قربانی کا حقیقی مقصد اوراس کی حکمت

طیبہ کوثر

10 ذی الحجۃ وہ تاریخی، مبارک اور عظیم الشان قربانی کا یادگار دن ہے جب امت مسلمہ کے مورثِ اعلیٰ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے بڑھاپے میں عطا ہوئے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو حکم الٰہی کی خاطر قربان کرنے کا ایسا قدم اٹھایا کہ آج بھی اس منشائے خداوندی کی تعمیل پر چشم فلک حیران ہے جبکہ دوسری طرف فرمانبرداری وجانثاری کے پیکر آپ علیہ السلام کے فرزندحضرت اسماعیل علیہ السلام نے رضا مندی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی گردن اللہ کے حضور پیش کر کے قربانی کے تصور کو ہمیشہ کے لئے امرکرنے کا ایسا مظاہرہ کیا کہ خود ’’رضا‘‘ بھی ورطہ حیرت میں مبتلا ہوگئی۔ ان دونوں کی فرمانبرداری اور قربانی کو اسی وقت رب تعالیٰ نے شرف قبولیت بخشا اور آپ کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو سلامتی کا پروا نہ عطا کر کے آپ علیہ السلام کی جگہ ایک دنبہ بھیج دیا جسے رب تعالی نے ذبحِ عظیم قرار دیا ہے۔چنانچہ ارشادِباری تعالی ہے :

وَفَدَيْنٰـهُ بِذِبْحٍ عَظِيْمٍ.

اور ہم نے عظیم قربانی کا فدیہ دے کر اس کو بچا لیا۔

(الصٰفٰت، 37: 107)

قربانی کی تاریخی اہمیت پر قرآن حکیم کی یہ آیت دلالت کرتی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

وَلِکُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّيَذْکُرُوا اسْمَ اﷲِ عَلٰی مَا رَزَقَهُمْ مِّنْم بَهِيْمَةِ الْاَنْعَام.

اور ہم نے ہر امت کے لیے ایک قربانی مقرر کر دی ہے تاکہ وہ ان مویشی چوپایوں پر جو اﷲ نے انہیں عنایت فرمائے ہیں (بوقتِ ذبح )اللہ کے نام کا ذکرکریں۔

(الحج، 22: 34)

مذکورہ بالا آیت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی (قربانی) کو دوام بخشنے پر دلالت کرتی ہے کہ سابقہ تمام امتوں پر قربانی فرض تھی۔

اسلام کا تصور قربانی نہایت ہی پاکیزہ، اعلیٰ اور افضل ہے۔ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سنت ابراہیمی یعنی قربانی کا جو تصور دیا وہ اخلاص اور تقوی پر زور دیتا ہے۔ قربانی اور تقوی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ عید الاضحی کے روز ہر مسلمان اس عظیم الشان قربانی کی یاد تازہ کرتا ہے جو رویائے صادقہ پر منشائے خداوندی سمجھتے ہوئے حضرت ابرہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام نے پیش کی تھی۔خلوص اور پاکیزہ نیت سے اللہ کی راہ میں دی گئی قربانی انسان کے دل میں غمگساری، ہمدردی، مخلوق پروری اور دکھی انسانیت کی خدمت کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔

قربانی کا مقصد رضائے الٰہی کا حصول اور شیطانی قوتوں کو خائب وخاسر بنانا ہے۔ قربانی کی اصل روح انسان میں تقویٰ کو پروان چڑھانا ہے نہ کہ محض جانور قربان کر کے گوشت اور خون اس کی نذر کرنا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو بھی ذبیح جانور کا گوشت اور خون نہیں بلکہ دلوں کا تقویٰ اور اخلاص پہنچتا ہے۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:

لَنْ يَّنَالَ اﷲَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلٰـکِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ.

ہرگز نہ (تو) اﷲ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے۔

(الحج، 22: 37)

اسی آیت کی تفسیر میں مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں:

’’یہ قربانی جوا نہیں پیش کرنے کی ہدایت کی جا رہی ہے وہ اس لیے نہیں ہے کہ خدا کو ان قربانیوں سے کوئی نفع نہیں پہنچتا۔ خدا کو ان قربانیوں کا گوشت یا خون کچھ بھی نہیں پہنچتا۔ تمہاری پیش کی ہوئی یہ چیز تم ہی کو لوٹا دی جاتی ہے۔ تم خود اس کو کھاؤ اور بھوکوں اور محتاجوں کو کھلاؤ۔ قربانی کی مثال بالکل یوں ہے کہ کوئی اپنے سر کے تاج کو اصل بادشاہ کے قدموں پر رکھے اور بادشاہ اس تاج کو اپنے قدموں سے عزت دے کر پھر اس کے سر پر پہنا دے۔ خدا قربانیوں کے خون سے محظوظ نہیں ہوتا، بلکہ اس تقویٰ اور اس اطاعت سے خوش ہوتا ہے جو ان قربانیوں سے ان کے پیش کرنے والوں کے اندر پیدا ہوتا ہے۔‘‘

تدبرقرآن، 5: 244

معلوم ہوا کہ قربانی کا بظاہر مقصد جانور ذبح کرنا ہے مگر اس کی اصل روح تقویٰ اور اخلاص کی آبیاری ہوتی ہے۔ لیکن صد افسوس کہ آج کے ماحول میں قربانی سنت ابراہیمی کی بجائے دکھلاوے کی قربانی بن چکی ہے۔ لوگ ذاتی نمود ونمائش کے لیے قربانی میں غلو کرنے لگے، اپنی دولت کا رعب جمانے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دوڑ میں اخلاص وتقوی سے اپنا دامن خالی کر کے ریاکاری کو اپنا شعار بنا چکے ہیں۔ بہت فخریہ انداز میں جانوروں کی قیمتیں بتاکر لطف لیتے ہوئے یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ ہم نے اعلیٰ سے اعلیٰ نسل کے اتنے جانور ذبح کیے۔ وہ یہ بھول چکے ہیں کہ قربانی کی قبولیت کا انحصار ریاکاری پر نہیں بلکہ خالصیت پر ہوتا ہے اور جہاں اخلاص نہ ہو وہاں قبولیت بھی نہیں ہوتی۔

جبکہ اسوہ ابراہیم علیہ السلام کی پیروی کااصل مقصد جانور ذبح کرنا، نفسانی خواہشات کی تکمیل اور دکھلاوہ نہیں بلکہ طلبِ رضائے الٰہی ہے۔ قربانی کے ذریعے انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت، انبیاء کرام علیہم السلام سے محبت اور خلوص وایثار کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔

الغرض قربانی کا اصل فلسفہ تقوی کا حصول اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے اگر اسی جذبے سے قربانی کی جائے تو یقینا وہ بارگاہ الٰہی میں شرفِ قبولیت کی سندپاتی ہے اور اگر ریاکاری سے کام لے کر نمود ونمائش اور اپنی دولت کا رعب ڈالنے کے لیے قربانی کی جائے تو ایسی قربانی روز محشر کے ثواب سے محروم کر دیتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو قربانی کے جانور کاخون یا گوشت نہیں بلکہ قربانی دینے والے انسان کی نیت مطلوب ہوتی ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا قرب کا حاصل کیا جاتا ہے۔

لہٰذا قربانی کا جانور لیتے وقت سے لے کر اسے اللہ کی راہ میں ذبح کرتے وقت یہی خیال ذہن نشین رہنا چاہیے کہ اس قربانی کا مقصد صرف رضائے الٰہی کا حصول ہے۔ کیونکہ جو جانور اللہ کی رضا کے لیے ذبح کیا جاتا ہے اس کے خون کا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کے ہاں قربانی قبول ہو جاتی ہے اس کی تائید درج ذیل حدیث مبارکہ سے ہوتی ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

مَا عَمِلَ آدَمِيٌّ مِنْ عَمَلٍ يَوْمَ النَّحْرِ اَحَبَّ إِلَی اﷲِ مِنْ إِهْرَاقِ الدَّمِ إِنَّهَا لَتَاْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِقُرُونِهَا وَاَشْعَارِهَا وَاَظْلَافِهَا وَاَنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ مِنَ اﷲِ بِمَکَانٍ قَبْلَ اَنْ يَقَعَ مِنَ الْاَرْضِ فَطِيبُوا بِهَا نَفْسًا.

’’اللہ تعالیٰ کو عید الاضحی کے دن قربانی سے بڑھ کر کوئی بھی عمل زیادہ محبوب نہیں ہوتا ہے بے شک روزِ قیامت قربانی کے جانور کا ثواب، سینگوں، بالوں اور کھروں سمیت ملے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے قبل ہی قربانی بارگاہ الٰہی میں قبول ہو جاتی ہے لہٰذا بخوشی قربانی کیا کرو۔‘‘

(سنن ترمذی، کتاب کِتَابُ الْأَضَاحِيِّ عَنْ رَسُولِ اﷲِ، بَابُ مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الْأُضْحِيَّهِ، 4: 83، رقم: 1493)

اس میں شک نہیں کہ قربانی اسلامی تعلیمات کا ایک اہم حصہ، اللہ تعالی کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ اورمالی عبادت ہے۔ اوراس میں بھی شک نہیں کہ قربانی کے جانوروں کی خریداری پر چھوٹے بڑے جانوروں کے حساب سے ایک خطیر رقم خرچ کی جاتی ہے۔ کچھ لوگ اپنے علاوہ اپنے والدین ، بچوں اورحضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے بھی قربانی دیتے ہیں۔اس مقصد کے لیے بسا اوقات وہ بہت سے چھوٹے جانور یا ایک بڑا جانور خرید لیتے ہیںجن کی خریداری پر اچھی خاصی رقم خرچ ہو تی ہے۔ بعض ظاہر بین لوگ قربانی پر اعتراض کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ قربانی پر اتنی زیادہ رقم خرچ کرنے کی بجائے اسی رقم سے اگر کسی غریب کی مدد کردی جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ ان کے نزدیک یہ قربانی نہیں کہ آپ کے اردگرد ، محلے اورقرب و جوار میں کوئی غریب آدمی ہو اور آپ اس کی مدد کرنے کی بجائے بھار ی رقم سے قربانی کا جانور خرید لیں۔

قربانی جیسی مقدس عبادت پر اس بے جا اعتراض کے متعلق عرض یہ ہے کہ جس رب نے امتِ مسلمہ کے لیے قربانی کو لازم قرار دیا ہے اسی رب نے صاحبِ نصاب آدمی پر زکوۃ بھی فرض کی ہے اور اس کے علاوہ دیگر صدقات کی بھی ترغیب دلائی ہے۔ ظاہرہے جو آدمی بھاری رقم خرچ کر کے ایک قیمتی جانور خرید تا ہے وہ صاحبِ نصا ب اور صاحبِ حیثیت آدمی ہے اور ایسے آدمی پر زکوۃ یقینا فرض ہے۔ اسلام نے اس پر قربانی کے ساتھ ساتھ زکوۃ بھی فرض کی ہے۔ اس لیے زکوۃ اور دیگر صدقات کی مد سے غریبوں کی مدد کی جاسکتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں شادی بیاہ ، تفریحِ طبع اور دیگر دعوتوں پر بے تحاشا رقوم خرچ کی جاتی ہیں۔ محض نمو دو نمائش کے لیے قیمتی لباس زیبِ تن کیا جاتا ہے۔ روزانہ بہت سارا کھانا ضائع ہو جاتا ہے۔ ان تمام فضول کاموں پر خطیر رقم خرچ کی جاتی ہے اور ایسا ہم روزانہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ ان تمام فضول رسم و رواج اور تفریحات پر جب بھاری رقوم خرچ کی جاتی ہیں بلکہ ضائع کی جاتی ہے تب ان لوگوں کو نہ تو غریب کی بیٹی نظر آتی ہے اور نہ ہی کوئی ضرورتمند دکھائی دیتا ہے۔ ان تمام فضولیات پر اعتراض کرنے کی بجائے محض قربانی کو ہدفِ تنقید بنانا دین سے دور ی اور اسلامی تعلیمات سے بیزاری کا نتیجہ ہے۔

اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ قربانی دینے میں بھی غریبوں کا فائد ہ ہے۔ ہمارے ہاں بے شمار غریب لوگ ایسے ہیں جنہیں سال بھر گوشت کھانا نصیب نہیں ہوتا۔ قربانی کے اس عمل سے سال میں ایک بار انہیں بھی یہ نعمت میسر ہوتی ہے۔ بہت سے غریب لوگ سال بھر جانوراسی ارادے سے پالتے ہیں کہ عید پر انہیں بھی کچھ رقم حاصل ہو جائے گی۔ قربانی کی وجہ سے جانوروں کی افزائشِ نسل کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے۔ ان کے چارے اوردیگر ضروریات کو پورا کرنے سے بھی بہت سے لوگوں کا روزگاروابستہ ہے۔ قربانی کے جانوروں کی کھالوں کے بہت سے مصارف ہیں۔ اس وجہ سے چمڑے کے کاروبار کو خوب ترقی ملتی ہے۔ قربانی کی کھالیںفلاحی اداروں، مدارس اوردیگر نیک مقاصد کے لیے دی جاتی ہیں جن سے حاصل ہونے والی رقوم بھی غریبوں کے کا م آتی ہیں۔ اورسب سے بڑھ کریہ کہ دسویں ذی الحجہ کو اللہ رب العالمین کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل جانوروں کا خون بہانا یعنی قربانی ہے۔ ایک سچے مسلمان کے پیش ِنظر فقط رضائے الہی کا حصو ل ہوتا ہے اور وہ مالک کے حکم کے سامنے سر جھکا دیتا ہے۔ جب اللہ تعالی جو سارے جہانوں کا خالق بھی ہے اورمالک بھی اورجس نے پوری مخلوق کو رزق دینے کا ذمہ لے رکھا ہے اس کی رضا جانوروں کی قربانی میں ہے تو ایک مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ حکمِ خداوندی کے سامنے اپنی تاویلات اورتوجیہات پیش کرکے غریبوں کا ہمدرد، معاون اورغمگسار بنتا پھرے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو قربانی کی اصل روح سمجھتے ہوئے جانور کو اللہ کی راہ میں ذبح کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔( آمین)