تحریکِ پاکستان کی مجاہدہ... فاطمہ جناح

نوراللہ صدیقی

فاطمہ نے مسلم خواتین کو بیدار کرکے مجھ پر بڑا احسان کیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح

تحریک پاکستان کی مجاہدہ فاطمہ جناح کی زندگی کے بارے میں مختصر تحریر

آج ہم 71 واں یوم آزادی منارہے ہیں، تحریک آزادی میں جہاں بچوں، جوانوں، طلباء، بوڑھوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا وہاں خواتین بھی کسی سے پیچھے نہ تھیں، آج ہم اس ہستی، تحریک پاکستان کی مجاہدہ، روح رواں کا ذکر پڑھتے ہیں جن کی زندگی کا ہر لمحہ آزادی کے لئے وقف تھا اور انہوں نے برصغیر کی خواتین کو قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں متحرک کیا وہ عظیم نام بانی پاکستان کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کا ہے، تاریخ اگر قائداعظم کو بانی پاکستانی کی حیثیت سے یاد رکھے گی تو مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی ملی خدمات کو کبھی فراموش نہ کرسکے گی۔ متعدد دانشوروں کی یہ رائے صائب ہے کہ اگر قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کو اپنی بہن فاطمہ جناح کی تائید و حمایت تعاون اور توجہ حاصل نہ ہوتی تو خدا جانے حصول پاکستان کی منزل کتنی دور چلی جاتی، قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ تپ دق جیسے مہلک مرض میں مبتلا تھے، انہوں نے انگریز اور ہندو کے کانوں میں اپنی بیماری کی بھنک تک نہ پڑنے دی، جب قیام پاکستان کے بعد ان پر قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کی بیماری کی حقیقت آشکار ہوئی تو برصغیر کے آخری وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن نے کہا کہ اگر مجھے قائداعظم کی بیماری کا علم ہوجاتا تو میں ہندوستان کی آزادی کو ایک دو سال کے لئے ٹال دیتا اور ہندوستان کو تقسیم ہونے سے بچالیتا۔ مادر ملت نے اپنے عظیم بھائی کے لئے نرس سے لے کر مشیر تک کا کردار ادا کیا اور ان کی بیماری سے لے کر ہر راز کی حفاظت کی انہوں نے بہن بھائی کے عظیم اور مقدس رشتے کو ایک نئی عظمت اور تقدس سے ہمکنار کیا ہم 71 ویں یوم آزادی پر مادر ملت فاطمہ جناح کو ان کی بے مثال ملی خدمات پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ رب العزت ان کے درجات بلند اور ان کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنائے۔ آمین۔ تاریخ بتاتی ہے جو قومیں اپنے محسنوں کو یاد رکھتی ہیں سرخرو رہتی ہیں اور محسنوں کو بھلا دینے والی قوموں میں عظیم ہستیاں پیدا ہونا بند ہوجاتی ہیں اور ایسی قومیں اپنا وقار اور آزادی کے فیوض و ثمرات سے محروم ہوجاتی ہیں۔ آیئے آج ہم بھی اس ہستی کی یادوں کو منائیں جو برصغیر کے کروڑوں غلام انسانوں کی امید بنیں۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ جس نے ایک غلام کو آزاد کیا اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ اسے جہنم کی آگ سے آزاد کردیتا ہے۔ کروڑوں انسانوں کو آزادی کی نعمت سے ہمکنار کرنے والی محترمہ فاطمہ جناح ایک جنتی خاتون ہیں اور انسانیت ان کی ہمیشہ قدر دان رہے گی۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح خود بھی اپنی عظیم بہن کے جذبہ ایثار شفقت، محبت، تابعداری، وفاداری، ملنساری کے معترف تھے۔ ایک موقع پر انہوں نے کہا کہ میری بہن میرے لئے روشنی کی کرن ہے۔ ایک اور موقع پر انہوں نے کہا کہ فاطمہ نے برابر میری امداد اور حوصلہ افزائی کی۔ قائداعظم فرماتے ہیں کہ ان دنوں جب یہ خیال کیا جارہا تھا کہ برطانوی حکومت مجھے گرفتار کرلے گی۔ میری بہن نے ہمیشہ میرا حوصلہ بڑھایا وہ میری صحت کے بارے میں خصوصاً فکر مند رہتی تھیں۔ ایک موقع پر بانی پاکستان نے کہا کہ ’’میری بہن فاطمہ نے طویل مدت تک میری خدمت اور مسلم خواتین کو بیدار کرکے مجھ پر بڑا احسان کیا ہے کہ میں اس کا بدلہ نہیں دے سکتا‘‘۔

ایک اور موقع پر بانی پاکستان نے وہ تاریخی الفاظ کہے جو کسی بھی شخص کو خراج تحسین پیش کرنے کے حوالے سے یہ مایہ افتخار و نادر و نایاب کہلائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ کیا ہے، صرف میں، میری بہن اور میرا ٹائپ رائٹر۔

بانی پاکستان کے ان الفاظ میں لیڈر شپ کوالٹی کا Narrative بھی ملتا ہے کہ لیڈر قوم کی آنکھ کان، دور بین اور مستقبل کا نقیب ہوتا ہے۔ لیڈر سوچ دیتا ہے اور پھر اپنے تصورات کو عمل کے قالب میں ڈھالنے کے لئے ایک جماعت اور قوم کو قائل کرتا ہے اور پھر یہ جماعت مقاصد کے حصول کو ممکن بناتی ہے، بلاشبہ پاکستان حکیم الامت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا خواب اور قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اس خواب کو عملی تعبیر دی۔ ہم ذکر کررہے تھے مادر ملت کا، مادر ملت کی تاریخ پیدائش 31 جولائی 1893ء ہے، والدہ کی وفات کے بعد قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی بہن کو کانونٹ سکول میں داخل کروانے کی کوشش کی یہ 1900ء تھا خاندان نے سخت مخالفت کی مگر قائداعظم نے اس مخالفت کی پروا نہ کرتے ہوئے انہیں اچھی تعلیم کے لئے کانونٹ میں داخل کروادیا۔ یہاں یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ جب رشتہ دار قائداعظم کو قائل کرنے میں ناکام رہے تو انہوں نے فاطمہ جناح کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ انگریزی تعلیم حاصل کرنے اور کانونٹ میں داخل ہونے سے انکار کردے مگر قائداعظم نے اپنی بہن سے کہا تھا کہ فاطمہ کسی فیصلے سے پہلے خوب سوچ بچار کرلینی چاہئے اور جب فیصلہ کرلیا جائے تو پھر اس پر ڈٹ جانا چاہئے۔ زندگی میں کامیابی کا یہی ایک گر ہے۔ عظیم فاطمہ نے اپنے عظیم بھائی کی اس نصیحت کو ہمیشہ پیش نظر رکھا اور فیصلہ کیا کہ وہ اعلیٰ تعلیم کے لئے کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کریں گی، ابتداء میں قائداعظم فاطمہ جناح کو خود سکول چھوڑ کر آتے اور انہیں حصول تعلیم کے ابتدائی طریقہ کار کے بارے میں سمجھاتے اور پھر فاطمہ جناح کا اس تعلیمی ماحول میں دل لگ گیا، یہ واقعہ ہر بھائی کے لئے ہے کہ وہ اپنی بہن کی تعلیم و تربیت کے لئے وہی طریقہ اختیار کرے جو قائداعظم نے اختیار کیا۔

1906ء میں قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے فاطمہ جناح کو ئسٹ پیٹرک سکول کھنڈالہ میں داخل کروایا فاطمہ جناح نے 1910ء میں امتیازی نمبروں کے ساتھ میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ 1913ء میں فاطمہ جناح نے سینئر کیمبرج کا امتحان پاس کرلیا اور فاطمہ جناح مطالعہ کی بے حد شوقین تھیں اور وہ گھر میں قائم لائبریری سے استفادہ کرتیں، اس مطالعہ سے ان کے فہم و ادراک کو وسعت ملی فاطمہ جناح 1919ء میں کلکتہ کے احمد ڈینٹل کالج میں داخل ہوگئیں۔ 1922ء میں انہوں نے دندان سازی کی ڈگری حاصل کی، دندان سازی کی تربیت مکمل ہوتے ہی فاطمہ جناح نے بمبئی کی عبدالرحمن سٹریٹ میں اپنا کلینک قائم کرلیا۔ فاطمہ جناح کو خدمت خلق سے بڑی رغبت تھی، وہ مستحق مریضوں کا مفت علاج کرتیں، وہ کلینک میں آنے والے مریضوں سے گھل مل جاتیں اور انہیں بتاتیں کہ مسلمانوں کے بارے میں غیر مسلموں کے کیا نظریات ہیں اس طرح وہ تحریک پاکستان کی ایک خاموش مجاہدہ کے طور پر فعال تھیں۔

انگریزی سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کے باوجود فاطمہ جناح ایک سادہ اور راسخ العقیدہ مسلمان خاتون تھیں۔ 1943ء میں انہوں نے دہلی میں خواتین کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دس کروڑمسلمان ایک قوم ہیں، جن کی اپنی تہذیب ہے، زبان ہے، روایات ہیں، تاریخ ہے اور اپنا ایک سماجی نظام ہے وہ کبھی کسی دوسری قوم کی غلامی قبول نہیں کرسکتے۔ یہ خطاب ان کی سیاسی نظریاتی پختگی کا شاہکار تھا اس خطاب نے سننے والوں پر گہرے اثرات مرتب کئے اور آزادی کی جدوجہد کو ان خطابات سے چار چاند لگ گئے اور خواتین جوق در جوق تحریک پاکستان کے قافلے میں شامل ہونے لگیں۔

فاطمہ جناح کی زندگی اور جدوجہد کا چند صفحات احاطہ نہیں کرسکتے۔ درج بالا سطور کا پیغام ہے کہ خواتین کو اعلیٰ تعلیم دلوائی جائے۔ ان میں اسلامی علوم کی تحصیل کی رغبت پیدا کی جائے۔ وہ جس شعبہ کی بھی تعلیم حاصل کریں انہیں انسانیت کی خدمت کا درس دیا جائے اور خاندان، علاقہ کی خدمت کے ساتھ ان میں ملک و ملت کی بہتری کا شعور اجاگر کیا جائے جب ہر ماں اور بیٹی فاطمہ جناح کی زندگی تقویٰ، قناعت اور جدوجہد کو مشعل راہ بنائے گی تو پھر پاکستان کو عالم اسلام ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کا کامیاب، رول ماڈل، خوشحال ملک بننے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔

انگریزی سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کے باوجود مادرِ ملت مشرقی آداب و اطوار،بود و باش اور ثقافت کا آئینہ دار تھیں اور ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھیں۔ وہ قائداعظم کے ہمراہ انگلینڈ میں بھی مقیم رہیں۔ اس کے باوجود دین اسلام ان کے خون میں رچا بسا تھا۔ انہوں نے ہمیشہ مشرقی لباس اور رسم و رواج کو ترجیح دی۔ انہوں نے جب سیاسی میدان میں قدم رکھا تو وہ اپنی تقریروں میں ہمیشہ اسلام کی سربلندی کا تذکرہ کرتیں۔ اپریل 1943 ء میں انہوں نے دہلی میں خواتین کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا:’’اپنے ورثہ میں ہم مسلمانوں کو ایک شان دار تاریخ ملی ہے۔ گزشتہ دو سو برس کی گردش زمانہ نے ہمیں بہت پیچھے دھکیل دیا تھا لیکن اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی لہر دوبارہ چین سے کلکتہ کی جانب حرکت کررہی ہے‘‘۔ قیام پاکستان کے بعد مارد ملت رحمۃ اللہ علیہا نے مسلمانوں میں صحیح اسلامی روح زندہ کرنے کی خاطر ہمیشہ دین برحق کی بات کی اور عوام کو سچا مسلمان بننے کی تلقین کی۔ انہوں نے قیام پاکستان کے بعد 11 نومبر 1947 ء کو لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:۔’’ہم مسلمانوں کو ناکارہ اور بے کار قوم قرار دے دیا گیا تھا۔ اس پراپیگنڈے کا ہم پر ہی اثر ہوا کہ ہم خوداعتمادی سے محروم ہو گئے تقسیم ہند کے بعد یہ فریب ٹوٹ گیا ہے۔ مسلمانوں نے پاکستان حاصل کرکے ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایک زندہ اور بیدار قوم ہیں۔ لہٰذا اس لغو پراپیگنڈے کا اثر زائل کرنے کیلئے اب ہمیں اپنے فرائض نہایت عمدگی سے ادا کرنے چاہئیں۔‘‘28 مارچ 1948 ء کو ڈھاکہ ریڈیو سے قوم کو مخاطب کر کے انہوں نے مملکت پاکستان کے خدوخال یوں واضح کئے:۔’’آپ اپنے ادب اور آرٹ میں اسلامی تہذیب اور معاشرت کو زندہ کریں۔ اپنے عظیم ماضی سے رشتہ جوڑیں کہ اس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ پاکستان کو اس کی اسلامی و تاریخی روایات کے شایان شان ایک مضبوط اور طاقتور ملک بنانے میں کوئی کوتاہی نہیں برتیں گے‘‘۔

4 نومبر 1948 ء کو کراچی میں منعقد ہونے والے آل پاکستان مسلم لیگ یوتھ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے نوجوانوں کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کیا:۔ ’’ہمیں اپنے سماجی ڈھانچے کو اسلامی اصولوں پر استوار و منظم کرنا ہے۔ رشوت، اقربا پروری اور بدنیتی جیسی برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے‘‘۔ دراصل محترمہ فاطمہ جناح رحمۃ اللہ علیہا مملکت خداداد کے نوجوان طبقہ کو اسلامی قدروں سے روشناس کرانا چاہتی تھیں۔ چنانچہ کراچی کے مدرسہ بنات اسلام کے افتتاح پر 20 جنوری 1949 ء کو انہوں نے مسلمان طالبات کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:۔’’آپ لوگ علم کے ساتھ ساتھ دین کا دامن بھی مضبوطی سے تھامنا چاہتی ہیں، اس رجحان پر میں آپ کو مبارکباد دیتی ہوں۔ اللہ کرے کہ ہماری بچیاں صحیح اسلامی زندگی کا نمونہ بن کر یہاں سے نکلیں۔ اسلام ان کے رگ و پے میں رچا بسا ہو۔ وہ اپنے بعد آنے والیوں کیلئے ایک مثال بنیں۔ اگر آپ خلوص اور سچائی کے ساتھ اپنے مذہب کی تعلیمات پر عمل کرتی رہیں تو ہم اس خطہ پاک میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی ضرور بنیاد رکھ سکیں گے۔‘‘ مارد ملت رحمۃ اللہ علیہا کو دین اسلام سے کس درجہ محبت و عقیدت تھی اس کا اظہار ان کی اس تقریر سے بھی ہوتا ہے جو انہوں نے 20 فروری 1949 کو کی تھی۔ اس تقریر کا ایک ایک لفظ خلوص و صداقت کی روشنی سے منور ہے اور اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح رحمۃ اللہ علیہا دین اسلامی کی تمام تر خوبصورتیوں اور باریکیوں سے آشنا تھیں۔انہوں نے فرمایا:۔ ’’اسلام ایک ایسا مذہب نہیں ہے جو محض انسان کے خدا کے ساتھ تعلق تک محدود ہو بلکہ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو ہمارے تمام اعمال و ظائف پر محیط ہے۔ اسلام کے ظہور سے ایک نئی تہذیب جس کی بنیاد عدل، انصاف، احسان، مساوات اور اخوت پر رکھی گئی ہے پوری قوت کے ساتھ عالم وجود میں آئی۔ انسانی مساوات، انصاف اور اخوت کا یہ سبق محض زبانی طور پر نہیں دیا گیا بلکہ اس کو عملی جامہ بھی پہنایا گیا۔ معاشی، سماجی اور سیاسی زندگی میں ہر شخص کی کامل آزادی اس بات کا ثبوت ہے‘‘۔

13 مئی 1949 ء کو پارا چنار میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے دین برحق کے بارے میں یہ الفاظ کہے:۔’’آپ کو سب سے پہلے تعلیم کی طرف توجہ دینی چاہیے تاکہ آپ کاشعور بیدار ہو اور ساتھ ہی اسلامی اصول اور احکامات سے اچھی طرح واقفیت ہو جائے۔ یاد رکھئے کہ اسلام کا سب سے پہلا سبق محبت و اخوت ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ دنیا کے تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں‘‘ 23 مئی 1949 کو خاتون پاکستان نے ایبٹ آباد میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اسلام کے بارے میں فرمایا:۔ ’’آپ اس امر کو ہر گز فراموش نہ کریں کہ ایمان اور اسلام کی لافانی قوت نے آپ کو پاکستان دلایا ہے۔ اب اس کی بقا بھی اسلام کے اصولوں میں مضمر ہے۔ آپ کو اس وقت تک ہر گز چین سے نہ بیٹھنا چاہیے جب تک آپ اپنے پیارے وطن کے ہر محکمہ اور ہر شعبہ کو خالص اسلامی اور پاکستانی نہ بنا لیں۔‘‘