خواتین کے فقہی مسائل

مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

سوال: عورتیں ایام مخصوصہ (menses) کے دوران زبانی قرآن پاک پڑھ سکتی ہیں یا نہیں۔ اگر نہیں تو معلمہ اور حفظ کرنے والی لڑکیاں ان ایام میں کیا کریں نیز یہ بھی بتائیں کہ کالج اور یونیورسٹی میں لیکچر سن سکتی ہیں یا نہیں اور مقررہ شدہ تاریخوں کے مطابق پیپر دیے جائیں یا چھوڑ دیں؟ وضاحت درکار ہے؟ صفیہ، لاہور

جواب: حائضہ عورت کے لیے قرآن مجید کو براہ راست چھونا، زبانی یا دیکھ کر پڑھنا حرام ہے۔ باقی اس سے متعلق اٹھنے والے چند اہم سولات کے جوابات درج ذیل ہیں:

  1. حدیث پاک میں ہے:

عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ لَا تَقْرَاَ الْحَائِضُ وَلَا الْجُنُبُ شَيْئًا مِنَ الْقُرْآنِ.

’’حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: حائضہ اور جنبی قرآن پاک سے کچھ نہ پڑھیں‘‘۔

(ترمذي، السنن، 1: 236، رقم: 131، دار احياء التراث العربي، بيروت)

امام الفقہ علامہ محمد بن علی بن محمد علاؤالدین حصنی دمشقی المعروف حصفکی اپنی کتاب الدر المختار شرح تنویر الابصار میں لکھتے ہیں :

فيها حيض يمنع صلاة و صوما و تقضيه و دخول مسجد و الطواف و قربان ما تحت اِزار و قرأة قرآن و مسه الا بغلافه و کذا ولا بأس بقرأة أدعية و مسها و حملها و ذکرا الله تعالٰی، و تسبيح و أکل و شرب بعد مضمضة، و غسل يد ولا يکره مس قرآن بکم و يحل و طؤها اِذا انقطع حيضها لأکثره.

’’مدت حیض میں، دونوں خونوں کے درمیان جو پاکی واقع ہو وہ حیض ہی ہے جو نماز و روزہ کے مانع ہے ان روزوں کی قضاء کرے گی۔مسجد میں داخل ہونے، طواف کعبہ اور قربت، تلاوت قرآن اور بغیر غلاف قرآن چھونے کے مانع ہے۔دعائیں پڑھنے، اُنہیں چھونے ان کو اٹھانے، اﷲ کا ذکر کرنے تسبیح پڑھنے، کلی کرنے ہاتھ دھونے کے بعد کھانے پینے سے ممانعت نہیں۔آستین کے ساتھ قرآن چھونا منع نہیں، عورت کے حیض کی زیادہ مدت گذرنے پر اس کی قربت خون بند ہونے کے بعد مکروہ نہیں‘‘۔

(حصفکي، الدرالمختار، 1: 290 - 294، دار الفکر، بيروت)

خاتمۃ المحققین محمد امین عابدین بن عمر عابدین المعروف علامہ شامی کا مؤقف:

أی و لو دون آية من المرکبات لا المفردات، لأنه جوز للحائض المعلمة تعليمه کلمة کلمة کما قدمناه، کالقرآن التوراة و الانجيل و الزبور کما قدمه المصنف فاو قرأت الفاتحة علی وجه الدعاء أو شيئا من الآيات التی فيها الدعاء و لم ترد القرأة لابأ س به کما قدمنا عن العيون لأبی الليث و أن مفهومه أن ماليس فيه معنی الدعاء کسورة أبی لهب لا يؤثر فيه قصد غير القرآنية أی القرآن و لو فی لوح أو درهم أو حائط، لکن لا يمنع اِلا من مس المکتوب، بخلاف المصحف فلا يجوز مس الجلد و موضع البياض منه. و قال بعضهم:يجوز، و هذا أقرب اِلی القياس، و المنع أقرب اِلی التعظيم کما فی البحر:أی و الصحيح المنع کما نذکره، ومثل القرآن سائر الکتب السماوية کما قدمناه عن القهستانی و غيره و فی التفسير و الکتب الشرعية خلاف مر أی کالجراب و الخريطة دون المتصل کالجلد المشرز هو الصحيح، و عليه الفتوی.

’’حیض و نفاس والی اور جُنبی کو قرآن پڑھنے سے منع کیا جائے گا، اگرچہ آیت سے کم ہو مفردات پڑھنے سے منع نہیں کیا جائے گا، اس لیے حیض (و نفاس) والی استانی کے لیے ایک ایک لفظ کر کے تعلیم دینے کو جائز قرار دیا گیا ہے جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے۔جیسے قرآن، تورات، انجیل، زبور سے جیسے مصنف نے پہلے ذکر کیا ہے۔سو اگر تم نے فاتحہ بطور دعا پڑھی یا قرآن کی دیگر آیات دعائیہ اور ارادہ قرات کا نہ تھا، اس میں حرج نہیں جیسا کہ ابو اللیث سمر قندی کی کتاب العیون کے حوالہ سے ہم نے بیان کیا اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جس آیت میں دعاء کے معنٰی نہیں مثلاً سورۃ لہب، اس میں غیر قرآن کا ارادہ و قصد مؤثر نہیں گو تختی، درہم (سکہ) یا دیوار ہو۔ ہاں ممانعت صرف تحریر کو ہاتھ لگانے سے ہے۔غلاف مصحف کو، نہ اس کی جلد کو ہاتھ لگانا جائز ہے اور نہ سفید خالی جگہ کو۔بعض نے کہا خالی جگہ کو ہاتھ لگانا جائز ہے یہ قیاس و عقل سے زیادہ قریب ہے اور ممانعت تعظیم سے قریب تر ہے جیسا کہ بحر الرائق میں ہے یعنی صحیح یہ ہے کہ ہاتھ لگانے سے منع کیا جائے گا جیسا کہ ہم اس کا ذکر کریں اور قرآن کریم کی طرح ہی باقی آسمانی کتابوں کا حکم ہے جیسا ہم نے ’’قُہستانی‘‘ وغیرہ سے پہلے ذکر کیا ہے کتب تفسیر و کتب شرع کے بارے میں اختلاف گذر چکا ہے یعنی جیسے جراب، تھیلہ، ٹاکی جو باہم متصل نہیں مثلاً اکھڑی ہوئی جلد، اس کا حکم یہی ہے جو مذکور ہوا اور اسی پر فتویٰ ہے‘‘۔

(ابن عابدين شامي، ردالحتار، 1: 293، دار الفکر للطباعة والنشر - بيروت)

امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرّہ کے خلیفہ وتلمیذ خاص علامہ امجدعلی اعظمی مرحوم اپنی شہرہ آفاق کتاب میں لکھتے ہیں:

’’معلمہ کو حیض یا نفاس ہوا تو ایک ایک کلمہ سانس توڑ توڑ کر پڑھائے اور ہجے کرانے میں کوئی حرج نہیں‘‘۔

(علامہ محمد امجد علی اعظمی حنفی قادری، بہار شریعت، 2: 73، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور)

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا حائضہ قرآن پاک کی تلاوت نہیں کر سکتی اگر معلمہ ہو تو spelling کروا سکتی ہے۔مثلاً عَلَّمَ الْقُرْاٰن دو الفاظ ہیں، عَلَّمَ کو الگ ادا کرے گی اور الْقُرْاٰن کو الگ نہ کہ ملا کر۔

  1. لڑکیوں کو حفظ کروانے کی ضرورت نہیں ہے اس کی بجائے ان کے لیے ترجمہ تفسیر اور دیگر دینی معاملات کی تعلیم ضروری ہے جو ان کی عملی زندگی میں زیادہ فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔
  2. حائضہ کلاس میں بیٹھ کر وہ لیکچر لے سکتی ہے کیونکہ سننے اور الفاظ کو تصور میں لانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
  3. آج کل Boards اور Universities کی مقرر کردہ Date Sheet کے مطابق امتحانات دینے والی لڑکیاں اسلامیات اور دیگر ایسے مضامین کے پیپر دے سکتی ہیں جن میں قرآنی آیات لکھنی ہوتی ہیں کیونکہ حائضہ عورت ایسے کپڑے یا کسی اور چیز سے قرآن پاک کو چھو سکتی ہے جو اس سے متصل نہ ہو۔ لہٰذا پیپر میں آیات لکھتے وقت قلم درمیان میں حائل ہوتا ہے۔فقط