حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی معاشی اصلاحات

مریم بشیر

تعارف

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ساری زندگی اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت میں گزری۔ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ساری زندگی مخلوق خدا کی خدمت اور بھلائی کے کاموں میں گزاری ہے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جہاں گمراہی سے نکال کر ہدایت کے راستے پر گامزن کیا وہاں معاشرے میں پسے ہوئے طبقات کی بحالی کا کام سرانجام دیا۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاشی نظام کو مستحکم بنیادوں پر استوار کیا۔ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکومت کے استحکام کے لئے جو معاشی نظام عطا کیا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس حقیقی نظام کو باقاعدہ ملکی سطح پر انتظامی محکمہ جات کی صورت میں قائم کیا۔ جس نظام نے تمام طبقات کو متاثر کیا وہ نظام حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ہے۔ آپ نے ملکی ترقی کے لئے مجلس شوریٰ، ٹیکس اور بیت المال کے شعبے قائم کئے۔ دفاع کے لئے فوج اور پولیس کا نظام مرتب کیا۔ عوام کی بھلائی کے لئے عدالت کا نظام، صوبوں کی تقسیم اور ڈاک کا نظام قائم کیا۔ آپ کے دور حکومت میں غیر مسلموں کے ساتھ مساوی سلوک روا رکھا جاتا تھا۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے معاشی نظام کے اہم پہلو درج ذیل تھے۔

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا نظام محاصل

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے ملک کے معاشی نظام کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کے لئے ٹیکس کے نظام کا نفاذ کیا۔ اس سلسلہ میں آپ نے زمینوں کی پیمائش اور غیر مسلم کاشت کاروں پر ان کی برداشت سے زیادہ ٹیکس نہیں لگانا چاہتے تھے۔

دورِ فاروقی رضی اللہ عنہ میں ٹیکس کا نظام اتنا بہتر ہوگیا تھا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ فرمانے لگے:

کان خراج السواد علی عهد عمر بن الخطاب  رضی الله عنه مائة الف درهم.

(بلاذری، احمد بن يحيیٰ بن جابر، امام ابی العباس، فتوح البلدان، موسسة المعارف، بيروت، 1403ھ، ص:270)

’’امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں سواد سے ایک لاکھ درہم ٹیکس وصول ہوا تھا‘‘۔

ٹیکس کی وصولی میں حضرت عمر  رضی اللہ عنہ کی ہدایات

ٹیکس ملکی آمدن کا اہم ذریعہ ہوتا ہے اس میں مسلم اور غیر مسلم سب شریک ہوتے ہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ غیر مسلم شہریوں کے حقوق کا خیال رکھتے تھے ان پر ان کی طاقت سے زیادہ ذمہ داری نہ ڈالتے۔ امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام حضرت اسلم فرماتے ہیں:

ان عمر  رضی الله عنه کتب الی امراء الاجناد: ان لا يضربوا الجزية علی النساء ولا علی الصبيان.

(عبدالرزاق، ابوبکر بن همام بن نافع، المصنف، المکتب الاسلامی، بيروت، لبنان، 1403ه، 85:6، رقم:10009)

’’حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سپہ سالاروں کو خط لکھا کہ وہ غیر مسلم عورتوں اور بچوں پر ٹیکس نافذ نہ کریں‘‘۔

ٹیکس کی وصولی میں سختی کی ممانعت

ٹیکس کی وصولی ایک مشکل عمل ہے۔ امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دوسرے صوبے سے بہت سا مال آیا۔ یہ مال ٹیکس سے ہی حاصل کیا جاتا تھا امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ زیادہ مال کو دیکھ کر فرمانے لگے کہ یہ مال کسی پر ظلم یا سختی کرکے تو نہیں لائے۔ اس کو امام قدامہ بیان فرماتے ہیں:

انی لاظنکم قد اهلکتم الناس، قالوا: لا، والله، مااخذنا الا عفوا صفوا قال: بلا سوط ولا بوط، قالوا: نعم قال: الحمدلله الذی لم يجعل ذلک علی يدی ولا فی سلطانی.

(ابن قدامه، ابو محمد عبدالله بن احمد المقدسی، دارالفکر، بيروت، لبنان، 1405ه، 290: 9)

’’میں خیال کرتا ہوں کہ تم نے لوگوں کو ہلاک کردیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: نہیں، اللہ کی قسم! ہم نے یہ ٹیکس معافی اور نرمی کے ساتھ ہی وصول کیا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا: بغیر کسی سختی کے؟ تو انہوں نے جواب دیا: ہاں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے دعا کی: تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے میرے ہاتھ سے میری حکمرانی میں غیر مسلموں پر یہ زیادتی نہیں ہونے دی‘‘۔

ٹیکس کی وصولی میں حسن سلوک اور نرمی کی تلقین

امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ، فرمان رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق اپنی رعایا سے نرمی برتتے تھے۔ ایک دفعہ شام کے سفر میں امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ ان کے عامل ٹیکس وصول کرنے کے لئے غیر مسلموں کو دھوپ میں کھڑا کردیتے ہیں۔ اس پر آپ رضی اللہ عنہ نے عاملوں کی سرزنش کرتے ہوئے فرمایا:

فدعوهم، لاتکلفوهم مالا يطيقون، فانی سمعت رسول الله صلیٰ الله عليه وآله وسلم يقول: لا تعذبوا الناس فان الذين يعذبون الناس في الدنيا يعذبهم الله يوم القيامة.

(ابويوسف، يعقوب بن ابراهيم، کتاب الخراج، دارالمعرفه، بيروت، لبنان، ص: 135)

’’ان کو چھوڑ دو، ان کو ہرگز تکلیف نہ دو جس کی وہ طاقت نہیں رکھتے، میں نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے لوگوں کو عذاب نہ دو، بے شک جو لوگوں کو دنیا میں عذاب دیتے ہیں اللہ انہیں قیامت کے دن عذاب دے گا‘‘۔

جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کڑی سزا کو ترک کردیا گیا۔ اسی طرح ہشام بن حکم نے حمص کے ایک غیر مسلم قبطی کو ٹیکس وصول کرنے کے لئے دھوپ میں کھڑا دیکھا۔ اس پر انہوں نے سرکاری افسر کی ملامت کی اور کہا میں نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا:

ان الله يعذب الذين يعذبون الناس فی الدنيا.

(ابوداؤد، سليمان بن اشعث سجستانی، السنن، دارالفکر، بيروت، لبنان، 1994ء، 106: 3، رقم: 3045)

’’بے شک اللہ ان لوگوں کو عذاب دے گا جو دنیا میں لوگوں کو عذاب دیتے ہیں‘‘۔

عمر رسیدہ افراد کے لئے ٹیکس کی معافی

امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے عہد حکومت میں بلا رنگ و نسل و ملک و ملت رعایا کو آرام و سکون پہنچایا جاتا بلکہ ان کے لئے نرمی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ غیر مسلم شہریوں کا نہ صرف ٹیکس معاف کردیا جاتا تھا بلکہ ضعفاء کے لئے وظائف کا تعین بیت المال سے کیا جاتا تھا اور ان کی اور ان کے اہل خانہ کی کفالت بھی کی جاتی تھی۔

مشہور امام ابو عبید القاسم بن سلام ’’کتاب الاموال‘‘ میں اس امر کے متعلق یوں رقمطراز ہیں:

ان اميرالمومنين عمر رضی الله عنه مربشی من اهل الذمة، يسئال علی ابواب الناس: فقال: ما انضفناک ان کنا اخذنا منک الجزية في شبيتک ثم ضيعناک في کبرک. قال: ثم اجری عليه من بيت المال ما يصله.

(ابوعبيد، قاسم بن سلام، کتاب الاموال، دارالفکر، بيروت، لبنان، 1988ء، ص:57، رقم:119)

’’بے شک امیرالمومنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ غیر مسلم شہریوں میں سے ایک بوڑھے شخص کے پاس سے گزرے جو لوگوں کے دروازوں پر بھیک مانگتا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم نے تمہارے ساتھ انصاف نہیں کیا کہ ہم نے تمہاری جوانی میں تم سے ٹیکس وصول کیا پھر تمہارے بڑھاپے میں تمہیں بے یارومددگار چھوڑ دیا۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے اس کی ضروریات کے لئے بیت المال سے وظیفہ کی ادائیگی کا حکم جاری فرمایا‘‘۔

پاکستان کا محصولاتی نظام

موجودہ دور میں ہر حکومت فرائض سرانجام دیتی ہے۔ وہ ملک کو غیر ملکی حملہ آوروں سے بچاتی ہے۔ ملک کے اندر امن و امان برقرار رکھنے کی ذمہ دار ہے۔ لوگوں کی معاشرتی فلاح و بہبود بھی حکومت کا فرض بن جاتی ہے۔ حکومت صحت عامہ، تعلیم اور سماجی بہبود کی خدمات بہم پہنچاتی ہے۔ ملک کی معاشی ترقی کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے۔ وہ ملک میں ہوائی اڈے تعمیر کرتی ہے۔ ریلوں اور سڑکوں کا جال بچھاتی ہے۔ بندرگارہیں تعمیر کرتی ہے لوگوں کے معیار زندگی کو بڑھانے کے لئے سعی کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کا سب سے اہم مقصد یہ ہوتا ہے کہ ملک کی حقیقی قومی آمدنی میں اضافہ ہو اور ملک میں مکمل روزگار کی صورت حال پیدا ہو۔

کامل روزگار سے مراد ایسی صورت حال ہے جس میں ان تمام لوگوں کو ان کی قابلیت اور صلاحیت کے مطابق روزگار مہیا کیا جاتا ہے جو کہ کام کرنے کے اہل ہوں اور کام کرنا چاہتے ہوں۔ اس کے علاوہ حکومت معیشت کے مختلف شعبوں یعنی زراعت، صنعت، تجارت اور بینکاری نظام میں ترقی کے پروگرام بناتی ہے تاکہ ان شعبوں کو زیادہ سے زیادہ ترقی دے کر معیشت کو مستحکم بنایا جائے ان سب فرائض کی تکمیل کے لئے حکومت کو مالی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ حکومت براہ راست اور بالواسطہ ٹیکس لگا کر روپیہ اکٹھا کرتی ہے اس کے علاوہ بعض اوقات حکومت زائد نوٹ بھی چھاپ کر جسے ہم معاشی اصطلاح میں خسارے کی سرمایہ کاری (Deficit Financing) کہتے ہیں۔ اپنی ضرورت کو پورا کرتی ہے۔ کئی دفعہ وہ اندرونی اور بیرونی ذرائع سے قرضے حاصل کرکے بھی اپنے اخراجات کو پورا کرتی ہے۔ کسی بھی حکومت کی آمدنی کا سب سے بڑا اور اہم ذریعہ ٹیکس ہوتے ہیں۔ ٹیکس ایک ایسی لازمی ادائیگی ہے جو لوگ حکومت کو ادا کرتے ہیں اور اس کے بدلے میں کسی قسم کا براہ راست مفاد کا مطالبہ نہیں کرتے۔ ٹیکسوں کی رقم لوگوں کے اجتماعی فلاح و بہبود پر خرچ ہوتی ہے ٹیکسوں کی کئی قسمیں ہیں۔ پاکستان میں عام طور پر ٹیکسوں کی دو اقسام ہیں۔

  1. براہ راست ٹیکس (Direct Tax)
  2. بلاواسطہ ٹیکس (Indirect Tax)

براہ راست ٹیکس اس کو کہتے ہیں جو جس پر لگے وہی ادا کرتا ہے جیسے یہ ٹیکس تنخواہوں، زمین و جائیداد اور کاروباری اداروں وغیرہ پر لگایا جاتا ہے جبکہ بالواسطہ ٹیکس درآمدات و برآمدات وغیرہ پر لیا جاتا ہے۔

نوعیت کے اعتبار سے ٹیکسوں کی پانچ اقسام ہیں:

  1. براہ راست ٹیکس (Direct Tax)
  2. بالواسطہ ٹیکس (Indirect Tax)
  3. متناسب ٹیکس (Proportional Tax)
  4. مستزائد ٹیکس (Progressive Tax)
  5. تنزیلی ٹیکس (Regressive Tax)

متناسب ٹیکس کی صورت میں ٹیکس عائد کرتے وقت ایک ہی شرح برقرار رکھی جاتی ہے۔ خواہ کسی شخص کی آمدنی کم ہو یا زیادہ سب پر ایک ہی شرح سے ٹیکس لگایا جاتا ہے۔

اگر آمدنی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ٹیکس کی شرح بھی بڑھتی چلی جائے اور آمدنی کے کم ہونے سے ٹیکس کی شرح بھی کم ہوتی جائے تو اسے مستزائد ٹیکس کہا جاتا ہے۔

تنزیلی ٹیکس ایسا ٹیکس ہے جس کی شرح بڑھتی ہوئی آمدنی کے ساتھ ساتھ گرتی چلی جاتی ہے۔

پاکستان میں ٹیکس عائد کرنے والے تین ادارے ہیں:

  1. مرکزی حکومت: جو ٹیکس عائد کرتی ہے ان میں کسٹم ڈیوٹی، مرکزی ایکسائز ڈیوٹی، آمدنی ٹیکس، کاروباری ٹیکس وغیرہ شامل ہیں۔
  2. صوبائی حکومتیں: اپنے دائرہ کار میں مالیہ، آبیانہ، پیشہ وارانہ ٹیکس، صوبائی ایکسائز ڈیوٹی، بجلی، موٹر گاڑیوں پر ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس وغیرہ وصول کرتی ہیں۔
  3. مقامی حکومتیں: مثلاً کارپوریشن، میونسپل کمیٹیاں، ضلعی اور مقامی کونسلیں بھی صوبائی حکومتوں کی منظوری کے بعد کچھ ٹیکس عائد کرتی ہے۔ جن سے محصول چنگی، ٹول ٹیکس اور مختلف شرحیں ملتی ہیں۔

مختصر یہ کہ کسی بھی حکومت کی آمدنی جن میں براہ راست ٹیکس اور بالواسطہ ٹیکس زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔

براہ راست ٹیکس کا نفاذ

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) انکم ٹیکس وصول کرنے کا پابند حکومتی ادارہ ہے۔ اس کی بنیاد 1942ء میں رکھی گئی اور منسٹری آف فنانس کے زیر نگرانی کام کرتا تھا۔ اس کے بعد 1960ء تک یہ اسی طرح چلتا رہا۔ (FBR) کو بھی منسٹری آف فنانس کے ساتھ کردیا گیا۔ اس ادارے کے وظائف میں مالی پالیسیوں کی نگرانی، وفاقی سطح پر ٹیکسوں کی وصولی شامل ہے۔ مگر اس میں بھی بہت بے ضابطگیاں پائی جاتی ہیں۔

پاکستان جب وجود میں آیا تو یہ چند ایسے باضمیر باختہ افراد کے ہاتھ چڑھ گیا جنہوں نے پاکستان کو لوٹا اور اس خوشحال مملکت کو ابتدائی مراحل میں ہی اپاہج کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ اس کام میں برسر اقتدار لوگ سب سے زیادہ پیش پیش رہے اور اس کے بعد امیر وڈیرے اور جاگیر دار طبقہ جس نے کبھی بھی حکومت کو مکمل ٹیکس نہیں دیا۔ (مجاہد حسین، کون بڑا بد عنوان، یوسف مارکیٹ، لاہور، ص:56)

بالواسطہ ٹیکسز کا نفاذ

معروف تجزیہ نگار ڈاکٹر فرح سلیم کے مطابق پاکستان میں ٹیکس نظام کی ایک اور سب سے بڑی خامی بالواسطہ ٹیکسز ہیں۔ پاکستان میں جو ٹیکسوں کا نظام لاگو ہے اس میں بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہ 60 فیصد ٹیکسز جو ہیں وہ بالواسطہ ٹیکس کی مد میں اکٹھے کئے جاتے ہیں اور 40 فیصد براہ راست ٹیکسز ہیں۔ بالواسطہ ٹیکس سے مراد یہ ہے کہ جیسے جیسے آپ کی آمدن کم ہوتی جاتی ہے اس ٹیکس کا آپ پر بوجھ بڑھتا جاتا ہے ٹیکس سسٹم یہ کررہا ہے کہ پورے پاکستان کی حکومت چلانے کا خرچ پاکستان کے کم آمدن والے طبقے پر بڑھاتا چلا جارہا ہے۔

ایف۔بی۔آر کے ترجمان اسرار رؤف کے مطابق صرف کرپشن ہی مسئلہ نہیں بلکہ ٹیکسوں کی وصولی کے دائرہ کار میں اضافے کی بھی ضرورت ہے جس کے لئے متعدد اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ آر ایس ٹی اسی چیز کو چیک کرنے کے لئے لایا جارہا ہے کیونکہ ہمارے درمیان میں ہول سیلرز اور ڈسٹری بیوٹرز کی چین مس ہے اگر اس مسنگ کو ختم کردیا جائے تو پانچ چھ سو بلین کا ریونیو بڑھ جائے گا جب ریونیو بڑھے گا تو ٹیکس کی شرح نیچے آجائے گی۔

اسرار رؤف کے مطابق گزستہ 1328 ارب روپے کے ٹیکسز وصول کئے گئے اور اس سال یہ ہدف 1304 ارب روپے ہے۔ بقیہ تجزیہ نگاروںکا خیال ہے کہ ٹیکسوں کی رقم کے ضیاع سے متعلق اعداد و شمار سامنے آنے کے بعد کہ حکومت کو مزید ٹیکس لگانے میں عوامی سطح پر بھی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ (شکور رحیم: حالات حاضرہ ادارت: افسر اعوان، پاکستان میں ٹیکسوں کے 600 ارب روپے کی پیش نظر، http:www.dwde)