اداریہ: 11 ستمبر۔۔۔ روح قائد اور پاکستان کی حالتِ زار

گیارہ ستمبر کے دن کی اہمیت بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کی برسی کے حوالے سے ہے۔ قائد کو ہم سے بچھرے ہوئے آج 66 برس ہو چکے ہیں لیکن جو سوالات ان کی جدائی کی وقت تھے وہی سوالات اپنی تمام تر شدت کے ساتھ آج بھی ہیں۔ جو سوالات و ہ قبر میں جاتے ہوئے حکمرانوں کیلئے چھوڑ گئے تھے وہی سوالات آج بھی ان حکمرانوں کا منہ چڑاتے نظر آتے ہیں۔ جو سوالات عوام کیلئے تھے ان پر کبھی عوام نے نظر ڈالنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ ہماری مقننہ اور انتظامیہ بانی پاکستان سے اس قدر محبت رکھتی ہے کہ ان کی وفات کے بعد ان کی بیشتر تقاریر اشاعت سے محروم کر دی گئیں۔ پھر کچھ نہایت ہی اہم تقاریر صفحہ ہستی سے ہمیشہ کیلئے غائب کر دی گئیں۔

سر دست سوال روح قائد کا ہے جو صرف آج کے دن کا نہیں ہر روز کا سوال ہے۔ یہ سوال حکمران طبقے سے ہے، لیکن وہ ڈھیٹ ہی اتنے ہیں کہ وہ ان سوالوں کی طرف کان ہی نہیں دھرتے۔ یہ سوال ہم سے بھی ہے۔ کیا ہم نے جس ملک کو اسلام کے نام پر حاصل کیا، جہاں ہم اسلامی اصولوں کی روشنی میں زندگی گزارنا چاہتے تھے وہاں ہم نے اپنی زندگیوں میں اسلام کا نفاذ کیا؟

کس نے مساجد میں مسالک کے زہر کو ہوا دی؟ قرآن کو جھوٹی قسمیں کھانے کیلئے کون استعمال کرتا ہے؟ ہم نے تو 1973ء کے متفقہ آئین میں بھی 18 ترامیم کرلی ہیں۔ کیسی قوم ہیں ہم کہ بات تو اسلام اور اسلامی نظام کی کرتے ہیں جبکہ ہماری معیشت سودی نظام پر کھڑ ی ہے۔ ہم روزانہ صبح تا شام اللہ اور اس کے رسول سے جنگ لڑتے ہیں اور اللہ کے عذاب سے بھی بچنا چاہتے ہیں اور اپنے معاملات میں برکت بھی چاہتے ہیں۔ کیا قائد اعظم پاکستان میں کرپشن اور اقربا ء پروری دیکھنا چاہتے تھے؟ ہر گز نہیں۔

کیا تھانے کچہری کے کام رشوت کے بغیر ہوتے ہیں؟ کیا ہم نے ذخیرہ اندازی کرکے کرپشن نہیں کی؟ کیا ہم نے ناجائز منافع خوری اور ملاوٹ سے کرپشن نہیں کی؟ کیا ہم نے جعلی ادویات بنا کر جرم نہیں کیا؟ کیا ہم نے ناقص تعمیرات کر کے جرم نہیں کیا؟ کیا ہم اپنا ووٹ ایک ہزار روپے اور ایک بریانی کی پلیٹ پر نہیں بیچ دیتے ہیں؟ اگر ہم یہ سب اور دیگر کارنامے کرتے ہیں تو حکمرانوں کا رونا کیوں روتے ہیں؟ ہمیں ہماری اوقات کے برابر اللہ نے حکمران دے دیے ہیں اب ان کو برداشت کریں۔

قائد اعظم نے اپنی تقاریر میں تعلیم پر زور دیا جب کہ ہم نے تعلیم کو پس پشت ڈال دیاہے۔ آج ہم کالجز اور یونیورسٹی سے کیا پیدا کر رہے ہیں؟ اگر ہر کوئی اپنا احتساب کرے، اپنے گریبان میں جھانکے تو شاید پاکستان کی 99 فیصد آباد ی کا سر شرم سے جھک جائے۔

ہم چاہتے تو یہ ہیں کہ قائد اعظم کا پاکستان بنا لیں لیکن ہمارے مزاج ایسے ہیں کہ ہم ان کے اصولوں پر عمل نہیں کر سکتے ہیں۔ اگر ہم قائد کی چند باتوں پر صدق دل سے عمل کر لیں تو میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ یہ نظام ٹھیک ہو جائے گا۔ سب سے پہلے خود کو ٹھیک کریں، اپنے اپنے گھروں کو ٹھیک کریں۔ اپنی زندگیوں میں ڈسپلن پیدا کریں۔ وقت کی پابندی کریں۔ حتیٰ کہ مورخ یہ تک لکھتا ہے کہ قائد کی آمد پر لوگ اپنی گھڑیوں کے وقت کو ٹھیک کرتے تھے۔ ہمیشہ سچ بولیں خواہ وہ کتنا ہی کڑوا کیوں نہ ہو۔ اصولوں پر سمجھوتہ نہ کریں۔ اپنی ذاتی انا کو دبائیں اور ہر ایک سے اخلاق سے پیش آئیں۔ نہرو اور گاندھی ہمارے قائد کے بدترین سیاسی دشمن تھے لیکن قائد نے کبھی ان کے خلاف غلط زبان استعمال نہیں کی۔ قائد اعظم کی کامیابی کا رازان کی سچائی اور اخلاص میں پنہاں تھا۔ قائد اعظم کی زندگی کے کسی پہلو سے بھی ان کے منافقانہ کردار کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی۔ وہ نظریہ ضرورت کے تحت اپنے نظریات اور عقیدے کونہیں بدلا کرتے تھے۔ انکی چالیس سالہ سیاسی زندگی میں انکے شدید مخالفین بھی کوئی واقعہ پیش نہیں کرسکتے جہاں انہوں نے مصلحت کی آڑ میں اصولوں سے انحراف کیا ہو۔ یہی ایک سچے راسخ العقیدہ مسلمان کی شناخت ہے۔

قائد اعظم کاایمان پختہ اور عشق رسول مسلمہ تھا۔ آج ساٹھ سال گزرنے کے بعد بھی غیر ملکی نظریات و افکار کا غلام طبقہ نوجوان نسل کو یہ تعلیم دے کر گمراہ کر رہاہے کہ قائد اعظم سیکولر نظریات کے حامی تھے اور وہ پاکستان کو سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے۔ اگر ایسا ہوتا تو یقیناًوہ بر صغیر کے کروڑوں مسلمانوں سے منافقت اور بے وفائی کرتے جبکہ تاریخ ایسی کوئی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ قائد اعظم الفاظ کی شعبدہ بازی نہیں کرتے تھے۔ وہ اپنی رائے کا برملا اظہار کرتے تھے۔ جو کہتے تھے اس پر عمل بھی کرتے تھے۔ آخر میں ان کا درج ذیل فرمان تمام شکوک و شبہات کی گرد کو خس و خاشاک کی طرح ختم کردینے کے لئے کافی ہے اور ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ آج کا پاکستان کیسا ہونا چاہئے؟ آپ نے فرمایا:

’’اسلام ہی نے ہمیں جمہوریت کی راہ دکھائی ا ور مساوت، رواداری، انصاف اور ہر انسان کے ساتھ منصفانہ طرز عمل کی تعلیم دی اللہ کی نظر میں سب انسانوں کابرابر ہوناہی اسلام کا بنیادی اصول ہے‘‘۔

دوسرے مقام پر فرمایا:

’’حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عظیم استاد، عظیم قانون دان اور عظیم حکمران تھے آپ کاروبار سے حکمرانی تک ہر شعبہ ہائے زندگی میں کامیاب تھے تاریخ عالم میں آج تک حضرت محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کوئی کامیاب شخص نہیں گذراتیرہ سو سال قبل آپ نے جمہوریت کی بنیاد رکھی تھی‘‘۔