والدین، اولاد اور عصرِ حاضر کے تقاضے

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ترتیب و تدوین:محمد حسین آزاد الازہری معاونت: ملکہ صبا

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے والدین اور اولاد کی تربیت کے حوالے سے مورخہ 13-12-1996 کو تربیتی خطاب فرمایا جس کی اہمیت کے پیشِ نظر ایڈیٹ کرکے نذر قارئین کیا جارہا ہے۔ جس کی CD#268 ہے۔ اس میں مکمل خطاب سنا جاسکتا ہے۔ منجانب: ادارہ دختران اسلام

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

معزز خواتین و حضرات! اللہ رب العزت کا شکر ہے جس نے ہم سب کو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے امتی ہونے کے ناطے سے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے فیوضات میں سے حصہ عطا فرمایا۔ ایک مرتبہ جب غزوہ احد سے مال غنیمت آیا تو سیدنا فاروق اعظم نے اپنا قمیص مبارک بنواکر پہن لیا جبکہ انہیں بھی اور ہر ایک کو مال غنیمت سے ایک ایک چادر ملی تھی۔ آپ کا قدوقامت بڑا تھا جس کی وجہ سے ایک چادر سے ان کا قمیص نہیں سل سکتا تھا اور جب سیدنا عمر فاروق وہ قمیض پہن کر صحابہ کرام کی مجلس سے خطاب کے لئے کھڑے ہوئے تو ایک شخص نے سوال کیا کہ یا امیرالمومنین! ایک ایک چادر سب کے حصے میں آئی ہے اور آپ کو بھی ایک چادر ملی ہے تو اس سے آپ کی قمیص نہیں بن سکتی تھی تو پھر آپ نے کیسے سلوا لی؟ سیدنا فاروق اعظم نے خود جواب نہیں دیا بلکہ اپنے بیٹے کو کہا کہ کھڑے ہوکر جواب دو۔ آپ کے بیٹے نے گواہی دی کہ میں نے اپنی چادر بھی اپنے والد گرامی کو دے دی تھی۔ اس طرح سے انہوں نے دو چادریں ملاکر قمیص سلوائی ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی سنت کے ذریعے یہ معیار و طریقہ عطا فرمایا ہے۔ اگر چھوٹے بڑوں سے جواب طلبی نہ کرسکیں اور صرف بڑا ہی چھوٹوں سے جواب طلبی کرے تو پھر نظام قائم نہیں ہوتا یعنی باہمی حقوق اور دنیا کا نظام چلانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ بڑا اگر چھوٹے کو نصیحت کرتا ہے، سزا دیتا ہے، گرفت کرتا ہے، یا تنبیہ کرتا ہے تو اس طرح ورکروں، پیروکاروں، عقیدت مندوں کا بھی اسی طرح حق ہے کہ اگر ان کا قائد، رہنما اپنے کہنے کے خلاف چلتا ہے اور اس کے قول و فعل میں تضاد ہے، منافقت ہے، دین و شریعت کے خلاف کام کرتا ہے تو ان کا بھی حق ہے کہ نہ صرف جواب طلبی کریں بلکہ اگر ضرورت پڑے گریبان تک بھی ہاتھ پہنچاسکتے ہیں۔

سیدنا صدیق اکبر جب تخت خلافت پر بیٹھے تو آپ نے پہلا خطبہ ارشاد فرمایا اور اس پہلے خطبے کے الفاظ یہ تھے فرمایا: ’’لوگو! میری اطاعت کرو اس وقت تک جب تک میں اللہ اور اس کے رسول کا کہنا مانتا ہوں اور اگر میں اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کروں تو تم میرا حکم ماننا چھوڑ دینا‘‘ اور دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’میری اطاعت کرو جب تک میں تمہارے اندر عدل کرتا رہوں اور اگر میں عدل کرنا چھوڑدوں اور عدل کی خلاف ورزی کروں تو تم میرے حکم کی خلاف ورزی کرسکتے ہو‘‘۔

ایک اور قول مزید یہ ہے کہ آپ نے پوچھا کہ لوگو بتاؤ! اگر میں عدل کرنا چھوڑ دوں اور راہ حق سے ہٹ جاؤں تو تم میرے ساتھ کیا سلوک کرو گے تو صحابہ کرام میں سے کچھ لوگ اٹھے اور انہوں نے کہا کہ جس طرح کوئی کپڑے کو نچوڑتا ہے اس طرح سے ہم نچوڑ کر ختم کردیں گے۔

جب تک باہمی مواخذے کا طرفین کی طرف سے عمل جاری رہتا ہے اس وقت تک خیر برقرار رہتی ہے۔ بڑے چھوٹوں کا مواخذہ کرتے رہیں مگر آداب و طریقے سے۔ اسی طرح چھوٹے بڑوں کا مواخذہ کرتے رہیں مگر آداب و طریقے سے تو تب تک خیر برقرار رہتی ہے کیونکہ ہر ایک پر شیطان حملہ کرسکتا ہے۔ ہر ایک شخص راہ حق سے بہک سکتا ہے اور پھسل سکتا ہے، گناہ کرسکتا ہے، غلط کاری کرسکتا ہے، اپنے کہے کی مخالفت کرسکتا ہے۔ اس غلطی اور بہکاوے اور حق کی مخالفت کرنے کا استثناء اللہ کی مخلوق میں صرف اور صرف اللہ کے انبیاء و رسل علیہم السلام کو حاصل ہے وہ معصوم عن الخطاء ہوتے ہیں۔ ان کی مقدس زندگیوں میں حق کی مخالفت کا کوئی امکان اور کوئی شائبہ ہی نہیں ہوتا وہ پاک ہوتے ہیں۔ ان کے بعد امت میں کوئی معصوم نہیں ہوتا لہذا اعتماد اور یقین اپنے پیشواء، رہبر، قائد، مرشد، استاد اور بزرگ پر قائم ہوتا ہے۔ یہ اعتماد و یقین ایک قیمتی متاع ہے۔ اس کے بغیر کوئی کام آگے نہیں چلتا مگر صلی اللہ علیہ والہ وسلم the Same time اس اعتماد و یقین کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ یہ عقیدہ و ایمان رکھ لیا جائے کہ یہ کبھی غلطی بھی نہیں کرسکتا۔ اگر آپ نے یہ عقیدہ رکھ لیا (خواہ وہ میری ذات ہے خواہ اور کوئی قائد، رہبر، رہنما، پیشوا و بزرگ ہے) تو آپ گمراہی کی راہ پر چل پڑیں گے اور ٹھوکر کھائیں گے۔ اس لئے کہ اللہ نے تو اسے خطاء سے پاک بنایا نہیں تھا۔ اللہ نے اسے ایسا انسان بنایا تھا کہ جس کی برائیوں پر اچھائیاں غالب تھیں، جس کے اندر بدی پر نیکی غالب تھی، جس کے اندر شریر پر خیر غالب تھی، جس کے اندر نفس پر روح اور اس کے تقاضے غالب تھے، جس کے اندر انحراف پر اطاعت غالب تھی اور گناہ کی رغبت پر اس کا تقویٰ و پرہیزگاری غالب تھی۔

یعنی اس نے اللہ کی مدد اور اطاعت و ریاضت سے نفس پر قابو پالیا تھا۔ لہذا ولایت کا معنی یہ نہیں ہے کہ اللہ نے کسی کو نیکی و تقویٰ میں برتر کردیا اور اپنا مقرب بنالیا اور اپنے مخلصین، صالحین اور اولیاء میں شامل کرلیا تو اس کے اندر سے وہ شہوت عورت، شہوت اولاد، مال و دولت کی شہوت، دنیا و عمارت کی شہوت، طاقت و جاہ منصب کی شہوت جس کے ذریعے سے انسانی زندگی میں خرابی اور برائی جنم لیتی ہے وہ بند ہوگئی ہے اور اب اس سے کوئی معمولی سا گناہ بھی نہیں ہوسکتا۔

یہ بات ائمہ و محدثین اور اولیاء و علماء کے ہاں متفقہ ہے کہ اولیاء کرام سے بھی صغائر تو ہو ہی سکتے ہیں اور اس امر میں بھی اختلاف نہیں کہ اولیاء اللہ سے کبائر گناہ کا ارتکاب ہوجانا بھی کوئی ناممکن نہیں ہے۔ لیکن ان کے اندر جو اللہ رب العزت کی اطاعت و فرمانبرداری کا عنصر ہوتا ہے وہ انہیں کبیرہ گناہ کرنے نہیں دیتا اس سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ گناہ کبیرہ سے محفوظ ہوتے ہیں جبکہ انبیاء کرام معصوم ہوتے ہیں۔ ان سے ممکن ہی نہیں ہے کہ گناہ سرزد ہوں اور اولیاء سے ممکن ہے کہ سرزد ہوں مگر ہوتے نہیں ہیں۔ وہ محفوظ رہتے ہیں۔

اگر آپ کہیں کہ امکان تو صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کا بھی ہے تو اس سلسلے میں بات بتانا چاہتا ہوں صحابہ کرام کا رتبہ اولیاء اللہ سے بھی بلند تھا مگر بعض صحابہ کرام سے گناہ کبیرہ کا ارتکاب ہوگیا۔ بعض صحابہ کرام سے بدکاری کا بھی گناہ سرزد ہوا اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے انہیں سزا دی۔ گناہ کبیرہ کا ارتکاب ہوا مگر انہیں چونکہ صحبت مصطفی کا فیض ملا تھا اور قربت محمدی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نصیب ہوئی تھی اور نگاہ نبوت کے فیض نے ان کے اندر اطاعت الہٰی، بندگی خدا، خشیت الہٰی، ذوق الہٰی اور تقویٰ و پرہیزگاری کی وہ جلا پیدا کردی تھی کہ غلبہ نفس میں آکر کسی مقام پر بشری و فطری تقاضے کے تحت صحابہ کرام میں سے اگر کوئی پھسل بھی گئے تو دوسری طرف وہ نیکی مردہ نہ ہوئی تھی، توجہ کا اثر کلیۃً ختم نہ ہوا تھا اور گناہ کا انجام جانتے ہوئے کہ پتھر مار کر جان سے ختم کردیا جائے گا اس کے باوجود اس فیض کا اثر یہ تھا کہ جب گناہ کی حالت سے نکلے اور پلٹ کر دوبارہ ایمانی حالت نے غلبہ پایا تو دوڑ کر حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں خود آکر گناہ کا اعتراف کیا۔

عرض کیا یارسول اللہ! میں ظلم کر بیٹھا ہوں، میں نے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرلیا (حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ صحابی نے آکر اقرار کیا) تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنا چہرہ دوسری طرف پھیر لیا اور اجتناب فرمایا۔ دوسری بار پھر اقرار کیا پھر چہرہ مبارک پھیرا اس نے پھر تیسری بار اقرار کیا تب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے (ایک بغیر شادی شادہ کا واقعہ تھا) اس کو 100 کوڑے لگوائے (اور ایک واقعہ جو شادی شدہ کا تھا) اس کو سنگسار کیا۔ مختلف لوگوں کے ایک سے زیادہ واقعات ہیں۔

ایک صحابیہ سے ایسا گناہ سرزد ہوگیا اور اسی نے آکر آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں اقرار جرم کیا۔ تین بار اعتراف کرکے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے خود فرمایا اس کو سنگسار کردو۔ مدینہ پاک کی گلیوں میں اسے سنگسار کیا گیا اور وہ حد جاری کرنے کے بعد وفات پاگئی تو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اس خاتون نے اعتراف جرم کرکے اور اس اعتراف جرم کے نتیجے میں سزا پاکر اتنی بڑی توبہ کی ہے کہ اگر میں اسے 70 گناہ گاروں پر تقسیم کردوں تو یہ سارے کے سارے بخشے جائیں اور ایک حدیث میں ہے کہ فرمایا اس نے اتنی بڑی توبہ کی ہے کہ اگر مدینے کی ساری وادی پر تقسیم کردوں تو سب گناہ گار اس توبہ کے سبب بخشے جائیں۔

یہ فرق تھا کہ ان کا ضمیر مردہ نہ ہوا تھا ان کی بدی ان کی نیکی پر دائماً غالب نہ ہوسکی، نیکی، بدی پر بالآخر غالب رہی تو نفس کے غلبہ کے باعث اگر پھسلاً ہوئی تو فوراً نیکی نے انہیں بعد ازاں سنبھال لیا اور فوراً توبہ کی طرف آگئے اور توبہ خالی ایسے نہیں کی کہ ہاتھ اٹھاکر کسی رمضان کی 27 ویں کی رات یا شعبان کی15 ویں رات دو آنسو بہاکر آسانی سے توبہ نہیں کی۔ وہ تو ہر کوئی کرلیتا ہے ایسی توبہ کی جس کے نتیجے میں موت کو قبول کرلیا۔ یہ توبہ کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے۔ لہذا صحابہ کرام میں سے کسی سے کوئی غلطی ہوئی تو ان کی نیکی کا عنصر اتنا غالب تھا کہ وہ خدا خوفی کے نتیجے میں موت کی آغوش میں جاپہنچا۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ گناہ ہوسکتا ہے لیکن صرف نبی سے نہیں ہوسکتا۔ نبی معصوم ہوتا ہے اور ولی محفوظ ہوتا ہے مگر امکان خطاء موجود ہوتا ہے۔ جب ہم ایسا تصور کرلیتے ہیں کسی کے لئے تو اس سے ہی فاسق و فاجر لوگ پیری مریدی کے نام پر بلیک میل کرتے ہیں، بعض دیہاتوں میں گدی نشین ایسے ہوتے ہیں جو اپنے بزرگوں اور آباؤ اجداد و مشائخ کے طریقوں پر نہیں ہوتے، شریعت کا عمل نہیں کرتے، دین پر عمل پیرا نہیں ہوتے، تقویٰ کا ان کے ساتھ دور کا واسطہ نہیں ہوتا، تصوف، شریعت اور طریقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ گدی سنبھال لیتے ہیں، چوغے پہن لیتے ہیں اور پھر مریدوں کی طرف سفر کرتے ہیں اور پاؤں دبواتے ہیں وغیرہ وغیرہ لیکن جہالت کے باعث کچھ لوگ سمجھتے ہیں یہ چونکہ بزرگ ہیں لہذا ان کا تو کوئی عمل بھی گناہ نہیں ہے، یہ لوگوں کی اس پیر سے بھی بڑی جہالت ہے۔ گناہ ہر ایک کے لئے گناہ ہے۔ گناہ کا عمل کسی کے لئے نیکی نہیں بن جاتا اور گناہ سے کوئی جواب طلبی اور اللہ رب العزت کے حضور مواخذہ سے مبراء نہیں ہوتا۔ شریعت کا حکم ہر ایک کے لئے برابر ہے اور قائم و دائم ہے لہذا اس طرح انسان کو اندھا اور ناسمجھ و نادان نہیں بننا چاہئے۔ مگر ہر چیز کے آداب ہوتے ہیں۔

اس لئے جہاں اولاد کے لئے ہم تلقین و نصیحت کرتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ وہ نیکی اور اطاعت گزاری کی پاکیزہ زندگی گزارے تو والدین جو ان کے بڑے ہیں ان کی بھی اسی قدر ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے کردار کو بطور نمونہ پیش کریں۔ آج کے والدین کا یہی Problem ہے کہ وہ رعب کے ذریعے چھوٹوں کو اطاعت گزار بنانا چاہتے ہیں اور اپنے عمل کو درست نہیں کرنا چاہتے۔ ماں باپ بطور Right کہتے ہیں کہ ہمارا ادب کیا جائے اور اس ادب کے لئے ان کے کردار کو جو صبح و شام اولاد دیکھ رہی ہوتی ہے احترام کے لائق نہیں بناتے۔ وہ دور گزر گیا جب ہم چھوٹے تھے اور باپ کی آنکھ سے ساری اولاد ڈرتی رہتی تھی اور باپ سے کوئی بات پوچھنے کی بھی جرات نہیں ہوتی تھی۔ حتی کہ والد کے سامنے بیٹھ کر کھانا کھانے کی بھی ہمت نہیں پڑتی تھی، بولنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی اور اگر عام بزرگ گلی میں آرہا ہوتا تھا تو نوجوان لڑکے سر ڈھانپ کر چلتے تھے۔ ننگا سر لڑکے بھی نہیں چلتے تھے۔ وہ Values تھیں وہ اقدار تھیں اب وہ دور نہیں ہے۔

ہمارا پرابلم والدین اور اولاد کے رشتے میں یہ ہے کہ جو ماحول ہم نے بچپن میں دیکھا تھا اور جس طرح ہماری ڈیلنگ اپنے والدین سے تھی اور والدین کی بات جس طرح ہم مان لیتے تھے کیوں؟ پوچھے بغیر! حکم کے طور پر کہ والدین نے کہ ایسا کرنا ہے تو بس ساری زندگی ایسا ہی کرنا ہے اور کسی دوسرے کام کو کرنے کی اس کے خلاف جرات نہیں ہوسکتی تھی۔ آج 40-30 سال گزر جانے کے بعد اپنی اولاد سے وہی ادب و احترام کی توقع رکھتے ہیں اور جب کبھی اولاد کہنا نہیں مانتی تو فوری کہتے ہیں کہ ہم تو اپنے ماں باپ کے ساتھ ایسا نہیں کرتے تھے۔ انہیں سمجھنا چاہئے کہ وہ دور گزر گیا وہ ربع صدی اور ثلث صدی اور تہائی صدی اور چوتھائی صدی گزر چکی ہے۔ پوری ایک نسل یا دو نسلوں کا Gape آگیا ہے اور اس Gape کو fill ٹیلیویژن اور میڈیا نے کیا ہے۔ آپ ہر روز جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ Media کے ذریعے Communicate ہورہا ہے اور نوجوان نسل یقینا فلمیں بھی دیکھتی ہے جن گھروں میں چلوائے جانے کی اجازت ہے اس کی شرح 90% سے Above گھروں میں ہے لہذا بحیثیت والدین ہم کیا ذمہ داری نبھارہے ہیں؟ اگر ہم یہ ذمہ داری ادا کرنے سے قاصر ہیں تو پھر ہم کس Response کی توقع کرتے ہیں۔ آج اولاد تعمیل ارشاد اور Blindfaith سے حکم ماننے کی روا دار نہیں ہے آج بڑا Criticle Culture آگیا ہے۔ ہر بات پر پوچھتے ہیں کہ کیوں؟ کیا؟ کس لئے؟ آج ضرورت ہے انہیں مطمئن کیا جائے وگرنہ وہ دل و جان کے ساتھ آپ کے ساتھ نہیں چل سکتے۔ آپ کتنے ہی بچوں کو دیکھتے ہوں گے کہ باپ کے سامنے گردن جھکا کر بیٹھے ہوتے ہیں اور باپ اگر مڑ کر جائے تو آپس میں آنکھوں کے اشارے کے ذریعے مذاق اڑاتے ہیں۔

لہذا ہمیں آنکھیں کھول کر آج کے حالات کا اور نئی نسل کی نفسیات کا مطالعہ کرکے اپنے تعلقات کو مضبوط کرنا ہے۔ آج کے زمانے میں آپ ان کا اطمینان حاصل کرکے ان کی اطاعت لے سکتے ہیں اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر وہ گردنیں بھی کٹوانے پر راضی ہوجائیں گے، پھر سب کچھ لٹانے پر بھی آسکتے ہیں لیکن اگر آپ انہیں اطمینان مہیانہیں کرتے اور صرف By order چاہیں کہ وہ آپ کی اطاعت کریں تو وہ دور گزر گیا۔ مزید آگے نقشہ کچھ اور ہوگا جو آپ کی اور میری آنکھیں شاید کچھ دیکھنے کی جرات بھی نہیں کرسکیں۔ شادیاں ہوتی تھیں تو بچے بچیاں کبھی اپنے منگیتر کے بارے میں گفتگو کرتے تھے تو لڑکا شادی کی بات سن کر شرماتا تھا۔ ہم بھی اس دور سے گزرے ہیں کہ اگر شادی کی بات ہوئی تو اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلے جاتے تھے۔ شریعت نے بھی قانون بنایا کہ اگر بچی ہاں نہ کہے صرف دستخط کردے اور چھپ کر ہاں کرے تو اس کو رضا مندی سمجھا جائے حتی کہ شرم سے رو پڑے یعنی حیا کے اندر اگر رو پڑے تو اس کو بھی رضا مندی تصور کیا جائے۔ آج کے زمانے میں دیکھتے ہیں کہ شادی کا ذکر ہو اور وہ حیا سے رو پڑے۔ دیہاتوں میں شاید آج بھی ایسا ہو مگر بڑے بڑے ترقی یافتہ شہروں میں اب یہ معاملہ ختم ہوچکا ہے۔ سوسائٹی کی Values بدل گئی ہیں۔ تصورات اور پیمانے بدل گئے ہیں لہذا ہم جس سوسائٹی میں بیٹھے ہیں اس سوسائٹی کو ذہن میں رکھ کر اگلی نسلوں کو سنوارنے کے لئے Effort کرنی ہے اور وہ برتاؤ کرنا ہے جس برتاؤ سے آج اولادوں اور اگلی نسلوں کے لئے بہتر نتائج پیدا ہوں۔