اداریہ: فکرِ اقبال اور حالات حاضرہ

علامہ اقبال علم و حکمت کا ایک روشن چراغ ہیں جسے ہم برصغیر میں دانشوری کی نئی روایت کا نقطہ عروج بھی کہہ سکتے ہیں۔ دانشوری کی اس نئی روایت کا آغاز اس دور میں ہوا جب ہم فکرو تصور میں لکیر کے فقیر تھے۔ ماضی کے اندھیروں میں بے عملی کی چادر اوڑھے گہری نیند سونا ہمارا شعار ہوگیا تھا۔ انہوں نے ہمیں خواب غفلت سے جگانے کی کوشش کی تو ہم نے آنکھیں کھول کر انہیں دیکھا لیکن خواب کی لذت ہمیں اس قدر عزیز تھی کہ ہم بیداری کے عوض سوچنے کی مشقت کیوں مول لیتے۔ علامہ اقبال نے اپنی قوم کی بدحالی کو دیکھا اور اس کے اسباب کو دریافت کرنے میں پورے انہماک سے کام لیا۔

علامہ اقبال کے نزدیک مسلمانوں کی زبوں حالی کی اصل وجہ مسلمانوں کا دین سے بے بہرہ اور بے عمل ہونا ہے۔ وہ اپنے مسلمان ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن اس میں عمل اور اسلامی اوصاف برائے نام ہوتے ہیں۔ علامہ کے نزدیک یقین، عمل اور محبت تعمیر خودی کے لازمی اجزاء ہیں۔ خودی کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’اللہ نے انسان کو بے شمار امکانات کے ساتھ پیدا کیا اور ان امکانات میں اس کی تقدیر پوشیدہ ہوتی ہے۔ ان امکانات کو بروئے کار لاکر وہ اپنی تقدیر بناتا ہے۔ انہوں نے خودی کو اس کائنات کی بنیادی حقیقت کہا ہے جس کو ہم ذہن اور شعور سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں جہاں ذہن باشعور موجود ہے وہاں وہاں زندگی موجود ہے لیکن اس سلسلے میں یہ فرق ضرور ذہن نشین رہنا چاہئے کہ انسان خودی سے آگاہ اور حیوان اس سے محروم ہوتا ہے اس لئے علامہ فرماتے ہیں کہ جب انسان اس حقیقت کو فراموش کر ڈالتا ہے تو کائنات کی اشیاء اس کی حاکم بن جاتی ہیں اور ان کے حصول کے لئے خود کو گنوانے پر مجبور ہوجاتا ہے اور بھول جاتا ہے کہ یہ سب اس کی عظمتوں کے آگے کچھ بھی اہمیت نہیں رکھتی۔ علامہ اقبال نے خودی کے لئے زندگی اور حیات کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یہی کچھ آج کے دور میں بھی ہورہا ہے کہ ہم اپنے قومی وقار کو ختم کرکے دوسروں کے آگے بھیک مانگنے پر تلے ہوئے ہیں۔

علامہ اقبال نے اجماع اور اجتہاد پر بھی بہت زور دیا ہے۔ ان کے نزدیک علماء، سیاسی رہنما، قانونی ماہرین اور مختلف علوم و فنون اور شعبہ ہائے زندگی کے افراد جمع ہوکر اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں مگر قیام پاکستان کے بعد جس طرح جمہوریت کی مٹی پلید ہوئی ہے اور حکمران اور اراکین اسمبلی جس طرح جاہ و جلال، خودغرضی اور اقرباء پروری میں مبتلا رہے ہیں اور جس طرح انہوں نے لوٹ کھسوٹ اور فضول خرچی کے نئے ریکارڈ بنائے ہیں۔ سرکاری وسائل بڑے پیمانے پر ہڑپ کئے جارہے ہیں اور قومی خزانے کی لوٹ مار ہورہی ہے۔ اراکین اسمبلی جس بے دردی سے اپنے حلقے کے فنڈ خوردبرد کررہے ہیں اور اب سینیٹ کے ارکان کے الیکشن میں سیاسی جماعتوں نے جس بندر بانٹ کا مظاہرہ کیا ہے اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ علامہ اقبال اگر آج زندہ ہوتے تو ہماری قانون ساز اسمبلیوں کی ایسی افسوس ناک کارکردگی دیکھ کر سخت مایوس ہوتے۔ موجودہ حالت میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن اور بدعنوانی ہے جو ہر سطح پر موجود ہے۔ آج پاکستان کا شمار دنیا کی کرپٹ ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ زندگی کی حقیقت اس کے معنی اور سیاسی حالت پر نظر ڈالنے کے بعد علامہ اقبال نے مسلمانوں کی زبوں حالی کی تصویر کھینچتے ہوئے کہا تھا:

ہوگیا مانند آب ارزاں مسلمانوں کا لہو
مست تو ہے کہ تیرا دل نہیں دانا راز

فکرِ اقبال میں ہمیں جاگیردارانہ نظام حکومت کی سختی سے مخالفت نظر آتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں جو کچھ ہورہا ہے اس کی نوعیت اور حقیقت یہ نہیں کہ لوگ بے رحم اور سفاک ہوگئے ہیں اور قتل و غارت گری ان کی فطرت کا تقاضا بن گئی ہے بلکہ اس کے پس پردہ جاگیردارانہ نظام اور مراعات یافتہ طبقے کے اپنے مفادات ہیں جن کو محفوظ رکھنے کے لئے یہ طبقہ خود ایسے حالات پیدا کرتا ہے جن کا لازمی نتیجہ تشدد کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ علامہ اقبال انسان کی انسان پر حکمرانی کو کسی صورت بھی جائز قرار نہیں دیتے۔

آج کے دور میں علامہ اقبال کی اسی سیاسی فکر کے حامل اور محافظ قائد پاکستان عوامی تحریک ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ موجودہ حکمران اور نام نہاد فرسودہ سیاسی و انتخابی نظام قدم قدم پر عوام کے حقوق کی پامالی کررہا ہے۔ آئین کے آرٹیکلز 3، 9، 11، 25، 37، 38، 62، 63 سمیت کئی آرٹیکلز کی مسلسل خلاف ورزی دھائیوں سے جاری ہے۔ مقام افسوس ہے کہ یہاں ہر روز آئین کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں اور روزانہ لاشیں گرتی ہیں لیکن حکومت وقت کے سر پر جوں تک نہیں رینگتی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دھاندلی پر مبنی اس پارلیمنٹ سے خیر کی کوئی توقع نہیں کیونکہ موجودہ پارلیمنٹ 75 فیصد ٹیکس چوروں اور قرض خوروں سے بھری پڑی ہے جو آئین پاکستان سے بغاوت کے مترادف ہے۔ پاکستان کی سلامتی کے ضامن ادارے پاک فوج اور آئی ایس آئی پر حملے کئے گئے۔ حکمرانوں کو پتہ ہے کہ فوج ان کی راہ میں آخری رکاوٹ ہے لہذا یہ اسے بھی کمزور کرنا چاہتے ہیں لیکن ہم انہیں بتادینا چاہتے ہیں کہ اب ایسا نہیں ہونے دیا جائے گا۔