اَمنِ عالم کو درپیش خطرات اور آزادیِ اِظہارِ رائے

شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری

فرانسیسی جریدے میں توہین آمیز خاکوں کی اِشاعت پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی طرف سے عالمی رہنماؤں کو لکھا گیا فکر انگیز مراسلہ

 فرانس (France) کے دارالحکومت پیرس (Paris) میں ایک میگزین Charlie Hebdo کے عملے کی ہلاکت کے واقعہ کی وجہ سے دنیا اس وقت ایک نئے چیلنج سے نبرد آزما ہے۔ ان لوگوں کو یہ ہلاکتیں بظاہر اپنے میگزین میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کا ردعمل نظر آتی ہیں۔ اس دہشت گردانہ کارروائی کے ردِّ عمل میں Charlie Hebdo نے ان گستاخانہ خاکوں کو دوبارہ شائع کرنے کا فیصلہ کیا، جس نے دنیا بھر میں غم و غصہ کی نئی لہر دوڑا دی ہے۔ مختلف عالمی اداروں، تنظیموں اور بااثر حکومتوں نے اس صورتِ حال کو مزید خراب ہونے سے بچانے کی بجائے اس انتشار کو مزید پھیلانے کے لیے کھلا چھوڑ دیا ہے، جس کے اختتام کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ اس حوالے سے اقوامِ متحدہ (United Nations)، بین الاقوامی ہیومن رائٹس کمیشن (International Human Rights Commission) اوریورپی یونین (European Union) نے اب تک کوئی مثبت کردار ادا نہیں کیا۔ یہ صورت حال اس حد تک گھمبیر اور بے قابو ہو چکی ہے کہ پر امن بقائے باہمی کے لئے خطرہ بنتی جا رہی ہے۔ اگر اس کا بروقت تدارک نہ کیا گیا تو یہ تہذیبوں، مذاہب اور معاشروں کے درمیان سنگین تصادم (Clash) کا باعث بن سکتی ہے۔

اظہار رائے کی آزادی جدید تہذیب و تمدن (Modern Civilisations) کا انتہائی قیمتی اثاثہ ہے۔ انسانیت نے یہ آزادی کی نعمت صدیوں کی جان گسل قربانیوں اور مشکلات کے نتیجے میں حاصل کی ہے۔ فرانسیسی قوم نے دنیا کے بڑے رہنماؤں کے ساتھ مل کر آزادی مارچ (Freedom March ) کے ذریعے یک جہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہشت گردوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ انسانیت پر اپنا نام نہاد ایجنڈا کبھی بھی مسلط نہیں کر سکتے۔ تاہم اس مارچ سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا اظہار رائے کی آزادی کا یہ حق ہر کسی کے لئے ہے یا یہ رعایت محض بعض افراد اور اقوام کے لیے ہے؟ اور کیا اس کی کچھ حدود بھی ہیں کہ جن کے ذریعے بعض معاشروں کو تحفظ حاصل ہو اور باقی سب کے لئے یہ شجر ممنوعہ ہو؟

اس حساس موقع پر ہماری اس تحریری یادداشت (Memorandum) کا مقصد Charlie Hebdo کے حالیہ معاملے کے تناظر میں ایک حقیقت پسندانہ اور قابل عمل حل تلاش کرنا ہے تا کہ صورت حال کی سنگینی کو کم کیا جا سکے۔ اس سلسلے میں ’اظہارِ رائے کی آزادی کے حق‘ (Freedom of Speech) میں کی گئی مباحث میں اظہارِ رائے کی آزادی کی حمایت کرنے والوں نے اس کے تقدس کی وکالت کرتے ہوئے اس کو برقرار رکھنے کا عندیہ دیا ہے، خواہ اس کے نتائج کچھ بھی برآمد ہوں۔ وہ اس پر کسی قسم کی قدغن برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ دوسرا نقطہء نظر آزادی اِظہارِ رائے کی حدود و قیود کے تعین پرمشتمل ہے جو مبنی بر اعتدال ہے۔ اگر آزادی رائے کو چند اخلاقی ضابطوں کا پابند بنا دیا جائے تو اس سے کوئی انسانی حق مجروح نہیں ہوتاکیونکہ آزادی رائے اگرچہ ہر انسان کا بنیادی حق ہے، لیکن یہ حق مطلق و بے مہار نہیں ہو سکتا اور نہ کوئی ایسا دعویٰ کر سکتا ہے اور ان کے اطلاق کا انحصار دوسروں کے بنیادی حقوق کے حوالے سے ہوتا ہے۔ اس سوچ پر اصرار کرنا کہ آزادی کا یہ تحفہ ایک مطلق حیثیت رکھتا ہے اور اس پر کوئی قدغن نہیں ہونی چاہیے، نامناسب بات ہے۔ ممکن ہے کہ ایسا حق دوسرے کی بنیادی انسانی حقوق کی نفی کرتا ہو۔ ہر وہ ملک جو اس ’مہذب اور جمہوری‘ دنیا کا حصہ دار ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، اس نے اظہار رائے کی آزادی کے سلسلے میں اپنی سوسائٹی کے مفادات کے پیش نظر اپنی حدود خود متعین کر رکھی ہیں تا کہ مخصوص معاشرتی انسانی رویوں کو ایک خاص سطح پر اپنے علاقائی رسم و رواج، اخلاق، مسلمہ معاشرتی اقدار، کلچر اور مذہب کی حفاظت کی بنیاد پر برقرار رکھ سکے۔

چنانچہ یہ شور و غوغا کرنا کہ اظہار رائے کی آزادی کے حق کی جڑ کو مسلمان کھوکھلا کر رہے ہیں، سراسر بے بنیاد تہمت ہے۔ بچوں میں فحش نگاری کی آزادانہ تشہیر، مذہبی انتہا پسندی یا نسلی منافرت کے اظہار پر کئی ممالک میں پابندی عائد ہے اور یہ بالکل درست اقدام ہے۔ بہت سے یورپی ممالک میں ہولو کاسٹ (Holocaust) کا انکار کرنا ایک مجرمانہ فعل تصور کیا جاتا ہے جن میں آسڑیا (Austria)، بیلجیم (Belgium)، چیک ری پبلک (Czech Republic)، فرانس (France)، جرمنی (Germany)، اسرائیل (Israel)، لیتھوانیا (Lithuania)، پولینڈ (Poland)، رومانیہ (Romania)، سلوواکیہ (Slovakia) اور سوئٹزر لینڈ(Switzerland) شامل ہیں۔ ان ممالک میں یہ فعل قابلِ سزا جرم ہے جس کے نتیجے میں جرمانہ اور جیل بھی بھیجا جاسکتا ہے۔ یاد رہے کہ جب ایک برطانوی اَخبار‘ Independent The نے 27 جنوری 2003ء کی اِشاعت میں اسرائیلی وزیر اَعظم ایریل شیرون (Ariel Sharon) کو ایک فلسطینی بچے کا سر کھاتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے دکھایا گیا کہ ’اس میں برائی ہی کیا ہے! کیا تم نے پہلے کبھی کسی سیاست دان کو نہیں دیکھا کہ بچے کو چوم رہا ہو؟‘ اس کے ردّ عمل میں خود اسرائیل کے کئی علاقوں میں اِحتجاج شروع ہو گیا اور دنیا بھر میں موجود یہودیوں کی طرف سے اشتعال اور غصہ سامنے آیا۔ اس پر بھرپور احتجاج کیا گیا۔ 2006ء میں جب اَطالوی وزیر اَعظم سلویو برلس کونی (Berlusconi Silvio) نے اپنا موازنہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے کیا تو اس پر ویٹی کن سمیت اٹلی کے بہت سے سیاست دانوں نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا؛ حتیٰ کہ کیتھولک چرچ (Catholic Church) کے ایک اَعلیٰ عہدے دار نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ اطالوی وزیر اعظم کہے گا کہ اس نے یہ بات اَز رہِ مزاح کی ہے لیکن ایسی باتیں از رہِ مزاح بھی نہیں کی جانی چاہئیں۔

پوپ فرانسس نے پیرس میں جنوری 2015ء کے دہشت گردانہ حملوں پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی میں کچھ ضروری حدود و قیود ہوتی ہیں خصوصاً جب کسی کی مذہبی دل آزاری کی جائے۔ پوپ فرانسس نے مزید کہا: بہت سے لوگ مذاہب کے بارے میں بڑی تحقیر آمیز گفتگو کرتے ہیں۔ دوسروں کے مذاہب کا مذاق اڑاتے ہیں۔ یہ لوگ در حقیقت اشتعال دلانے کا کام کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا جو میرے دوست ڈاکٹر گیسپری (Dr Gasparri) کے ساتھ ہو گا۔ اگر وہ میری ماں کے خلاف کوئی توہین آمیز لفظ بولتا ہے ایسے عمل پر اسے میری طرف سے ایک مْکے کی توقع ہی کرنی چاہیے۔ ہر کام کی کوئی حد ہوتی ہے۔ مجھے ذاتی بے توقیری قطعاً ناقابل قبول ہے، خصوصاً جب بے توقیری مذہب سے متعلق ہو تو ایسا عمل نہ تو انسانی سطح پر اور نہ ہی اخلاقی و معاشرتی سطح پر قبول کیا جاسکتا ہے۔ ایسا کرنے والے دنیا میں امن برقرار رکھنے کی کوئی مدد نہیں کرتے اور نہ ہی دنیا کے لئے خود کو منفعت بخش ثابت کرتے ہیں۔ کسی کو اشتعال دلانا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ آپ کو دوسروں کے اعتقادات کی تحقیر کا کوئی حق نہیں ہے۔ آپ کو دوسروں کے عقائد کے مذاق اڑانے کا کوئی حق نہیں ہے۔

(The Christian Post, 15 January, 2015)

جرمن اخبار The Berliner Zeitungنے حال ہی میں (یعنی جنوری 2015ء میں) Charlie Hebdo پر حملے سے ایک دن بعد اپنی اشاعت میں یہود دشمنی پر مبنی ایک کارٹون غلطی سے شائع کرنے پر معافی مانگی ہے۔ اسی اشاعت پر Charlie Hebdo نے 4 عدد توہین آمیز خاکے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں شائع کیے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہودیوں سے متعلق کارٹون اگر غلطی سے بھی چھپ جائے تو وہ شائع کی ہوئی چیز جرم تصور کی جاتی ہے اور دوسری جانب عمداً اور ارادتاً پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ایک نہیں چار عدد توہین آمیز خاکے شائع کیے جاتے ہیں مگر معافی کی بجائے اسے اظہار رائے کی آزادی کا حق سمجھا جاتا ہے۔ دونوں مذاہب کے لیے جداگانہ معیار کیوں ہے؟ حق یہ ہے کہ دونوں واقعات میں نہ تو کوئی فرق روا رکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی ایسا کرنا چاہیے۔ اس سے قبل Charlie Hebdo نے 2006ء میں فرنچ کارٹونسٹ Maurice Sinet کی یہود دشمن ریمارکس پر برخاست کر دیا تھا۔ اسی طرح 2006ء میں ڈینش اخبار Jyllands Postenنے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مضحکہ خیز تصویر شائع کی جبکہ اس کے برعکس 2005ء میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کے ایک تضحیک آمیز کارٹون شائع کرنے سے انکار کر دیا گیا تھا کیونکہ ان کے خیال میں اس سے ’اشتعال انگیز شور شرابے‘ کا اندیشہ ہوسکتا ہے اور فخریہ انداز میں واضح کیا کہ کسی صورت میں بھی ہو لو کاسٹ سے متعلقہ کارٹون شائع نہیں ہوں گے۔

یہ معاملہ یہاں اظہارِ رائے کی آزادی سے متعلقہ نہیں بلکہ یہ تو ایک بڑی تہذیب و تمدن کے مقدس عناصر کی تضحیک و تحقیر پر مبنی غیر اخلاقی عمل کا ہے۔ ہتکِ عزت کے سلسلے میں حق تلفی کا قانون کسی نہ کسی شکل میں رائج ہے جس کے تحت ایسے جرم کی پاداش میں ایک شخص کو سزا دی جاسکتی ہے۔ چنانچہ ایک فرد کے حقوق میں توازن برقرار رکھنے کے لئے آزادیِ اظہار رائے کے مطلق حق کو محدود کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح ایسا عمل جس سے ایک پورے طبقے کو اذیت پہنچتی ہو محض اظہارِ رائے کی آزادی کے عنوان کے تحت جائز نہیں بن سکتا۔ مزید برآں کئی ممالک میں ان کے دساتیر اور مخصوص قومی اداروں مثلاً فوج، عدلیہ اور پارلیمان کی توہین کو یا تو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے یا اس رویے کی مذمت کی گئی ہے۔ دنیا بھر میں توہینِ عدالت کا قانون موجود ہے جو واضح طور پر آزادیِ اظہارِ رائے کی حدود متعین کرتا ہے اور اس کی خلاف ورزی کی سزا قید ہے۔ لہٰذا آزادیِ اظہارِ رائے کا حق قطعی طور پر مطلق نہیں ہے بلکہ اسے بنیادی انسانی حقوق (اور ذہنی و قانونی تقاضوں اور جمہوری اقدار) کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ اگر اظہار رائے کی آزادی کا حق مطلق ہے تو پھر ایسے قوانین پر کیوں اعتراض نہیں کیا جاتا؟

اِنفرادی عزت و وقار اور مذہبی آزادی کا تحفظ ایسے بنیادی انسانی حقوق ہیں جنہیں دنیا بھر میں قانونی تحفظ حاصل ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک کے دساتیر و قوانین کے ساتھ ساتھ اَقوامِ متحدہ کے چارٹر نے بھی اِن حقوق کو تحفظ فراہم کیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے پہلے آرٹیکل کی شق نمبر 3 میں اِن حقوق کو ان الفاظ میں تسلیم کیا گیا ہے:

یہ قرار دیا جاتا ہے کہ معاشی، سماجی، ثقافتی اور اِنسانی نوع کے عالمی مسائل و تنازعات کے حل کے لیے اور انسانی حقوق کے اِحترام کے فروغ و حوصلہ اَفزائی کے لیے اور تمام بنی نوع انسان کے لیے نسل، جنس یا مذہب کی تفریق کے بغیر بنیادی اِنسانی حقوق کے تحفظ کی خاطر عالمی برادری کا تعاون حاصل کیا جائے گا۔

حقوق انسانی کے یورپی کنونشن کے آرٹیکل نمبر 9 میں قرار دیا گیا ہے کہ:

کسی فرد کے مذہب اور عقیدہ کے اظہار کی آزادی صرف قانون میں بیان کی گئی حدود کے ساتھ مشروط ہو گی اور یہ ایک جمہوری معاشرے میں عوامی تحفظ کے حصول، امن عامہ کے قیام، صحت اور اخلاقیات کے تحفظ اور دوسرے افراد معاشرہ کے حقوق اور آزادیوں کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔

امریکہ کے دستور کے بل آف رائٹس (Bill of Rights) کی ترمیم نمبر 1 میں کہا گیا ہے:

کانگریس کسی مذہبی ادارہ یا اس کے آزادانہ مذہبی عمل کرنے سے منع کرنے سے متعلق یا آزادی تقریر و اخبارات پر قدغن لگانے سے متعلق یا لوگوں کے پر امن اجتماع منعقد کرنے اور مسائل کے حل کے لیے حکومت کو عرض داشت کرنے کے خلاف کوئی قانون نہیں بنائے گی۔

امریکہ کی بعض ریاستیں ایسی ہیں جن کی دستوری کتب میں اہانت مذہب کے قوانین موجود ہیں Massachusetts کا باب 272 سیکشن 36 بیان کرتا ہے:

جو کوئی ارادتاً خداوند کے پاک نام کی گستاخی یا اس کی خلاف ورزی، حکومت، آخرت کے انکار، اہانت، ملامت کی صورت میں کرے یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مقدس روح کی قابل نفرت انداز میں ملامت کرے یا مضحکہ اْڑاے کی صورت میں اہانت کرے یا خدا کے پاک نام (جو عہدنامہ قدیم و جدید میں درج ہے)کی تضحیک کرے کی سزا جیل کی سلاخیں ہیں۔

ممانعتِ اہانت پر قانون سازی کرنے والے دیگر ممالک درج ذیل ہیں:

  1. آسٹریا: کریمینل کوڈ (Criminal Code) کا آرٹیکل نمبر 188 اور 189
  2. فن لینڈ: تعزیراتی قانون (Penal Code) کے باب نمبر 17 کا جزو نمبر 10
  3. جرمنی: کریمینل کوڈ (Criminal Code) کا آرٹیکل نمبر 166
  4. نیدر لینڈز: کریمینل کوڈ (Criminal Code) کا آرٹیکل نمبر 147
  5. اسپین: کریمینل کوڈ (Criminal Code) کا آرٹیکل نمبر 525
  6. آئیر لینڈ: اس کے آئین کے آرٹیکل نمبر 40.6.1.i کے تحت توہین آمیز مواد کی اِشاعت ایک جرم قرار ہے؛ جب کہ 1989ء کے Prohibition of Incitement to Hatred Actکے تحت کسی خاص مذہبی گروہ کے خلاف نفرت انگیز مواد کی اِشاعت بھی جرم قرار دے دی گئی ہے۔
  7. کینیڈا: کریمینل کوڈ (Criminal Code) کا سیکشن نمبر 296
  8. نیوزی لینڈ: 1961ء کے نیوزی لینڈ کرائمز ایکٹ (New Zealand Crimes Act) کا سیکشن نمبر 123
  9. مسیحی دنیا میں کلیساؤں کو مقدس مقام کا درجہ حاصل ہے اور بعض یورپی ممالک میں اِس تقدس کو آئینی تحفظ بھی حاصل ہے۔ اس کی ایک مثال ڈنمارک کا دستور ہے، جس کے سیکشن نمبر 4 (State Church) کے مطابق ’Evangelical Lutheran Churchکو ڈنمارک کا سرکاری کلیسا قرار دیا جائے گا اور یوں اسے ریاست کی مکمل حمایت حاصل ہوگی‘۔

مندرجہ بالا قوانین اور ان کے نتیجے میں ہونے والے فیصلوں سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ آزادیِ اِظہارِ رائے کا حق بنیادی اِنسانی حق ہے لیکن یہ دوسری آزادیوں کی طرح ایک اضافی اور مشروط آزادی ہے۔ اسلام اور اس کے بنیادی عقائد کے بارے میں ہزاروں کتابیں اور اخباری مضامین تا حال شائع ہو چکے ہیں جن میںاسلام اور اس کے بنیادی عقائد پر تنقید کی گئی ہے لیکن مسلمان علمی مباحثے پر کبھی اعتراض نہیں کرتے کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ عمل اسلام کے بارے میں جاری مباحثے کا حصہ ہے اور یہ سب کچھ آزادیِ اِظہارِ رائے کی حدود کے اندر ہے۔ آج دنیا میں اخبارات میں ایسے لاتعداد مضامین شائع ہو رہے ہیںجن میں اسلام کی غلط تعبیرات پیش کی جاتی ہیں بلکہ اکثر اوقات تو اسلام اور اس کے قوانین کے بارے میں مبینہ انداز میں مکمل جھوٹ پر مبنی مبالغہ آمیز کہانیاں بھی بیان کی گئی ہیں، لیکن مسلمان انہیں نہ صرف برداشت کرتے ہیں بلکہ رواداری کا رویہ بھی اپنائے ہوئے ہیں کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ لبرل جمہوریتوں پر مبنی جن معاشروں میں رہ رہے ہیں یہ سب کچھ ان کا جزوِ لاینفک ہے۔

لیکن جب اِظہارِ رائے کی آزادی کے اس حق کا غلط طور پر استعمال کرتے ہوئے اسلام کی سب سے مقدس ترین آسمانی کتاب قرآن اور مقدس ترین ہستی صاحب قرآن کی واضح طور پر توہین کی جاتی ہے تو اس سے لازمی طور پر مسلمانوں میں اِضطراب اور اِشتعال پیدا ہوگا۔

چنانچہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تحقیر آمیز طریقے سے تصویر کشی کسی صورت میں بھی آزادی تقریر کی آڑ میں درست قرار نہیں دی جا سکتی۔ مزید یہ کہ یہ مضحکہ خیز تصاویر سہواً شائع ہونے کی بجائے خصوصاً اسلام دشمن ماحول کے تناظر میں شائع ہوتی ہیں جب کہ پہلے ہی بعض یورپی ممالک اس حوالے سے شدید مخاصمانہ تناؤ کا شکار ہیں۔

علاوہ ازیں بعض ممالک نے دہشت گردی کے خلاف قانون سازی کرتے ہوتے افراد کی شخصی آزادی پر سخت پابندیاں اس طریقے سے لاگو کی ہیں کہ کھلم کھلا ان کا اطلاق ان ممالک کے مسلمانوں پر ہوتا ہے۔ یہ ایک عجیب طرح کی سوچ ہے کہ ایک معقول اقلیت کی مسلسل دشنام طرازی کی جاتی ہے اور وسیع طور پر میڈیا میں منفی انداز میں خاکہ کشی کی جاتی ہے جس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے اور پھر ذلت آمیز پابندیوں اور طریقہ کار سے انہیں اپنے روزمرہ معاملات تک کے لیے باہر جاتے ہوئے صبر آزماً مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور یہ سب کچھ آزادی تقریر اور قومی مفاد کی روشنی میں وقوع پذیر ہو رہا ہے۔ چنانچہ یہ امر باعث حیرت ہے کہ اظہار رائے کی آزادی کے نام پر ایک شخص کے مقدس عقائد کا مذاق اڑایا جاتا ہے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ تناؤ کے اس ماحول میں اس کا ردعمل شدید تر ہوسکتا ہے۔ اس میں ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ میگزین اور اخباروں میں ملامت آمیز مواد کی اشاعت کی شق دراصل اپنے مکمل کنٹرول اور طاقت کے اظہار کے لیے کی جاتی ہے جس کا نشانہ مسلمان بنتے ہیں۔ خواہ اس کے نتیجے میں دوسرے کا کلچر، رہن سہن کے طریقہ کار کتنے ہی متاثر ہوں اور ان کے اس مذاق اڑانے کے عمل سے وہ کس قدر بے توقیر کیوں نہ ہوتے پھیریں۔

اس سے قبل ستمبر 2005ء میں ڈینش اخبار Jyllands Posten میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت پر بعض عالمی شہرت یافتہ شخصیات نے اس وقت ان توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کی مذمت کی تھی اور اس امر پر زور دیا تھا کہ آزادی اظہار رائے پر بھی کچھ پابندیاں لگنی چاہیں۔ اَقوامِ متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان (Kofi Annan) نے کہا تھا:

’میں آزادیِ اِظہارِ رائے کے حق کا اِحترام کرتا ہوں لیکن اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ حق قطعاً بھی مطلق نہیں ہے۔ یہ حق اِحساسِ ذِمہ داری اور دانش مندی کے ساتھ مشروط ہے۔ ‘