فرمان الٰہی و فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

{فرمان الہٰی}

ياَيُّهَا الرَّسُوْلُ لَا يَحْزُنْکَ الَّذِيْنَ يُسَارِعُوْنَ فِی الْکُفْرِ مِنَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِاَفْوَاهِهِمْ وَلَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُهُمْ ج وَمِنَ الَّذِيْنَ هَادُوْا ج سَمّٰعُوْنَ لِلْکَذِبِ سَمّٰعُوْنَ لِقَوْمٍ اٰخَرِيْنَ لَمْ يَاْتُوْکَ ط يُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ مِنْم بَعْدِ مَوَاضِعِهِ ج يَقُوْلُوْنَ اِنْ اُوْتِيْتُمْ هٰذَا فَخُذُوْهُ وَاِنْ لَّمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوْا ط وَمَنْ يُرِدِ اﷲُ فِتْنَتَهٰ فَلَنْ تَمْلِکَ لَهٰ مِنَ اﷲِ شَيْئًا ط اُولٰٓئِکَ الَّذِيْنَ لَمْ يُرِدِ اﷲُ اَنْ يُطَهِرَ قُلُوْبَهُمْ ط لَهُمْ فِی الدُّنْيَا خِزْیٌ ج وَّلَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ.

(المائدة: 41)

اے رسول! وہ لوگ آپ کور نجیدہ خاطر نہ کریں جو کفر میں تیزی (سے پیش قدمی) کرتے ہیں ان میں (ایک) وہ (منافق) ہیں جو اپنے منہ سے کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے حالاں کہ ان کے دل ایمان نہیں لائے، اور ان میں (دوسرے) یہودی ہیں (یہ) جھوٹی باتیں بنانے کے لیے (آپ کو)خوب سنتے ہیں (یہ حقیقت میں) دوسرے لوگوں کے لیے (جاسوسی کی خاطر) سننے والے ہیں جو(ابھی تک) آپ کے پاس نہیں آئے، (یہ وہ لوگ ہیں) جو (اﷲ کے) کلمات کوان کے مواقع (مقرر ہونے) کے بعد (بھی)بدل دیتے ہیں (اور) کہتے ہیں اگر تمہیں یہ (حکم جو ان کی پسند کا ہو) دیا جائے تو اسے اختیار کرلو اور اگر تمہیں یہ (حکم) نہ دیا جائے تو(اس سے)احتراز کرو، اور اﷲ جس شخص کی گمراہی کا ارادہ فرمالے تو تم اس کے لیے اﷲ (کے حکم کو روکنے) کا ہرگز کوئی اختیار نہیں رکھتے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو پاک کرنے کااﷲ نے ارادہ (ہی) نہیں فرمایا۔ ان کے لیے دنیا میں (کفر کی) ذلّت ہے اور ان کے لیے آخرت میں بڑا عذاب ہے‘‘۔

(ترجمہ عرفان القرآن)

{فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم }

وقال الإمام البيهقي في الشعب وأما آدابه:

فَمِنْهَا: الْمُحَافَظَهُ عَلَی الدُّعَاءِ فِي الرَّخَاءِ دُوْنَ تَخْصِيْصِ حَالِ الشِّدَّةِ وَالْبَـلَاءِ.

وَمِنْهَا: افْتِتَاحُ الدُّعَاءِ وَخَتْمُهُ بِالصَّلَاةِ عَلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم.

وَمِنْهَا: أَنْ يَدْعُوَ فِي دُبُرِ صَلَوَاتِهِ.

وَمِنْهَا: أَنْ يَرْفَعَ الْيَدَيْنِ حَتَّی يُحَاذِيَ بِهِمَا الْمَنْکَبَيْنِ إِذَا دَعَا.

وَمِنْهَا: أَنْ يَمْسَحَ وَجْهَهُ بِيَدَيْهِ إِذَا فَرَغَ مِنَ الدُّعَاءِ.

’’امام بیہقی رضی اللہ عنہ نے ’’شعب الإيمان‘‘ میں فرمایا: آداب دعا میں سے ہے:

(انسان کا) ہمیشہ دعا پر استقامت اختیار کرنا خواہ وہ خوشحالی میں ہو اور دعا کو صرف سختی اور مصیبت کے (وقت کے) ساتھ خاص نہ کرنا۔

اور یہ کہ دعا کے آغاز اور آخر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا۔

اور یہ کہ اپنی (تمام) نمازوں کے بعد دعا کرنا۔

اور یہ کہ (دونوں) ہاتھوں کو دعا میں اپنے کندھوں کے برابر بلند کرنا۔

اور یہ کہ دعا سے فارغ ہو کر اپنے ہاتھوں کو چہرے پر پھیرنا۔‘‘

(المنهاج السوی من الحديث النبوی صلی الله عليه وآله وسلم، ص365)