سب گوارا ہے تھکن، ساری دکھن، ساری چبھن

فریدہ سجاد (ریسرچ سکالر)

19 فروری قائد ڈے کے موقع پر ہر سال کی طرح اس سال بھی جب قلم اٹھایا تو یہ احساس ہوا کہ ڈاکٹر صاحب کی زندگی کے نشیب و فراز کی داستان بہت طویل ہے۔ جنہیں چند صفحات میں سمیٹنا ممکن نہیں۔

ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمۃ اللہ علیہ  نے 1948ء میں مقام ملتزم پر غلافِ کعبہ کو تھام کر آنسوؤں کی برسات میں دعا مانگتے ہوئے عرض کیا تھا:

’’باری تعالیٰ ایسا بچہ عطا کر جو تیرے دین کی معرفت کا حامل ہو، جو دنیا اور آخرت میں تیری بے پناہ عطا و رضا کا حق دار ٹھہرے اور فیضانِ رسالت مآب  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے بہرہ ور ہوکر دنیائے اسلام میں ایسے علمی و فکری اور اخلاقی و روحانی انقلاب کا داعی ہو، جس سے ایک عالم مستفید ہوسکے۔‘‘

آپ کے الفاظ بارگاہ الٰہی میں شرفِ قبولیت پا گئے اور 19 فروری 1951ء کو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ولادت ہوئی۔

قیام پاکستان کے بعد وطن عزیز کے بگڑتے ہوئے حالات دیکھ کر آپ نے پاکستان میں پُرامن، سبز، جمہوری، عوامی اور فلاحی انقلاب جو پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں بھری شاہراہ ہے، کا انتخاب کیا۔ سچ بات تو یہ ہے کہ میں کوئی لکھاری نہیں ہوں البتہ اس تحریک کی سر گرم رکن اور محب وطن شہری ضرور ہوں۔ راقمہ نے اپنی تحریکی زندگی کے 25 سالوں میں ڈاکٹر صاحب کی لازوال قربانیوں کا مطالعہ کیا اور خصوصاً 2014 جو آپ کے کارکنان اور بالخصوص آپ کے لیے تکالیف سے بھر پور، کٹھن اور صبرآزما تھا، خرابی صحت کے باوجود آپ کا تکمیل پاکستان کے سفر پر رواں دواں دکھائی دینا یہ آپ کی عظیم قائدانہ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

آپ کی سالگرہ کے موقع پر میرے ساتھ یقیناً ہروہ شخص جو وطن عزیز کی تقدیر بدلنا چاہتا ہے۔ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں آپ کی صحت اور درازی عمر کے لئے دعا گو ہے کہ

رب قادر میرے طاہر کو سلامت رکھنا
کربلاؤں کے مسافرکو سلامت رکھنا

جو لگاتا ہے صدا دین کے بازاروں میں
اس دل و جان کے تاجر کو سلامت رکھنا

الحمد للہ میں اور میری فیملی گذشتہ 30 سال سے نہ صرف اس تحریک سے وابستہ ہیں بلکہ مصطفوی انقلاب کے اس فیصلہ کن معرکہ میں استقبال قائد 23 دسمبر ِ2012 سے لے کر تادم تحریر ہر محاذ پر پہلی صف میں شرکت کی سعادت بھی حاصل رہی ہے اور اللہ کے فضل و کرم سے ہمارا عزم و حوصلہ ہر لمحہ ذود افزوں ہے۔

سب گوارا ہے، تھکن، ساری دکھن، ساری چھبن
ایک مقصد کے لئے ہے، یہ سفر جیسا بھی ہے

میرے آرٹیکل کے دو رخ ہیں۔ ایک درخشاں و روشن اور دوسرا بے حد جاں گداز۔ درخشاں و روشن یوں کہ قائد انقلاب اور ان کے جانثار کارکنوں کی قربانیوں کے نتیجے میں قوم انقلاب سے آشنا ہوئی۔

دوسرا رخ نہایت جاں گداز اس حد تک کہ جب بھی میرا دھیان اس طرف جاتا ہے تو میرے جسم پر غم و غصہ کی شدت سے لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ ان تمام شب و روز کے انسانیت سوز اور بھیانک نظارے میری آنکھوں کے سامنے اپنی تمام تر ہیبت اور خشیت کے ساتھ آجاتے ہیں۔ کہ جب حکومت وقت 17 جون 2014 کو اپنے ہی نہتے عوام کے خون کی ندیاں بہا کر تاریخ میں یزیدی کردار رقم کر رہی تھی۔

قائداعظم محمد علی جناح نے اپریل 1946ء بمقام دہلی مسلم ارکان مجالس آئین ساز کے اجلاس میں فرمایا تھا کہ ’’مسلمانوں میں دماغی قابلیت ہے، ذہانت ہے، اہلیت ہے، جرات ہے اور وہ کمالات ہیں جو کسی بھی قوم کے لیے بہت بڑا سرمایہ ہیں البتہ ہندوؤں کے مالی اور اقتصادی غلبے کے باعث مسلمانوں کے ان کمالات میں ضعف در آیا ہے۔اور وہ کردار اعلیٰ کا بھر پور مظاہرہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائے۔ پھر فرمایا کردار ہے کیا؟ کردار ہے عزت نفس کا بلند ترین شعور، یقین کی پختگی، امانت داری، بددیانتی سے بالاہونا اور قوم و ملت کی بہتری کی خاطر ہر لحظہ اپنا سب کچھ لٹا دینے پر تیار رہنا........‘‘

قیام پاکستان کے بعد معماران وطن کا فرض تھا کہ وہ تحریک پاکستان کے ولولے کو بحال رکھتے اور وہ ایسا کر سکتے تھے کیونکہ تکمیل پاکستان کی منزل ابھی باقی تھی۔ ہمارا مقابلہ صنعت، تجارت، طب، تعلیم، عسکریت، سائنس اور نہ جانے کس کس میدان میں تھا۔ اگر حکمران خلوص کے ساتھ تکمیل پاکستان کے لیے اپنی توانائیاں اور اپنے وسائل وقف کر دیتے تو قوم بھی اسی جوش و خروش کے ساتھ اپنے وطن کو سنوارنے میں مصروف رہتی تو ہر ایک کی زبان پہ یہ نغمہ ہوتا۔ ’’وقت فرصت ہے کیا کام ابھی باقی ہے‘‘

جاپان، جرمنی ہمارے سامنے ڈوب کر ابھر رہے تھے۔ کوریا ہم سے بعد میں شروع ہو کر آگے نکل رہا تھا۔ چین ہم سے ایک سال بعد آزاد ہوا اور آج تمام تر دنیا میں اپنا سکہ منوا چکا ہے اور پاکستان کی مسندِ قیادت اپنے منصب کو ضمیر کی خرید و فروخت کا وسیلہ بنا بیٹھی، نتیجتاً مادی نفسا نفسی اور اخلاقی افراتفری کی صورت پیدا ہوگئی۔ انصاف ناپید ہوگیا، ظلم و ستم رواج بن گیا، رشوت خوری اسلوبِ حیات قرار پا گئی۔

67 سالوں میں ملک پاکستان کے ساتھ حکمرانوں نے جو کھلواڑ کیا۔ موجودہ حکمرانوں نے اسے اپنی انتہا پر پہنچا دیا ہے ان حکمرانوں کی نااہلیت اور ذاتی مفادات کے لیے قومی و ملکی مفادات کو داؤ پر لگانے کی پالیسی نے ملک پاکستان کے وقار کو ناصرف عالمی سطح پر مجروح کیا بلکہ اندرونی طور پر بھی عدم استحکام پیدا کیا ہے ۔ چنانچہ انقلاب کا مثردہ جانفزا اس وقت تک فرزندانِ اسلام کو نہیں سنایا جا سکتا جب تک انہیں نظام کی اس تبدیلی کے لئے ذہنی اور فکری طور پر تیار نہ کر لیا جائے، ان کے قلوب و اذہان میں موجود فرسودہ استحصالی نظام کے لئے نفرت نہ پیدا کی جائے اور انہیں باور نہ کرا دیا جائے کہ تم مسلسل ظلم کی چکی میں پس رہے ہو اور اس سے بڑھ کر ظلم یہ کہ تم ظالموں ہی کو نادانستہ طور پر اپنا محسن گردانتے ہو۔ فرد کی ذہنی بیداری ہی صبحِ انقلاب کو قریب تر لا سکتی ہے۔ لہذا آپ نے 17 اکتوبر 1980 کو ادارہ منہاج القرآن کی بنیاد رکھی۔ اپنی عالمگیر تجدیدی کاوشوں کا آغاز کیا۔ پھر 1989 میں عملی سیاست میں حصہ لینے کے لئے پاکستان عوامی تحریک کی بنیاد رکھی۔ 34 سال کے عرصہ میں عملی و فکری ، تحقیقی و تعلیمی میدانوں میں ایسے ایسے ہمہ جہت کارنامے سر انجام دئیے جنہیںتاریخ بلاشبہ سنہری حروف میںلکھتی رہے گی۔ اسی تسلسل میں گزشتہ سال قائدانقلاب کی قیادت میں ان کے کارکنان نے ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘  کا نعرہ لگا کر پورے ملک میں بیداری شعور کی لہر پیدا کی۔

یہ فقط نعرہ نہیں بلکہ ملک و قوم کی حیات ہے۔ کیونکہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک بے ہودہ اور فرسودہ نظام نے ہمارے پاؤں کو زنجیروں سے جکڑ رکھا ہے اب اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ دینے کے لئے ڈاکٹر طاہرالقادری نے نہ صرف پاکستانی عوام کو آئین سے متعارف کروایا بلکہ ان کو ذہن نشین بھی کروایا۔ مزید منہاج القرآن، عوامی تحریک کے جانثار کارکنان اور سوسل سوسائٹی اسی مثبت جمہوری اور آئینی تبدیلی کے لئے بیداریِ شعور مہم میں مصروف ہیں۔ یاد رکھیں انقلاب اس ملک کا مقدر ہے مگر یہ اتنی آسانی سے ممکن نہیں ہے۔ اب ہمیں ان لیٹروں پر اعتماد کرنے کی بجائے خود کو سنبھلنا ہو گا۔کھوٹے اور کھرے، صحیح اور غلط کے درمیان فرق کرنا ہو گا۔ ہمیں پورے نظام کے خلاف آئینی جنگ لڑنا ہو گی۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 9 سے لے کر 40 تک کل 32 آرٹیکلز ہیں جو پاکستان کے بیس کروڑ عوام کو حقوق دیتے ہیں۔ ان 32 آرٹیکلز میں سے ایک بھی نافذ نہیں کیا گیا۔ جمہوریت، وسائل، اقتدار، طاقت اور خوش حالی کو صرف چند خاندانوں تک محدود رکھا گیا، اب ہمیں اسے نیچے ضلعوں، تحصیلوں، یونین کونسلوں اور قصبوں کی سطح تک لے جانا ہو گا تاکہ مظلوم عوام کے گھروں میں آسودگی و خوش حالی آسکے اب ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا انقلاب ایک روشن حقیقت بن چکا ہے جس کو چھپایا نہیں جا سکتا۔ بزدل حکومت نے ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو پاکستان آنے سے روکنے اور لوگوں کو ہراساں کرنے کے لیے طاقت کا بے جا استعمال کیا تاکہ وہ ڈر کر انقلاب کے لیے گھروں سے باہر نہ نکلیں۔

اس کے تسلسل میں 17 جون کو لاہور میں ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ اور منہاج القرآن سیکرٹریٹ کے باہر بیرئیر ہٹانے کی آڑ میں ہونے والا حملہ ریاستی دہشت گردی، قتل و غارت اور حکومتی بربریت و تشدد کی بدترین مثال ہے اقتدار کے نشے میں بد مست حکومتِ پنجاب فرعونی اور یزیدی کردار کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے تمام تر ہتھکنڈے بروئے کار لائی۔ نتیجتاً قربانیوں کا ایک عظیم سلسلہ سانحہ ماڈل ٹاؤن سے شروع ہوا۔ 17 جون کا دن راقمہ کی زندگی کا ایسا دن تھا جس کی درد ناک یادیں آج بھی میرے محسوسات کی دنیا کے رونگٹے کھڑے کر دیتی ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ کارکنان میں سے راقمہ پہلی خاتون تھی جو ڈاکٹر صاحب کے گھر1:00 بجے سب سے پہلے پہنچی اور دیکھتے ہی دیکھتے بہت سی ویمن لیگ کی اور بہنیں ڈاکٹر صاحب کے گھر کے باہر جمع ہونا شروع ہو گئیں۔ ان بہادر مجاہدات نے قیامت کی اس گھڑی میں جو کردار ادا کیا۔ اس کی مثال ملنا نا ممکن ہے۔ رات1:00 بجے سے لے کر اگلی رات10 بجے تک مسلسل19 گھنٹے ہم نے ایسے حالات میں گذارے جس میں درندہ صفت پولیس کی طرف سے بوڑھوں، جوانوں اور عورتوں پر بے رحمانہ لاٹھی چارج کیا گیا، مرکزی سیکرٹریٹ، گوشہ درود، اور قائدِ انقلاب کے گھر پر، آنکھوں اور گلوں کو کاٹ دینے والی زہریلی آنسو گیس کی شیلنگ سے لے کر اندھا دھند سیدھی فائرنگ اور زخموں سے چور تڑپتے جسموں نے اپنا خون دے کر تحریک، قائد اور مشن سے وفاداری کا حق ادا کیا بعد ازاں ان کی نمازِ جنازہ کی ادائیگی تک ہم اپنے زخمی جسموں کے ساتھ چلتی پھرتی زندہ لاشیں نظر آ رہی تھیں۔

اس حکومتی جبر و تشدد کے نتیجہ میں 2 خواتین سمیت 14 افراد نے جامِ شہادت نوش کر کے انقلاب کی بنیاد رکھ دی تھی۔ ان کی نماز جنازہ کے بعد تو ہم بول بھی نہیں پا رہے تھے صرف ایک دوسرے کو دکھ بھری آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اور ہماری آنسوؤں سے بھری آنکھوں میں ریاستی دہشت گردی اور بد امنی کے وہ مناظر تھے جو ہم نے 34 سالہ تحریکی زندگی میں نہیں دیکھے تھے۔ دل پر منوں بوجھ تھا کہ ہم زندہ کیوں بچ گئے ہیں ہم شہید کیوں نہیں ہوئے۔ الیکٹرانک میڈیا نے اس سارے واقعہ اور آپریشن کی مکمل کاروائی عوام پاکستان تک پہنچاتے ہوئے ان حکمرانوں کے کالے کرتوتوں کو قوم کے سامنے عیاں کر دیا۔ جس میں منہاج القرآن کے مختلف شعبوں اور خود ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ میں عورتوں، بزرگوں، بچوں اور نوجوانوں پر اندھا دھند گولیاں برسائی گئیں۔ اس کی مثال پاکستان کی 67 سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ نہتے لوگوں کو چن چن کر مارا گیا اور سب کو کمر سے اوپر گولیاں ماری گئیں جو کہ قانون کی سراسر خلاف ورزی ہے جو دو خواتین اس سانحہ میں شہید ہوئیں ان دونوں کے منہ پر گولیاںلگی تھیں اور ان میںسے ایک کے پیٹ میںبچہ بھی تھا جب اس وحشیانہ کاروائی کی تفصیلات منظرعام پر آئیں تو نہ صرف پورا ملک بلکہ دنیا بھر میںانسانی حقوق میںدلچسپی رکھنے والے عوام نے اس پر شدید احتجاج کیا۔ شہداء کے ورثاء ایف آئی آر لکھوانے کے لیے دھکے کھاتے رہے لیکن ان کی شنوائی نہ ہوئی۔ اس کے برعکس خود پولیس نے ایف آئی آر لکھ کر، وارثوں کے لیے پیروی کے دروازے بھی بند کر دیے۔

دوسری طرف ڈاکٹر صاحب جنہوں نے 34 برس سے اپنے کارکنان کی جس انداز سے محبت و شفقت سے تربیت کی اور ان کو ہر آنے والی مشکلات سے بچائے رکھا۔ ساری عمر خود بھی پُر امن رہے اور اپنے کارکنان کو بھی پر امن رہنے کی تلقین کی۔ پاکستان عوامی تحریک کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ کارکنان نے کبھی بھی حکومتی یا پرائیویٹ املاک پر حملے نہیں کیے۔ PAT  کے کارکنان نے لاشیں اٹھائیں لیکن املاک کو نقصان نہیں پہنچایا قائد انقلاب کے دل سے کوئی پوچھ کر دیکھے کہ ان پر کیا قیامت گزری ہو گی۔ اس مشکل گھڑی میں ڈاکٹر صاحب چاہتے تو پورے ملک میں آگ لگوا سکتے تھے۔ ان کے گارڈز کے پاس بھی لائسنسی اسلحہ تھا اگر وہ چاہتے تو پولیس کو نشانہ بنا سکتے تھے آپ نے اس وقت صبر اور تحمل سے کام لیتے ہوئے فہم و فراست کا ثبوت دیا اور فرمایا:

’’سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہدا کا خون انقلاب کی بنیاد ہے۔ ہم شہداء کے خون سے غداری اور بے وفائی نہیں کریں گے بلکہ قرآن اور قانون پاکستان کے مطابق بدلہ لیں گے‘‘۔

23 جون قائد انقلاب کی آمد

23 جون کو ڈاکٹر صاحب نے پاکستان آنا تھا۔ حکمران جانتے تھے کہ قائد انقلاب کی آمد کے ساتھ ملک پاکستان کی سیاست ایک نیا رخ اختیار کر لے گی۔ عوام کے تیور اور انقلابی ایجنڈے کو دیکھ کر انہیں اقتدار اپنے ہاتھوں سے نکلتا نظر آیا۔ قائد انقلاب کی کردار کشی کے لئے باقاعدہ منصوبہ سازی کرکے پنجاب کے حکمرانوں نے فیصلہ کیا کہ ڈاکٹر صاحب کو سبق سکھانے کا وقت آگیا ہے اور خوو ان کی بد حواسی اور فیصلہ نہ کرنے کی صلاحیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جس طیارہ میں آپ تھے۔ اس نے ایئرپورٹ کے ارد گرد مسلسل 8 چکر لگائے کیونکہ اسے لینڈ کرنے کی اجازت نہ مل سکی بالآخر انہوں نے جہاز کو لاہور کی طرف جانے کا حکم صادر کر دیا۔

کارکنان نے ایک دفعہ پھر اپنے قائد کے استقبال کے لیے اسلام آباد میں حکومتی جبر و بربریت کے سامنے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ نواز حکومت نے ریاستی تشدد کے نئے ریکارڈ قائم کر دیئے بڑی تعداد میں پولیس تعینات کرتے ہوئے دفعہ 144 نافذ کر دی۔

دوسری طرف لاہور اور گرد و نواح سے ہزاروں لوگوں نے اب لاہور ایئرپورٹ کا رخ کر لیا اور چند ہی لمحوں میں لاہور ایئرپورٹ بھی ’’انقلاب، انقلاب۔۔مصطفوی انقلاب‘‘ اور ’’جرات و بہادری۔۔طاہر القادری‘‘ کے نعروں سے گونج رہا تھا۔ ڈاکٹر صاحب طیارے سے باہر آنے کے بعد اپنے کارکنوں کے ہمراہ سب سے پہلے جناح ہسپتال پہنچے اور 17 جون کو پولیس فائرنگ کے باعث زخمی ہو جانے والے کارکنوں کی عیادت کی اور فرمایا: ’’عوامی تحریک کے کارکنوں نے اپنا خون دے کر انقلاب کی بنیاد رکھ دی ہے‘‘۔

بعد ازاں طے پایا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہدا کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے 10 اگست کو یومِ شہدا منایا جائے گا۔ اس موقع پر ڈاکٹر صاحب نے فرمایا۔

’’کارکن اپنے حوصلے بلند رکھیں حکومت کفر سے چل سکتی ہے ظلم سے نہیں۔ یوم شہدا ہو گا۔ شہداء کے لیے آنے والوں کے لیے لگائے گئے ناکے اور رکاوٹیں، غیر آئینی اور غیر اخلاقی ہیں۔ ظالموں کا ظلم زیادہ دیر نہیں رہ سکتا۔ ہمارے کارکن اور عوام جرات کے ساتھ نکلیں اور رکاوٹوں کو ٹھوکر مار کر یہاں تک پہنچیں‘‘۔

حکومت نے ایک دفعہ پھر بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر ماڈل ٹاؤن کی طرف جانے والے تمام راستے سیل کر دیئے۔ یوم شہدا کے لیے آنے والوں پر کریک ڈاؤن شروع کر دیا۔ قافلوں کو روکا گیا۔ لاٹھی چارج کیا گیا۔ ہزار ہا کارکنان کو گرفتار کیا گیا۔ بھیرہ انٹر چینج پر کارکنوں پر سیدھی گولیاں چلائی گئیں۔ سینکڑوں کارکنان زخمی حالت میں سڑک پر تڑپتے رہے۔ پنجاب حکومت نے بے شرمی کی انتہا کر دی۔ لیکن باہمت مرد، خواتین، جوان، بوڑھے اور بچے مختلف راستے اختیار کرتے ہوئے پولیس کو چکما دیتے اور بھوکے پیاسے حکومتی رکاوٹوں کے باوجود آگ اور خون کا دریا عبور کرتے ہوئے مرکزی سیکرٹریٹ ماڈل ٹاؤن پہنچے۔

اب فرعون صفت حکمران اشرافیہ براہِ راست عوام دشمنی پر اتر آئے اور انہوں نے چودہ دن تک ماڈل ٹاؤن کا محاصرہ کیے رکھا۔ ماڈل ٹاؤن کے تمام داخلی اور خارجی راستوں پر کنٹینرز رکھ کر بند کر دیے۔ کھانا، ادویات محصورین کے لیے روک دی گئی جن کی وجہ سے شدید غذائی قلت پیدا ہو گئی۔ حکومت نے ماڈل ٹاؤن کو دو ہفتے تک غزہ بنائے رکھا اور ظلم کی ایسی داستان رقم کی کہ دنیا کی تاریخ ان پر لعنت بھیجے گی۔ لیکن آفرین ان کارکنان، مرد و خواتین، بچوں اور بوڑھوں پر جو لمحہ بھر بھی اف کیے بغیر استقامت اور بہادری کے ساتھ اپنے قائد کے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ اس لئے تاکہ ان چوروں، لٹیروں اور فرعون صفت حکمران اشرافیہ کے خلاف قائد انقلاب کی سربراہی میں تاریخ ساز فیصلہ کرنے کے لئے باہر نکل سکیں۔

انقلاب مارچ

اہل زر، بے دین، سفاک حکومت کا ظلم ابھی ختم نہیں ہوا اور دوسری طرح جانثاروں نے بھی صبر، برداشت، جرات اور قربانی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور ایسی مثالیں قائم کیں جو کسی بھی جماعت یا تحریک میں ملنا مشکل ہیں۔ 14 اگست انقلاب مارچ کے آغاز سے قبل فیصل ٹاؤن، ماڈل ٹاؤن، کلمہ چوک، مڑیاں سٹاپ اور جناح ہسپتال کے تمام راستوں کو کنٹینرز، مٹی، خاردار تاروں، لوہے کے بیئریرز اور منی لوڈر ٹرک لگا کر روک دیا گیا تھا۔

جیسے ہی ڈاکٹر طاہر القادری نے اعلان کیا کہ ابھی تھوڑی دیر میں کاروانِ انقلاب اسلام آباد کے لیے روانہ ہو جائے گا۔ بس اسی وقت پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان ہیرو بن کر میدان میں اترے تو ماڈل ٹاؤن کے باہر تعینات پولیس تتر بتر ہو گئی اور کاروانِ انقلاب کے شرکاء اور کارکنوں نے کنٹینرز سمیت تمام رکاوٹوں کو ہٹا دیا اور قافلہ تین سے چار کلومیٹر پیدل چل کر ماڈل ٹاؤن سے فیروز پور روڈ پہنچا، عوام کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کے سامنے حکومت بے بس ہو گئی اور یوں قافلہ انقلاب اسلام آباد روانہ ہو گیا یہ سوچ کر کہ

چل پڑا ہوں شوقِ بے پروا کو مرشد مان کر
راستہ پر پیچ ہے یا پُر خطر جیسا بھی ہے

وطن عزیز کے غریبوں کا مقدر بدلنے، مرجھائے ہوئے چہروں پر مسکراہٹ لانے، مایوس لوگوں کی زندگیو ں میں نور لانے اور پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے جانثار انقلابی کارکنان نے اپنے عظیم لیڈر ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے ساتھ 70 دن اسلام آباد میں دھرنا دیا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ انوکھا اور طویل دھرنا تھا۔

موجودہ حکومت شروع دن سے ہی ڈاکٹر صاحب کی صاف گوئی سے سخت نالاں رہی ہے اس وجہ سے آپ پر گاہے بگاہے بے بنیاد الزامات لگاتے رہے ہیں۔ کبھی دوہری شہریت کا شوشہ چھوڑا تو کبھی منی لانڈرنگ کا بے بنیاد الزام لگایا، کبھی پیسے دے کر لوگوں کو دھرنے میں بلانے کا مضحکہ خیز الزام دیا گیا تو کبھی حکومت سے ڈیل کیے جانے کا راگ آلاپا گیا۔ مگر وقت نے ثابت کر دیاکہ ڈاکٹر صاحب پر لگنے والے تمام الزامات جھوٹے اور بے بنیاد ہیں۔

آپ کی اسی حق پرستی اور عزم مصمم نے آپ کو اس حد تک بے باک بنا دیا ہے کہ بڑے سے بڑے مخالف اور طعن کرنے والے آپ کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہیں۔

دھرنے کے بارے میں من گھڑت باتیں کرنے والے تو اپنی موت خود ہی مر گئے لیکن شائد کم لوگوں کو علم ہو کہ ڈاکٹر صاحب کی صحبت میں گزرنے والا ہر لمحہ با مقصد اور با معنی سیکھنے کا ایک ذریعہ تھا۔ تقریباً تین ماہ تک چھوٹے سے کنٹینر میں گزرنے والے آپ کے یہ لمحات انتہائی مصروف گذرے۔ 70 دن تک ایک چھوٹے سے کنٹینر میں شب وروز گزارنے والی شخصیت سارا دن مصروف عمل رہتی، مذاکرات، انٹرویوز، خطابات ، آئندہ کے لائحہ عمل پر غور و فکر، اتحادی جماعتوں سے اجلاس، PAT کی کور کمیٹی کے اجلاس ، مختلف احباب سے ملاقاتیں اور دوسری طرف کارکنان کے مسائل حل کرنا اور اس کے ساتھ ساتھ ریاستی مظالم برداشت کرنا، اپنے ساتھیوں کی لاشیں گرتی دیکھنا، زخمیوں کے تڑپتے ہوئے روح فرسا مناظر دیکھنا، ماؤں، بہنوں، بیٹیوں اور بالخصوص بچوں کا کھلے آسمان تلے 70 دن تک تیز دھوپ ، موسلا دھار بارش، اشیائے خورد ونوش کی قلت، حوائج ضروریہ کے لیے بیت الخلا کی کمی کو برداشت کرتے دیکھنا۔ الغرض خواتین کارکنان کی لازوال قربانیوں کے باوجود آپ کا جذبہ ہمیشہ جواں اور حوصلہ بلند ہی رہا۔

وقت نے یہ ثابت کر دیا کہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری مسلم دنیا میں اسلام پر ایک اتھارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ پاکستان کے وہ عظیم لیڈر ہیں جن کی زبان میں اللہ پاک نے وہ تاثیر رکھی ہے کہ آپ منہ سے جو بات نکالتے ہیں وہ پوری ہوجاتی ہے ہم نے دوران دھرنا دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب سے دھرنے والوں کی مشقت برداشت نہیں ہوتی تھی ایک دن آپ فوراً سٹیج پر آئے اور سول سوسائٹی سے اپیل کی کہ شرکاء دھرنا کے لیے خیمے ، چھتریاں، بچوں کے پڑھنے کے لیے کتابیں، کاپیاں اور کھیلنے کے لیے کھلونے، دودھ اور کمبل بھجوائیں۔

پھر چشم فلک نے دیکھا کہ اگلے روز ہی دھرنا مہینوں میں نہیں بلکہ دنوں میں باقاعدہ خیمہ بستیوں میں منتقل ہو گیا۔ ہر خیمے پر pat کے جھنڈے لہرانے لگے، انقلاب مارچ سکول کھل گئے اور بچوں کی کلاسز کا آغاز ہو گیا تاکہ بچوں کا وقت ضائع نہ ہو۔ بچوں کے لئے جھولے لگ گئے۔ دھرنا بستیوں کی اپنی چیک پوسٹیں بن گئیں جہاں PAT کے کارکنان گاڑیاں روکتے اور چیک کرکے آنے اور جانے دیتے۔ شرکاء دھرنا راتوں کو جاگ کر اپنی اور دوسروں کی حفاظت کرنے لگے۔ ہر شخص اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرنے لگا۔ یوں خلق خدا کا راج شروع ہو گیا۔

شرکاء دھرنا اپنا سارا غم بھول جاتے جب ڈاکٹر صاحب گاہے بگاہے چہل قدمی کے لیے کنٹینر سے باہر آتے۔ دھرنے میں موجود کارکنوں میں گھل مل جاتے۔ ان کے مسائل کو سنتے اور موقع پر حل کر دیتے۔ کبھی کھیلتے ہوئے بچوں کو چومتے کبھی ان کو اپنے کندھوں پر بٹھاتے ان کی سالگرہ پر کیک کاٹتے ، خیمہ بستی میں قائم کردہ سکولوں کا جائز لیتے اور کبھی کرکٹ کھیلتے ہوئے نوجوانوں کے ساتھ کھیل میں شریک ہو جاتے ڈاکٹر صاحب کا یہ عمل شرکاء دھرنا کے جذبات اور ولولوں میں کئی گنا اضافہ کر دیتا۔

اور کارکنان کا بھی عالم یہ تھا سب گوارا ہے تھکن، ساری دکھن، ساری چبھن الغرض اپنے قائد سے عہد و وفا نبھانے کے لیے ہر طرح کی قربانی کے لیے تیار تھے۔ مخالفین انہی جانثاروں کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ لوگ نجانے کس چیز سے بنے ہوئے ہیں ان پر سورج کی گرمی کا اثر ہوتا ہے نہ بارش کا اور نہ برسائی گئی بدترین آنسو گیس کا اور نہ ہلاکت خیز گولیوں کا۔ 30 اگست کو اسلام آباد کی تاریخ کے بدترین ریاستی تشدد کے باوجود یہ لوگ اپنے قدموں پر مضبوطی سے ڈٹے رہے کوئی چیز بھی ان کے پایہ استقلال میں لرزش نہ پیدا کر سکی۔ بھوکے، پیاسے، نیند اور آرام سے بے نیاز جان ہتھیلی پر رکھے اس قیامت خیز رات (جو تمام پاکستانیوں نے آنکھوں میں گزار دی ) میں بھی یہ لوگ ریاستی جبرو بربریت کے سامنے سینہ سپر رہے۔ ریڈزون میں PAT کے کارکنان ساری رات دفاعی لڑائی لڑتے رہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان و شرکاء دھرنا اس ناگہانی آفت کو برداشت نہ کر سکے اور ابتداء میں ہی شاہراہ دستور سے چلے گئے۔ پوری رات PAT کے کارکنان نے قائد انقلاب کی ہدایت پر عمران خان کے کنٹینر کو بھی حفاظتی حصار میں رکھا تاکہ بد حواس حکومت ان کی قیادت کو نقصان نہ پہنچا سکے اس دوران کئی کارکن شہید ہو گئے۔ 600 سے زائد زخمی ہوگئے، سینکڑوں کارکن گرفتار کر لیے گئے ۔ خواتین اور بچے بُری طرح متاثر ہوئے۔ راستے پتھروں اور ربڑ کی گولیوں کے خول سے بھر گئے۔ اس قدر تشدد کے باوجود PAT کے کارکنان ڈٹے رہے۔ ایسے ہی کارکنان کی لازوال قربانیاں انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوا کرتی ہیں جنہوں نے استحکام پاکستان کے حق میں نعرے لگائے۔ حکومت کے ظلم کا نشانہ بنے۔ انقلاب کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ کارکنان، مرد و خواتین نے جسمانی اور مالی قربانیاں دے کر نقصانات برداشت کیے۔ ماؤں نے اپنے بیٹے قربان کیے۔ بہنوں نے بھائیوں کی قربانیاں دیں۔ سہاگنوں نے سہاگ لٹائے۔

اس انقلابی جدوجہد کے دوران کارکنان نے ہر حوالے سے قربانیوں کی جو تاریخ رقم کی ہے وہ نہ صرف ہماری تحریک کے ماتھے کا جھومر ہے بلکہ آئندہ آنے والے زمانے میں بھی ہمارے کارکنان کی قربانیاں دیگر جماعتوں اور تنظیموں کے لئے صبر، استقامت اورجہد مسلسل کے باب میں مینارہ نور کی حیثیت کی حامل ہوگی۔

قارئین! ہمیں پختہ ایمان کی طرح اس بات کو دل ودماغ میں بٹھا لینا چاہیے کہ انقلاب مارچ، دھرنا، اس کے بعد انتخابی سیاست تمام حکمت عملی ہے۔ ہمارا مقصد ’’انقلاب‘‘ ہے اور ہم اپنی انقلابی جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹے۔ ہمیں بھول کر بھی ایسا گمان نہیں کرنا چاہیے کہ ہم نے جو قربانیاں دیں، شہادتیں ہوئیں اور جدوجہد کی ان تمام کے باوجود شاید ہم انقلاب سے پیچھے ہٹ گئے ہیں، نہیں! ہم بھی ان مقدس ہستیوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حق کی خاطر... 18 کروڑ غریب عوام کی خاطر... آئین و قانون کی بالادستی کی خاطر... اس ملک میں عدل و انصاف کو قائم کرنے کی خاطر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے ساتھ اپنا سفر انقلاب جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انقلاب کے لئے ہماری جدوجہد جاری تھی، جاری ہے اور جاری رہے گی۔ (ان شاء اللہ)