کہتی ہے خلق خدا تجھے، کیا؟۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا؟

ڈاکٹر ابوالحسن الازہری

6۔ طاہرالقادری کے دلائل اور استدلال میں روانی ہے: (محمود شام روزنامہ جناح)

مرد ہوں یا خواتین، بزرگ ہوں یا نوجوان، لڑکے ہوں یا لڑکیاں، بچے ہوں یا بچیاں لوگ اپنا گھر چھوڑ کر یہاں اسلام آباد دھرنے میں آئے ہوئے ہیں ان کے چہروں پر تھکن نہیں، آنکھوں میں بیزاری نہیں، یہ پیشانی چمک ہے اور ایک جذبہ ہے اور ایک عزم ہے۔

جب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اپنا علم سے مملو، عوامی اور پرجوش خطاب کرتے ہیں تو ان کے کارکن اور عام شہری بہت غور سے اور بہت خلوص سے ہمہ تن گوش ہوکر انہیں سنتے ہیں۔ ان کی مرصع مسجع اردو، لہجے کا اتار چڑھاؤ۔ استدلال میں روانی، سارے پاکستانی سن رہے ہیں اور دیکھ رہے ہیں۔ قائد اور انکے کارکنوں کو مل کر اور دیکھ کر محسوس ہورہا ہے کہ عزائم پختہ ہیں اور ارادوں میں استقامت و جرات ہے۔

7۔ ’’دھرنا‘‘ طاہرالقادری نے سیاست میں ایک نئی روایت قائم کی ہے: (محمود شام روزنامہ جناح)

دھرنا، پاکستانیوں کے لئے یہ ایک بالکل نئی روایت قائم ہورہی ہے۔ پہلے لمبے جلوس نکلتے رہے ہیں اور کئی کئی گھنٹے جلسے چلتے رہے ہیں لیکن مسلسل ایک ہی جگہ دھرنے کا تجربہ کبھی نہیں ہوا تھا۔ حکومت، میڈیا اور عام پاکستانیوں کے لئے یہ ایک بالکل نیا منظر نامہ ہے۔ دھرنے کے شرکاء کی بھی ہمت ہے اور دھرنے کے دونوں قائدین کا بھی حوصلہ ہے۔ اسلام آباد میں پاکستان عوامی تحریک کا دھرنا موسلا دھار بارشوں، پولیس کی آنسو گیس شیلنگ، لاٹھی چارچ، تین کارکنوں کی شہادت اور 500 کے قریب کارکنوں کے زخمی ہونے کے باوجود جاری رہا اور یہ ہزاروں حتجاجی انقلابی کارکن دھرنے کے آخر تک اپنے اپنے خیموں میں ثابت قدمی کے ساتھ موجود رہے۔

8۔ طاہرالقادری نے خطابت میں سب لیڈروں کو مات دے دی ہے: (مظہر برلاس روزنامہ جنگ)

دھرنے کے دوران ریڈ زون میں ڈاکٹر طاہرالقادری کا خطاب پوری آب و تاب سے جاری رہتا ہے۔ انہوں نے خطابت میں سب لیڈروں کو مات دے دی ہے۔ ان کی تقریروں کا جادو سر چڑھ کے بول رہا ہے۔ ان کی آواز کا سحر اس قدر طاقتور ہے کہ مخالفین کی صف میں بھی کھلبلی مچادیتا ہے۔ اس حقیقت کا اظہار پچھلے دنوں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بھی کیا ہے۔ چوہدری صاحب فرماتے ہیں کہ اگر میں بھی پندرہ منٹ قادری صاحب کا خطاب سن لوں تو میرا دل بھی چاہتا ہے کہ جاکے نعرے لگانا شروع کردوں۔

ایک زمانہ تھا جب میاں نواز شریف اور شہباز شریف دونوں بڑے شوق سے ڈاکٹر طاہرالقادری کے خطابات سنا کرتے تھے۔ عالم اسلام کے اس عظیم اسکالر کو خدا نے خطابت میں مرتبہ عالی سے نواز رکھا ہے اور علم کی روشنی بخش رکھی ہے اور اس نے اہل بیت کرام سلام اللہ علیہم سے محبت کو اپنے قلب میں جذب کررکھا ہے اور یوں سینے میں سموئی ہوئی محبت اکثرو بیشتر زبان پر رہتی ہے۔

9۔ طاہرالقادری نے ’’سٹیٹس کو‘‘ کو چیلنج کیا ہے: (اصغر عبداللہ۔ روزنامہ ایکسپریس)

ڈاکٹر طاہرالقادری کا ’’جرم‘‘ یہ ہے کہ انہوں نے سیاست میں ’’سٹیٹس کو‘‘ کو چیلنج کیا ہے۔ نتیجتاً پارلیمنٹ کے اندر اور باہر تمام سیاسی اور غیر سیاسی پارٹیاں جن کے مفادات ’’سٹیٹس کو‘‘ سے وابستہ ہیں، ان کے خلاف متحد ہوچکی ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی جو خود کو اسلامی انقلابی پارٹی کہتی ہے وہ بھی پیپلز پارٹی کے شانہ بہ شانہ مصالحت کاری کے نام پر ن لیگ کی حکومت کو ریسکیو کررہی ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان نے ’’سٹیٹس کو‘‘ کو چیلنج کرکے جو ’’جرم عظیم‘‘ کیا ہے وہ واقعتا ’’ناقابل معافی‘‘ ہے۔ ان کی حالیہ جدوجہد کا نتیجہ جو بھی ہو پاکستان کی اڑسٹھ سالہ تاریخ میں سٹیٹس کو کے خلاف ان کی یہ انقلابی جدوجہد تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔

ڈاکٹر طاہرالقادری نے جب 23 سال پہلے پاکستان عوامی تحریک قائم کی، تب بھی ان کا یہی مطالبہ تھا اور آج بھی ان کا یہی مطالبہ ہے۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ پاکستان کی اڑسٹھ سالہ تاریخ میں ڈاکٹر طاہرالقادری پاکستان کے پہلے مذہبی رہنما ہیں جنہوں نے اپنی سیاست کی بنیاد اسلام کے سماجی مساوات اور انصاف کے تصور پر رکھی ہے۔

10۔ طاہرالقادری رکاوٹوں کی پرواہ نہیں کرتے: (اصغر عبداللہ۔ روزنامہ ایکسپریس)

جب میں14 اگست کی صبح کو ماڈل ٹاؤن لاہور پہنچا تو اس کے اردگرد پولیس کا حصار دیکھا تو یہ تصور کرنا مشکل تھا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری یہ حصار توڑنے میں کامیاب ہوں گے لیکن وہ اس قدر پرسکون نظر آتے تھے جیسے ماڈل ٹاؤن کے اردگرد پولیس کا کوئی حصار اول تو سرے سے موجود ہی نہیں ہے اور اگر موجود ہے تو ان کے نزدیک وہ بالکل بے وقعت ہے۔ میں نے ایک دو شرکاء سے پوچھا کہ آپ کیسے باہر جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب قائد کا حکم ہوگا تو کوئی ہمارا راستہ نہیں روک سکے گا۔ حقیقتاً ہوا بھی یہی جیسے ہی ڈاکٹر طاہرالقادری نے باہر آکے اعلان کیا کہ ابھی تھوڑی دیر میں کاروان انقلاب، اسلام آباد کے لئے روانہ ہوجائے گا تو ماڈل ٹاؤن کے باہر تعینات پولیس تتر بتر ہوگئی اور کچھ ہی دیر میں وہاں پولیس کا نام و نشان تک نہ تھا۔

11۔ طاہرالقادری کی صرف خواتین ورکرز کا بھی کوئی جماعت مقابلہ نہیں کرسکتی: (زمرد نقوی۔ روزنامہ ایکسپریس)

پاکستان عوامی تحریک کی کارکن خواتین نے جس طرح سارے حالات کا خندہ پیشانی کے ساتھ مقابلہ کیا ہے وہ حیرت انگیز اور ناقابل یقین ہے اور اب یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی ان خواتین ورکرز کا مقابلہ شاید ہی کوئی دوسری سیاسی جماعت کرسکے۔ یہ خواتین نہ صرف منظم تھیں بلکہ ان کا سیاسی شعور بھی بہت بلند تھا۔ یہ ان سیاسی خواتین کی طرح نہیں تھی جنہیں بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک کر کسی سیاسی جلسہ میں لایا جاتا ہے۔

12۔ لوگ طاہرالقادری کی آواز سنتے ہیں: (زمرد نقوی۔ روزنامہ ایکسپریس)

کچھ سادہ لوح دانشور اپنے اپنے تعصبات اور خیالات کا اسیر ہوکر ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان کو ظالم قرار دے دہے ہیں کہ وہ خود تو اپنے کنٹینر میں محفوظ بیٹھے ہیں اور ان کے کارکن بدترین موسمی شدائد کو برداشت کررہے ہیں۔ جب یہ دانشور سب کچھ لکھ اور بول رہے ہوتے ہیں تو بس صرف سینہ کوبی کی کسر ہی رہ جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا قادری اور عمران نے اپنے سیاسی ورکروں کے پاؤں میں زنجیریں باندھ رکھی ہیں۔ اگر ان کے کارکن جانا چاہیں تو انہیں کون روک سکتا ہے۔ کیا پاکستان کی تاریخ میں ایسا انوکھا احتجاج آج تک کسی نے نہیں دیکھا ہے جو ہر قسم کی موسمی سختیوں، بھوک پیاس اور جان کے خوف سے بے نیاز ہو۔ تاریخ میں اس انوکھے احتجاج اور اس کے شرکاء کا نام سنہری حرفوں سے لکھا جائے گا۔

جہاں تک لیڈروں کے کنٹینر میں ہونے کا تعلق ہے تو جب ان کے کارکنوں کو کوئی اعتراض نہیں تو آپ کون ہوتے ہیں اعتراض کرنے والے۔ نہ یہ کارکن گمراہ لوگ ہیں نہ یہ بکے ہوئے ہیں تو اس طرح کی بونگیاں مارنے سے بہتر یہ ہے کہ تھوڑی سی زحمت اٹھا کر پاکستانی سماج میں ہونے والی سماجی تبدیلیوں کا سائنسی تجزیہ کرلیں۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ پاکستان کے غریب عوام کی خاموش اکثریت کس کے ساتھ ہے اس کا اندازہ ان دونوں لیڈروں کی میڈیا کوریج سے لگالیں۔ میڈیاوہی دکھاتا ہے جو عوام دیکھنا چاہتے ہیں اور جب میڈیا ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان کی گھنٹوں طویل تقاریر دکھاتا ہے تو عوام اپنے انتہائی ضروری کاموں کو چھوڑ کر ان کی تقاریر کو سنتے ہیں کیونکہ یہ تقاریر انہیں اپنے دل کی آواز لگتی ہیں۔

13۔ پاکستان میں طاہرالقادری سے بڑا کوئی لیڈر نہیں: (زمرد نقوی۔ روزنامہ ایکسپریس)

2013ء کا ڈاکٹر طاہرالقادری کا لانگ مارچ انتہائی پرامن تھا جس میں لاہور سے لے کر اسلام آباد تک ایک پتا بھی نہیں ٹوٹا اور پنجاب حکومت نے بھی اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی کیونکہ مسلم لیگ ن بھی یہی چاہتی تھی کہ زرداری حکومت کا جلد از جلد دھڑن تختہ ہو جائے اور 2014ء کے انقلاب مارچ میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان میں ان سے بڑا لیڈر کوئی نہیں ہے۔ وہ دنیا کے چند بڑے لیڈروں میں سے ہیں۔ جنہیں انگریزی سمیت کئی زبانوں پر عبور حاصل ہے۔ وہ ایک ایسے مقرر ہیں جو کئی گھنٹوں بلاتکان تقریر کرسکتے ہیں۔ مجمع پر جادو کردیتے ہیں۔ مسلم دنیا میں اسلام پر ایک اتھارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں اور عالم اسلام میں اس وقت ان سے بڑا سکالر شاید ہی کوئی اور ہو۔

14۔ طاہرالقادری عوام کیلئے ایک مسیحا ہے: (مطلوب وڑائچ۔ روزنامہ نوائے وقت)

امریکہ،کینیڈا، یورپ اور آسٹریلیا کی چند یونیورسٹیوں کی طرف سے مجھے آفر ملی کہ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کو انٹرفیتھ کے موضوع پر ان کی خدمات کے لئے قائل کروں کہ وہ ان یونیورسٹیز میں ماہانہ کم از کم دو دو لیچرز دیں۔ میں نے اس سلسلے میں ڈاکٹر طاہرالقادری سے بات کی تو انہوں نے کمال بے نیازی سے عالمی یونیورسٹیوں کی اس آفرز کو یہ کہہ کر قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ مطلوب وڑائچ میرے ملک کے بیس کروڑ عوام کو میری ضرورت ہے، مجھے اپنی قوم کے ان بیس کروڑ لوگوں کو ایجوکیٹ کرنا ہے۔یہی میری پہلی ترجیح ہے۔

15۔ طاہرالقادری کے کارکنوں نے انقلاب کی بنیاد اپنے خون سے رکھی: (مطلوب وڑائچ۔ روزنامہ نوائے وقت)

حکمرانوں سے اس بات کی قطعاً توقع نہ تھی کہ وہ 17جون کے دن ظلم کسے پہاڑ ڈھا کر انقلاب کی بنیادوں میں خون بھر دیں گے۔ اسی روز ڈاکٹر طاہرالقادری سے پھر مشاورت ہوئی تو پہاڑوں جیسا حوصلہ رکھنے والے اس عظیم انسان نے مجھے یہ خوبصورت الفاظ کہے ’’مشکلات ہمیشہ بہترین لوگوں کے حصے میں آتی ہیں کیونکہ وہی اسے بہترین طریقے سے نبرد آزما ہونے اور سرانجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

شاید کچھ لوگ جوش عقیدت میں میری بات سے اتفاق نہ کریں مگر عمران خان کی محنت، لگن اور ڈاکٹر طاہرالقادری کا شعور اور ویژن اپنا اثر دکھا چکا ہے۔ گذشتہ 30دنوں سے جتنا ٹیلی ویڑن چینلز کو دیکھا گیا اور روزانہ دو سے تین دفعہ انقلابی قیادت کو لوگوں سے براہِ راست مخاطب ہونے کا موقع ملا۔ سیاست کا ایک ادنیٰ طالب علم ہونے کے ناطے یہ کہہ رہا ہوں کہ پاکستان کے کروڑوں گھرانوں میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے نظریات سوچ اور فکر کو وہ پذیرائی اور رسائی حاصل ہو چکی ہے، جو دنیا کی تاریخ میں بانیان انقلابات نے حاصل کرنے کے لیے سال ہا سال صرف کیے تھے۔ انہوں نے وہ شہرت اپنے دھرنے میں حاصل کرلی ہے۔ آج وہ لینن، مارکس، امام خمینی اور نیلسن منڈیلا کی جدوجہد اور نتائج کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ اسی تناظر میں ایک موقع پر ڈاکٹر طاہرالقادری نے کیا خوب کہاکہ’’ قرضوں کے محل کا غلام ہونے سے بہتر ہے کہ انسان اپنی جھونپڑی میں حاکم ہو‘‘ آج وطن عزیز کا ہر طبقہ کسان، طالب علم، مزدور، سروس مین اور لوئرمڈل کلاس سمیت ارض پاک کے اہل ہنر اور کوالیفائیڈ طبقہ اس بات کو سمجھ چکے ہیں کہ ہمارے ملک میں چوروں کی انجمن کا نام جمہوریت رکھ دیا گیا ہے۔

16۔ طاہرالقادری کے کارکن پہاڑوں کو چیرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں: (مطلوب وڑائچ۔ روزنامہ نوائے وقت)

طاہرالقادری کے جانثاروں اور پِسے ہوئے محروم طبقے نے نہ صرف حکمرانوں کے عزم بلکہ شدید موسمی آفات و اثرات کو شکست دے دی ہے۔ ملک بھر میں موجود کروڑوں افراد کو اب یہ یقین ہو چلا ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی مصمم قیادت اب ان کے خوابوں کی نہ صرف رکھوالی کرے گی بلکہ انکو شرمندہء تعبیر بھی کرے گی۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے جس مکینیکل انداز میں اپنے کارکنان کی سیاسی و روحانی تربیت کی ہے اس تربیت کے نتیجے میں PAT اور منہاج القرآن کے کارکنان کسی بھی سیلاب کو روکنے اور پہاڑوں کو چیرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔

17۔ طاہرالقادری کی انقلابی جدوجہد وطن کی مٹی سے محبت کی دلیل ہے: (مطلوب وڑائچ۔ روزنامہ نوائے وقت)

بیرون ملک ہزاروں آسائشوں کے باوجود ڈاکٹر طاہرالقادری کے دل میں بھی وطن کی مٹی کی محبت کی امنگیں جوش مار رہی ہیں۔ وگرنہ پاکستان سمیت نوے ممالک میں منہاج القرآن سینٹرز پر مشتمل ایک بڑا سیٹ اپ ہونے کے باوجود وہ کونسی وجہ ہو سکتی ہے جو ڈاکٹر طاہرالقادری کو پاکستان آنے پر مجبور کرتی ہے؟

18۔ طاہرالقادری کا دھرنا دنیا کی سیاسی تاریخ کا ایک منفرد واقعہ ہے: (ظہیر اختر بیدری۔ روزنامہ ایکسپریس)

طاہرالقادری کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہزاروں مرد، عورتیں، بچے بچیاں کرائے پر لائے گئے کارکن نہیں بلکہ پختہ نظریاتی کارکن اور تحریکی طاقت ہیں اور کارکن جب نظریاتی طاقت میں بدل جاتے ہیں تو ریاستی مشینری ان کی جان تو لے سکتی ہے ان کے نظریات نہیں لے سکتی۔

پاکستان ہی کی تاریخ کا نہیں بلکہ یہ دھرنا دنیا کی سیاسی تاریخ کا منفرد واقعہ ہے کہ 20,25 ہزار لوگ جن میں خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے، دو ماہ سے اس شاہراہ دستور پر پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں۔ خیال یہ تھا کہ عید کی وجہ سے دھرنے کے شرکاء میں بے چینی اور انتشار پیدا ہوجائے گا اور شرکاء عید منانے اپنے گھروں پر جانے کے لئے اصرار کریں گے۔ یوں یہ تاریخ کی طویل ترین تحریک اپنی موت آپ مرجائے گی لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ دھرنے کے شرکاء نے ڈی چوک اور شاہراہ دستور پر ہی عید الاضحی منائی۔

19 اکتوبر کو مینار پاکستان لاہور پر طاہرالقادری نے جو جلسہ کیا اس میں تاحد نظر انسان ہی انسان نظر آرہے تھے۔ غالباً یہ جلسہ جلسوں کی سیریز کا سب سے بڑا جلسہ تھا۔ ہمارے حکمرانوں کی بوکھلاہٹ کا عالم یہ ہے انسانوں کے سمندر پر مشتمل اس جلسے کو چند ہزار لوگوں کا جلسہ کہہ کر اپنے دل کو تو تسلی دے رہے ہیں لیکن اس دروغ گوئی سے کیا ان کے ضمیر کی بھی تسلی ہوگی۔

19۔ طاہرالقادری حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق کہہ رہے ہیں: (منصور آفاق، روزنامہ جنگ)

چالیس سال سے جس کی راتیں بارگاہ ایزدی میں رکوع و سجود کرتے گزری ہیں اور دن رب قدوس و ذوالجلال اور پیغمبر انسانیت چارہ سازِ بیکساں کی تعریف و توصیف میں دفتر کے دفتر تحریر کرتے ہوئے گزرے ہیں وہ ڈاکٹر طاہرالقادری اس وقت گولیوں کی بوچھاڑوں میں اور آنسو گیس کے سلگتے ہوئے سمندر میں کھڑے ہوکر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہے جارہے ہیں۔ میرے نزدیک وہ صاحب عرفان ہیں۔

20۔ طاہرالقادری جو کچھ ہیں اپنے بل بوتے پر ہیں: (منصور آفاق، روزنامہ جنگ)

مجھے قسم ہے کھجور کے تناور درخت کی ڈاکٹر طاہرالقادری لمحہ موجود کی وہ واحد شخصیت ہیں جن کی قامت آوری کسی بیساکھی کی مرہون منت نہیں۔ جن کے لباس پر نسبت کا کوئی پیوند نہیں۔ مجھے قسم ہے لوح و قلم پر لکھی ہوئی قسمتوں کی کہ وہ آج جو کچھ بھی ہیں اپنے بل بوتے پر ہیں۔ انہوں نے اپنی دنیا آپ پیدا کی ہے۔ سو ان کا شمار زندوں میں ہوتا ہے۔ میرے نزدیک بحیثیت ایک سکالر اور عالم اس وقت دنیا میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے قدوقامت کی کوئی ایک شخصیت بھی موجود نہیں ہے۔

21۔ طاہرالقادری نے حکمرانوں کا چین و سکون رخصت کردیا ہے: (منصور آفاق، روزنامہ جنگ)

جس دن سے ڈاکٹر طاہرالقادری کی فلائٹ اسلام آباد کی بجائے لاہور ایئر پورٹ پر اتری ہے اس دن سے حکومت نے چین کا ایک سانس بھی نہیں لیا بلکہ ہر آنے والے دن حکومت اور زیادہ کمزور ہوئی اور اس وقت خستگی کا یہ عالم ہے کہ اس کچی دیوار کو ذرا سی بے موسمی بارش بھی کسی وقت گراسکتی ہے۔ حکومت کی شکستگی کی آخری حد یہ ہے کہ کل تک حکومت کی نظر میں آرمی چیف 22 گریڈ کا ایک سرکاری افسر تھا مگر آج وہ حکومت اور حقیقی اپوزیشن کے درمیان رابطے کا ایک اہم ترین پل بن چکا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب اس بائیس گریڈ کے افسر کے دفتر کے کئی چکر کاٹ چکے ہیں اور وزیراعظم نے اپنے اقتدار کا دورانیہ بڑھانے کے لئے دبے لفظوں میں اس سے مدد کی درخواست کرچکے ہیں دھرنوں سے پاکستان عوامی تحریک اور تحریک انصاف کو جس قدر فائدہ ہوا ہے اسکا کوئی اندازہ ہی نہیں کرسکتا۔ اسی تناظر میں اعتزاز احسن نے کیا خوب کہا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی باتیں لوگوں کے دلوں میں تیروں کی طرح اترتی جارہی ہیں۔

22۔ طاہرالقادری کا انقلاب ایوانوں کے باہر آچکا ہے: (ناصف اعوان، روزنامہ خبریں)

طویل دھرنے سے انقلاب مارچ اور لانگ مارچ کے چہرے پر نقاہت کے آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ چہرہ مزید تازہ و توانا ہورہا ہے۔ اور وہ لوگ جو اسے ایک ڈھونگ اور وقتی ابال قرار دے رہے تھے وہ بھی سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ کہیں واقعتا کوئی بڑی تبدیلی نہ آجائے۔ اگر یہ کہا جائے ان دنوں میں قوم کی شعوری بیداری اپنے نقطہ عروج پر پہنچ چکی ہے تو یہ غلط نہ ہوگا۔

ڈاکٹر طاہرالقادری عوام کے سامنے ایسے حقائق پیش کررہے ہیں کہ وہ حیران ہورہے ہیں اور متاثر بھی ہورے ہیں۔ دھرنوں کے دونوں سیاسی راہنما اپنے مقاصد میں کامیاب ہورہے ہیں۔

عوام کی سیاسی تربیت کا یہ نظارہ پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ اب پورے ملک کے عوام اسے دیکھنے لگے ہیں بلکہ کچھ اس قدر تاثر لے رہے ہیں کہ باقاعدہ اس کا حصہ بنتے جارہے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا انقلاب ایوانوں کے باہر آچکا ہے۔ اب یہ غیر محسوس انداز میں ایوانوں کے اندر بھی داخل ہوگا اگرچہ اسے دور بھگانے کی حکمت عملیاں اپنائی جارہی ہیں مگر جب نمود سحر کی روشنی میں یہ سب عیاں ہوگا تو انہیں عوامی طاقت کے سامنے سر جھکانا پڑے گا۔

23۔ طاہرالقادری کے للکارنے پر موجودہ نظام تھر تھر کانپ رہا ہے: (نسیم شاہد)

ڈاکٹر طاہرالقادری نے موجودہ نظام کو للکارا ہے تو یہ نظام تھر تھر کانپ رہا ہے اور پورا ملک بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔ عوامی نمائندے پارلیمنٹ میں کھڑے یہ دہائی دے رہے ہیں کہ نظام کو گرنے نہیں دیں گے، جمہوریت پر شب خون ان کی لاشوں پر گزر کر ہی مارا جاسکے گا۔ میں یہ باتیں برسوں سے سنتا چلا آرہا ہوں، جمہوریت کو گرنے نہیں دیں گے، جمہوریت کے لئے جان دیں گے، جمہوریت زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ جمہوریت نہ رہی تو ملک نہیں رہے گا وغیرہ وغیرہ لیکن اس قسم کے دعوؤں اور دھرنوں کے باوجود ہم نے یہ دیکھا ہے کہ ملک چار مرتبہ مارشل لاء کے عذاب سے گزرا جمہوریت مضبوط ہونے کی بجائے کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی گئی۔ جمہوریت کا تعلق جمہور سے ہوتا ہے لیکن یہ تلخ حقیقت بھی سامنے ہے کہ آمریت کے ادوار میں عوام کو زیادہ ریلیف ملا اور انہوں نے اپنی توقعات اس سے باندھ لیں۔

اس وقت ملک میں تبدیلی اور انقلاب کی جو ہوا چلی ہے وہ حکمرانوں یا حکومت کی تبدیلی کے لئے نہیں بلکہ طرز حکمرانی اور نظام کی تبدیلی کے لئے ہے۔ اب اس تبدیلی کو روکنا بے سود ہے۔ اس لئے اب اسی تبدیلی کو روکا نہیں جاسکتا اور نہ ہی اس تبدیلی کا انکار ممکن ہے کیونکہ انکار کا وقت اب گذر چکا ہے۔

24۔ طاہرالقادری، حکومتی ایوانوں میں ایک زلزلہ ہے: (سلمان عابد، روزنامہ ایکسپریس)

موجودہ حکومت کو یہ یقین نہیں تھا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری ان کی حکومت کے خلاف ایک بڑا بحران پیدا کرسکتے ہیں۔ اسلام آباد کے دھرنوں سے قبل حکومت اپنے آپ کو ایک مضبوط حکومت کے طور پر پیش کرتی تھی، اس کا خیال تھا کہ سیاسی طور پر دو تہائی اکثریت کے بعد اسے اگلے پانچ برسوں میں کسی بڑے بحران کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ یہ عجیب امتحان ہے کہ حکومت کو ایک بڑی اکثریت کے باوجود اقتدار کے ڈیڑھ برس بعد ہی ایک بڑی مزاحمت کا سامنا ہے۔

بنیادی طور پر حکومت کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ دھرنے کی سیاست کرنے والے ایک لمبے عرصہ کے لئے اسلام آباد کی حکومتی رٹ کو چیلنج کرسکتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ کچھ دنوں میں دھرنے والے تھک ہار کر واپسی کی راہ لیں گے اور حکومتی نظام کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا لیکن جس انداز سے ڈاکٹر طاہرالقادری نے اسلام آباد میں بیٹھ کر روزانہ کی بنیاد پر حکومت اور بالخصوص وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کی سیاسی، اخلاقی اور قانونی حیثیت پر سیاسی تابڑ توڑ حملے کئے ہیں وہ واقعی حکومت کی مستقبل کی بقا کے لئے بڑا خطرہ ہیں۔ اس وقت دھرنا ختم ہوگیا مگر اس کے باوجود اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ حکومت اور وزیراعظم کی مشکلات ختم ہوگئی ہیں تو وہ غلطی پر ہے کیونکہ جس انداز میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے حکومت کی حیثیت کو چیلنج کیا ہے اس سے حکومت کی مضبوطی کا تاثر کمزور ہوا ہے اور وہ دھرنوں کے بعد اب ایک کمزور وزیراعظم ہیں۔

25۔ طاہرالقادری پاکستان کے نمبر ون لیڈر ہیں: (قیوم نظامی، روزنامہ جنگ)

اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر طاہرالقادری سے یہ کام ضرور لے لیا کہ اسلام آباد دھرنوں کی وجہ سے پاکستانی قوم جاگ اٹھی ہے۔ انقلاب اور تبدیلی کی سوچ ہر گھر میں پہنچ چکی ہے۔ جعلی جمہوریت اور غیر منصفانہ نظام بے نقاب ہوچکا ہے۔ عوام میں مزاحمت کا جذبہ پیدا ہوا ہے۔ اس مثبت بیداری کے لئے ڈاکٹر طاہرالقادری اور دھرنوں میں شریک ان کے کارکنان دلی خراج تحسین کے مستحق ہیں اور اس میں شک نہیں کہ قابلیت، صلاحیت اور اہلیت کے اعتبار سے ڈاکٹر طاہرالقادری پاکستان کے نمبرون لیڈر ہیں۔

اب تک ہم نے مختلف شخصیات کے مشاہدے، تجزیئے، مطالعے، تجربے، رائے اور ان کے خیال کو جانا ہے جو وہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے بارے میں رکھتے ہیں، بلاشبہ جو چیز ایک زندہ حقیقت ہے اس کو جس سمت، جس جہت اور جس طرف سے بھی دیکھیں وہ ہر سو ایک کھلی نشانی کے طور پر دکھائی دیتی ہے۔ بشرطیکہ دیکھنے والا خالصیت اور اخلاص کے جذبے سے دیکھ رہا ہو تو وہ حقیقت ثابتہ ہر پہلو سے روشن دکھائی دیتی ہے۔ باری تعالیٰ ایسے دیدہ ور ہر زمانے اور ہر دور میں پیدا کرتا ہے جو اپنے بچپن ہی سے عظمت و بلندی کے مسافر ہوتے ہیں اور جن کا وجود ہر گزرتے دن کے ساتھ بلندیوں کی جانب سفر کرتا ہے، ہر کوئی ان کی عظمت و علوت کا معترف ہونے لگتا ہے۔ اگر اب تک سب شخصیات کے تصورات، خیالات، تجربات، مشاہدات، نظریات اور افکار اور آراء کو جمع کرکے ایک عنوان دیا جائے اور ان سب چیزوں کو ایک شعر کے قالب میں ڈھالا جائے تو اس نابغہ عصر شخصیت کے لئے یہی کہا جائے گا۔

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا