انسانی جان کی حرمت اور برما کے مسلمان

نعیم انور نعمانی

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا.

(المائدة، 5: 32)

’’جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد انگیزی (کی سزا) کے بغیر (ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے اسے (ناحق مرنے سے بچا کر) زندہ رکھا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو زندہ رکھا (یعنی اس نے حیاتِ انسانی کا اجتماعی نظام بچا لیا)‘‘۔

یہ انسانوں کے نام قرآن کا پیغام ہے اور یہ انسانوں کے نام اُن کے ربِ رحمان کا بیان ہے اور تمام انسانوں کے لئے اُن کی زندگی گزارنے کے ضابطے کا اعلان ہے اور قیامت تک دنیا بھر میں بسنے والے سب انسانوں کے لئے اللہ رب العزت کا وحی کے ذریعے آخری بیان ہے کہ انسانی جان کا مالک اللہ ہے۔ وہ رب اپنی ملکیت میں کسی کو بے جا تصرف کرنے کی اجازت نہیں دیتا وہ رب اپنی ملکیت میں کسی کو اپنے ضابطوں کی خلاف ورزی کا اذن نہیں دیتا۔ اگر انسان کی ملکیت میں کوئی دوسرا انسان اس کی اجازت کے بغیر تصرف کرے تو اس عمل کو ہم ظلم سے تعبیر کرتے ہیں۔ انسان صدائے احتجاج بلند کرتا ہے کہ میرے حق پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے، مجھے میرے بنیادی حق سے محروم کیا گیا ہے۔ انسان اپنے اس حق کے حصول کے لئے ہر طرح کی چارہ جوئی کرتا ہے، ہر نوعیت کی سعی و جدوجہد کرتا ہے تاوقتیکہ وہ اپنا حق لے کر رہتا ہے۔

انسانی جان کا مالک صرف اللہ ہے:

اسی طرح انسان کی جان کا مالک اللہ ہے اس نے کسی بھی دوسرے انسان کو یہ حق نہیں دیا کہ وہ اس کو اس کی اجازت اور اس کی شریعت اور اس کے احکامات کی صریح خلاف ورزی میں قتل کر ڈالے۔

روئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کے لئے فرمایا ضابطہ حیات یہ ہے کہ اگر کوئی شخص قاتل بن جائے اور ناحق کسی انسان کا خون بہادے اور اس کی زندگی اس سے چھین لے تو ایسے قاتل انسان کو مقتول انسان کے ورثاء قانون کے مطابق قتل کرسکتے ہیں۔ اس قاتل سے قصاص لے سکتے ہیں، عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا کر اسے پھانسی پر چڑھا سکتے ہیں۔ مقتول کے بہتے ہوئے خون کی طرح اس قاتل کا بھی خون بہایا جاسکتا ہے مگر اس عمل میں اس بات کا اہتمام کرنا ہوگا یہ خون کا انتقام صرف قاتل تک ہی رہے۔ ایسا نہ ہو اس قتل کے بدلے میں قاتل کے سارے رشتے داروں کو قتل کردیا جائے۔ اس سے تعلق رکھنے والے ہر انسان کو مٹادیا جائے اور اس کے علاوہ اس زمین پر انسان کا خون اس طرح بھی گرتا ہے کہ کوئی انسان اس زمین میں فساد انگیزی کرتا ہے۔ ڈاکہ زنی کرتا ہے۔ انسانوں کی جان سے کھیلتا ہے۔ شر انگیزی کے ذریعے قتل و غارت گری کا ماحول قائم کرتا ہے۔ ہر طرف خون بہانے کا عمل جاری کرتا ہے۔ اللہ کی زمین کو اپنے سیاسی مفادات کے لئے، اپنے مذہبی مفادات کے لئے، اپنے ذاتی مفادات کے لئے، اپنی سیادت و قیات کے تحفظ کے لئے اگر کوئی رنگین کردیتا ہے۔ فساد فی الارض کے تحت ہر طرف خون خرابہ کرتا ہے تو ایسے فسادی شخص کو قانون و انصاف کے مطابق تختہ دار پر چڑھادیا جائے گا۔ اس لئے باری تعالیٰ نے تمام انسانوں پر واضح کردیا ہے میری زمین پر قتل نفس اور فساد فی الارض کے بغیر کسی کو خون بہانے کی اجازت نہیں۔

ایک انسان کا خون ساری انسانیت کا خون ہے:

اس کے بغیر اگر کسی نے میری زمین پر خون بہایا تو اس نے صرف ایک شخص کو قتل نہیں کیا بلکہ اس ایک انسان کا قتل کل انسانوں کا قتل ہے۔ ایک انسان کا خون تمام انسانوں کا خون ہے، ایک انسان کی جان کا ضائع ہونا سارے انسانوں کی جان کا ضائع ہونا ہے۔ ایک انسان کو مارنا تمام انسانوں کو مارنے کے مترادف ہے۔

آج انسان کے ہاتھوں انسان قتل ہورہے ہیں۔ آج اس زمین پر اللہ کی مخلوق قتل ہورہی ہے آج انسان کو اس طرح کاٹا اور مارا جارہا ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں اس طرح انسان کو کاٹا اور مارا نہیں گیا۔ آج برما کی زمین پر انسانوں کو سرعام کاٹا جارہا ہے اور بہیمانہ اور وحشیانہ انداز میں مارا جارہا ہے۔ آج مہذب انسانیت اپنی اس وحشیانہ انسانیت پر ماتم کررہی ہے۔ برما کے انسانوں کا کاٹا جانا، شیر خوار بچوں کو بھی بے دردی سے مارا جانا، خواتین کی عصمت دری کیے جانا، انسانوں کے اعضاء کو جانوروں کے اعضاء کی طرح کاٹے جانا، یہ سارے کا سارا عمل انسانوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ یہ عمل دنیا بھر کے انسانوں کے لیے تذلیل کا عمل ہے۔ آج ساری انسانیت اپنے اس برے عمل پر ندامت کا اظہار کررہی ہے۔

انسانی خون کا بلا امتیاز احترام:

آج ہم انسانی خون کو تقسیم کرکے اُس کو اپنے قتل کا جواز نہیں بناسکتے، خون تو صرف خون ہے، اس خون کو ہم خون مسلم، خون یہودی صیہونی، خون نصرانی، عیسائی اور خون بدھ مت، خون ہندو اور خون سکھ میں تقسیم نہیں کرسکتے، مذہب اور عقیدے کی اس تقسیم کی بنا پر اگر آج ہم ایک دوسرے کا خون کرنے لگے تو دنیا کا امن غارت ہوجائے گا، انسانیت بہت بڑی ہلاکت کا شکار ہوجائے گی۔

آج کی جدید دنیا نے بھی UNO کے تحت انسان کے زندہ رہنے کے حق کو تسلیم کیا ہے۔ آج دنیا بھر میں حقوق انسانی کا پرچار ہے اور اقوام عالم میں ان حقوق کے تحفظ کا بڑا ہی اصرار ہے اگر یہ حقوق انسانی کی آواز بلند کرنے والے آج برما میں انسانوں کے بہنے والے خون پر کیوں خاموش ہیں۔ عالمی ضمیر اس نسل کشی کے عمل پر ایک واضح لائحہ عمل سے کیوں محروم ہے۔ آج کی جدید دنیا تو اپنے اپنے ملکوں میں 1215 میں Magna Corta اور 1628 میں Petition of right اور 1689، 1791 میں Bill of rights اور اقوام متحدہ UNO کے تحت تمام بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ اور ان کے قیام کی ذمہ داری لے چکی ہے۔

برما کے مسلمانوں کی حالتِ زار:

لیکن برما میں آج مسلمان ان انسانی حقوق کے حصول کے لئے UNO (اقوام متحدہ) کی راہیں دیکھ رہے ہیں، آج وہ دنیا بھر کے مہذب انسانوں کو اپنے کٹے ہوئے ہاتھوں کے ذریعے مدد کے لئے پکار رہے ہیں۔ آج وہ دنیا کے انسان دوست حکمرانوں کو اپنی کٹی ہوئی گردن کے ذریعے اپنی مدد کے لئے ندائیں دے رہے ہیں۔ آج برما کی مظلوم خواتین اپنی عزت و عصمت کی حفاظت کے لئے مسلمان حکمرانوں میں سے کسی محمد بن قاسم کو آہوں اور سسکیوں کے ساتھ بلارہی ہیں۔ آج برما کے شیر خوار بچے اپنی مائوں کے سامنے اپنے جسم سے خون کے فواروں کے ذریعے اپنے وجودوں کی حفاظت کے لئے رو رو کر پکار رہے ہیں۔ آج برما کے مظلوم انسانوں پر وہ ظلم و ستم کیا جارہا ہے جو اس کائنات ارضی نے جانوروں اور درندوں کے ساتھ بھی نہیں دیکھا۔ آج برما میں جن کا خون بہایا جارہا ہے۔ کیا وہ انسان نہیں ہیں۔ کیا ان کا کوئی انسانی حق نہیں ہے، کیا ان کو زندہ رہنے کا حق نہیں ہے، کیا ان کو اللہ کی اس زمین پر بسنے کا Right نہیں ہے۔ کیا وہ UNO کے انسانی حقوق کے چارٹر میں نہیں آتے، کیا ان کے بسنے والے ناحق خون پر سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس نہیں ہوسکتا۔

آج کے انسان سے انسانیت کی رسوائی:

اگر برما کے انسانوں کے خون کو خون مسلم کا نام دے کر ارزاں سمجھ لیا گیا ہے اور اس خون کے ناحق بہے جانے کو جائز سمجھ لیا گیا ہے تو کیا آئندہ UNO یہ گوارا کرے گی کہ دنیا بھر میں مذہب کے نام خون بہایا جائے۔ دنیا بھر میں نظریے کی بنا پر دوسروں کا خون بہایا جائے، دنیا بھر میں عقیدے کی بنا پر خون کی ندیاں جاری کی جائیں۔ دنیا بھر میں مقیم و مہاجر ہونے کی بنا پر خون بہایا جائے۔ دنیا بھر میں اور تمام ممالک میں اکثریت اقلیت سے زندہ رہنے کا حق چھین لے اور دنیا بھر کے مہاجرین اور ترک وطن کرنے والوں کو چن چن کر قتل کردیا جائے اور دنیا بھر میں نسلی امتیاز کی بناء پر خون بہایا جائے۔ دنیا بھر میں سیاسی اختلافات کی بناء پر خون ہی خون کردیا جائے۔ دنیا بھر میں علاقے اور قبیلے کے اختلاف کی بناء پر خون انساں ارزاں کردیا جائے۔

آج برما کے انسانوں کا ناحق خون خود انسانوں کے منہ پر طمانچہ ہے، آج ان مظالم کی بناء پر انسانیت رسوا ہوچکی ہے آج 21 اکیسویں صدی کا انسان پتھر کے زمانے کا انسان نظر آتا ہے، آج سیاست کے نام پر خون بہایا جارہا ہے۔ آج مذہب کے نام پر خون بہایا جارہا ہے، آج ذاتی مفادات کے نام پر خون بہایا جارہا ہے، آج انسانیت کی تذلیل حیوانیت کے ہاتھوں نہیں خود انسانیت کے ہاتھوں ہورہی ہے۔

گوتم بدھ کی تعلیمات اور بدھ مت کے پیروکار:

کیا آج جو کچھ برما میں ہورہا ہے۔ یہی گوتم بدھ کی تعلیمات کے مطابق ہے، کیا بدھ مت کا تعارف دوسرے انسانوں کا ناحق خون بہانا ہے، یہ برما میں جاری خون ریزی کا عمل سراسر بدھ مت کی تعلیمات کے خلاف ہے اور یہ گوتم بدھ کے نظریات کے خلاف ہے۔ گوتم بدھ اپنے ماننے والوں کو کہتا ہے۔

’ہر قسم کی ذی روح چیز کو قتل کرنا تمہارے لئے سختی سے منع ہے حتی تم کسی کو ناحق جسمانی سزا بھی نہیں دے سکتے۔‘

(مذاہب عالم کا تقابلی مطالعہ، غلام رسول چیمہ، ص296، علم و عرفان پبلشرز، لاہور)

گوتم بدھ، اپنے ماننے والوں کو یہ کہتا ہے کہ اس دنیا میں تمہارے صرف تین کام ہیں:

1۔ علم حاصل کرو 2۔ عام لوگوں کو علم سکھاؤ 3۔ اپنی نجات کے حصول کیلئے عمل کی صورت میں محنت کرو

گوتم بدھ اپنے ماننے والوں کو یہ کہتا ہے کہ اپنی خواہشات نفسانی پر ضبط رکھو جو شخص اس ضابطے کی پابندی کرے گا وہی فلاح و طمانیت قلب پائے گا۔ تمہیں میری یہی نصیحت ہے اور اس پر ثابت قدم رہو۔

(مذاہب عالم کا تقابلی مطالعہ، ص266)

(جاری ہے)