فرمان الٰہی و فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

فرمان الہٰی

لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَإِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُo أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ وَالْفُلْكَ تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِأَمْرِهِ وَيُمْسِكُ السَّمَاءَ أَن تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ إِلَّا بِإِذْنِهِ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌo وَهُوَ الَّذِي أَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ إِنَّ الْإِنسَانَ لَكَفُورٌo

(الحج، 22: 64 تا 66)

’’اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، اور بے شک اﷲ ہی بے نیاز قابلِ ستائش ہے۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اﷲ نے جو کچھ زمین میں ہے تمہارے لیے مسخر فرما دیا ہے اور کشتیوں کو (بھی) جو اس کے امر (یعنی قانون) سے سمندر (و دریا) میں چلتی ہیں، اور آسمان (یعنی خلائی و فضائی کرّوں) کو زمین پر گرنے سے (ایک آفاقی نظام کے ذریعہ) تھامے ہوئے ہے مگر اسی کے حکم سے (جب وہ چاہے گا آپس میں ٹکرا جائیں گے)۔ بے شک اﷲ تمام انسانوں کے ساتھ نہایت شفقت فرمانے والا بڑا مہربان ہے۔ اور وہی ہے جس نے تمہیں زندگی بخشی پھر تمہیں موت دیتا ہے پھر تمہیں (دوبارہ) زندگی دے گا۔ بے شک انسان ہی بڑا ناشکر گزار ہے۔

(ترجمة عرفان القرآن)

فرمان نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم

عَنْ خُرَیْمِ بْنِ اَوْسِ بْنِ حَارِثَةَ بْنِ لَامٍ رضی الله عنه قَالَ: کُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم فَقَالَ لَهُ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضي اﷲ عنهما: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنِّي أُرِيْدُ اَنْ اَمْدَحَکَ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم: هَاتِ لَا يَفْضُضُ اﷲُ فَاکَ فَاَنْشَاَ الْعَبَّاسُ رضی الله عنه يَقُوْلُ:

وَاَنْتَ لَمَّا وُلِدْتَ اَشْرَقَتِ
الْاَرْضُ وَضَائَتْ بِنُورِکَ الْاُفُقُ

فَنَحْنُ فِي الضِّيَاءِ وَفِي
النُّوْرِ وَسُبُلُ الرَّشَادِ نَخْتَرِقُ

رَوَاهُ الطَّبَرَانِي وَالْحَاکِمُ وَاَبُوْنُعَيْمٍ.

’’حضرت خریم بن اوس بن حارثہ بن لام رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خدمتِ اقدس میں موجود تھے تو حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اﷲ عنہما نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا: یا رسول اﷲ! میں آپ کی مدح و نعت پڑھنا چاہتا ہوں تو حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لاؤ مجھے سناؤ اﷲ تعالیٰ تمہارے دانت صحیح و سالم رکھے (یعنی تم اسی طرح کا عمدہ کلام پڑھتے رہو) تو حضرت عباس رضی اﷲ عنہ نے یہ پڑھنا شروع کیا:

’’اور آپ وہ ذات ہیں کہ جب آپ کی ولادت باسعادت ہوئی تو (آپ کے نور سے) ساری زمین چمک اٹھی اور آپ کے نور سے اُفقِ عالم روشن ہو گیا پس ہم ہیں اور ہدایت کے راستے ہیں اور ہم آپ کی عطا کردہ روشنی اور آپ ہی کے نور میں ان (ہدایت کی راہوں) پر گامزن ہیں۔ ‘‘

(المنهاج السوی من الحديث النبوی صلیٰ الله عليه وآله وسلم، ص471، 272)