فرمانِ الٰہی و نعتِ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

فرمان الہٰی

قَالَ قَآئِلٌ مِّنْهُمْ لَا تَقْتُلُوْا یُوْسُفَ وَاَلْقُوْهُ فِیْ غَیٰـبَتِ الْجُبِّ یَلْتَقِطْهُ بَعْضُ السَّیَّارَةِ اِنْ کُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ. قَالُوْا یٰٓـاَبَانَا مَا لَکَ لَا تَاْمَنَّا عَلٰی یُوْسُفَ وَاِنَّا لَهُ لَنٰصِحُوْنَ. اَرْسِلْهُ مَعَنَا غَدًا یَّرْتَعْ وَیَلْعَبْ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ. قَالَ اِنِّیْ لَیَحْزُنُنِیْٓ اَنْ تَذْهَبُوْا بِهٖ وَاَخَافُ اَنْ یَّاْکُلَهُ الذِّئْبُ وَاَنْتُمْ عَنْهُ غٰفِلُوْنَ. قَالُوْا لَئِنْ اَکَلَهُ الذِّئْبُ وَنَحْنُ عُصْبَةٌ اِنَّآ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ.

(یوسف، 12: 10تا14)

’’ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا: یوسف (علیہ السلام) کو قتل مت کرو اور اسے کسی تاریک کنویں کی گہرائی میں ڈال دو اسے کوئی راہ گیر مسافر اٹھالے جائے گا اگر تم (کچھ) کرنے والے ہو(تو یہ کرو)۔ انہوں نے کہا: اے ہمارے باپ! آپ کو کیا ہوگیا ہے آپ یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں ہم پر اعتبار نہیں کرتے؟ حالاں کہ ہم یقینی طور پر اس کے خیر خواہ ہیں۔ آپ اسے کل ہمارے ساتھ بھیج دیجیے! وہ خوب کھائے اور کھیلے اور بے شک ہم اس کے محافظ ہیں۔ انہوں نے کہا: بے شک مجھے یہ خیال مغموم کرتا ہے کہ تم اسے لے جاؤ اور میں (اس خیال سے بھی) خوفزدہ ہوں کہ اسے بھیڑیا کھا جائے اور تم اس (کی حفاظت) سے غافل رہو۔ وہ بولے: اگر اسے بھیڑیا کھا جائے حالاں کہ ہم ایک قوی جماعت بھی (موجود) ہوں تو ہم تو بالکل ناکارہ ہوئے‘‘۔

(ترجمه عرفان القرآن)

نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

لب پر ہے مصطفی کے جو فرمان دیکھئے
قرآن کی قسم دل قرآن دیکھئے

پائے نبی سے بڑھ کیا اعزاز عرش کا
رب کے ہوئے ہیں خاص وہ مہمان دیکھئے

جلوئوں کا ان کے کیسے کوئی تذکرہ کرے
برق و شرار بھی یہاں حیران دیکھئے

اپنا حبیب بھی ہمیں حق نے عطا کیا
اس سے بڑا نہیں کوئی احسان دیکھئے

اللہ بھی ہے حامی و ناصر روشن روشن
ہر ایک مرحلہ یہاں آسان دیکھئے

طیبہ کی حاضری کے لئے دل ہے بے قرار
کب پورا ہوگا دل کا یہ ارمان دیکھئے

ہم عاصیوں کی لاج وہ رکھ لیں گے حشر میں
طاہر ہمارا ہے یہی ایمان دیکھئے

(طاہر سلطانی)