راضیہ نوید

قائداعظم اور قائد انقلاب کے فرمودات کی روشنی میں

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

آج سے کئی برس پہلے علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے ایک ایسی سرزمین کا خواب دیکھا جس میں مسلمان اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرسکیں جس کا معاشی، معاشرتی، اقتصادی، عدالتی اور سیاسی نظام عین اسلامی تصورات کے مطابق ہو۔ تحریک پاکستان کے دوران قائدین اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے کہ وہ جس سرزمین کے حصول کی جدوجہد کررہے ہیں اس کا مقصد اور ہدف کیا ہے اور کس نظریے کی بنیاد پر یہ جدوجہد آگے بڑھ رہی ہے؟ علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے تصور پاکستان کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ نے بطور ایک قائد کے اپنی تمام زندگی اس مقصد کے لئے وقف کی اور پاکستان بنانے میں کامیاب ہوئے مگر آج وہ سرزمین مسائل کی دلدل میں پھنستی چلی جارہی ہے۔ تمام تر رکاوٹوں کے باوجود پاکستان ایک نئی مملکت کی حیثیت سے دنیا کے نقشہ پر ابھرا مگر ایک خودغرض اور مفاد پرست طبقہ جو قیام پاکستان کے خلاف تھا وہ پوری قوم کے سر پر مسلط کردیا گیا اور آج ملک عزیز میں کسی کی جان، عزت، آبرو، مال کچھ بھی محفوظ نہیں ہے۔

میری اس تحریر کا مقصد تاریخ کے جھروکوں سے کچھ ایسی باتوں کو سامنے لانا ہے جو شاید بہت کم قوم کے سامنے رکھی گئیں اور پھر عصر حاضر میں ابھرنے والی انقلابی آواز ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے کردار کو واضح کرنا ہے تاکہ قوم خواب غفلت کی گہری نیند سے بیدار ہوکر اپنے ہوش و حواس کے ساتھ مستقبل کا فیصلہ کرسکے۔ 8 جون 1941ء کو بنگلور کے استقبالیے میں تقریر کے دوران قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا:

’’ماضی میں بہت سے رہنماؤں نے مسلم قیادت کے نام پر آپ کا استحصال کیا۔ آپ اس امر کو ملحوظ خاطر رکھئے کہ یہ باب ابھی تک ختم نہیں ہوا۔ میں آپ کو تنبیہ کرتا ہوں کہ یہ ایسے لوگ ہیں جن کا ایک قدم ایک کیمپ میں ہے اور دوسرا قدم دوسرے کیمپ میں۔ لہذا آپ کو اپنے رہنماؤں کے انتخاب میں بہت احتیاط سے کام لینا ہوگا‘‘۔

اسی طرح اسی موقع پر آپ نے فرمایا:

’’لیکن میں آپ کو بتادوں کہ یہ دیکھنا تو آپ کے ہاتھ میں ہے کہ آخر کار آقا آپ ہی ہیں۔ بسا اوقات خودغرضی، ذاتی مفاد یا ذاتی توقیر کی خاطر ہم اپنے نمائندوں یا اپنے رہنماؤں یا وزیروں سے دھوکہ کھاجاتے ہیں لیکن ٹھوس اور متحد رائے عامہ سے زیادہ طاقتور اور موثر کوئی شے نہیں۔ آپ جیسا چاہیں اپنے رہنماؤں کو بناسکتے ہیں یا برباد کر سکتے ہیں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ دوسرے ملکوں میں بھی ایسا ہوتا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا ملک تو ایسے لوگوں سے بھرا پڑا ہے جن کا ایک پاؤں یہاں ہے، ایک پاؤں دوسری جگہ ہے اور ایک پاؤں تیسری جگہ ہے اور ان کے قول اور فعل موقع کی مناسبت سے ہوتے ہیں۔ ان لوگوں سے خبردار رہیں اور جب آپ کو وہ تربیت، تعلیم اور تجربہ حاصل ہوجائے جس کے ذریعے سے آپ صحیح رہنما چن سکیں تو آپ کا کام آدھا ہوگیا‘‘۔

قائداعظم محمد علی جناح کے ان فرمودات کو سامنے رکھتے ہوئے میں قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی سوچ اور فکر کو بھی تحریر کرنا چاہتی ہوں جو انہوںنے 23 دسمبر 2012ء کو دی۔ آپ نے اپنی تقریر میں فرمایا:

’’۔۔۔ لوٹ مار، کرپشن، اجارہ داری، دھن، دھونس اور دھاندلی کا نام ہم نے سیاست بنارکھا ہے، اس سیاست سے ریاست کو نہیں بچایا جاسکتا، آج ریاست کمزوری کے آخری مقام تک جاپہنچی ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ کیا سیاست اس عمل کا نام ہے کہ اس ملک کے کروڑوں غریب لوگ بھوک، غربت اور افلاس کی آگ میں جلیں اور پانچ پانچ سال تک پارلیمنٹ میں بیٹھنے والی سیاسی حکومتیں ان کی غربت و افلاس کے خاتمے کا ایجنڈہ تیار نہ کرسکیں۔ کیا یہ سیاست ہے؟ کیا یہ سیاست ہے کہ خود تو سیاسی لیڈر سینکڑوں کنال پر مشتمل گھروں اور محلات میں رہیں اور اربوں کھربوں روپے روزانہ ان کے محلات پر خرچ ہوں اور کروڑوں غریبوں کو اس ملک میں کھانے کے لئے لقمہ نہ ملے؟ تن ڈھانپنے کے لئے لباس نہ ملے اور سر چھپانے کے لئے گھر نہ ملے، کیا اس کا نام سیاست ہے؟ میں اس کو مسترد کرتا ہوں‘‘۔

آپ نے انہیں لٹیروں، وڈیروں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں، ظالم رہنماؤں کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے انتخاب کے حوالے سے قوم میں شعور و آگہی کی مہم چلائی اور آئین میں موجود آرٹیکل 62 اور 63 کو ان کی مکمل روح کے ساتھ نافذ کرنے پر زور دیا۔ آپ نے کہا: آرٹیکل 62 کہتا ہے:

  1. پہلی شرط یہ ہے کہ وہ دانا اور قابل ہو۔
  2. دوسری شرط یہ ہے کہ نیک سیرت ہو۔

ایمان سے کہیے سارے Elect ہونے والے ممبرانِ اسمبلی کچھ لوگوں کو چھوڑ کر، کیا نیک سیرت ہیں؟ کیا آپ شہادت دیتے ہیں کہ ان میں شرابی نہیں ہیں؟ ان میں قاتل نہیں ہیں؟ ان میں غنڈے اور دہشت گرد نہیں ہیں؟ ان میں ٹیکس چور نہیں ہیں؟ ان میں قوم کا خزانہ لوٹنے والے نہیں ہیں‘‘؟

اس معاشرے میں غریب کے پاس طاقتور کے خلاف آزادی سے رائے دینے کا اختیار کب ہے؟

قائداعظم محمد علی جناح نے 1941ء میں اپنی تقریر میں جس قیادت کا ذکر کیا تھا وہ یہی قیادت تھی وہ وعدے کرنا تو جانتی ہے مگر وعدے نبھانا نہیں۔ آج بھی یہی ایک فی صد طبقہ 99 فی صد افراد کے مقدر پر ناگ بن کر بیٹھا ہے اور صرف اسی نظام کا مددگار ہے جو غریبوں کا استحصال کرکے صرف ان کے حقوق کا تحفظ کرنے والا ہو۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری بھی اس نتیجہ پر پہنچے کہ جب تک اس کرپٹ مافیا سے جان نہیں چھوٹتی تب تک ملک کی تقدیر بدلنا ناممکن ہے اور ان سے چھٹکارے کے لئے نظام کی تبدیلی ناگزیر ہے اور آئین کا اطلاق اپنی تمام تر روح کے ساتھ ضروری ہے جسے یہ رہنما نافذ ہونے نہیں دیتے۔

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری پاکستان کے تمام مسائل کا ذمہ دار اس نظام سیاست و حکومت اور رہنماؤں کو ٹھہراتے ہیں اور اس سے چھٹکارے کا حل بھی تجویز کرتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں:

یہ تمام خرافات اس کرپٹ نظام کی پیداوار ہیں۔ اگر پاکستان میں حقیقی جمہوریت چاہتے ہو تو اس نظام کے خلاف بغاوت کرنی ہوگی اور اس کو اٹھا کر پھینکنا ہوگا۔ لہذا نظام بدلو، تب پاکستان کی تقدیر بدلے گی۔

تمہیں زندگی بھیک میں کوئی نہیں دے گا۔ اگر تبدیلی چاہتے ہیں تو نکلنا ہوگا اور اپنا حق چھیننا ہوگا۔ باقی ملکوں میں لوگوں نے جانیں دی ہیں، خون بہائے ہیں، مگر ہم خون خرابہ اور ہم بدامنی نہیں چاہتے۔ ہم نے اٹھارہ کروڑ غریبوں کا مقدر سنوارنا ہے‘‘۔

غریبوں کا مقدر سنوارنے، نظام تبدیل کرنے اور انقلاب لانے کا عزم لے کر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کے لئے نکلے اور پانچ دن دھرنا دیا۔ پانچ دن پاکستانی قوم کو اپنا مقدر بدلنے کے لئے گھروں سے نکلنے کی دعوت دیتے رہے اور بالآخر حکومت وقت سے انتخابی اصلاحات کا معاہدہ کرکے واپس آئے۔ 11 مئی 2013ء کو منعقدہ انتخابات کا بائیکاٹ کیا اور ملک گیر دھرنا دیا کیونکہ آئین کی سر عام دھجیاں بکھیری گئی تھیں اور وہی لٹیرے اور غریبوں کا خون چوسنے والے انتخابات لڑ رہے تھے۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے اعلان انقلاب اور بروقت متنبہ کرنے کے باوجود عوام کی اکثریت نے ووٹ ڈالا، دھاندلی بھی کھلم کھلا ہوئی جس کے نتیجے میں وہی ایک فی صد اشرافیہ کا طبقہ اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہوا۔ حکومت بھی ان کی حزب اختلاف بھی وہی۔

کاش! اس قوم نے قائداعظم محمد علی جناح کے فرمان کو سامنے رکھ کر ڈاکٹر طاہرالقادری کا ساتھ دیا ہوتا جنہوں نے فرمایا تھا کہ یہ طبقہ کبھی ایک کیمپ میں ہوتا ہے اور کبھی دوسرے کیمپ میں یعنی کبھی ایک پارٹی تو کبھی دوسری پارٹی۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کی کاوشوں نے قیادت کو عوام کے سامنے بے نقاب کیا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا ساتھ نہ دینے کا خمیازہ عوام پچھلے تقریباً ڈیڑھ سال سے بھگت رہی ہے۔ اور اب حالات یہ ہیں کہ یہ ملک بیرونی قرضوں میں ڈوب چکا ہے اور ہر پیدا ہونے والا بچہ اسی ہزار روپے سے لے کر ایک لاکھ روپے تک کا مقروض ہے۔ گینگ ریپ کے کیسز میں اس قدر اضافہ ہوا کہ سال 2014ء میں ان کی تعداد صرف پنجاب میں6100 ہوگئی۔ سٹریٹ کرائمز کی تعداد 36 لاکھ تک پہنچ گئی۔ دہشت گردی کی وجہ سے ساٹھ ہزار معصوم اور مظلوم جانیں لقمہ اجل بنیں اور عالمی سطح پر ملک کی بدنامی ہوئی۔ اس نااہل، مفاد پرست قیادت (جس کی طرف قائداعظم محمد علی جناح نے بھی اشارہ فرمایا تھا) کی وجہ سے پوری قوم مصائب و آلام کا شکار ہے اور عالمی سطح پر ملک پاکستان تیسرے درجے کے ممالک میں بھی سب سے نچلی سطح پر چلا گیا ہے۔ اپنے ملک میں رہتے ہوئے بھی عوام خوف و ہراس اور بے یقینی کے ماحول میں ہیں۔ نااہل قیادت کو اپنے ہاتھ مضبوط کرنے، بادشاہت قائم کرنے، عوام کو لوٹنے، ملک کو کمزور کرنے، کرپشن کرنے اور غریبوں کا خون چوسنے سے فرصت نہیں ہے۔ حالات روز بروز تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

قائداعظم محمد علی جناح نے 24 مارچ 1943ء کو دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے ایک اجلاس سے خطاب کے دوران فرمایا:

’’میں ضروری سمجھتا ہوں کہ زمینداروں اور سرمایہ داروں کو متنبہ کردوں کہ اس طبقے کی خوشحالی کی قیمت عوام نے ادا کی ہے۔ عوام کا استحصال کرنے کی روش خون میں رچ بس گئی ہے۔ وہ اسلامی احکام کو بھول چکے ہیں‘‘۔

قائداعظم محمد علی جناح نے تقریباً 72 برس پہلے اس قوم کے سامنے ان رہنماؤں کے چہرے بے نقاب کردیئے تھے اور آج وہی پیغام قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری پوری قوم تک پہنچا رہے ہیں کیونکہ وہ مسائل کی جڑ سے واقف ہیں۔ غریب کو برابری کی بنیاد پر جاگیردار اور اشرافیہ طبقے کے روبرو کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کو اصل شکل میں لانا چاہتے ہیں۔ غربت، بے روزگاری، معاشی اور سیاسی استحصال کو جڑ سے اکھاڑنا چاہتے ہیں مگر قوم کے مقدر کو بدلنے کے لئے انہیں قوم کی مدد عملی صورت میں چاہئے اور اگر قوم نے یہ موقع گنوادیا تو پھر

تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں

پوری قوم سے سوال صرف اتنا ہے کہ جو لوگ 67 برس سے ہمارا مقدر نہیں بدل سکے، جو قیام پاکستان کی مخالفت کرنے والے تھے، جو غیروں کے ہاتھ میں ملک بیچنا چاہتے ہیں، جن کے نزدیک قومی حمیت و غیرت کوئی معنی نہیں رکھتی جو ملکی اقتدار پر صرف لوٹ کھسوٹ کیلئے بیٹھتے ہیں، جن کی ترجیح کبھی بھی غریب نہیں رہا، کیا وہ قوم کے لئے کچھ کریں گے؟۔۔۔

نہیں، کبھی نہیں۔ لہذا ہمیں خود اٹھنا ہے، ہمت کرنی ہے، آگے بڑھنا ہے، اپنا حق چھیننا ہے، ارض وطن کو بچانا ہے، اپنا مقدر بدلنا ہے اور اس سب کے لئے ہمیں متحد ہوکر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی صدائے انقلاب پر لبیک کہنا ہوگا اور سرزمین پاکستان کو بچانا ہوگا۔ آج بھی پاکستان عوامی تحریک انقلاب کے مشن کو آگے لے کر بڑھ رہی ہے لہذا مایوس نہیں ہونا، تھکنا نہیں، ہمت نہیں ہارنی بلکہ آگے ہی آگے بڑھتے چلے جانا ہے، اپنے حقوق کی جنگ لڑنی ہے اور فتح یاب ہونا ہے۔کل کے وڈیرے، جاگیردار اور اشرافیہ پاکستان کے مخالف کھڑے تھے مگر ایک قائداعظم تمام تر مخالفتوں کے باوجود پوری قوم کی مدد سے قیام پاکستان میں کامیاب ہوگئے اور آج بھی ایک قائد انقلاب ملک لوٹنے والے، عوام کے حقوق غصب کرنے والے رہنماؤں کے سامنے چٹان بن کر کھڑے ہیں۔ کل کی طرح آج بھی انہیں عوام کی طاقت کی ضرورت ہے تاکہ ملک اور عوام دشمن طاقتوں سے ملک چھین کر اصل قیادت کے ہاتھوں میں دیا جاسکے اور ملک پاکستان دنیا میں باعزت اور باوقار مقام حاصل کر سکے۔

اک ہی شخص چلا تھا جانب منزل
قافلے ملتے گئے کارواں بنتا گیا