ڈاکٹر حسن محی الدین قادری

ترتیب و تدوین: محمد حسین آزاد الازہری معاونت: نازیہ عبدالستار

قسط اول

مورخہ 19 فروری 2015ء کو مرکزی سیکرٹریٹ منہاج القرآن انٹرنیشنل پر قائد ڈے کی تقریب سے چیئرمین سپریم کونسل محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے خصوصی خطاب فرمایا جسے ایڈیٹنگ کے بعد بالاقساط شائع کیا جارہا ہے جو تمام کارکنوں اور قائدین کیلئے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ منجانب: ادارہ دختران اسلام

آج کا دن اللہ رب العزت کی ایک عظیم نعمت کے اظہار اور اس کے تشکر کا دن ہے بلکہ اللہ رب العزت کے اس دور پر اس عظیم احسان پر شکر بجالانے کا دن ہے۔ وہ قومیں وہ کارکن اور وہ وابستگان بڑے خوش قسمت، خوش نصیب اور خوش بخت ہوتے ہیں جو ہر لمحہ اپنے ہر سانس میں اللہ کی ہر نعمت کا شکر بجا لانے والے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ آپ اصل کی بات کرتے ہیں مگر اس سے متعلق اس کے جمیع فروع کا ذکر اس اصل ذکر میں شامل ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات آپ کو تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ جب آپ اجمالاً یا استعارۃً جب کسی اصل کا ذکر کردیتے ہیں اور اس کا تشکر عنداللہ بجالے آتے ہیں تو اندر جو بھی ہو شکر اس نعمت کا ہورہا ہوتا ہے جبکہ لوگ سمجھتے ہیں یہ شکر اس شخصیت کے لئے بجالایا جارہا ہے مگر آپ درحقیقت اصل کا ذکر کرکے اس سے متعلق جمیع نعمتوں کا ذکر کررہے ہوتے ہیں۔ دیکھنے والے سمجھتے ہیں کہ اس نے شجر کا ذکر کیا (شجرۃً مبارکۃً) پوچھنے والے پوچھتے ہیں کہ تمہیں پتہ ہے کہ اس کی اصل کیا ہے؟ اس کی جڑ کیا ہے؟ اس کا تنا کیا ہے؟ اس کی شاخیں کیا ہیں؟ اس کے پتے کیا ہیں؟ اس پر لگنے والے پھول کیا ہیں؟ اس پر لگنے والے پھل کیا ہیں؟ اس کے فوائد کیا ہیں؟

وہ کہتا ہے کہ میں ہر ایک جز کا ذکر نہیں کرتا بلکہ میں اصل کا ذکر کرتا ہوں کیونکہ میں تو جانتا ہی اصل کو ہوں، میرا تعلق ہی اصل سے ہے، میری پہچان ہی اصل سے ہے میں ذکر بھی اصل کا کرتا ہوں، میں شکر بھی اصل کا کرتا ہوں، میرا پتہ بھی اصل سے ہے، میری معرفت بھی اصل سے ہے کیونکہ اصل مجھے جانتی ہے میں اصل کو جانتا ہوں۔ اب جس کو اصل سے نسبت مل جائے میں بھی اس کا ہوجاتا ہوں، پھل لگے یا نہ لگے، خزاں ہو یا بہار ہو، مجھے پرواہ نہیں کیونکہ میری نسبت اصل سے ہے۔ تم نگاہ، بہار پر رکھ کر شجر کا ذکر کرتے ہو، تمہاری نگاہ بہاروں پہ ہوتی ہے، شادابیوں پر ہوتی ہے، سبزے پر ہوتی ہے، پھولوں پر ہوتی ہے، پھلوں پر ہوتی ہے، نتیجے پر ہوتی ہے، ثمرات پر ہوتی ہے جبکہ مجھے نتیجے سے غرض نہیں میں تو شجر کا ہوں کیونکہ میری نسبت شجر سے ہے۔ اگر شجر چاہے تو بہار آتی ہے، شجر چاہے تو خزاں رہتی ہے، شجر چاہے تو پھل آتے ہیں، شجر چاہے تو پھول آتے ہیں، شجر چاہے تو اس سال پھل آتے ہیں، شجر چاہے تو اگلے سال پھل آتے ہیں۔ مجھے پھل پھول سے غرض نہیں جب تک اس شجر بہار کا پیغام ملتا رہے گا میں جڑا رہوں گا۔ اس لئے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:

پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ

وہ کہتا ہے کہ میں تو صرف شجر سے پیوستہ ہوں، میں بہار سے پیوستہ نہیں، میں خزاں سے پیوستہ نہیں، میں کسی پھل سے پیوستہ نہیں، کسی پھول سے پیوستہ نہیں، کسی ٹہنی سے پیوستہ نہیں، کسی تنے سے پیوستہ نہیں، مجھے اس کے ثمرات سے غرض نہیں۔ شجر چاہے تب بھی اور نہ چاہے تب بھی جڑا رہوں گا۔ دس سال تک بھی ثمرات نظر نہ آئیں تب بھی جڑا رہوں گا۔ میری نسبت ثمرات سے نہیں میری نسبت تو شجر سے ہے۔ میں سایہ اور پھل شجر سے مانگتا ہوں۔ ٹہنی سے نہیں مانگتا۔ میں سستاتا کسی ٹہنی کے ساتھ نہیں، میں تو شجر کے نیچے سستاتا ہوں شجر سایہ دے تب بھی شجر کی مرضی، سایہ نہ دے تب بھی شجر کی مرضی۔ میری نسبت اصل سے ہے، فرع سے نہیں۔ اب دیکھتا ہوں شجر نے ان فروع کو خود سنبھال رکھا ہے اور جب تک اس شجر نے ان پتوں اور ٹہنیوں کو نسبت اپنے ساتھ دے رکھی ہے۔ میں بھی انہیں اپنے پھل اور اپنی ٹہنی اور اپنے پتے کہتا ہوں۔ جب تک وہ پھل اپنے درخت سے لگے رہیں گے میں کھاتا رہوں گا، وہ میرے لئے جائز ہوں گے حرام نہ ہوں گے کیونکہ شجر کی اجازت سے کھارہا ہوں جب تک وہ پھل اس درخت سے لگے رہیں گے میں پوچھے بغیر کھاتا رہوں گا کیونکہ میں اسے مشروع، حلال اور لیگل سمجھوں گا۔ کیونکہ میں شجر کا ہوگیا اور شجر میرا ہوگیا۔ اب جو جو شجر سے لگ گیا وہ میرا ہوگیا، میں اس کا ہوگیا اور جس دن میں نے دیکھ لیا کہ ان پھلوں کو درختوں نے اپنے سے جدا کردیا تو میں نے بھی انہیں اپنے ہاتھ سے جدا کردیا۔ میں مارکیٹ میں گیا تو وہی پھل میں نے ٹوکری میں پڑے ہوئے دیکھے۔ اب پوچھے بغیر اٹھاؤں گا تو حرام کھاؤں گا کیونکہ اب میرے شجر کی ملکیت میں نہیں ہیں۔ جب تک وہ شجر کی ملکیت میں تھے تو میں خود کو بھی اس کا مالک سمجھتا تھا۔

جب تک بکے نہ تھے کوئی پوچھتا نہ تھا
تونے خرید کر ہمیں انمول کر دیا

جب شجر نے اسے جدا کردیا، کوئی اور مالک بن گیا، اب وہ مالک بازار میں لے گیا، سوداگر نے اس کا سودا کرلیا لہذا اب میرا اور اس کا تعلق ٹوٹ گیا۔ میں تو ایک ہی مالک کو جانتا تھا۔ میں تو ایک ہی مالک کا ہوا تھا۔ اب میں در در پہ جھک نہیں سکتا۔ ایک ہی در پر جھکا تھا اور جھکنے کا بھی طریقہ اس در نے سکھایا تھا۔ پھر جھکتا تھا، پھر اٹھتا تھا، غلطیاں کرتا تھا، پھر غلطیاں کرتے کرتے میں نے کھیلنے کے آداب سیکھ لئے۔ پھر من اور تن اس پر لٹاتا تھا۔ اس کی خدمت کرتا تھا۔ اب تم مجھ کو کہتے ہو کہ مالک بدل لو۔ کیونکہ پھل ادھر چلا گیا لہذا مالک کسی اور کو بنالو۔ ضمیر کی آواز سنیئے! اس نے کہا تو نے تو مجھے سمجھا نہیں، میں تو اپنا سودا کرچکا ہوں۔ اب تن میرا رہا نہ دھن میرا رہا، نہ سوچ میری رہی نہ دھیان اور گیان میرا رہا۔ نہ فہم میری رہی نہ ادراک میرا رہا اور نہ چاہت میری رہی۔ اب مجھے پتہ نہیں کہ کب سے میں بکا ہوں اور کب سے وہ مالک ہے۔

اللہ تعالیٰ صدیوں بعد شجرۃً مبارکۃً کسی قوم کو دیتا ہے۔ پہلے احسان کرتا ہے پھر آزماتا ہے، پھر آزماکر پکاتا ہے پھر آزماکر پرکھتا ہے، پرکھ کر پھر دوبارہ آزماتا ہے پھر پکا کرتا ہے پھر الٹاتا ہے، پھر سیدھا کرتا ہے پھر دیکھتا ہے کہ بندہ پختہ ہے تو منزل کا ایک ادراک عطا کرتا ہے پھر وہ منزل کی طرف چل پڑتا ہے۔ پھر مصائب بھی دیتا ہے کبھی سکون دیتا ہے اور کبھی سکوت، کبھی لیتا ہے کبھی دیتا ہے، تم سمجھتے ہو وہ دیتا رہے تو تم خوش رہتے ہو وہ کہتا ہے میں تجھے دے کر بھی سکھاتا ہوں اور لے کر بھی سکھاتا ہوں۔ تمہیں فیض دے کر بھی سکھاتا ہوں فیض چھین کر بھی سکھاتا ہوں۔ کسی نے مجھ سے پوچھا یہ فیض کیا ہوتا ہے؟ میں نے عرض کیافیض اس شے اور نعمت کو کہتے ہیں جب آئے تو پتہ نہیں چلتا۔ جب چلی جائے تو سب کو پتہ چلتا ہے۔ جب ملے تو بندہ کہتا ہے واہ کیا شے ہے، کیا طاقت ہے اور کیا جلوہ ہے، کیا جلال ہے؟ یہ سب کچھ ہے مگر وہ بھول جاتا ہے یہ کس کا ہے؟ تو اس کی ملکیت ہی نہیں تھی جبکہ وہ اسے اپنی ملکیت بنا بیٹھا۔ مالک پہلے سستا رہا تھا مگر اب جب مالک کی آنکھ کھلی تو اس نے وہ چیز واپس لے لی یعنی جس کا فیض تھا اس نے لے لیا۔ کیوں لے لیا؟ اس لئے کہ جب تک تم اس کے تھے وہ بھی تمہارا تھا، جس دن تم کسی اور کے ہوگئے اس دن اس نے وہ نعمت بھی لے لی۔ اس کا سب کچھ تمہارا تھا۔ اس کی زبان بھی تمہاری تھی۔ اس کا کلام بھی تمہارا تھا۔ اس کا قلم بھی تمہارا تھا۔ اس کا جمال بھی تمہارا تھا اس کی ہیبت بھی تمہاری تھی اس کا کرم بھی تمہارا تھا، چلنا بھی تمہارا تھا، پھرنا بھی تمہارا تھا، بیٹھنا بھی تمہارا تھا، جمال بھی تمہارا تھا جس دن تو نے ملکیت بدل دی اس دن سب کچھ واپس ہوگیا۔ آج ہم کہتے ہیں ہم کارکن ہیں، کارکس کو کہتے ہیں؟ کام کو، کار تمہارا ہوتا ہے کن ان کا ہوتا ہے، ہم چاہتے ہیں کار بھی ان کا ہو کن بھی ان کا ہو۔ یہ تو نظام قدرت کے برعکس ہے، وہ کہتا ہے پہلے کار تو کرکے دکھاؤ۔ پہلے کار والے تو بن کے دکھاؤ۔ پہلے اس کا حق تو ادا کرکے دکھاؤ۔ جب مالک راضی ہوجائے تو کن بھی کردے گا۔ جو کام پر اور محنت اور جہد پر لگ جاتا ہے اور منزل کو جو سمجھ لیتا ہے اور راستے پر گامزن ہوجاتا ہے اور گامزن رہتا ہے اس کا نام کارکن ہے اور منزل پر جاکر کن فیکون کردینا اس کا کام ہے۔ آئندہ سے وہ شخص اپنے آپ کو کارکن کہے جو گھر میں نہ بیٹھے۔ جو گھر بیٹھ گئے وہ دنیا کے سائل تھے، وہ دنیا کے پیچھے تھے۔ آج دنیا ادھر چلی گئی تو آج ملکیتیں بدل رہے ہیں آج دنیا تھوڑی دیر کے لئے کروٹ لے گئی تم گھروں میں بیٹھ گئے، مایوس ہوگئے، حوصلے ہار گئے، کم حوصلہ ہوگئے، پست حوصلہ ہوگئے، ہمت ہارکر آنکھیں بند کرلیں اور کہتے ہیں کہ ہم کارکن ہیں۔

لہذا کارکن نے اگر کن کا مشاہدہ کرنا ہے تو کار کرتا رہے۔ سلطان محمود غزنوی بھی 16 دفعہ کار کار کرتے رہے پھر 17 ویں دفعہ کن ہوا۔ سلطان محمود غزنوی کو کن کا فلسفہ اس چیونٹی نے سکھایا جو ننانوے دفعہ چڑھتی اور گرتی تھی پھر بالآخر اوپر چڑھنے میں کامیاب ہوگئی۔ اتنا بڑا سلطان ہوکر چیونٹی سے سیکھتا ہے اور اگر اللہ ولی ہو تو کیا کچھ نہ سکھادے۔ غوث وقت مل جائے تو کیا کچھ نہ سیکھ لے اور مجدد عصر مل جائے تو کیا کچھ نہ سیکھے پھر شیخ الاسلام تمہیں صدیوں بعد ایسے مل جائیں تو کن کیوں نہ ہو؟ میرا اعتقاد سنئے! کن اس لئے نہیں ہوا کہ کار مکمل نہیں ہوا تھا۔ اگر کار اپنی حد کو پہنچ جاتا تو کن خود بخود ہوتا جاتا، اسے کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ اب گھر بیٹھ کر تماشا دیکھنے والے موسیٰ علیہ السلام کا دور بھول گئے، نوح علیہ السلام کا دور بھول گئے۔ یحییٰ علیہ السلام کی قربانیاں اور زکریا علیہ السلام کا چِلا بھول گئے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قربانیاں بھول گئیں۔ قرآن پڑھتے ہیں، سیرت رسول پڑھتے ہیں، تاریخی کتب پڑھتے ہیں، قائد کو سنتے ہیں اور کار پر گامزن نہیں ہوتے پھر آقا علیہ السلام کی سنت طیبہ بھول گئے۔ شعب ابی طالب میں تین سال بیت رہے ہیں مگر کار کسی نے نہیں چھوڑا۔ مکی دور میں پس رہے ہیں احد احد کررہے ہیں مگر کار کسی نے نہیں چھوڑا۔ ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے ہیں مگر کار کسی نے نہیں چھوڑا۔ حبشہ کی طرف جاکر واپس آجاتے ہیں مگر کار کسی نے نہیں چھوڑا۔ پھر بے یارو مددگار، کاروبار اور اہل عیال چھوڑ کر مدینۃ المنورہ روانہ ہوجاتے ہیں۔

وہاں جاکر یہودیوں سے مقابلہ ہوتا ہے بڑے بڑے دشمنوں سے مقابلہ ہوتا ہے۔ خیبر والوں سے مقابلہ ہوتا ہے۔ بنو قینقاع، بنو قریضہ، سب سے مقابلہ ہوتا ہے۔ مگر کار نہیں چھوڑا پھر وہاں پر ریاست مدینہ قائم ہوتی ہے۔ کوئی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خط پھاڑ رہا ہے، کوئی دشمنی کررہا ہے، کوئی بدر اور کوئی احد میں بلا رہا ہے، کوئی خندق میں بلا رہا ہے۔ مگر کار نہیں چھوڑا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم زخمی ہورہے ہیں۔ خود حضور علیہ السلام کا دندان مبارک شہید ہورہا ہے۔ مگر کار کسی نے نہیں چھوڑا۔ پھر چودہ سو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم صلح حدیبیہ کے لئے پہنچتے ہیں۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام لے کر جاتے ہیں کہ مجھے بشارت ہوئی ہے کہ اللہ فتح عطا کرنے والا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فتح و نصرت اور بشارت کی تعبیر دیکھنے کے لئے جاتے ہیں جب وہاں پہنچتے ہیں تو مذاکرات کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ احرام کھول دو۔ یہ جانور ذبح کردو کیونکہ میں نے شرائط پر دستخط کردیئے ہیں۔ لہذا واپس چلتے ہیں اس وقت بھی کار کسی نے نہیں چھوڑا۔

کسی ایک صحابہ نے عرض نہیں کی کہ کن کدھر ہے؟ آپ تو کن والے ہیں، کن کی طاقت والے ہیں، تصرف کائنات آپ کے پاس ہے، آپ تو وجہ تخلیق کائنات ہیں۔ آپ تو مختار ہیں۔ آپ جو چاہیں وہ ہوتا ہے جب چاہیں تب ہوتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھا جاتا تو کہتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہتر جانتے ہیں۔ پھر مایوس ہوکر پوچھا جاتا ہے کیا یہ دین اللہ کا دین ہے؟ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے سچے نبی ہیں؟ فرمایا کیوں نہیں۔ مگر جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے؟ کہ اس میں کیا حکمت کارفرما ہے؟ (یعنی بس تم کار نہ چھوڑو جب وقت آئے گا کن ہوجائے گا)۔ لہذا کار کسی نے نہیں چھوڑا۔ پھر چل پڑے۔ عرض کیا اب کیا کریں فرمایا: گھر میں کیوں بیٹھے ہو چلو۔ عرض کیا یارسول اللہ! کیا کریں۔ فرمایا: کار کرو۔ اب مجھے بتائیں کہ اس وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کیفیت کیا ہوگی۔ اب تھوڑا سا چشم نظر میں لاکر دیکھیں کیا ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے ہوں گے۔ حوصلہ نہیں ہارے ہوں گے۔

ہمارے سترہ جون کے شہداء سلامت رہیں اللہ ان کو اپنی برکتوں میں آقا علیہ السلام کی خیر عطا کرتا رہے وہاں پھلتے اور پھولتے رہیں۔ انہیں وہاں علیین میں وہ کچھ عطا کیا جارہا ہے جو آپ کے چشم تصور میں بھی نہیں۔ وہ اپنا کار کرگئے وہ کن میں بیٹھے ہیں۔ وہ اپنی منزل پر پہنچے ہیں وہ دیکھ رہے ہیں، ان کو مل رہا ہے، وہ کھا اور پی رہے ہیں کیونکہ وہ کار والے تھے۔ اللہ ان کے اہل اقارب کو سلامت رکھے۔ حوصلہ اور صبر دے ان شاء اللہ اس کا بدلہ اللہ رب العزت ضرور عطا کرے گا۔