شبِ قدر: اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا حسین خزینہ

محمد احمد طاہر

’’الرحمن‘‘ اور ’’الرحیم‘‘ خدائے لم یزل کی وہ عظیم صفات ہیں کہ ایک ارب اور اسی کروڑ آبادی پر مشتمل ملت اسلامیہ کے اس عظیم گروہ میں کوئی ہی مسلمان ہوگا جو ان صفات باری تعالیٰ کے معنی و مفہوم سے واقف نہ ہوگا۔ قرآن مجید فرقان حمید کی ابتداء سورۃ الفاتحہ سے ہوتی ہے اور سورۃ الفاتحہ اور دیگر تمام سورتوں کا آغاز تسمیہ شریف میں درج انہیں صفات سے ہوتا ہے۔ اللہ جل شانہ کا تسمیہ شریف میں صرف انہی دو صفات کے ذکر سے دراصل انسان کو اپنے تعارفی بیان کے ذریعے آگاہ کرنا مقصود ہے کہ میری اور بھی صفات ہیں مگر ان دو صفات کو دیگر صفات پر غلبہ حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے تعارف میں ان دو صفات کو بیان کرکے اپنی شان رحیمی کو واضح فرمایا۔ مزید برآں اس نے خالی اعلان نہیں فرمایا کہ وہ نہایت مہربان اور ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے اور نہ ہی صرف اس کا یہ مطلب کہ وہ آخرت میں یوم قیامت کو ان شانوں کا اظہار فرمائے گا بلکہ اس نے ہم گناہ گاروں کی بخشش اور مغفرت کے کئی مواقع فراہم کئے۔ مثلاً سال میں کئی ایام اور کئی راتیں ایسی بنائیں جن کو فضیلت عطا کی اور جن میں عبادت کو افضل قرار دیا گیا۔ مزید برآں ان ایام اور راتوں کو ہم گنہگاروں کی بخشش کا وسیلہ بنادیا۔ علماء کرام نے بیان فرمایا ہے کہ وہ راتیں جو فضیلت کی حامل ہیں وہ پندرہ ہیں۔ ان میں سات راتیں رمضان المبارک میں ہیں اور باقی آٹھ راتیں غیر رمضان کی ہیں۔

رمضان المبارک کی فضیلت کی راتیں حسب ذیل ہیں:

  1. سترہ رمضان المبارک (یوم بدر) کی رات
  2. آخری عشرہ رمضان کی طاق راتیں(21،23،25،27،29)
  3. رمضان المبارک کی آخری شب اور شوال کی پہلی شب

غیر رمضان المبارک کی فضیلت کی راتیں حسب ذیل ہیں:

  1. محرم الحرام کی پہلی شب
  2. عاشورہ کی رات
  3. رجب المرجب کی پہلی رات
  4. رجب المرجب کی پندرہویں شب
  5. رجب المرجب کی ستائیسویں شب (شب معراج)
  6. شعبان المعظم کی پندرہویں شب (شب برات)
  7. عرفہ کی رات

شب قدر کی وجہ تسمیہ

شب کا معنی رات، قدر کا معنی قدرو منزلت، اندازہ، فیصلہ کرنا اور تنگی ہے۔ اس میں سال بھر کے لئے فیصلے کئے جاتے ہیں اسی لئے اسی لیلۃ الحکم بھی کہتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس رات اتنی کثرت سے زمین پر فرشتے اترتے ہیں کہ زمین تنگ ہوجاتی ہے اسی لئے اسے شب قدر یعنی تنگی کی رات۔ قدرومنزلت مالی رات ا س لئے کہلاتی ہے کیونکہ جو بھی خوش بخت مومن اس رات کو عبادت کرتا ہے اللہ عزوجل کے ہاں اس کی قدرومنزلت بڑھ جاتی ہے۔

(تفسير احسن البيان از حافظ صلاح الدين يوسف)

سميت بها للعظمة والشرف، لان العمل فيه يکون ذا قدر عندالله.

(تفسير مظهری، حضرت علامه قاضی محمد ثناء الله عثمانی مجددی پانی پتی)

’’اس رات کو شرف و عظمت والی شب اس لئے کہتے ہیں کیونکہ اس رات کو کیا جانے والا ہر عمل خیر اللہ تعالیٰ کے ہاں قدرو منزلت والا ہوجاتا ہے‘‘۔

اسی طرح علامہ قرطبی نے اس رات کو لیلۃ القدر کہنے کی وجہ یوں بیان کی ہے۔

سميت بذالک لانه انزل فيها کتابا ذا قدر علی رسول ذي قدر علی امة ذات قدر.

(تفسير قرطبی، حضرت امام ابو عبدالله محمد بن احمد بن ابوبکر قرطبی)

’’اسے شب قدر اس لئے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں ایک بڑی قدرو منزلت والی کتاب، بڑی قدر و منزلت والے رسول پر اور بڑی قدرو منزلت والی امت پر نازل فرمائی‘‘۔

نزول قرآن کی رات

قرآن مجید میں ارشاد ہوا:

انا انزلناه فی ليلة القدر.

(القدر،97:1)

’’ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل کیا ہے‘‘۔

قرآن مجید ایک ہی مرتبہ نازل نہیں ہوا بلکہ اس کا نزول 23 برس پر محیط ہے۔ سب سے پہلے قرآن حکیم کا نزول شب قدر ماہ رمضان میں سورۃ العلق کی پہلی پانچ آیات سے ہوا۔

شب قدر کی فضیلت

شب قدر کی فضیلت تو خود قرآن مجید فرقان حمید نے واضح فرمادی ہے۔

خير من الف شهر.

(القدر،97:3)

’’شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے‘‘۔

تاہم اس کے باوجود رسول اکرم، نور مجسم، احمد مجتبیٰ، محمد مصطفی والئی دو جہاں صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے صحابہ کرام کو اس کی ترغیب دلانے کے لئے اپنے اقوال و افعال سے اس بابرکت رات کی فضیلت کو واضح فرمایا تاکہ قیامت تک کے مسلمانوں کے لئے سند بن جائے۔

چنانچہ آئمہ و محدثین صحاح ستہ نے اپنی اپنی کتب میں لیلۃ القدر کی فضیلت پر باقاعدہ ابواب اور فصول قائم فرمائے ہیں۔

حضرت ابن عمر نے بیان کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چند اصحاب کو شب قدر خواب میں (رمضان کی) سات آخری تاریخوں میں دکھائی گئی تھی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:

اری رؤياکم قد تواطأت فی السبع الاواخر، فمن کان متحريها فليتحرها فی السبع الاواخر.

(صحيح بخاری، کتاب فضل ليلة القدر، رقم الحديث:1911)

’’میں دیکھ رہا ہوں کہ تم سب کے خواب سات آخری تاریخوں پر متفق ہوگئے ہیں۔ اس لئے جسے اس کی تلاش ہو وہ اسی ہفتہ کی آخری (طاق) راتوں میں تلاش کرے‘‘۔

اسی طرح ایک روایت جو کہ حضرت ابو سعید خدری سے مروی ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ رمضان کے دوسرے عشرے میں اعتکاف میں بیٹھے پھر بیس تاریخ کی صبح کو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم اعتکاف سے نکلے اور ہمیں خطبہ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:

انی اريت ليلة القدر ثم انسيتها او نسيتها فالتمسوها فی العشر الاواخر فی الوتر وانی رايت انی اسجد فی ماء وطين فمن کان اعتکف مع رسول فليرجع.

(صحيح بخاری، کتاب فضل ليلة القدر، رقم الحديث:1912)

’’مجھے لیلۃ القدر دکھائی گئی لیکن بھلادی گئی یا میں خود بھول گیا۔ اس لئے تم اسے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ میں نے یہ بھی دیکھا ہے (خواب میں) کہ گویا میں کیچڑ میں سجدہ کررہا ہوں۔ اس لئے جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہو وہ پھر لوٹ آئے اور اعتکاف میں بیٹھے‘‘۔

خیر ہم نے پھر اعتکاف کیا اس وقت آسمان پر بادل کا ایک ٹکڑا بھی نہیں تھا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے بادل آیا اور بارش اتنی ہوئی کہ مسجد کی چھت سے پانی ٹپکنے لگا جو کھجور کی شاخوں سے بنی ہوئی تھی۔ پھر نماز کی تکبیر ہوئی تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کیچڑ میں سجدہ کررہے ہیں۔ یہاں تک کہ کیچڑ کا نشان میں نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پیشانی پر دیکھا۔

شب قدر کو تلاش کرو

شریعت نے شبِ قدر کی تعیین نہیں فرمائی بلکہ رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں اسے رکھ دیا گیا۔ اس کی حکمتیں تو اللہ رب العزت ہی بہتر جانتا ہے۔ تاہم علماء کرام نے اپنی بصیرت سے اس کی حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ بیان فرمائی ہے کہ زیادہ عبادت کرسکے۔ اگر اس کی تعیین فرمادی جاتی تو امت مسلمہ کا ہر فرد صرف اسی متعین شدہ ایک ہی رات شب بیداری کرتا اور عبادت کرتا۔ تاہم اس کی تعیین نہ ہونے سے مفاد یہ ہے کہ لوگ کم از کم اسے پانے کے لئے پانچ طاق راتیں جاگیں گے اور اپنے خدا کے حضور استغفار کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ سرکار مدینہ، سرور قلب و سینہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بہت سی احادیث مبارکہ میں اسے تلاش کرنے کا حکم دیا ہے۔

حضرت امام بخاری نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں پورا ایک باب قائم فرمایا ہے: ’’باب تحری ليلة القدر فی الوتر من العشر الاواخر‘‘ یعنی عشرے کی طاق راتوں میں شب قدر کو تلاش کرنے کا باب۔ چنانچہ اس سلسلہ میں صدیقہ کائنات حضرت ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:

تحرواليلة القدر فی الوتر من العشر الآواخر.

(متفق عليه. صحيح البخاری، رقم الحديث:1913، صحيح المسلم، رقم الحديث: 1165)

’’شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو‘‘۔

اسی طرح ایک روایت حضرت ابوسعید خدری سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: شب قدر رمضان المبارک کے آخری عشرے میں تلاش کرو اور اسے اکیسویں، تئیسویں اور پچیسویں رات میں ڈھونڈو۔ (راوی کہتا ہے) میں عرض گزار ہوا کہ اے حضرت ابو سعید! (رضی اللہ عنہ) آپ اس شمار کو ہم سے بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا: ہاں، میں نے نویں، ساتویں اور پانچویں کہا ہے یعنی جب اکیسویں رات گزر جائے تو اس کے ساتھ والی نویں ہے اور جب تیئسویں گزر جائے تو اس کے ساتھ والی ساتویں ہے اور جب پچیسویں گزر جائے تو اس کے ساتھ والی پانچویں ہے۔ (سنن ابوداؤد، باب فی لیلۃ القدر، رقم الحدیث:1369)

شب قدر اور معمول مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم

اگر روایات کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم شب قدر کا خاص اہتمام فرماتے اور عبادت کرتے۔ چنانچہ موضوع کی مناسبت سے چند روایات حوالہ قرطاس کی جاتی ہیں۔

  1. ’’ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: جب رمضان کے (آخری عشرہ) کے دس دن باقی رہ جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنا کمر بند کس لیتے اور اپنے اہل خانہ سے الگ ہوکر (عبادت و ریاضت) میں مشغول ہو جاتے‘‘۔ (مسند احمد بن حنبل، رقم الحدیث:24422)
  2. ’’حضرت علی المرتضیٰ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں گھر والوں کو (عبادت کے لئے) جگاتے‘‘۔ (جامع ترمذی، باب ماجاء فی لیلۃ القدر، رقم الحدیث:774)
  3. ’’ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں: حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں (عبادت کی) جس قدر کوشش فرماتے اتنی دوسرے دنوں میں نہ فرماتے‘‘۔ (جامع ترمذی، باب ماجاء فی لیلۃ القدر، رقم الحدیث775)

شب قدر کے وظائف

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ سے مروی ہے کہ میں نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے عرض کیا: شب قدر کا کیا وظیفہ ہونا چاہئے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان الفاظ میں تلقین فرمائی۔

اللهم انک عفو تحب العفو فاعف عنی.

’’اے اللہ! بے شک تو معاف فرمانے والا ہے اور تو معاف کرنے کو پسند فرماتا ہے۔ پس مجھے (بھی) معاف فرمادے‘‘۔

علاوہ ازیں علماء کرام نے اور بھی مختلف اوراد و وظائف تحریر فرمائے ہیں۔ جن میں سے چند حسب ذیل ہیں:

  • 12 رکعت نماز تین سلام سے پڑھیں۔ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ القدر ایک مرتبہ اور سورہ الاخلاص سات بار پڑھیں اور سلام کے بعد سات سو مرتبہ استغفار پڑھیں۔

استغفرالله ربی من کل ذنب واتوب اليه.

  • 2 رکعت نماز نفل پڑھیں۔ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورۃ القدر تین تین مرتبہ اور سورہ اخلاص پانچ پانچ مرتبہ پڑھیں۔ بعد از سلام سورۃ اخلاص 7 مرتبہ پڑھیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔
  • 4 رکعت نماز دو سلام (یعنی دو دو رکعتیں) سے پڑھنی ہیں۔ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ التکاثر ایک ایک بار اور سورہ اخلاص تین تین مرتبہ پڑھنی ہے۔ قبر سے چھٹکارا ہوگا۔ ان شاء اللہ

(عبادات رمضان المبارک، مرتبه مسز تسنيم کوثر فياض)