ہمارا مطالبہ دیت نہیں قصاص ہے

نوراللہ صدیقی

سانحہ ماڈل ٹاؤن کو آج برپا ہوئے ایک سال مکمل ہو گیا، ایک سال کے بعد ہم اپنے زخمی و شہید کارکنوں کے ساتھ اس عہد کی تجدید کرتے ہیں کہ ہم آپ کو نہ بھولے اور نہ قاتلوں کی پھانسی تک چین سے بیٹھیں گے اور نہ ہی حکمرانوں کے مسلسل ایک سال سے جاری مظالم، جھوٹے مقدمات، سزائیں اور انتقامی کارروائیاں ہمارے حوصلوں کو کمزورکر سکیں۔ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری بارہا اعلان کر چکے ہیں کہ قاتلوں کی پھانسی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے اور ہمارا مطالبہ دیت نہیں قصاص ہے۔ ظالم اور قاتل حکمرانوں نے سربراہ عوامی تحریک ڈاکٹر طاہر القادری کو ڈرانے اور جھکانے کیلئے ہر ستم اور ہتھکنڈہ آزمایا، ان کے خلاف سنگین دفعات کے تحت درجنوں مقدمات درج کیے، ان کا میڈیا ٹرائل کیا، ڈیل کی گھٹیا اور لغو تہمت لگائی مگر وہ انہیں ڈرا ،دبا اور جھکا نہ سکے۔ وہ آج بھی اپنے شہید کارکنوں کے خون کا بدلہ خون کی صورت میں مانگ رہے ہیں۔ ان کا فرمانا ہے کہ انقلاب کیلئے جانیں دینے والے کارکنوں جیسے کارکن آج تک کسی ماں نے جنیں اور نہ کوئی ماں جنے گی۔ کارکنوں نے خون کا نذرانہ دیکر پاکستان کے عوام کے مقدر میں انقلاب لکھ دیا ہے اب دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو انقلاب سے دور رکھ سکتی ہے اور نہ ہی قاتلوں کو پھانسی کی سزا سے بچا سکتی ہے۔29 جون 2014 ء کے دن آل پارٹیز کانفرنس میں قومی سیاسی رہنماؤں نے جس عزم کا اظہار کیا تھا آج بھی پاکستان عوامی تحریک اور آل پارٹیز کانفرنس میں شریک ہونے والی جماعتوں کی لیڈر شپ اس پر قائم ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس میں ق لیگ کے مرکزی صدر چودھری شجاعت حسین، تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی، ایم کیو ایم کے رہنما خالد مقبول صدیقی، سنی اتحاد کونسل کے صدر صاحبزادہ حامد رضا، عوامی مسلم لیگ کے صدر شیخ رشید، مجلس وحدت المسلمین کے رہنما راجہ ناصر عباس ،جماعت اسلامی کے رہنما نذیر احمد جنجوعہ، تحریک ہزارہ کے بابا حیدر زمان، علامہ ابتسام الٰہی ظہیر، آل پاکستان مسلم لیگ کے رہنما احمد رضاقصوری، سردار آصف احمد علی، سابق گورنر پنجاب غلام مصطفی کھر، جمشید دستی، جے سالک، مائیکل جاوید، سردار رمیش سنگھ، اجمل وزیر، راحیلہ ٹوانہ نے شرکت کی۔ قومی رہنماؤں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کو حکومتی غنڈہ گردی اور ریاستی دہشتگردی کا بدترین واقعہ قرار دیا۔آج ایک سال کے بعد آل پارٹیز کانفرنس کے اعلامیہ کو قارئین کے مطالعہ کیلئے پیش کررہے ہیں کہ آل پارٹیز کانفرنس میں جن نکات پر اتفاق کیا گیا تھا پاکستان عوامی تحریک اور اس کی قیادت آج تک ان نکات پر عمل پیرا ہے اور انصاف کیلئے جدوجہد کررہی ہے اور کامل انصاف تک چین سے نہیں بیٹھے گی۔

آل پارٹیز کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ

  • 17جون کو لاہورمیں ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ اور منہاج القرآن سیکرٹریٹ پر ہونے والا پولیس حملہ ریاستی دہشت گردی، قتل وغارت گری اور حکومتی بربریت وتشدّد کی بدترین مثال ہے ،جس میں نہتے اور پُرامن شہریوں پر براہِ راست گولیاں چلائی گئیںاور پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ نہتی خواتین کوبھی براہِ راست گولیوں کا نشانہ بناتے ہُوئے شہید کر دِیا گیااور قرآن مجید کی بے حرمتی کی گئی۔سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور کی شدید ترین الفاظ میں مذمّت کی جاتی ہے ۔عوام کے جان ومال کا تحفظ ،آزادی اظہار رائے اور پرامن احتجاج کا عوامی حق حقیقی جمہوریت کے ناگزیر تقاضے ہیں۔پُرامن اور نہتے شہریوں پر ظلم وبربریت ایک ایسا عمل ہے جو اسلامی ،آئینی،قانونی، جمہوری اور بین الاقوامی اقدار کی دھجیاں اُڑانے کے مترادف ہے ۔وفاقی وصوبائی حکومتوں اور پولیس انتظامیہ کو متنبہ کیا جاتاہے کہ اِس طرح کے کسی واقعے کو قطعی برداشت نہیں کیا جاسکتا اوراس کے ذِمہ داران کو اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں ۔
  • سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور میں قتل و دہشت گردی میں ملوّث پولیس کی مدعیت میں دہشت گردی کا شکار ہونے والے مظلومین اور متاثرین کے خلاف درج ہونے والی بے بُنیاد اور جُھوٹی FIRاور اِس واقعہ کے خلاف مختلف شہروں میں ہونے والے پرامن مظاہروںمیں شریک مرد وخواتین کے خلاف درج کی جانے والی جملہ FIRsکو مکمل طور پر مسترد کیا جاتا ہے۔واضح رہے کہ پر امن مظاہرے کرنا آئین پاکستان کے آرٹیکل 16کے تحت شہریوں کا بنیادی حق ہے اس لیے ان بے بنیاد مقدمات کے فوری اخراج کا بھرپور مطالبہ کیا جاتا ہے ۔مزید برآں پُرزور مطالبہ کیا جاتا ہے کہ منہاج القرآن کی طرف سے تھانہ فیصل ٹاؤن میں دائر کی جانے والی درخواست پر فوری FIRدرج کی جائے ۔اس درخواست کو 10دنوں سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے مگر FIRدرج نہیں کی گئی ۔
  • ریاستی دہشت گردی اور قتل عام کے مناظر ملکی چینلز پر براہِ راست دکھائے جاتے رہے جس میں نہتے شہریوں پر براہِ راست فائرنگ کی گئی ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب اِس قتل و دہشت گردی کے اصل ذِمہ دارہیں۔اُن کے مسندِ اقتدار پر رہتے ہوئے کسی قسم کی غیر جانبدارانہ تفتیش وشہادتوں کا کوئی امکان ہے نہ ہی عدل و انصاف کے تقاضوں کی بجا آوری ممکن ہے ۔ لہٰذا وزیراعلیٰ پنجاب اور اس جرم میں شریک وزراء فی الفور مستعفی ہو کر خودکو قانون کے حوالے کریں ۔اگر وزیرِاعلیٰ ازخود مُستعفی نہ ہوں تو صدر مملکت بحیثیت سربراہ ریاست اُن کو Stepdownکرانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔
  • سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور میں ملوّث جملہ پولیس افسران اور انتظامی عہدیداران بشمول IG،DIGآپریشنز، ہوم سیکرٹری پنجاب،DCO، CCPO،SSP's،SPماڈل ٹاؤن اور متعلقہ DSP'sاور SHO's کو فوری طورپر برطرف کر کے قتلِ عام ،دہشت گردی اور اقدامِ قتل کے جرم میں گرفتار کیا جائے۔
  • سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور کی آزادانہ ،غیرجانبدارانہ تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے تین ایسے غیر متنازعہ ،غیر جانبداراور اچھی شہرت کے حامل ججز جن پر متاثرین کو مکمل اعتماد ہو ،پر مشتمل بااختیارجوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے۔ کمیشن کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ وزیر اعظم ،نامزد ووفاقی وزراء ،وزیر اعلیٰ پنجاب سمیت کسی بھی حکومتی و انتظامی شخصیت یا اہلکار کو طلب کر سکے ۔مزیدبرآں جوڈیشنل کمیشن سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے لیے تحقیقی اداروں کے اچھی شہرت کے حامل اعلیٰ افسران جن پر متاثرین کو مکمل اعتماد ہو، پرمشتمل انکوائری کمیٹی تشکیل دی جائے۔