مفسرہ قرآن و حدیث ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا

مرتّبہ: نازیہ عبدالستار

عائشہ کے معنی ہیں خوشحال اور صاحب اقبال چونکہ عائشہ رضی اللہ عنہا ایک کھاتے پیتے اور خوشحال گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان کے والد ماجد حضرت عبداللہ ابوبکر رضی اللہ عنہ قریش کے سرداروں میں سے تھے اور قبیلہ تیم بن مرہ سے تعلق رکھتے تھے۔ علم الانساب میں ماہر تھے اور ان کا کاروبار بھی دور دور تک پھیلا ہوا تھا لہذا خاندانی شرف اور مالی خوشحالی کی بناء پر ان کے والدین نے ان کا نام عائشہ رکھا اور چشم فلک نے دیکھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ام رومان کی بیٹی عائشہ اسم بامسمیٰ یعنی بلند اقبال ٹھہریں اور ام المومنین کے مرتبے پر فائز ہوئیں۔

صدیقہ آپ رضی اللہ عنہا کا لقب، ام المومنین آپ کا خطاب جبکہ ام عبداللہ آپ رضی اللہ عنہا کی کنیت تھی۔ عرب میں کنیت شرف کا نشان سمجھی جاتی تھی اس وجہ سے ہر مرد اور عورت اپنی کنیت ضرور رکھتا تھا۔ چنانچہ ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم آپ میری بھی کنیت مقرر فرمادیں کیونکہ میری تمام سہیلیوں کی کنیتیں ہیں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: تو اپنی بہن اسماء زوجہ حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کے نومولود بیٹے اور اپنے بھانجے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے نام پر اپنی کنیت ام عبداللہ رکھ لے۔ (مسند احمد، ابودائود، مستدرک حاکم)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کاشانہ نبوت صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں بطور زوجہ قریباً دس برس گزارے او رکم و بیش نصف قرآن اس عرصہ میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر آپ کے ہاں رہتے ہوئے نازل ہوا۔ جو حصہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حریم نبوت صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں داخل ہونے سے پہلے اتر چکا تھا اس سے بھی آپ رضی اللہ عنہا بخوبی باخبر تھیں مزید یہ کہ رب کائنات نے آپ کو ایسے اسباب اور مواقع عطا فرمائے کہ معلم کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صحبت کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہا قرآن پاک کی ایک ایک آیت کی طرز قرات، موقع استدلال اور طریقہ استنباط پر کامل عبور رکھتی تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہا ہر مسئلہ کے حل کے لئے اکثر قرآن پاک سے رجوع فرماتی تھیں۔ ایک دفعہ چند حضرات آپ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور عرض کی:

ام المومنین رضی اللہ عنہا! آپ رضی اللہ عنہا رہبر کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے کچھ اخلاق بیان فرمائیں۔ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کیا تم قرآن نہیں پڑھتے۔ امام کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا اخلاق سرتاپا قرآن تھا۔

انہوں نے پھر دریافت فرمایا: حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی رات کی عبادت کا کیا طریقہ تھا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: کیا آپ لوگوں نے سورہ مزمل نہیں پڑھی؟ (ابودائود، مسند احمد)

قرآن کے ساتھ ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو حدیث پر بھی عبور حاصل تھا۔ حدیث کا منبع و ماخذ چونکہ ذات رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہی ہے اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اسی ذات سے سب سے زیادہ تقرب حاصل تھا۔ آپ رضی اللہ عنہا نے محبوب خدا کو جلوت و جلوت میں دیکھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قول و فعل کا بنظر غائر مشاہدہ کیا تھا۔ اس لئے آپ سے بہتر مصدقہ روایت حدیث اور کس کی ہوسکتی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا کو خداداد قوت حافظہ اور فطری ذہانت و فطانت بھی حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے 2210 احادیث مبارکہ مروی ہیں۔ یہ فضیلت کسی بھی ام المومنین کو حاصل نہیں حالانکہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ایک پردہ نشین خاتون اور ام المومنین ہونے کے باعث مرد معاصرین صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی طرح ہر مجلس میں نہ جاسکتی تھیں جس میں رہبر کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم موجود تھے لیکن اس کے باوجود آپ رضی اللہ عنہا سے مروی احادیث کا ہزاروں کی تعداد میں ہونا اس امر کی شہادت ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر نامدار صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حیات طیبہ کا ایک ایک لمحہ جو آپ رضی اللہ عنہا کی نظر سے گزرا اسے ذہن میں بحسن و خوبی محفوظ کرلیا۔

اکثر روایات احادیث صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے صرف بیان کرنے کی حد تک رکھی ہیں مگر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو یہ شرف حاصل تھا کہ آپ رضی اللہ عنہا نے جن احکام اور واقعات کو روایت کیا ہے ان میں سے اکثر کے اسباب و علل بھی بیان کئے ہیں اور وہ خاص حکم کن مصلحتوں کی بناء پر صادر کیا گیا اس کی تشریح بھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتیں۔ گویا آپ رضی اللہ عنہا کے ذہن میں احادیث کا مکمل سیاق و سباق اور حوالہ موجود ہوتا تھا۔ بعض اوقات رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم جو احکامات دیتے تھے ان کی مصلحتیں خود بتادیتے تھے اور کبھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سرور کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے خود پوچھ لیتی تھیں۔ اس ضمن میں آپ کوئی خوف یا ڈر محسوس نہیں کرتی تھیں بلکہ سوال کرکے اور تسلی بخش جواب پاکر مطمئن ہوجایا کرتی تھیں۔ بے شمار ایسے واقعات ہیں جن کے اسباب اور مصلحتوں کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے مثلاً جمعہ کے روز غسل کرنا واجب ہے لیکن اس کے سبب کے بارے میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے:

’’لوگ اپنے گھروں سے اور مدینہ کے باہر کی آبادی سے جمعہ کی نماز میں آکر شامل ہوتے تھے وہ گردو غبار اور پسینے سے بھرے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک آدمی سرور کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس وقت میرے ہاں تشریف فرما تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جب اس کی یہ حالت دیکھی تو فرمایا کہ تم آج جمعہ کی نماز کے لئے نہالیتے تو اچھا ہوتا‘‘۔ (بخاری، کتاب الغسل)

اسی طرح عام طور پر سمجھا جاتا تھا کہ چار رکعت والی نمازیں سفر کی حالت میں سہولت کی خاطر دو رکعت میں بدل گئی ہیں جبکہ اس بارے میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مکہ میں دو رکعت نماز فرض تھی۔ جب سرکار دو جہاں صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہجرت فرمائی تو چار رکعت فرض کی گئیں اور سفر کی نماز اپنی حالت پر چھوڑ دی گئی اور وہ دو رکعت ہی رہیں۔ ہجرت کے بعد نمازوں میں جب دو رکعتوں کی بجائے چار رکعتیں ہوگئیں تو پھر مغرب میں تین رکعتیں کیوں ہیں؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اس ضمن میں فرماتی ہیں کہ مغرب کی رکعتوں میں اضافہ اس لئے نہ ہوا کیونکہ وہ دن کی نمازکا وتر ہے۔ (مسند احمد بن حنبل)

صبح کی نماز میں دو رکعتیں کیوں برقرار ہیں وہ چار کیوں نہ ہوئیں؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے کہ نماز فجر میں رکعتوں کا اضافہ اس لئے نہ ہوا کیونکہ صبح کی دونوں رکعتوں میں لمبی سورتیں پڑھی جاتی ہیں۔

(مسند احمد)

سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی رات کی عبادت، نماز و نوافل کے بارے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ کوئی واقف نہ تھا۔ آپ رضی اللہ عنہا نماز تراویح کے بارے میں فرماتی ہیں: ماہ رمضان میں ایک روز سردار دو جہاں صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے نماز تراویح پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو نماز میں مشغول دیکھ کر کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ بھی شریک ہوگئے۔ دوسرے روز پہلے سے زیادہ اجتماع ہوگیا۔ تیسرے روز اس سے زیادہ لوگ جمع ہوگئے۔ چوتھے روز اتنا مجمع ہوا کہ مسجد نمازیوںسے بھر گئی اور تل دھرنے کو جگہ نہ رہی لیکن اس روز رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ والہ وسلم مسجد میں تشریف نہ لے گئے البتہ صبح کو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا: گذشتہ رات تمہاری آمد مجھ سے مخفی نہ تھی لیکن مجھے ڈر ہوا کہ کہیں تم پر تمہارے شوق کی وجہ سے تراویح کی نماز فرض نہ ہوجائے اور تم اس کے ادا کرنے سے قاصر رہو۔ (بخاری، باب قیام رمضان)

لیکن سرور دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وصال کے بعد جب کہ فرضیت کا گمان جاتا رہا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نماز تراویح کو رغبت کے ساتھ ادا کرتے رہے۔ حجۃ الوداع میں شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سواری پر بیٹھ کر طواف کیا اس سے بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ یہ سنت بالالتزام ہے جبکہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا اس ضمن میں فرمان ہے: ’’سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے طواف کے لئے سواری اس لئے استعمال کی تھی کہ لوگوں کا ایک جم غفیر تھا اور اس بے انتہاء بھیڑ میں ہر شخص کی کوشش تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قریب پہنچ جائے۔ اس ہجوم میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس بات کو ناپسند کیا کہ لوگوں کو زبردستی ہٹایا جائے۔ لہذا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سواری پر بیٹھ کر طواف کیا تاکہ ہر شخص کی نگاہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر پڑسکے اور کوئی اس سعادت سے محروم نہ رہے‘‘۔ (مسلم کتاب الحج، ابودائود)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نہ صرف قرآن و حدیث پر مہارت رکھتی تھیں بلکہ آپ رضی اللہ عنہا کو تاریخ ادب، خطابت اور شاعری میں بھی خاص ملکہ حاصل تھا۔ علم طب میں بھی انہیں اچھی خاصی واقفیت حاصل تھی۔ تذکرۃ الحفاظ للذہبی میں ہشام بن عروہ کا بیان ہے کہ میں نے قرآن، فرائض، فقہ، شاعری، عرب کی تاریخ اور علم الانساب میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ عالم اور واقف کسی کو نہیں دیکھا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا اسی قسم کا فرمان زرقانی نے بھی نقل کیا ہے۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ایک شخص نے پوچھا: آپ شاعری کرتی ہیں اس لئے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہیں۔ اسی طرح عرب کی تاریخ اور علم الانساب میں بھی آپ رضی اللہ عنہا کے والدماجد خاصی مہارت رکھتے تھے۔ ان علوم کی آشنائی آپ رضی اللہ عنہا کی وراثت ہے مگر آپ رضی اللہ عنہا کو علم طب سے کیسے واقفیت ہوئی؟

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم آخری عمر میں بیمار رہا کرتے تھے۔ عرب کے طبیب آکر جو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بتاتے وہ یاد کرلیتی تھی۔ (مستدرک حاکم، مسند احمد)

صحیح ترمذی میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ’’ہم اصحاب محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کوئی ایسی مشکل بات پیش نہیں آئی کہ ہم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا اور ان کے پاس اس کے متعلق کچھ معلومات ہم کو نہ ملی ہوں‘‘۔

حضرت عبدالرحمن بن عوف کے صاحبزادے حضرت ابو سلمہ ایک جلیل القدر تابعی تھے آپ کا فرمان ہے۔ میں نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنتوں کو جاننے والا اور رائے میں اگر اس کی ضرورت پڑے ان سے زیادہ فقہ اور آیتوں کے شان نزول اور فرائض کے مسائل کا واقف کار حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کرکسی کو نہیں دیکھا۔

قرآن پاک کی سورۃ الاحزاب میں امہات المومنین رضی اللہ عنہا کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہے: ’’تمہارے گھروں میں اللہ کی جو آیتیں اور حکمت کی باتیں پڑھ کر سنائی جارہی ہیں ان کو یاد کیا کرو‘‘۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رب کریم کے اس حکم پر حرف بہ حرف عمل کیا اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حیات مبارکہ کے لمحہ لمحہ کو اپنے دل و دماغ میں نقش کرلیا اور پھر ان نقوش کو تشنگان علم تک پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ قرآن حکیم کے حوالے سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی تفسیری روایتیں تاریخ اسلام اور تفہیم دین کا ایک بے بہا سرمایہ ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہا نے مختلف اوقات میں لوگوں کے سوالات کے جوابات دے کر نہ صرف ابہام کو دور فرمایا بلکہ غوروفکر کی روشن تر راہیں بھی متعین فرمادیں مثلاً

اعمال حج میں کوہ صفا و مروہ کے درمیان دوڑنا بھی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: صفا مروہ کی پہاڑیاں شعائر الہٰی میں سے ہیں پس جو خانہ کعبہ کا حج یا عمرہ کرے کچھ مضائقہ نہیں اگر ان کا بھی وہ طواف کرے۔ (سورہ بقرہ)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے! حضرت عروہ نے پوچھا خالہ جان اس کے تو یہ معنی ہوئے کہ اگر کوئی طواف نہ کرے تو بھی کچھ حرج نہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’بھانجے ایسی بات نہیں اگر اس آیت کا مطلب وہ ہوتا جو تم سمجھے ہو تو رب ذوالجلال یوں فرماتا اگر ان کا طواف نہ کرو تو کچھ حرج نہیں‘‘۔

دراصل یہ آیت انصار کی شان میں نازل ہوئی ہے کیونکہ اوس و خزرج اسلام سے پہلے منات کی پکار کرتے تھے اس لئے صفا اور مروہ کا طواف برا جانتے تھے۔ اسلام لائے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دریافت کیا کہ ہم لوگ پہلے ایسا کرتے تھے اب کیا حکم ہے اس پر رب رحمن و رحیم نے ارشاد فرمایا کہ صفا اور مروہ کا طواف کرو اس میں کوئی مضائقہ کی بات نہیں۔ مزید یہ کہ معلم کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے خود صفا مروہ کا طواف فرمایا تو اب کسی کو اس کے ترک کرنے کا حق نہیں۔

اسی طرح قرآن مجید کی سورۃ النساء میں حکم خداوندی ہے کہ ’’اگر تمہیں ڈر ہو کہ یتیموں کے بارے میں انصاف نہ کرسکو گے تو عورتوں میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کرلو۔ اگر عدل نہ ہوسکے تو ایک پر اکتفا کرو‘‘۔ اب بظاہر آیت کے پہلے اور بعد کے حصے میں باہم ربط تلاش کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یتیموں کے حقوق میں عدل و انصاف اور نکاح کی اجازت میں کیا ربط اور تعلق ہے؟ ایک شخص نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی توجہ اس طرف دلائی تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ بعض لوگ یتیم لڑکیوں کے ولی بن جاتے ہیں ان سے موروثی رشتہ داری ہوتی ہے۔ وہ اپنے ولی ہونے کی وجہ سے چاہتے ہیں کہ ان سے نکاح کرکے ان کی جائیداد پر قبضہ کرلیں اور چونکہ ان کی طرف سے بولنے والا یا پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا اس سے انہیں مجبور پاکر انہیں ہر طرح سے بے بس کردیتے ہیں چنانچہ رب ذوالجلال ایسے مردوں سے مخاطب ہوکر انہیں حکم دیتا ہے کہ اگر تم ان یتیم لڑکیوں کے معاملہ میں انصاف نہ کرسکو تو ان کے علاوہ اور عورتوں سے دو تین چار نکاح کرلو تاہم پھر بھی انصاف سے کام لو مگر ان یتیم لڑکیوں کو اپنے نکاح میں لے کر انہیں بے بس نہ کرو۔

قرآن پاک کی سورۃ النساء میں ہی اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے اور اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے نارضا مندی اور اعراض کا خوف ہو تو اس میں مضائقہ نہیں کہ دونوں آپس میں صلح کرلیں اور صلح تو ہر حال میں بہتر ہے۔ ناراضی دور کرنے کے لئے صلح کرلیں تو بالکل واضح بات ہے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ رب تعالیٰ کو اس کے لئے ایک خاص حکم کے نزول کی کیا حاجت تھی؟ اس کی توضیح کرتے ہوئے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: یہ آیت اس عورت کے لئے ہے جس کا شوہر اس کے پاس زیادہ آتا جاتا نہیں یا بیوی سن رسیدہ ہوگئی ہے اور شوہر کی خدمت گزاری کے قابل نہیں رہی ہے۔ اس خاص حالت میں اگر بیوی طلاق لینا پسند نہ کرے اور بیوی رہ کر اپنے حق سے سبکدوشی اختیار کرلے تو یہ باہمی مصالحت بری نہیں بلکہ قطعی علیحدگی سے یہ صلح بہتر ہے۔

خدائے بزرگ و برتر کا قرآن پاک کی سورۃ البقرہ میں نماز کے متعلق حکم ہے نمازوں کی پابندی کرو خصوصاً بیچ کی نماز کی۔

مسند احمد بن حنبل میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اور حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اس سے ظہر کی نماز مراد ہے جبکہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیںـ ’’درمیان کی نماز سے مراد عصر کی نماز ہے‘‘۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اپنی تفسیر کی صحت پر اس قدر اعتماد تھا کہ اپنے مصحف کے حاشیہ پر انہوں نے اس کو لکھوادیا تھا اس تفسیر کی صحت حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی ثابت ہوتی ہے۔ (صحیح بخاری، جامع ترمذی)

سورۃ النساء کی آیت نمبر18 میں رب ذوالجلال کا ارشاد ہے کہ جو کوئی برائی کرے گا اس کو اس کا بدلہ دیا جائے گا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک شخص حاضر ہوا اور بولا اگر یہ سچ ہے تو مغفرت اور رحمت الہٰی کی شان کہاں ہے اور نجات کی امید کیونکر کی جاسکتی ہے؟

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں نے جب سردارالانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے اس آیت کی تفسیر پوچھی ہے تم ہی پہلے شخص ہو جس نے اس بارے میں مجھ سے دریافت کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان سچ ہے لیکن سب رحمن و رحیم اپنے بندے کے چھوٹے چھوٹے گناہ ذرا سی مصیبت اور ابتلا کے بدلے بخش دیتا ہے۔ مومن جب بیمار ہوتا ہے یا اس پر کوئی مصیبت آتی ہے یہاں تک کہ جیب میں کوئی چیز رکھ کر بھول جاتا ہے اور اس کی تلاش میں اس کو پریشانی لاحق ہوتی ہے تو رب غفور الرحیم کی مغفرت اور رحمت کا دروازہ کھل جاتا ہے اور مومن بہت چھوٹے چھوٹے گناہوں سے پاک ہوجاتا ہے۔

احکامات الہٰی کی تفسیر کے ساتھ ساتھ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے شوہر نامدار رہبر کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے فرامین، ارشادات اور افعال کا بھی گہرے مشاہدہ اور عمیق نظری کے ساتھ تجزیہ فرماتی تھیں۔ ایک سال ختم المرسلین نے حکم دیا تھا کہ قربانی کا گوشت تین دن کے اندر اند رکھالیا جائے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے ساتھ ساتھ دوسرے صحابہ عظام رضی اللہ عنہ نے اس حکم کو دائمی سمجھا۔ (بخاری، ترمذی)

لیکن حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس حکم کی تشریح اس طرح کرتے ہوئے فرمایا کہ قربانی کے گوشت کو نمک لگاکر ہم رکھ چھوڑتے تھے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے پیش کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: تین دن کے بعد نہ کھایا کریں یہ حکم قطعی نہ تھا بلکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم یہ چاہتے تھے کہ لوگ دوسروں کو اس میں سے کچھ کھلادیا کریں۔ اسی حوالے سے ایک شخص نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا ام المومنین کیا قربانی کا گوشت کھانا منع ہے؟

آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا نہیں ایسا نہیں، دراصل ان دنوں قربانی کرنے والے کم تھے اس لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے چاہا کہ جو قربانی نہیں کرسکتے ان کو کھلائیں۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جس حکم، قول یا فعل کو ہادی کون و مکان صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے بلاواسطہ نہ سنا نہ دیکھا ہوتا بلکہ دوسروں سے حاصل کیا ہوتا تھا۔ اس میں سخت احتیاط کرتی تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہا اگر کوئی روایت کسی سے لیتی تھیں اور کوئی شخص اس روایت کو آپ سے دریافت کرنے آتا تو بجائے خود روایت کو بیان کرنے کے آپ سائل کو اصل راوی کے پاس بھیج دیتی تھیں تاکہ دوسروں تک بات بلاواسطہ اور زیادہ مستند پہنچ سکے۔ کچھ لوگوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: کیا سرور کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم نماز عصر کے بعد گھر آکر سنت ادا فرماتے تھے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے جاکر پوچھو اصل راوی وہی ہیں۔

ایک دفعہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نامی صحابیہ نے اپنا واقعہ بیان کیا کہ اسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے عدت کے دوران شوہر کے گھر سے منتقل ہونے کی اجازت دے دی تھی حالانکہ عورت کو عدت کے دن شوہر کے گھر ہی میں گزارنا چاہئیں۔ صحابیہ فاطمہ رضی اللہ عنہانے مختلف اوقات میں متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے سامنے اپنے واقعہ کو بطور استدلال پیش کیا۔ اس بات کا علم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو ہوا تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: فاطمہ کے لئے بھلائی نہیں ہے کہ وہ اپنے اس واقعہ کو بیان کرے۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے عدت کی حالت میں ان کو شوہر کے گھر سے منتقل ہونے کی اجازت بے شک دی مگر وہ ہنگامی صورت حال تھی۔ وجہ یہ تھی کہ ان کے شوہر کا گھر ایک غیر محفوظ اور خوفناک مقام پر تھا۔ (صحیح بخاری، جامع ترمذی)

عورت کی عدت سے بعض فقہاء نے یہ نتیجہ نکالا کہ اگر وہ شوہر کے ساتھ ہے تو شوہر کی وفات جہاں ہو اگر ساتھ نہیں تو جہاں اس کو خیر معلوم ہو اس کو وہیں ٹھہر کر عدت کے دن گزارنا چاہئیں۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آخری زندگی میں برابر فتوے دیتی رہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اکثر مجسم قرآن حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عزیز ترین زوجہ مطہرہ مجسم حدیث حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے استفسار فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا انتہائی تحمل کے ساتھ ان کی باتیں سنتیں اور انتہائی خندہ پیشانی کے ساتھ ان کو تسلی بخش جواب سے نوازتیں۔ (پروفیسر خالد پرویز، امہات المومنین)