اداریہ: محرم الحرام اور پیغامِ کربلا

امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی عظیم شہادت کے بعد کائنات انسانی کو دو کردار مل گئے۔ کردار یزید جو بدبختی، ظلم، استحصال، جبر، تفرقہ پروری، قتل و غارت گری اور خون آشامی کا استعارہ بن گیا اور اور کردارِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو عدل و انصاف، امن، وفا اور تحفظ دین مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی علامت ٹھہرا، اب قیامت تک حسینیت زندہ رہے گی اور اس کے پرچم بھی قیامت تک لہراتے رہیں گے اور یزیدیت قیامت تک کے لئے مردہ رہے گی۔ آج بھی امام حسین رضی اللہ عنہ کی روح ریگ زار کربلا سے پھر پکار رہی ہے۔ آج سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی روح اجڑے ہوئے خیموں سے ہمیں صدا دے رہی ہے۔ آج علی ا کبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور علی اصغر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خون کا ایک ایک قطرہ اور دریائے فرات کا شہدائے کربلا کے خون سے رنگین ہونے والا کنارہ ہمیں آواز دے رہا ہے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرنے والو! اب وقت آن پہنچا ہے حسینیت کے کردار کو اپنے قول و عمل میں زندہ کرو۔ہر دور کے یزیدوں کو پہچانو۔ یزیدیت کو پہچانو۔ یزیدیت تمہیں توڑنے اور تمہارے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لئے سرگرم عمل ہے جبکہ حسینیت تمہیں جوڑنے کے لئے ہے۔ حسینیت اخوت، محبت اور وفا کی علمبردار ہے۔ یزیدیت اسلام کی قدریں مٹانے کا نام ہے۔ حسینیت اسلام کی دیواروں کو پھر سے اٹھانے کا نام ہے۔ یزیدیت قوم کا خزانہ لوٹنے کا نام ہے۔ حسینیت قوم کی امانت کو بچانے کا نام ہے۔یزیدیت جہالت کا اور حسینیت علم کا نام ہے۔یزید ظلم کا اور حسین امن کا نام ہے۔یزید اندھیرے کی علامت ہے اور حسین روشنی کا استعارہ ہے۔یزیدیت پستی اور ذلت کا نام ہے جبکہ حسینیت انسانیت کی نفع بخشی کا نام ہے۔

آئیے سب مل کر یزیدیت کے خلاف ایک عہد کریں اور وقت کے یزیدوں کے قصر امارات کو پاش پاش کردیں، مسلمانو! یزیدیت کا تختہ الٹنے، ظلم و استحصال کا نام و نشان مٹانے اور غریب دشمنی پر مبنی نظام کو پاش پاش کرنے کے لئے اٹھو، اپنے اندر حسینی کردار پیدا کرو اور کربلائے عصر میں ایک نیا معرکہ بپا کردو، ایک نئی وادی فرات کو اپنے لہو سے رنگین بنادو، اپنی جان اور اپنے اموال کی قربانی دے کر مصطفوی انقلاب کی راہ ہموار کرو، تاکہ افق عالم پر مصطفوی انقلاب کا سویرا طلوع ہو اور امام حسین رضی اللہ عنہ کے نام پر یزیدیت کا نشان بھی مٹ جائے۔ دلوں کی سلطنت حسینی کردار کے ساتھ آباد کردو اور اپنی سر زمین کو یزیدی فتنوں سے یکسر پاک کر دو۔ اس خطے کو ہم ایک بار پھر اہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی محبتوں کا مرکز و محور بنا دیں۔ فتنہ و فساد، جنگ، قتل و غارتگری کی آگ کو بجھا کر امام حسین رضی اللہ عنہ کے جلائے ہوئے چراغِ امن سے اپنے ظاہر و باطن کے اندھیرے دور کردیں اور سر زمین پاکستان کو امن کا گہوارہ بنائیں کیونکہ پاکستان ہماری ہی نہیں پوری ملت اسلامیہ کی امانت ہے۔ یہ خطہ عالم اسلام کی پہلی دفاعی لائن ہے۔ آئیے اسے اسلام کا ناقابل تسخیر قلعہ بنا دیں۔

مسلمانو! حسینی مشن کے چراغ جلانے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم صحابہ رضی اللہ عنھم کے نقش قدم کو اجاگر کرنے کے لئے ہاتھ میں ہاتھ دے کر ایک ہوجاؤ۔ یہی وقت کی آواز ہے کہ شیعہ سنی اور تمام مکاتب فکر اکٹھے ہوکر عالم کفر کے خلاف ایک ہوجائیں۔ اپنے اندر کی نفرتوں کو مٹادو، کدورتوں کو ختم کردو۔ اب ہمیں بستی بستی قریہ قریہ محبتوں کے چراغ جلانا ہوں گے۔ مدینے سے کربلا تک کے سفر میں قربانیوں کی ان گنت داستانیں بکھری ہوئی ہیں۔ ان داستانوں کو اپنا شعار بنالو، شعور کربلا کو ہر سطح پر زندہ کرو، تاریخ کربلا ایک واقعہ نہیں ایک تحریک ہے۔ شعور کربلا کو ایک عوامی تحریک بنا دو۔ شیعہ اور سنی کو بھائی بھائی بن کر اسلام کی سربلندی کے لئے اور قوموں کی برادری میں اپنے کھوئے ہوئے مقام کے لئے ایک ساتھ جدوجہد کرنا ہوگی۔ دشمنان اسلام مسلمانوں کے اسی اتحاد سے خائف ہیں۔ اپنے قول و عمل سے انہیں بتا دو کہ ہم ایک ہیں، بانہوں میں بانہیں ڈال کر قرون اولیٰ کے مسلمانوں جیسی اخوت اسلامی کا مظاہرہ کرو۔

عالمی سامراج فرقہ واریت میں الجھا کر ہمیں علم کی روشنی سے محروم رکھنا چاہتا ہے۔ علوم جدیدہ اور جدید تر ٹیکنالوجی کو ہمارے لئے شجر ممنوعہ قرار دینا چاہتا ہے۔ وہ اپنے مذموم ارادوں کو اسی وقت پایہ تکمیل تک پہنچاسکتا ہے جب ہم اپنی اجتماعی قوت فرقہ واریت کی نذر کرتے رہیں گے۔ ہمارا اتحاد عالمی سامراج کی موت ہے۔ شیعہ اور سنی اٹھیں اور ہاتھ میں ہاتھ دے کر دشمنان اسلام کی سازشوں کو خاک میں ملادیں۔ اٹھو! نفرتوں اور کدورتوں کے بت پاش پاش کردو۔۔۔۔۔۔ تاریخ کا رخ بدل دو۔۔۔۔۔۔ عالم کفر کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن جاؤ اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو کہ یہی شعور کربلا ہے۔۔۔۔۔۔ یہی پیغام کربلا ہے۔۔۔۔۔۔ اس پیغام کی خوشبو کا پرچم لے کر نکلو کہ منزلیں تمہارے قدم چومنے کے لئے بے تاب ہیں۔

اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے