عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شرعی حیثیت (آخری قسط)

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا خصوصی خطاب

ترتیب و تدوین: محمد حسین آزاد
معاونت: نازیہ عبدالستار

میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی خوشی منانے کے موضوع پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے عظیم الشان محفل میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کوٹ لکھپت لاہور سے مورخہ 14 اپریل 2005ء کو خصوصی خطاب فرمایا جس کی اہمیت کے پیش نظر اس کا خلاصہ شائع کیا جارہا ہے جو احباب مکمل سماعت کرنا چاہیں وہ سی ڈی نمبر416 سماعت فرمائیں۔ منجانب: ادارہ دختران اسلام

اور پھر خاص بات یہ ہے کہ پیغمبر کا معجزہ ہوتا ہے کہ جس پتھر پر پیغمبر قدم رکھتا ہے وہ پگھل جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے زمانے میں چلتے پھرتے ہزاروں لاکھوں پتھروں پر قدم پڑا ہوگا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق سے چلے تو پتھروں پر قدم رکھنے لگے۔ دمشق آکر رہے، پتھروں پر قدم رکھتے رہے۔ حلب میں گئے، پتھروں پر قدم رکھتے رہے۔ القدس فلسطین میں رہے پتھروں پر قدم رکھتے رہے۔ شام کی سرزمین پر رہے تو پتھروں پر قدم رکھتے رہے۔ وہاں سے چل کر اس وادی مکہ میں پہنچے جہاں حضرت حاجرہ علیھا السلام اور اسماعیل علیہ السلام کو چھوڑا تو پتھروں پر ہی چلتے رہے۔ ہزاروںلاکھوں پتھروں پر قدم رکھے ہوںگے اور لاکھوں پتھر پگھلے ہوں گے۔ لاکھوں پتھروں کے سینوں پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے نشان نقش ہوئے ہوں گے۔

مگر آج کائنات میں وہ نقش نہیں ملتے۔ صرف ایک پتھر پر قدموں کا نقش محفوظ ہے۔ باقی نقش مٹ گئے۔ وہ پتھر گم گئے۔ نقش مٹ گئے یا مٹادیئے گئے مگر ایک نقش کعبے کے سینے میںکھڑا ہے وہ نہیں مٹا۔ کیوں؟ اگر اس پتھر پر ان نشانوں کی نسبت صرف والد کی طرف ہوتی (ووالد) تو یہ بھی مٹ جاتا چونکہ اس کی نسبت (وما ولد) سے تھی۔ یہ وہ پتھر تھا جس پر کھڑے ہوکر انہوں نے اللہ تعالیٰ سے حضور علیہ السلام کو مانگا تھا۔ یہ صرف دعائے خلیل علیہ السلام نہ تھی بلکہ دعائے ولادت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تھی۔ تعمیر کعبہ کے بعد یہ دعائے میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھی۔ اللہ سے حضور کا میلاد مانگا تھا کہ باری تعالیٰ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد یعنی ولادت میری نسل میں کردے۔ چونکہ اس پتھرپر کھڑے ہوکر خدا سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مانگی تھی لہذا یہ اس پتھر کے قدموںکا نشان ہے۔ اس کی نسبت صرف حضرت ابراہیم علیہ السلام سے نہ تھی بلکہ دعائے ولادت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی تھی یہی وجہ ہے کہ 4 ہزار سال گزر گئے سب پتھروں کے نشان مٹ گئے مگر وہ نشان نہ مٹا کیونکہ اس پتھر پر کھڑے ہوکر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی دعا مانگی تھی۔ اب رب کائنات نے حکم دیا کہ جس پتھر پر ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے نشان لگے ہیں جو میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یادگار ہے لہذا اسے صحن کعبہ میں گاڑ دو۔ کعبہ توحید کا مرکز ہے۔ جہاں 360 پتھر کے بت پڑے تھے۔ جن کے 360 چبوترے بنے ہوئے تھے۔ وہ سارے کے سارے اٹھا کر پھینک دیئے گئے مگر یہ بھی ایک چبوترہ ہے جس پر قدموں کے نشان لگے ہوئے ہیں۔ اسے مرکز توحید کا حصہ بنادیا گیا۔ اب صرف اسے محفوظ ہی نہیں رکھا بلکہ فرمایا آئو اس گھر کا طواف کرو اور جب طواف کرلو تو میرے کعبے کے درمیان ابراہیم کے قدموں کے نشان کی طرف جائو اور اس پتھر کو سامنے کرلو۔

وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهيمَ مُصَلًّی.

(البقرة، 2: 125)

’’اور ابراہیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ کو مقام نماز بنالو‘‘۔

عربی زبان میں مقام کہتے ہیں کھڑے ہونے کی جگہ۔ یہ اسم ظرف ہے۔ جہاں قدم رکھ کر کھڑا ہوا جائے اس کو مقام کہتے ہیں۔ فرمایا: جس جگہ میرا ابراہیم قدموں کے بل کھڑا ہوا تھا اس پتھر کو سامنے رکھ لو اور پھر میری عبادت کرو۔ اس پتھر کو اتنی تکریم دی۔ ایک بات اور کہہ دوں جو آپ نے کبھی نہیں سنی ہوگی۔ کیونکہ میں پہلی بار بتارہا ہوں۔ دوسرا سبب یہ ہے جو تاریخ مکہ کی کتب میں لکھا ہے اور خود قریش بیان کرتے ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہوگئی اور وہ ہم میں چلتے تھے اور ہم دیکھتے تھے تو خدا کی قسم وہ قدموں کے نشان ابراہیم کے نہیں مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لگتے تھے۔ اتنی زیادہ مشابہت تھی، قدوم ابراہیم کو قدوم مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جب حضور قدم رکھ کر چلتے جاتے تو نشان پڑتے جاتے تو آپ کی انگلیاں ایڑیاں اور پورے تلوے یعنی پورے پائوں کا جب نقش پڑتا تو ایسے لگتا جسے مقام ابراہیم کا نقش ہے۔ وہ دیکھنے میں مقام ابراہیم تھا۔ اندر اس کے عکس قدم مصطفی تھا۔ اب معلوم نہیں وہ اپنے خلیل ابراہیم علیہ السلام کے قدم سمجھ کرچار ہزار سال سے سنبھالتا رہا یا پھر اپنے حبیب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نقش سمجھ کر سنبھالتا رہا۔ وہی جانے کہ کس کا عکس سمجھ کر سنبھالتا رہا؟

ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے اب بھی کعبہ میں سنبھال رکھا ہے نہ تو اس وقت کسی کو جرات ہوئی کہ کوئی اسے نکال پھینکے اور نہ آج شرک شرک کی بات کرنے والوں کو ہمت ہے کہ قدموں کے جو نشان پڑے ہیں اسے آج نکال دیں۔ انہوں نے ہر شے گرادی اور ہر شے توڑ دی ہے مگر عکس قدمان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہیں نکال سکے۔ ہر کوئی اسی طرف منہ کرکے نماز پڑھتا ہے اس کے بغیر طواف مکمل نہیں ہوتا۔ کیونکہ یہ نشان ہے دعائے میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا۔

لب لباب یہ ہوا کہ اس نے کعبہ کے صحن میں آج تک محبوب کے میلاد کے دعا کی یاد منا رکھی ہے۔ یہ جشن منایا جارہا ہے۔ میں تو کہتا ہوں یہ جو سارا حج ہے انہی قدموں کے نشان کی تقریبات ہیں۔ یہ نئی بات سن لیں یہ میرا مشرب ہے۔ کسی کی سمجھ میں آجائے مان لے۔ نہ آئے تو جھگڑا نہیں۔ سارا حج مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کا Celebration ہے۔ یہ تقریب عکس قدمین مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ یہ یاد ہے دعائے میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی۔

حج میں کیا حکم ہوتا ہے؟ یہ شلوار قمیض کوٹ پینٹ ٹائی جو اپنے گھروں میں پہنتے ہو اتار دو۔ اجلی ستھری دو چادریں پہن کر آجائو تاکہ لباس بھی کوئی پرانا میلا نہ ہو۔ مصطفی کے قدموں کا دیکھنے جو آنا ہے۔ ناخن بھی نہ کاٹو۔ بال بھی نہ تراشوائو۔ خوشبو نہ لگائو۔ عاشقوں کی طرح دیوانے بن کر آئو، فرزانے بن کر نہ آئو۔ عمامہ، ٹوپی سنت ہے۔ فرمایا: یہ سارا کچھ اتار دو۔ ٹوپیاں اتار دو، جبے اتار دو، قبے اتار دو۔ ننگے سر آجائو۔

نادانو!تمہیں کیا خبر حج سارا ہی تقریبات ادا کا نام ہے۔ یہ ادائوں کی تقریبات ہیں۔ پھر عرفات چلے جائو وہاں کیا کریں؟ جو تمہاری مرضی میں آئے۔ کوئی خاص سورتیں پڑھنی ہیں؟ کوئی نہیں۔ کوئی خاص قسم کے نفلوں کی تعداد ہے؟ کوئی نہیں۔ کوئی خاص وظیفے ہیں؟ کوئی نہیں۔ جو پڑھنا چاہو پڑھ لو اور کسی کو کچھ نہیں آتا تو نہ صحیح۔ باری تعالیٰ کرنا کیا ہے عرفات میں؟ فرمایا اس جگہ آکر جمع ہوجائو۔ کیونکہ جب میں نے آدم (علیہ السلام) کو اتارا تھا سراندیپ کے پہاڑوں پر اور دوسری طرف حوا (علیھا السلام) اتری دونوں ایک دوسرے کو تلاش کرتے کرتے اس میدان میں ایک دوسرے کو ملے اور ایک دوسرے کو پہچان لیا تھا۔ عرفات نام ہی پہچاننے کا ہے۔ یہ آدم و حوا کی ملاقات کی یاد ہے۔ تم بھی اس میدان میں آکر تھوڑا وقت گزار لو آدم و حوا کی یاد میں۔ یہی تمہارا حج ہے۔ ’’تیری دید غریباں دا حج ہووے‘‘۔

پھر منیٰ میں آجائو وہاں تین اونچے اونچے ستون بنے ہوئے ہیں فرمایا: کنکریاں اٹھالو اور مارو کہ شیطانوں کو مار رہے ہیں۔ کوئی عقلمند غیر مسلم آپ سے پوچھ لے کیا یہ شیطان کھڑے ہیں؟ آپ کہیں گے نہیں۔ تو پھر کنکریاں کیوں مار رہے ہیں؟ یا وہ کہے کہ اسلام کی روایت کو بھی مان لیتے ہیں کہ یہ شیطان ہیں تو کنکریاں حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اس لئے ماری تھیں کیونکہ اس نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو روکا تھا کہ آپ کے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام آپ کو ذبح کرنے جارہے ہیں۔ آپ نے کنکریاں مار کر اسے بھگا دیا۔ اب کون سا اسماعیل ذبح ہونے جارہا ہے اور کون سا ابراہیم ذبح کرنے جارہا ہے؟ کون سا شیطان روکنے آرہا ہے؟ اور کس کو کنکریوں سے بھگایا جارہا ہے؟ یہ وہ سماں ہی نہیں ہے اب کنکریاں کیوں مارتے ہیں؟ اور مارتے بھی پتھروں کو ہیں اور یہ بنائے ہوئے بھی سعودیوں کے ہیں۔ بولئے! ہے کوئی عقل کے پاس جواب۔ مگر عشق کے پاس جواب ہے۔ ’’عقل قربان کن بہ پیشِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘

جہاں عقل لاجواب ہوجائے وہاں عشق جواب دیتا ہے۔ ایک مرتبہ مجنوں کتے کے تلوے چوم رہا تھا عقل والوں نے پوچھا پاگل ہو۔ پلید شے ہے، کتا ہے۔ اس کے تلوے چومنا کوئی عقل کی بات ہے۔ اس نے کہا میں نے کب کہا کہ میں عقل کا کام کررہا ہوں میں تو عشق کا کام کررہا ہوں۔ مجنوں نے کہا کتے کے تلوے اس لئے چوم رہا ہوں کہ یہ کبھی کبھی لیلیٰ کی گلی سے گزرتا ہے۔ اس لئے اس کے تلوے چوم رہا ہوں۔ یعنی میں اس کی گلی کی خاک چوم رہا ہوں۔ یہ ایک نسبت ہے۔ اس طرح کنکریاں مارنا بھی نسبت ہے۔ تین دن کنکریاں ماریں، قربانی دے دی۔ احرام کھول دیا طواف زیارت کیا یہ حج ہوگیا۔ اسی طرح صفا و مروہ کی سعی کررہے ہیں اور بھاگ رہے ہیں۔ کوئی ورد، وظیفہ، دعا، تلاوت، کوئی سورۃ کسی شے کی پابندی نہیں جتنی دعائیں آتی ہیں پڑھ لیں، کچھ نہیں آتا درود پاک ہی پڑھتے رہیں۔ وہ بھی نہیں آتا نہ سہی۔ بولنا نہیں آتا منہ بند کرکے کرتے رہیں۔ تب بھی حج ہوجائے گا۔ حج پڑھنے پڑھانے کا نہیں حج کسی کی یاد منانے کا نام ہے۔

وہ وہاں بلاکر یاد مناتا ہے اور ہم ہر سال مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی یاد مناتے ہیں تو یاد منانا اسلام کا مغز ہے، کوئی کہے اسلام میں یاد منانا کوئی شے نہیں تو اس کو خبر ہی نہیں اسلام کیا ہے؟ ارے یہ جو پانچ نمازیں پڑھتے ہیں یہ بھی یاد ہیں کسی کی۔ حضرت آدم علیہ السلام کی جب توبہ قبول ہوئی صبح کا وقت تھا۔ انہوںنے قبول توبہ پر شکرانے کے دو نفل پڑھے، یہ ہماری نماز فجر بن گئی۔ یہ آدم علیہ السلام کے نفلوں کی یاد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیٹا اسحاق (علیہ السلام) عطا کیا۔ ظہر کا وقت تھا۔ آپ نے بیٹے کے ملنے پر شکرانے کے چار نفل پڑھے۔ ابراہیم علیہ السلام کا شکرانہ ہماری نماز ظہر بن گیا۔ حضرت عزیر علیہ السلام سو سال کے بعد زندہ ہوئے اٹھے اور دیکھا تو یوں لگا کہ چند لمحے لیٹا ہوں لیکن جب پتہ چلا کہ سو سال بعد اٹھا ہوں تو شکرانے کے چار نفل پڑھے۔ اس وقت عصر کا وقت تھا تو عزیر علیہ السلام کے وہ نفل ہماری عصر کی نماز بن گئی۔ اسی طرح ایوب علیہ السلام مدتوں علیل اور بیمار رہے۔ جب طویل بیماری کے بعد شفا یاب ہوئے تو بڑے کمزور تھے۔ شام کا وقت تھا اٹھ کے چار رکعت نفل شکرانے کے پڑھے۔ کمزور اتنے تھے کہ تین پڑھ سکے چوتھے پر کھڑے نہیں ہوسکے۔ تین پڑھ کر بیٹھ گئے۔ یہ نماز مغرب کی تین رکعات ہی یاد ایوب علیہ السلام بن گئیں۔ اب قیامت تک امت محمدی تین ہی پڑھے گی۔ رہ گئی عشاء کے فرائض تو یہ شکرانے کے نفل مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پڑھے جو یاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بن گئے لہذا پانچوں نمازیں جو اللہ کی عبادت ہیں یہ بھی پیغمبروں کی یادیں ہیں۔ ہم تو نماز میں بھی ان کی یاد منارہے ہیں تو پھر میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے میں کیا رکاوٹ ہے؟