سیدنا غوث الاعظم کی تعلیمات اور محاسبہ نفس

ملکہ صبا

خالق کائنات اللہ رب العزت نے جن و انس کی رشد و ہدایت کے لیے مختلف وقتوں اور مختلف خطوں میں کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و مرسلین کو مبعوث فرمایا۔ ہر نبی و رسول اللہ تعالیٰ کی علیحدہ علیحدہ صفتوں کے مظہر بن کر آئے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کل صفات ہی نہیں بلکہ ذات کا مظہر بناکر اپنے محبوب نبی آخرالزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دنیا میں بھیجا تو مظہر ذات کے بعد کسی نبی کی ضرورت نہیں رہی۔ باب نبوت ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔ بعد ازاں رشد و ہدایت اور احیاء دین و ملت کے لیے اولیاء اللہ کو منتخب کیا گیا جن میں حضور غوث الاعظم وہ ہستی ہیں جو نہ صرف عوام الناس بلکہ اولیاء اللہ کی اصلاح و تربیت کے لیے مبعوث کیے گئے۔ آپ وعظ و نصیحت کے ذریعے دین اسلام کی خدمت میں مصروف عمل رہتے آپ کی تعلیمات مردہ دلوں پر اس قدر اثر کرتیں کہ وہ راہ حق کے متلاشی بن جاتے۔

ڈاکٹر ظہور احمد اپنی تصنیف ’’سیدنا غوث الاعظم کا معیار تعلیم اور عصری تقاضے‘‘ میں یوں رقمطراز ہیں:

شیخ الاسلام عزیزالدین بن عبدالسلام المصری الشافعی اور اس عہد کے عالم جلیل ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ

’’شیخ کی کرامات حد تواتر کو پہنچ گئی ہیں۔ ان کی سب سے بڑی کرامت مردہ دلوں کی مسیحائی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے قلب کی توجہ اور زبان کی تاثیر سے لاکھوں انسانوں کو نئی زندگی بخشی۔ آپ کا وجود اسلام کے لئے باد بہاری تھا۔ جس نے دلوں کے قبرستان میں نئی جان ڈال دی اور عالم انسانیت میں روحانیت کی ایک نئی لہر پیدا کردی۔ کوئی مجلس ایسی نہ ہوتی تھی جس میں یہودی اور عیسائی اسلام قبول نہ کرتے ہوں خونی، جرائم پیشہ توبہ سے مشرف نہ ہوتے ہوں اور فاسد الاعتقاد اپنے غلط عقائد سے توبہ نہ کرتے ہوں۔‘‘

(ص: 82)

آج کے اس پرفتن دور میں ضرورت اس امر کی ہے کہ امت مسلمہ کو بالعموم اور نوجوانوں کو بالخصوص حضرت سیدنا غوث الاعظم کی تعلیمات سے روشناس کرایا جائے تاکہ مردہ دلوں کی آبیاری کی جائے اور آپ کی تعلیمات کے ذریعے اپنا محاسبہ نفس بھی کیا جائے کہ آیا جو تعلیمات ہمیں اولیاء اللہ سے ملتی ہیں ہم اس پر کس درجہ عمل پیرا ہورہے ہیں کہیں ایسا نہ ہو روز محشر آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے شرمندہ ہونا پڑے۔

پیروی نفس کی ممانعت:

علامہ ظہور احمد جلالی اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’’فتوح الغیب‘‘ میں یوں رقمطراز ہیں:

حضور غوث الاعظم نے فرمایا کہ خود کو نفس کی خواہش اور پیروی سے نکال کر یکسو ہوجاؤ اور اس کے پیچھے نہ چلو اور اپنے وجود کی مملکت سے بیگانہ ہوجاؤ اور ہر چیز اللہ تعالیٰ کے سپرد کردو اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے دربان بن کر اپنے دل کے دروازے پر بیٹھ جاؤ۔

(ص: 89)

وہ مزید یوں رقمطراز ہیں:

حقیقت بندگی اسی صورت میں حاصل ہوگی کہ نفس کی مخالفت کو شعار بنالو اس طرح اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوستی اور بندگی ثابت ہوگی تمہیں صاف و خوشگوار اور پاکیزہ حصے ملیں گے تم معزز و مکرم ہوجاؤ گے۔ تمام چیزیں تمہاری غلامی واطاعت کریں گی۔

(علامه ظهور احمد جلالی، فتوح الغیب،مطبوعه صفه اکادمی، ص: 134)

قارئین کرام! نفس کیا ہے؟ نفس تمام برائیوں کی جڑ ہے وہ انسانوں کو ان کاموں پر اکساتا ہے جو اللہ رب العزت کی ناراضگی کا باعث ہوں۔ اولیاء اللہ اپنے نفس پر غلبہ حاصل کرکے ہی اللہ کے مقرب بندوں میں شامل ہوئے ہیں جبکہ ہم اپنا مواخذہ/ محاسبہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم ہر وہ کام کرتے ہیں جو اللہ رب العزت کی نافرمانی اور نفس کی خوشی کا باعث بنے جیسے کہ کسی کو ہم تعلیم، ملازمت اور رتبے میں اپنے سے برتر دیکھتے ہیں یا تو اس سے حسد کرنے لگتے ہیں یا پھر ان مراتب پر پہنچنے کے لیے رشوت، چوری، ڈاکہ، کرپشن الغرض ہر گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں کیونکہ انسان کا نفس بنیادی طور پر دوسروں سے بلند و برتر رہنا چاہتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ انسان اپنے قول و عمل سے یہ اظہار بھی کرتا ہے کہ اللہ نے ساری مہربانیاں دوسرے شخص پر ہی کیوں کی ہیں کیا ہم اس قابل نہیں کہ اللہ رب العزت ہمیں بھی ان نعمتوں سے نوازتا۔ یہ تصورات و خیالات اس کے ایمان کو متزلزل کردیتے ہیں اور اس کے ساتھ تعلق کو کمزور کردیتے ہیں۔ اسی سوچ کی وجہ سے ابلیس بھی ملعون و مردود قرار پایا تھا ایسا کردار و مزاج رکھنا درحقیقت ابلیس کے نقش قدم پر چلنا ہے۔ جس کا انجام نامرادی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ایسے لوگ نہ دنیا میں پرسکون زندگی بسر کرسکتے ہیں اور نہ ہی آخرت میں کسی درجے پر فائز ہوسکتے ہیں۔

اس کے برعکس انسان اللہ پر توکل کرکے زندگی بسر کرتا ہے تو رب العزت اسے مال و دولت سے بھی نوازتا ہے جس کے باعث وہ مخلوق خدا کی خدمت کرتا ہے اور مخلوق میں صاحب عزت و توقیر ہوجاتا ہے۔ یہی ولی اللہ کا بتایا ہوا راستہ ہے جو کامیابی و کامرانی کی طرف گامزن کرتا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمیں کس راہ کی طرف گامزن ہونا ہے۔ وہ جو اولیاء اللہ کا بتایا ہوا ہے جو تباہی و بربادی کا۔

حسن خلق کی تعلیم:

محمد بن یحییٰ اپنی تصیف ’’غوث جیلانی‘‘ میں یوں رقمطراز ہیں:

آپ نے فرمایا کہ حسن خلق یہ ہے کہ تم پر جفائے خلق کا اثر نہ ہو خصوصاً جبکہ تم حق سے خبردار ہوگئے اور عیوب پر نظر کرکے نفس کو اور جو کچھ کہ نفس سے سرزد ہو ذلیل جانو۔

(ص: 222)

حسن خلق کیا ہے؟ یہ وہ عمل ہے جو اللہ رب العزت کی خوشنودی کا باعث ہے جو میزان میں سب سے زیادہ بھاری ہے۔ حدیث مبارکہ ہے کہ مومنین میں سے کامل ترین ایمان اس کا ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔

(ابن حبان، ج2، ص: 227، حدیث: 479)

کامل ترین ایمان حسن خلق کو اس لیے کہا گیا ہے کہ انسان لوگوں کی بری باتوں کو سن کر، غلط رویوں کو برداشت کرکے، اپنی نفی کرکے احسن سلوک روا رکھتا ہے تو اس کی وجہ سے معاشرہ و خاندان افراط و تفریط کا شکار نہیں ہوتے بلکہ ہر طرف پیارو محبت کی فضا قائم ہوتی ہے۔

جبکہ ہم اپنے اوپر صرف نظر کرتے ہیں تو معاملہ اس کے برعکس نظر آتا ہے مثلاً اگر کوئی شخص ہمیں بتاتا ہے کہ کسی نے آپ کو برا بھلا کہا ہے یا کوئی آپ کی عیب جوئی کا مرتکب ہوا ہے تو ہم اس کی تصدیق کیے بغیر اس سے بدلا لینے کے لئے وقت کا انتظار کرتے ہیں تاکہ اس کو بھی ذلیل کرسکیں جبکہ اسلام میں بات کی تحقیق کرکے بھی برے انسان سے نہیں برائی سے نفرت کرنے کو کہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا غوث الاعظم بیان فرماتے ہیں عیوب پر نظر کرکے نفس کو اور جو کچھ نفس سے سرزد ہو برا جانو۔

یعنی کوئی شخص اپنی غلطی کا اعتراف کرکے توبہ تائب کرلے تو آپ بھی اس کو معاف کرکے اس کے ساتھ مخلص ہوجائیں کیونکہ اسلام قطع تعلق کو ناپسند اور صلح رحمی کو پسند فرماتا ہے۔ یہی دین کی اساس ہے ایسے ہی لوگ اللہ کی رضا کے طالب بن جاتے ہیں۔

قدرت خدا پر پختہ یقین

علامہ ظہور احمد جلالی اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’’فتح الغیب‘‘ میں یوں رقمطراز ہیں:

بندہ کو افعال کا خالق مان کر اس کے پرستار نہ بن جاؤ اور خدا کو بھول نہ جاؤ یہ بھی نہ کہو کہ یہ محض ان کا فعل ہے قدرت خداوندی کا فعل نہیں۔

(ظهور احمد، سیدنا غوث الاعظم کا معیار تعلیم اور عصری تقاضے، صفحه 141)

اللہ رب العزت جو خالق کائنات ہے تمام امور اسی کے ذمے ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے ہم اس پر یقین رکھتے ہیں مگر جب ہمیں دنیاوی امور میں کوئی مسئلہ درپیش آتا ہے مثلاً نوکری کی ضرورت ہو یا کہیں داخلہ لینا ہو الغرض کسی بھی قسم کی بندوں سے سفارش کی ضرورت پیش آئے تو ہم خدا کو بھول کر دنیاوی معبودوں کے پیچھے چلنے لگتے ہیں۔ ہم ضعیف الاعتقادی کی بناء پر یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ وہ رازقِ مطلق ہے اس نے ہمارے نصیب میں جو لکھا ہے جتنا لکھا ہے وہ مل کر رہے گا۔ اب یہ ہمارے اوپر ہے کہ ہم اس کے لیے کونسا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے اوپر جب کوئی مصائب و آلام آتے ہیں ہم خدا کو بھول کر بندوں سے اپنے تعلق کو جوڑ لیتے ہیں ہم رشوت دیتے ہیں، چاپلوسی کرتے ہیں الغرض ہر طریقے سے دنیاوی معبودوں کو منانے کی کوشش کرتے ہیں مگر خدا کے آگے سجدہ ریز ہوکر اس کو منانے کی کوشش نہیں کرتے۔ یہی ہماری خرابی اور اللہ رب العزت کی ناراضگی کا باعث ہے۔

صبرو استقامت کا درس

محمد بن یحییٰ تاذفی اپنی تصنیف ’’غوث جیلانی‘‘ میں یوں رقمطراز ہیں:ـ

’’جب بھوک مجھ پر بہت زیادہ گزرنے لگتی تو میں زمین پر لیٹ جاتا اور یہ آیہ کریمہ فان مع العسر یسرا ان مع العسر یسرا پڑھتا یعنی بے شک ہر ایک سختی کے بعد آسانی ہے بے شک ہر ایک سختی کے بعد آسانی ہے پھر میں سر اٹھاتا تو میری ساری تکلیفیں دور ہوجاتیں‘‘

(تاذفی، علامہ محمد بن یحییٰ تاذفی غوث جیلانی، مطبوعۃ اشتیاق اے مشتاق پرنٹرز لاہور، ص 44)

انسان تکلیف پر صبر نہ کرتے ہوئے شکوہ و شکایت پر اتر آتا ہے۔ اس بارے میں ’’فتوح الغیب‘‘ میں یوں رقمطراز ہیں:

حضرت سیدنا غوث الاعظم بیان فرماتے ہیں کہ تمہیں کوئی بھی گزند اور تکلیف پہنچے تو کسی دوست اور دشمن سے شکایت نہ کرو اور تمہارے پروردگار نے جو کہا ہے اور جو بلا اتاری ہے اس میں اسے مبہم نہ کر بلکہ خیرو شر کا اظہار کرو کیونکہ تمہارے گمان کے مطابق بغیر نعمت کے شکر کرنے کا جھوٹ تمہارے سچ اور حال کی شکایت کرنے سے بہتر ہے کوئی شخص بھی، کوئی لمحہ بھی نعمت خداوندی سے خالی نہیں۔ ارشاد خداوندی ہے: اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گنو تو شمار نہیں کرسکو گے کتنی نعمتیں ایسی ہیں جن کا تمہیں علم نہیں ہے۔

(ص217-216)

جب ہم پر کوئی مصیبت یا پریشانی آتی ہے تو اس کو رب کی رضا سمجھ کر صبر کرنے کی بجائے ہم شکوہ و شکایت شروع کردیتے ہیں کہ ساری تکلیفیں ہمارے لیے ہی رہ گئی ہیں (کیا ہم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ یہ کفریہ جملہ ہے) یا پھر یہ کہتے ہیں کہ پتہ نہیں ہم سے کون سی غلطی ہوگئی ہے کہ اللہ کی طرف سے یہ پریشانی اور تکلیف آئی ہے لیکن ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ اللہ رب العزت جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اسے تکلیف میں مبتلا کردیتا ہے تاکہ بندہ توبہ تائب کرے اور وہ اسے معاف کردے انسان کو ایک کانٹا بھی لگتا ہے تو اس پر صبر کرنے سے اللہ رب العزت اسے گناہوں کا کفارہ بنادیتا ہے اور جب کسی سے حد درجہ ناراض ہوتا ہے تو اس کو کھلی چھٹی دے دیتا ہے جبکہ انسان یہ سمجھتا ہے کہ دیکھو وہ کس طرح گناہ کرکے دندناتا پھرتا ہے اور اس کی گرفت نہیں ہوتی حالانکہ اللہ رب العزت نے انبیاء کرام جو نہایت معصوم تھے اور خطاؤں سے مبراء تھے کو کس کس طرح آزمایا؟

جیسے حضرت ایوب علیہ السلام برس ہا برس تکلیف میں مبتلا ہونے کے باوجود بھی رب کی حمدو ثناء میں ہمہ وقت مصروف رہے۔ حضرت یونس علیہ السلام کتنے برس تک مچھلی کے پیٹ میں ذکرو اذکار کرتے رہے۔ خود ہمارے آقا علیہ السلام جو کہ محبوب رب للعالمین ہیں کس قدر مصائب میں گرفتار رہے۔ حالانکہ یہ لوگ جان و مال کے ساتھ ساتھ اپنے جسم کی بھی خیرات کرچکے تھے۔ پھر ان پر مصائب و آلام کیوں آئے اس لیے کہ رب العزت انہیں صبر کی منزل طے کراکے درجات میں بلندی عطا کرتا ہے حالانکہ ہم تو اپنے اعمال کے باعث مصائب میں گرفتار ہوتے ہیں پھر بھی وہ رب العالمین جو ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے مصائب پر صبر سے ہمارے نہ صرف گناہ معاف کرتا ہے بلکہ درجات بھی بلند کرتاہے۔

ان تمام تعلیمات پر عمل ہم اس وقت کرسکتے ہیں کہ جب ہم بھی اللہ کے ان پیاروں کے ساتھ جڑ جائیں جن کا تعلق ہمہ وقت رب سے جڑا ہوا ہو اور وہ آپ کو رب کی بارگاہ کے ساتھ جوڑ دیں اسی کی ایک لڑی منہاج القرآن بھی ہے جن کے بانی و سرپرست اعلیٰ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہم کو اہل اللہ کی باتیں بتاتے اور تربیت کرتے ہیں تاکہ ہمارا رب تعالیٰ کے ساتھ ٹوٹا ہوا تعلق جڑ جائے۔