سیرت طیبہ ام المومنین حضرت ماریہ قبطیہ بنت شمعون المصری رضی اللہ عنہا

نواز رومانی

رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نواح عرب کے حکمرانوں اور رؤسا کو خطوط مبارک ارسال کئے جن میں ان کو دعوت اسلام دی گئی تھی۔ یکم محرم الحرام 7 ہجری کو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک خط شاہ مصر و سکندریہ جریج بن متی قبطی ملقب بہ مقوقس کو لکھا تو حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کو طلب کیا جب انہیں پیغام ملا تو بھاگم بھاگ بارگاہ نبوت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوکر مودب کھڑے ہوگئے اور حکم کا انتظار کرنے لگے۔

’’شاہ مقوقس مصری کے پاس میرا یہ خط لے جاؤ‘‘ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تو حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے اسے بڑی محبت و عقیدت سے پکڑا اور مسجد نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے باہر نکل کر اپنے گھر کی سمت چل پڑے، راستے میں ان کے دل ودماغ میں خیالات کا ہجوم ہونے لگا:

میرے آقا و مولا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اپنا قاصد بناکر بڑا اعزاز بخشا ہے، اللہ کرے میں اس ذمہ داری کو بطریق احسن سرانجام دے کر اپنے محبوب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظروں میں سرخرو ہوجاؤں۔

کئی دنوں کی مسافت کے بعد جب دور سے شہر مصر کے آثار نظر آئے تو حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے گھوڑے کی رفتار کو اور تیز کردیا۔ اہل مصر آپ کواجنبی نظروں سے دیکھتے تھے اور گزر جاتے تھے آخر ایک جگہ رک کر آپ نے ایک شخص سے پوچھا:

شاہ مقوقس سے کہاں ملاقات ہوسکتی ہے؟

اس شخص نے عجیب سی نظروں سے آپ کی طرف دیکھا اور بولا:اس وقت اپنے دربار میں ہوگا۔

دربار کے باہر دو چوبدار نیزے پکڑے کھڑے تھے، آپ نے ایک کو مخاطب کرکے کہا: اپنے بادشاہ کو جاکر بتاؤ کہ مدینہ منورہ سے قاصد آیا ہے۔

چوبدار نے آپ کے سراپا پر نظر ڈالی اور اندر چلا گیا، تھوڑی دیر کے بعد واپس آیا اور آپ کو اندر جانے کو کہا۔ شاہ مقوقس زریں تخت پر بڑے رعب ودبدبہ سے بیٹھا تھا اور اس کے وزراء و اراکین سلطنت ادب سے اپنی اپنی کرسیوں پر براجمان تھے۔ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے کسی کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھا، بڑی شان و متانت اور پروقار انداز سے شاہ مقوقس کے قریب جاکر رکے اور گویا ہوئے:

اے مقوقس! تم سے پہلے اس ملک میں ایک شخص گزرا ہے جو گمان کرتا اور دعویٰ کرتا تھا کہ ’’انا ربکم الاعلیٰ‘‘ (یعنی میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں) تو اللہ تعالیٰ نے اس سے انتقام لیا لہذا تم اپنے غیر سے عبرت حاصل کرو تاکہ تم سے کوئی دوسرا عبرت نہ لے۔ اور پھر نبی آخرالزمان صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خط مبارک نکال کر اس کو دیا۔ مقوقس نے خط کو بڑے ادب سے لیا اور پھر اپنے کاتب کو دیا کہ اسے بآواز بلند پڑھے تاکہ سب حاضرین دربار سن لیں۔ کاتب کی آواز فضا میں ابھری:

اما بعد! میں تمہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتا ہوں، اسلام لے آؤ، سلامت رہو گے اور اللہ تعالیٰ تجھے دوگنا اجر عطا فرمائے گا اگر تم روگردانی کروگے تو سارے قبطیوں کی گمراہی کا گناہ تیری گردن پر ہوگا۔

اے اہل کتاب! آجاؤ اس اس کلمہ کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے، وہ یہ کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور کسی چیز کو اس کا شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور ہم اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ایک دوسرے کو اپنا رب نہیں بنائیں گے اور اگر یہ لوگ روگردانی کریں تو کہو اے منکرو! گواہ رہنا ہم مسلمان ہیں۔

(اللہ، رسول، محمد)

سب اعیان سلطنت موجود تھے، شاہ مقوقس کے قریب ہی خوب صورت کرسی پر حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ تشریف فرما تھے۔ مقوقس نے اہل دربار پر ایک طائرانہ نظر ڈالی پھر شاہی کاتب کو بلایا اور اسے حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خط کا جواب لکھانے لگا:

محمد بن عبداللہ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حضور منجانب مقوقس عظیم القبط

’’اما بعد! میں نے آپ ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گرامی نامہ پڑھا اور جو کچھ اس میں تحریر تھا اور جس کی آپ ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعوت دی، میں نے سمجھا بلاشبہ میں جانتا ہوں ایک ایسا نبی باقی رہا ہے جو خاتم الانبیاء ہوگا۔ میرا خیال ہے اس کا ظہور ملک شام سے ہوگا اور میں نے آپ کے قاصد کی آمد کو گرامی جانا۔ میں آپ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ماریہ اور سیرین کو بھیجتا ہوں جو کہ قبط میں عظیم المرتبت ہیں اور کچھ لباس و تحائف اور ایک اونٹ آپ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سواری کے لئے بھی پیش خدمت کرتا ہوں‘‘۔

والسلام

مقوقس

ماریہ اور سیرین کا تعلق مصر کے ضلع انصا کے ایک گاؤں حفن سے تھا، ان میں سے اول الذکر خاتون نہایت حسین و جمیل، گوری رنگت، گھنگھریالے گھنے بالوں اور گتھے ہوئے جسم کی مالک ہونے کے علاوہ قدرت نے انہیں حسن باطن سے بھی خوب نوازا تھا۔ ان کا پورا نام ماریہ قبطیہ بنت شمعون المصری تھا اور قبطیہ ان کی قومی نسبت تھی۔

ان خواتین کے ہمراہ ان کا بوڑھا ماموں زاد یا چچا زاد بھائی مابور بھی تھا تاکہ وہ بہنوں کی ضروریات کا سامان بہم پہنچانے میں مدد دے۔ تحائف میں اونٹ کے علاوہ ایک سفیدرنگ کا خچر جو دلدل کے نام سے مشہور تھا، ایک نیزہ، بیس قد کا لباس، حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ایک خلعت اور ہزار مثقال سونا شامل تھا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ شاہ مقوقس نے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کو تحفتاً سو مثقال سونا اور پانچ کپڑے دیئے تھے۔

اگلے روز چار نفوس پر مشتمل چھوٹا سا قافلہ سوئے مدینہ منورہ روانہ ہوا۔ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کی انتہائی کوشش تھی کہ وہ اپنے آقا و مولا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امانتیں جلد سے جلد حاضر خدمت ہوکر پہنچادیں لیکن خواتین کی ہمراہی کی وجہ سے وہ اس کی برق رفتاری سے چل نہیں سکتے تھے جیسی انہوں نے مصر آتے ہوئے اختیار کی تھی۔

آپ رضی اللہ عنہ ان دونوں خواتین کا بے حد ادب و احترام کرتے اور انہیں کسی نوع کی تکلیف نہ ہونے دیتے تھے۔ یہ مختصر سا قافلہ منزلوں پہ منزلیں طے کرتا ہوا روز افزوں مدینہ منورہ کے قریب تر ہوتا جارہا تھا۔ دوران سفر جہاں کہیں قیام ہوتا تو موقع محل کی مناسبت سے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ ماریہ، سیرین اور ان کے بھائی مابود کے سامنے اسلام کی حقانیت اور محاسن بیان کرتے اور پیغمبر اسلام صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں بھی بتاتے تھے۔ بالخصوص دونوں خواتین بڑے غور سے باتیں سنتی تھیں۔ اگر کسی مقام پر کوئی بات سمجھنے میں دشواری محسوس کرتیں تو استفسار کرلیتی تھیں۔ وہ رفتہ رفتہ سمجھنے لگی تھیں کہ دین اسلام ہی وہ دین ہے جو حق ہے اور اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ ہے، اللہ تعالیٰ ہی صرف عبادت کے لائق ہے اور اس کے رسول اسلامی تعلیمات کو فروغ دینے میں شبانہ روز سرگرم عمل ہیں۔

آخر کار کئی دنوں کی طویل مسافت کے بعد یہ چھوٹا سا قافلہ حدود مدینہ منورہ میں داخل ہوا۔ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے پہلے ہی سوچ رکھا تھا کہ خواتین کو کہاں لے جاکر ٹھہرانا ہے لہذا آپ سیدھے حضرت ام سلیم بنت ملحان رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے۔ معزز خواتین کو وہاں ٹھہرانے کے بعد آپ بارگاہ رسالت مآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوئے اس وقت وہاں عاشقان رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے چودھویں کا چاند ستاروں کے جھرمٹ میں ہو۔ وہاں پر موجود حضرات نے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کو راستہ دے دیا۔ انہوں نے اپنے محبوب و آقا و مولا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب پہنچ کر نہایت ادب و محبت سے سلام عرض کیا اور شاہ مقوقس کا خط نکال کر پیش خدمت کیا اور کہا:

’’یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! خبیث مقوقس نے اپنی بادشاہت کی وجہ سے بخیلی کی حالانکہ بادشاہت باقی نہیں رہے گی‘‘۔

محبوب اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مقوقس کے خط کی طرف دیکھا اور اسے کھولے بغیر ہی بتادیا کہ اس میں کیا لکھا ہے۔

بمطابق سیرالصحابہ ج6 حصہ 10 ص 287 رسول عربی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کو حرم نبوی میں داخل فرمالیا۔ بقول مقوقس آپ رضی اللہ عنہا قبط میں عظیم المرتبت تھیں، لیکن حقیقی معنوں میں اب آپ رضی اللہ عنہا نہ صرف عظیم المرتبت بلکہ اس سے بھی بلند و بالا مقام ام المومنین پر فائز ہوگئی تھیں۔ بروایت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کو ان کے پڑوس میں حضرت حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کے مکان میں ٹھہرایا گیا اور دوسری ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کی طرح انہیں پردہ میں رہنے کا حکم دیا۔ اس وقت ان کی عمر مبارک 20 سال کی تھی۔

اطراف مدینہ میں العالیہ کے مقام پر ایک مکان تعمیر کرایا گیا جہاں حضرت ماریہ قبطیہ کو منتقل کردیا گیا۔ اس مکان کے گرد انگور کی بیلیں تھیں۔ اب حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں تشریف لے جایا کرتے تھے۔ قبولیت اسلام، عبادت الہٰی اور قرب رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی کایا پلٹ دی تھی۔ آپ بڑی دیانت دار، نہایت صالح، پاکیزہ اور نیک سیرت تھیں۔ محبوب اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ رضی اللہ عنہا سے بہت خوش تھے۔

وقت کا دھارا بڑی تیزی سے بہہ رہا تھا، رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے منصب رسالت کے فرائض کی تکمیل کے سلسلہ میں شبانہ روز مصروف رہتے تھے اور جہنم کے کنارے پہنچے ہوئے لوگ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن سلوک، مکارم اخلاق، بےمثل کردار، اسوہ حسنہ، قرآنی تعلیمات اور سنت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں جوق درجوق مسلمان ہوکر جنت کے باغوں کی طرف آرہے تھے۔

اسی دوران میں حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا امید سے ہوگئیں۔ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بے حد مسرور و شاداں تھے۔ جب بچے کی ولادت کا وقت قریب آیا تو اس کی ذمہ داری حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ کی زوجہ حضرت سلمیٰ رضی اللہ عنہا کو سونپی، وہ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے ہاں اکثر آتی جاتی تھیں اور پھر ذوالحجہ 8 ہجری میں انہوں نے ایک نہایت خوب صورت اور صحت مند وتوانا بچے کو جنم دیا۔ حضرت سلمیٰ رضی اللہ عنہا نے اپنے خاوند کو بچے کی خوشخبری دینے کے لئے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بھیجا۔

محبوب کبریا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے عشاق کے درمیان تشریف فرما تھے کہ اسی اثناء میں حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے اور رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس طرح مخاطب ہوئے: السلام علیکم یا ابا ابراہیم!

حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے نہ صرف آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیٹے کے تولد ہونے کا مژدہ سنایا گیا بلکہ اس کا نام بھی بتادیا لہذا جب حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

بیٹے کی ولادت کی خبر دینے آئے ہو۔ جی ہاں یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! اللہ تعالیٰ نے آپ کو چاند سا بیٹا عطا فرمایا ہے۔ حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ خوشی سے پھولا نہیں سمارہے تھے، وہاں پر موجود اصحاب رسول نے بھی آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبارکباد دی۔ حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ کو اس خوشی کے موقع پر ایک غلام بطور انعام عطا فرمایا گیا۔

ام المومنین حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے ہاں بیٹے کی پیدائش کی خبر آن واحد میں مدینہ منورہ کے گلی کوچوں میں پھیل گئی اور جب تمام ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو پتہ چلا تو ان کے اندر جذبہ رشک نے جگہ بنالی۔ وہ جانتی تھیں کہ اب حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کی قدرو منزلت ان کے آقا و مولا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظروں میں اور بھی بہت بڑھ جائے گی۔ ادھر انصار کی خواتین میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک بیٹے کو دودھ کون پلائے گی۔

رسالت مآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم چند اصحاب کے ہمراہ بیٹے کو دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے۔ بیٹے کو دیکھا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام کے کہنے کے مطابق اس کا نام ابوالانبیاء حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے اسم پاک پر رکھا جو فطرتاً حنیف تھے۔ نام رکھنے کی دیر تھی کہ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کی کنیت ام ابراہیم ہوگئی اور جہاں ان کا قیام تھا اس جگہ کا نام مشربہ ام ابراہیم پڑ گیا جو آج تک اسی نام سے مشہور ہے۔ بیٹے کی پیدائش کے وقت حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک 60 سال تھی۔ بیٹے کی دایہ حضرت سلمیٰ رضی اللہ عنہا جب بھی کبھی آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوتی تھیں تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی بڑی آؤ بھگت کیا کرتے تھے۔

ساتویں روز حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کا عقیقہ کیا گیا تو دو مینڈھے ذبح کئے گئے، ان کا سرمنڈایا گیا اور سر کے بالوں کے برابر چاندی تول کر صدقہ کی گئی اور بالوں کو زمین میں دفنادیا اس موقع پر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

قبطیوں کے (مصر کے عیسائی) ساتھ حسن سلوک کرو اس لئے کہ ان سے عہد اور نسب دونوں کا تعلق ہے۔ ان کے نسب کا تعلق تو یہ ہے کہ حضرت اسماعیل ذبیح اللہ علیہ السلام کی والدہ (حضرت حاجرہ سلام اللہ علیہا) اور میرے لڑکے ابراہیم دونوں کی ماں اسی قوم سے ہے اور عہد کا تعلق یہ ہے کہ ان سے معاہدہ ہوچکا ہے۔

حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر روز حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے جاتے تھے، وہیں قیلولہ فرماتے تھے اس وقت حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کو وہیں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لایا جاتا تھا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی معصومانہ اداؤں سے بہت مسرور و شاد ہوتے تھے۔ سیرت الرسول کا مصنف ڈاکٹر محمد حسین ہیکل لکھتا ہے کہ حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ سے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وابستگی فرائض رسالت کا جز نہ تھی بلکہ اس کا سبب وہ بشری جذبہ تھا جو قدرت نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خصوصیت سے ودیعت کیا تھا۔

حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی عمر مبار ک جب ایک سال سے قدرے زیادہ ہوئی تو ان میں اپنے والد محبوب کبریاء صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مشابہت کے آثار نمودار ہونے لگے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹے سے بڑی شفقت سے پیش آتے تھے۔

وقت کا دریا تیزی سے بہہ رہا تھا اور پھر ایک دن حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ بیمار پڑگئے۔ روز افزوں ان کی علالت میں اضافہ ہوتا گیا۔ لہذا بحالی صحت کے لئے انہیں مشربہ ام ابراہیم کے قریب ایک نخلستان میں لے جاکر رکھا گیا۔ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا اور ان کی بہن دن رات حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لخت جگر کی تیمار داری میں مگن رہتی تھیں لیکن مرض میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔

ایک روز حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی حالت سے اندازہ لگ گیا کہ اس جہان رنگ و بو سے ان کی رخصتی کا وقت قریب آگیا ہے تو نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اطلاع دی گئی۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا ہاتھ تھامے نخلستان میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ابراہیم اپنی والدہ کی گود میں دم توڑ رہا تھا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹے کو اپنے آغوش میں لے لیا، غم کے آثار آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس سے نمایاں تھے۔ ارشاد فرمایا: اے ابراہیم! ہم تیرے لئے مفید ثابت نہیں ہوسکتے۔

حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کو غسل دیا اور ایک چھوٹے سے تختے پر اٹھا کر بقیع کی طرف چل پڑے۔ میت کے ہمراہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت تھی۔ نماز جنازہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود پڑھائی اور پھر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا گیا:

یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! ان کو کہاں دفن کریں؟ ارشاد فرمایا: ہمارے سلف عثمان بن مظعون کے پاس۔ یہ وہ ہستی تھی جو سب سے پہلے بقیع میں مدفون ہوئی تھی لہذا حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی قبر وہاں کھودی گئی تو اس میں حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ اترے۔ جب تدفین سے فراغت ہوئی تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبر کی درزوں اور شگافوں کو بند کرنے کا حکم دیا اور اپنے مبارک ہاتھوں سے قبر کی مٹی ہموار کی اور فرمایا: پانی لاؤ۔

چنانچہ ایک انصاری پانی کی مشک لے آیا جس کو قبر پر چھڑکا گیا اور شناخت کے لئے وہاں کوئی چیز نصب کردی۔ بعد ازاں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

علامت قبر سے میت کو نہ کوئی فائدہ پہنچتا ہے نہ نقصان البتہ زندوں کو اس سے ایک گونہ تسلی ہوجاتی ہے۔

حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا پر بیٹے کی موت کا غم پہاڑ بن کر ٹوٹا تھا لیکن اپنے محبوب آقا و مولا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تاقیامت تک کے لئے بچھڑ جانے کا تصور انہیں کبھی خواب میں بھی نہیں آیا تھا لہذا یہ داغ جدائی ان کے لئے بے حد گراں، ناقابل برداشت اور ان مٹ تھا۔ اپنے محبوب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ چار سالہ رفاقت و قرب کا زمانہ یوں لگتا تھا جیسے چار سانسوں میں بیت گیا ہو۔ ہر وقت آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یادوں میں گم سم رہتی تھیں اب ان کا زیادہ تر وقت یاد الہٰی میں بسر ہوتا تھا۔

وقت بڑی تیز رفتاری سے گزرتا رہا جب سن 16 ہجری کا پہلا مہینہ محرم الحرام آیا تو حضرت ماریہ قبطیہ المصری رضی اللہ عنہا کا وقت وصال آگیا لہذا بستر مرگ پر دراز ہوگئیں، آثار بتاتے تھے کہ وہ اپنے بیٹے ابراہیم اور اپنے آقا و مولا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کی بجا آوری کے لئے ان کے قدموں میں حاضر ہونے کے لئے بے قرار ہیں، ان کی بہن حضرت سیرین قبطیہ رضی اللہ عنہا قریب بیٹھی آنسو بہارہی تھیں اور ننھا عبدالرحمن بن حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ قریب کھڑا خالہ کی طرف بڑی معصوم نظروں سے دیکھ رہا تھا لیکن نہیں جانتا تھا کہ وہ ہمیشہ کے لئے اپنی خالہ سے جدا ہونے والا ہے۔ حضرت ماریہ قبطیہ المصری رضی اللہ عنہا نے اپنے بھانجے کی طرف بڑی محبت سے دیکھا جس کے پس منظر میں وہ اپنے بیٹے ابراہیم کو دیکھ رہی تھیں اس کے سر اور گالوں پر بڑے پیار سے ہاتھ پھیرا، بہن کی طرف ایسی نظروں سے دیکھا کہ وہ تڑپ اٹھی اور پھر آخری سانس لے کر ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگئیں۔ شاید آنکھیں بند ہوتے ہی انہیں بیٹا اور اپنی زندگی سے پیارا محبوب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نظر آگئے تھے جس کی وجہ سے ان کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا تھا۔ اس وقت ان کی عمر 29 سال تھی۔ حضرت سیرین قبطیہ رضی اللہ عنہا کے آنسو تھمنے کا نام نہ لیتے تھے اور اس کا بیٹا عبدالرحمن ماں کی طرف عجیب سی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر تھا کہ وہ کیوں رو رہی ہے۔ حضرت ماریہ قبطیہ المصری رضی اللہ عنہا کے وصال کی خبر آن واحد میں مدینہ منورہ کے گلی کوچوں میں پھیل گئی۔

خلیفۃ المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو اطلاع ملی تو فوراً باہر تشریف لے آئے اور پھر نیلے آسمان نے دیکھا کہ وہ ام المومنین حضرت ماریہ قبطیہ کے جنازہ میں شرکت کے لئے لوگوں کو جمع کررہے ہیں اور جب تجہیز و تکفین کا سارا بندوبست ہوگیا تو ان کی نماز جنازہ خود پڑھائی اور پھر قیامت تک استراحت کے لئے ان کے جسد پاک کو جنت البقیع کی پاک زمین کے تخت پر لٹاکر اوپر منوں مٹی ڈال دی گئی۔

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ زمین کی حقیقت مٹی ہے اور انسان کی حقیقت مٹنا ہے لیکن جو اللہ تعالیٰ کے محبوب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت و عشق کرتا ہے اس کی مٹی روشن و تابندہ ہوجاتی ہے اور ام المومنین حضرت ماریہ قبطیہ المصری رضی اللہ عنہا کی قبر مبارک زندہ و روشن ہے۔