسلامیہ مختلف طبقوں اور فرقوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔ اجتماعیت کو چھوڑ کر جدا جدا اکائیوں میں تقسیم ہوگئے ہیں۔ آج پارٹی پرچم قومی پرچم سے زیادہ اہم ہوگیا ہے۔ جہاں سینوں پر نعلین پاک کا نقش سجنا چاہئے تھا وہاں آج پارٹیوں اور مسلکوں کے بیج لگ رہے ہیں۔ اپنی اپنی پہچان میں گم ہوجانا انتشار کو جنم دیتا ہے جس سے ملت کی اجتماعی قوت پارہ پارہ ہوجاتی ہے اور پھر فرقہ بندی اور تفرقہ پروری ایسی موت کی طرف لے جاتی ہے جو قرآن کی اصطلاح میں کفر کی موت ہے۔ اسلام ایک آفاقی اور ہمہ گیر دین ہے۔ ہم آہنگی اور رواداری اسلام کی بہت بڑی خوبی ہے۔

ہر درد مند پاکستانی اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ موجودہ حالات میں پاکستان انتہائی پیچیدہ اور لاعلاج امراض میں گرفتار ہوچکا ہے جس کا اشارہ بہت پہلے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دے چکے ہیں۔ اپنی بصیرت سے انہوں نے جان لیا تھا کہ آئندہ حالات کیا ہونے والے ہیں؟ اور کون سا مرض ہے جو اس وقت پاکستان کو لاحق نہیں، کرپشن، لوٹ مار، ظلم و استحصال، جبرو بربریت، لاقانونیت، فرقہ واریت، بدامنی، دہشت گردی، انتہاء پسندی جیسے عفریت منہ کھولے پاکستان کو نگلنے کے لئے تیار ہیں۔ شیخ الاسلام نے بہت پہلے اس کا ادراک کرلیا تھا کہ یہ انتشار، وحدت ملت کو پارہ پارہ کردے گا اس تباہی کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا تھا کہ

’’خدانخواستہ سرزمین پاک پر دشمن کے قدم پہنچ گئے اور وہ اپنے پنجے گاڑنے میں کامیاب ہوگیا توہمارا بھی حشر دوسروں سے مختلف نہ ہوگا پھر جو تباہی ہوگی اس میں نہ کوئی بریلوی بچ سکے گا نہ دیوبندی نہ کوئی اہلحدیث اور نہ کوئی شیعہ‘‘۔

جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان

ان حالات کا ادراک ہمارے حکمران نہ کرسکے۔ یہی وجہ ہے دہشت گردی کا عفریت ہمارے بچوں کو نگل رہا ہے جس کی حالیہ مثال پشاور کے آرمی پبلک سکول میں دہشت گردوں کا حملہ ہے۔ دہشت گردی اور فتنہ خوارج کے نام سے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا تاریخی فتوی اس حقیقت کا ادراک ہی تو تھا کہ دہشت گردی اس وقت پوری دنیا اور بالخصوص ارض وطن پاکستان کا نہایت خطرناک ایشو بن چکا ہے جس کی وجہ سے مسلمان ممالک اور بالخصوص پاکستان کی بدنامی ہوئی۔ اس تحقیقی دستاویز میں قرآنی تعلیمات و احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ و فقہ کی آراء میں ان تمام سوالات کا جواب موجود ہے جو دہشت گردی کا باعث بنتے ہیں۔

آج کل دہشت گرد جس بے دردی سے معصوم لوگوں اور بچوں کو خودکش حملوں اور بم دھماکوں سے گھروں، بازاروں، عوامی حکومتی دفاتر، سیکورٹی فورسز، مساجد میں بے گناہ لوگوں کی جانیں لے رہے ہیں وہ صریحاً کفر کے مرتکب ہورہے ہیں۔ وہ دنیا و آخرت کے لئے ذلت ناک عذاب کی وعید ہے اور تمام تر کوششوں کے باوجود وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہورہے ہیں وہ اسلام کا نام لیتے ہیں ان کے حامیوں کے پاس ان کے دفاع کے لئے کوئی شرعی دلیل نہیں ہے جبکہ شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ فرامین نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں ان کو مذاکرات کے نام پر مہلت دینا یا ان کے مکمل خاتمے کے بغیر چھوڑ دینے کی مسلم ریاست کو اجازت نہیں ہے۔

وطن عزیز کے انتہائی سنگین حالات کے گرداب میں پھنسے بے بس پاکستانی عوام کا دم بری طرح گھٹ رہا ہے اور سکون سے سانس لینا بھی دشوار ہوگیا ہے۔ ہر قریہ اور شہر دہشت گردی کی زد میں ہے۔ حکومت سیاسی مصلحتوں کا شکار خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ پڑوسی ملک دشمنی کی راہ پر اترے ہوئے ہیں۔ ملکی معیشت کی رگ کاٹی جارہی ہے۔ گیس، تیل قیمتی معدنیات کے ذخائر کے منصوبوں کی فائلیں پڑے پڑے ارض وطن کے کسی ایسے حقیقی قائد کے منتظر ہیں جو ان فائلوں کو سرخ فیتوں سے نکال کر ملک و قوم کی ترقی کے لئے استعمال کرے۔

ملت اسلامیہ کے حقیقی قائد عوام کی امنگوں کے مرکز شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری عالمی سطح پر نہ صرف ایک جید عالم دین، مفکر اسلام، مفسر قرآن و حدیث کے ناطے پہچانے جاتے ہیں بلکہ حقیقی معنوں میں آپ کا شمار ماہر قانون اور مدبر سیاستدان کی حیثیت سے بھی ہوتا ہے۔ جنہوں نے سیاست نہیں ریاست بچاؤ کا نعرہ لگایا۔ یہ کیسا نعرہ تھا جو اس وقت سمجھ میں نہ آیا لیکن وقت نے اس کی حقیقت اور فلسفہ کو آشکار کردیا کہ جب تک سیاست کرپشن، دھن دھونس اور دھاندلی سے پاک نہیں ہوگی ملک میں تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ چند افراد کے ہاتھوں عوام جب تک فٹ بال بنی رہے گی ہوش ربا مہنگائی حقیقی جمہوریت نہیں لاسکے گی۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ اب بھی وقت ہے دیر نہ کی جائے اور شیخ الاسلام کے افکار کو سمجھنے کے لئے ان کے خطابات، ان کی تحاریر، ان کی تقاریر سے ان کے وژن کو سمجھا جائے۔ خواب غفلت سے بیدار ہوکر حریت اور خودداری کا درس لیا جائے۔ اسی قیادت کا انتخاب کیا جائے جس کی آفاقی قیادت کی خوشخبری اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے یوں سنائی تھی کہ ’’اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفوی ہے‘‘ جس کی نوائے انقلاب یہی ہے کہ

اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امراء کے درو دیوار ہلادو

سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقش کہن تجھکو نظر آئے مٹادو