اداریہ: احادیث کا ذخیرہ امت مسلمہ کے پاس ایک نعمت خداوندی ہے

چیف ایڈیٹر

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے’’میں تم میں دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں جب تک انہیں مضبوطی سے تھامے رہوگے گمراہ نہ ہوگے، (وہ) اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت ہے۔ ‘‘حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’اے لوگو! میں تم میں دو بڑی قیمتی چیزیں چھوڑ رہاہوں۔ (وہ) اللہ کی کتاب او رمیری سنت ہے، تم قرآن مجید کے مطالب میری سنت کے ذریعے سمجھو، اور قرآن فہمی میں تکلف نہ برتو (یعنی گھما پھرا کر اپنی مرضی کا مطلب نہ نکالو) (اگر تم نے قرآن وسنت کو تھام لیا تو) تمہاری نگاہیں (حق کو پہچاننے سے) قاصر نہیں رہیں گی، اور تمہارے قدم (راہِ حق سے) نہیں پھسلیں گے اور تمہارے ہاتھ(کارخیر کی انجام دہی میں) ہرگز کوتاہی نہیں کریں گے‘‘۔

ان ارشادات سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ قرآن مجید اگرچہ کتاب ہدایت ہے لیکن سنت اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر قرآنی ہدایات اور احکامات کو سمجھنا اور ان پر عمل پیرا ہونا بڑا دشوار بلکہ ناممکن ہے۔ قرآن مجید میں دین کی اساسی تعلیمات اور کلیات بیان ہوئی ہیں، ان کی تفصیلات ہمیں احادیث مبارکہ میں اور اس کی عملی تشکیل سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ملتی ہے۔ کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محض پیغام رساں نہ تھے بلکہ آپ امت کے معلم و مربی بھی تھے اور احکامات الہٰی کی قولاً و عملاً توضیح و تشریح پر بھی آپ مامور من اللہ تھے۔ آپ کا ہر ہر عمل قرآن مجید کے احکامات کی عملی تفسیر اور تشریح تھا۔ جب بھی امت مسلمہ کے زوال کے اسباب جمع کیے جائیں گے تو ان میں سر فہرست جو المیہ ہمارے سامنے آئے گا وہ تعلیم و تحقیق میں تساہل ہو گا۔ زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں کہ جس سے تحقیق کو الگ کر دیا جائے اور وہ اپنا وجود فلاح اور بھلائی کے ساتھ قائم و دائم رکھ سکے، بعینہ علوم اسلامیہ میں تحقیق ناگزیر ہے۔ رواں صدی علوم دینیہ میں تحقیق و تجدید کے تناظر میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ایک قدر آور شخصیت کے طور پر نظر آتے ہیں جنہوں نے قرآن و سنت کے علوم پر تحقیق کے دروازے بند نہ ہونے دئیے اور ان کی تحقیق شرق و غرب تشنگان علم و عرفان کیلئے رہنمائی کا باعث ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری دورہ علوم الحدیث کے عنوان سے 7، 8 اور 9 اکتوبر کو ایک عظیم الشان سہ روزہ علمی فکری نشستوں سے خطاب کررہے ہیں۔ ان نشستوں میں شیوخ الحدیث ،علمائے کرام ،علوم اسلامیہ کے پروفیسرز اور جامعات کے طلبا و طالبات کو مدعو کیا جارہا ہے۔ رجسٹریشن کی آخری تاریخ 4 اکتوبر مقرر کی گئی ہے۔ آن لائن رجسٹریشن کی سہولت بھی دستیاب ہے۔ بلا شبہ تشنگان علوم الحدیث کیلئے یہ ایک نادر و نایاب موقع ہے۔ شیخ الاسلام ان نشستوں میں علم حدیث جیسے اہم ترین موضوع پر سیر حاصل گفتگو کریں گے ، اس سہ روزہ دورہ علوم الحدیث کے اختتام پر شرکاء کو علوم الحدیث کی اسناد بھی دی جائیں گی۔ علم حدیث میں پختگی ایمان کی پختگی ہے۔ حدیث کی ایمانیات کے تناظر میں اہمیت اور ناگزیریت جاننے کیلئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب حجیت حدیث و سنت کا مطالعہ حدیث و سنت کے حوالے سے قلوب و اذہان کو فہم و ادراک کی نئی وسعتوں سے ہم آہنگ کرتی ہے۔ علم الحدیث ایک کامل علم ہے جس کے مکمل ادارک کے بغیر قرآنی علوم کو سمجھنا ناممکن ہے۔ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا میری احادیث بیان کیا کرو جس نے مجھ پر جھوٹ و افتراء باندھا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں تیار رکھے، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم آپ سے بہت ساری باتیں سنتے ہیں تو انہیں لکھ لیتے ہیں آپ نے فرمایا بے شک ہر بات لکھ لیا کرو اس میں کوئی حرج نہیں ہے‘‘۔ حدیث و سنت کے تناظر میں شہرہ آفاق حدیث مبارکہ ہے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجتہ الوداع کے موقع پر لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا اے لوگوں یقینا میں تمہارے درمیان ایسی شے چھوڑے جارہا ہوں اگر تم اسے مضبوطی سے تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے یعنی اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت۔ مذکورہ احادیث مبارکہ سے علم الحدیث کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔ اسی طرح کتاب اللہ میں فرمان خداوندی ہے:

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ ﷲِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ.

’’فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اﷲ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂِ (حیات) ہے۔‘‘

(الاحزاب، 33: 21)

سورۃ آل عمران کی آیت 31 میں فرمایا:

اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ ﷲَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ ﷲُ.

’’اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا‘‘

اسی لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’تم بھی ویسے ہی نماز ادا کرو جیسے مجھے ادا کرتے ہوئے دیکھتے ہو۔ ‘‘معلوم ہوا کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن مجید کے احکامات کی عملی تشریح کرتی ہے۔ لہذا قرآن مجید کا صحیح فہم اور اس کے احکامات پر عمل کرنا سنت اور ارشادات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ چنانچہ یہ مسلّم حقیقت ہے کہ قرآن مجید کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مبارکہ اور ارشادات عالیہ شریعت اسلامیہ اور اسلامی قانون سازی کے بنیادی ماخذ ہیں۔ اس پر قرآن مجید میں کئی آیات میں وضاحت سے فرمادیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ کو امت مسلمہ کے لیے اسوۂ حسنہ قرار دیا۔ لہٰذا فہم قرآن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں رجوع کیے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ قرآن فہمی کے لیے امت مسلمہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توضیحات و تشریحات کی محتاج ہے۔ سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن مجید سے مل کر اللہ تعالیٰ کے عطاکردہ قوانین اور ہدایات کی عملی تشکیل کرتی ہے۔ اور یہ دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں انہیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دینی اور تاریخی اہمیت کے پیش نظر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت سے لے کر آج تک اسلامی دنیا کے اعلیٰ ترین دماغ احادیث کی تعلیم و تدریس اور ترویج و اشاعت میں مصروف رہے۔ قرونِ اولیٰ سے لیکر موجودہ صدی تک جمع و تدوین حدیث کا کام جاری ہے اور ہزاروں کتب کا بے مثال ذخیرہ موجود ہے۔ دنیا کے ہر خطے میں اکابر قومیں اور نامور علماء خدمت حدیث پر مامور رہے۔ مگر موجودہ صدی میںاحادیث کی تخریج و تحقیق کو آسان فہم پیرائے میں عوام و خواص کی ضرورت کی تکمیل کے لئے پیش کرنے کی توفیق اور سعادت اللہ تعالیٰ نے مؤسسِ تحریکِ منہاج القرآن شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی کے لئے مختص کر دی۔ انہوں نے اِصلاحِ اَحوالِ اُمت کے لئے دین کے حقیقی سرچشموں سے اِکتسابِ فیض کیا اور تعلیماتِ قرآن و سنت کو عصری ضرورتوں کے سانچوں میں ڈھال کر نوجوانوں کی ذہنی سطح کے عین مطابق پیش کرنا شروع کیا۔ آج زندگی نئے ادوار میں داخل ہو کر نئے تقاضوں کا سامنا کر رہی ہے۔ ہر دور کی طرح آج کی حشر سامانیوں کا مقابلہ بھی اہل علم و رجال دین کا فرض ہے۔ آج جس طرح قرآن کی تشریحات، اطلاقات اور مفاہیم کی تعبیر نو وقت کا تقاضا ہے اسی طرح احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو اسلام کا دوسرا بڑا ماخذ اور ذریعہ عمل ہے اس کی حقانیت اور حجیت مسلّم کرنے کی کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ اور اس کی کئی بنیادی وجوہات ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

  • پہلی وجہ یہ ہے کہ قرآن کی قطعیت، آفاقیت اور حجیت امر ثابتہ ہے۔ اگرچہ مبغضینِ اسلام اس پر بھی اظہار تشکیک سے باز نہیں آتے لیکن قرآن کی حقانیت و صداقت پر اعتراض کرنے والوں کے مقابلے میں احادیث و سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حجیت و اتباع پر انگلی اٹھانے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔
  • احادیث نبویہ پر کام کرنے کی ضرورت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ نسل نو جدید علوم و افکار سے متاثر ہورہی ہے۔ ان کے ذہنی افق پر جدید مادی اور الحادی افکار و نظریات کی چھاپ نمایاں ہورہی ہے جس کے مظاہر روزمرہ حالات و واقعات سے عیاں ہیں۔ ایسے میں ذہن جدید کی تسکین، اضطراب اور تشکیک کا علاج قرآن حکیم کے بعد حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ترویج و تدریس سے ہی ممکن ہے۔
  • احادیث کا ذخیرہ امت مسلمہ کے پاس ایک نعمت خداوندی ہے جس کی نظیر کہیں اور نہیں ملتی۔ یہ علوم اور معارف کی ایک مستند تاریخ ہے جس سے قیامت تک ہر دور کا انسان حسب حال مستفیض ہوتا رہے گا۔ درج بالا حقائق سے واضح ہوجاتا ہے کہ عصر حاضر میں خدمت حدیث کا کتنا وسیع سکوپ موجود ہے۔ چنانچہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری جیسی دانا و بینا ہستی کی نظروں سے یہ میادین علم و فکر اوجھل نہیں۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے یہ خصوصیت بھی مرحمت فرمائی ہے کہ وہ محض علمی ذخیرے جمع نہیں کرتے بلکہ امت مسلمہ کا ایک قابل ذکر حصہ خصوصاً نئی نسل ان سے مانوس بھی ہے اور ان کے اشارہ ابرو پر جان بھی چھڑکتی ہے۔ ان کے مواعظ حسنہ اور علمی و تحقیقی نشریات سے ایک جہان مستفیض ہورہا ہے۔