راہ نوردِ شوق (انٹرویو ڈاکٹر ناہید قاسمی)

انٹرویو پینل: ڈاکٹر فوزیہ سلطانہ، ام حبیبہ

ڈاکٹر ناہید قاسمی معروف شاعر و ادیب احمد ندیم قاسمی (م 2006) کی بیٹی ہونے کے ساتھ خود بھی ادب کی دنیا میں اہم مقام رکھتی ہیں۔ آپ ایک معروف شاعرہ، ادیبہ بھی ہیں۔ مجلہ فنون جس کی ادارت تقریباً 50 سال تک احمد ندیم قاسمی صاحب نے سنبھالی اب ڈاکٹر ناہید قاسمی یہ ذمہ داری سنبھال رہی ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ کی مختلف تصانیف شائع ہوچکی ہیں۔ ہم ڈاکٹر صاحبہ کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے مجلہ دختران اسلام کے لیے خصوصی وقت دیا۔

س: ڈاکٹر صاحبہ سب سے پہلے ہم آپ کا شکریہ اداکرتے ہیں کہ آپ نے ہمارے لئے وقت نکالا۔ ڈاکٹر صاحبہ اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں بتائیں؟

ج: میری پیدائش وادی سون سکیسر ضلع خوشاب میں انگہ نام کے گاؤں میں ہوئی میرے گاؤں میں اس وقت لڑکیوں کے لئے سکول نہیں تھا لیکن میری والدہ کو مجھے پڑھانے کا بہت شوق تھا لہذا انہوں نے مجھے 3 سال کی عمر میں قریبی علاقہ کے سکول میں داخل کروادیا۔ جب میں تھری کلاس میں ہوئی تو میرا داخلہ لاہور کے سکول میں کروایا گیا مگر مجھے تیسری جماعت کے بجائے پہلی جماعت میں داخلہ دیا گیا جس کی وجہ میرا انگلش سے نابلد ہونا تھا یہ میرے لیے بہت بڑا صدمہ تھا۔

س: آپ نے اعلیٰ تعلیم کہاں سے حاصل کی؟

ج: میرے والد احمد ندیم قاسمی کا تبادلہ چونکہ لاہور چھاؤنی میں ہوا۔ میٹرک سے ایم۔ اے تک لاہور میں پڑھا۔ ایم۔اے پنجاب یونیورسٹی سے کیا اس دوران میری شادی کردی گئی چونکہ میرا سسرال سرگودھا کے گاؤں چک انتیس میں تھا اس لئے شادی کے بعد میرے لئے پڑھائی کرنا تھوڑا مشکل ہوگیا۔ ایم۔اے کا مقالہ میں نے مشہور شاعر ناصر کاظمی پر لکھاایک دن میرے استاد افتخار احمد صدیقی جن کی اباجی سے دوستی بھی تھی انہوں نے ابا جی سے کہا کہ بڑی اچھی اردو کی پوسٹس آئی ہیں تو کوشش کرلیں اس طرح یہ مصروف ہوجائے گی۔

س: اپنی فیملی کے بارے میں بتائیں؟

ج: ہم تین بہن بھائی ہیں۔ دو بہنیں ایک بھائی ہے ایک بہن کی وفات ہوگئی ہے جبکہ میرا ایک بیٹا اور تین بیٹیاں ہیں۔

س: اب تک کن کن تعلیمی اداروں میں اپنی خدمات دے چکی ہیں۔

ج: میں نے باغبانپورہ کالج میں تین سال، اسلامیہ کالج کوپر روڈ میں دس سال، گورنمنٹ کالج سمن آباد میں بطور ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ریٹائرڈ ہوئی۔

س: جیسا کہ ہمارا سلسلہ ’’راہ نورد شوق‘‘ جس کے تحت ہم آج کا انٹرویو کررہے ہیں جس کا مقصد مشکلات کے باوجود کامیابیوں کا سفر طے کرنے والی خواتین کو دیگر خواتین کے لیے بطور رول ماڈل پیش کرنا ہے اگلا سوال اسی سے متعلق ہے کہ آپ کو ملازمت کے دوران مخالفت کا سامنا کرنا پڑا؟

ج: جی بالکل جیسا کہ میں نے بتایا کہ میری شادی جس خاندان میں ہوئی وہاں پردے کا سخت رواج تھا اور لڑکیوں کی تعلیم کا بھی کوئی خاص تصور نہ تھا ایسے میں میری ملازمت پر بھی پرزور مخالفت ہوئی مگر میرے والد احمد ندیم قاسمی اور میرے شوہر کے بھرپور تعاون سے میرا حوصلہ بلند ہوگیا۔

س: آپ نے Ph.D شادی کے بعد کی کیا مشکلات پیش آئیں؟

ج: جیسا کہ میں نے بتایا کہ ایم۔ اے کے دوران شادی کی وجہ سے پڑھائی کرنا مشکل ہوگیا تھا مگر میرے انتہائی مشفق استاد ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی کے بھرپور اصرار پر میں نے Ph.D شروع کی لیکن یہ اتنا آسان نہ تھا گھریلو ذمہ داریاں، ملازمت کے ساتھ Ph.D مکمل کرنا مجھے دس سال لگے اپنی Ph.D مکمل کرنے میں مگر میں مشکلات کے باوجود پیچھے نہیں ہٹی۔

س: Ph.D کے مقالہ کا موضوع کیا تھا؟

ج: میرے مقالہ کا موضوع ’’اردو شاعری میں فطرت نگاری کا فنی و تحقیقی جائزہ‘‘ ہے جبکہ میرے سپروائزر ڈاکٹر سہیل احمد خان (پنجاب یونیورسٹی) تھے۔

س: آپ اپنے والد کے علاوہ کس شخصیت سے متاثر رہی ہیں؟

ج: اپنے والد کے بعد ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی سے متاثر ہوئی ہوں کیونکہ وہ بہت خلوص سے پڑھاتے تھے کچھ اساتذہ چاہتے ہیں کہ طالب علم ان سے آگے نہ نکلیں مگر ڈاکٹر صاحب کی شخصیت ایسی تھی کہ آپ چاہتے تھے کہ تمام تر علم اپنے شاگرد کو دے دوں۔ ان کے علاوہ محترمہ الطاف فاطمہ (عظیم افسانہ نگار) سے متاثر ہورہی ہوں۔

س: ہر شخص کو کامیابی کے سفر میں قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں آپ کے ساتھ بھی ایسا ہوا؟

ج: میں نے جو قربانیاں دیں وہ اتنی زیادہ ہیں کہ ان کی تفصیل بیان نہیں کرسکتی۔ اپنی ذات کی بالکل نفی کردی مگر یہ کرنا پڑتا ہے ہر عورت کو گھر بنانے کے لیے کہیں نہ کہیں اپنی ذات کی نفی کرنی ہوتی ہے۔

س: آپ ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ (اردو سمن آباد کالج) بھی رہیں جبکہ آپ کے گھر میں ملازمائیں بھی نہیں تو گھریلو ذمہ داریوں اور ملازمت میں توازن کیسے رکھ پائیں؟

ج: دیکھیں انسان اگر ہر ذمہ داری کو ان کی جگہ پر رکھ کر سرانجام دے تو پھر بھی مشکل نہیں میں جب کالج جاتی تو گھر کی تمام پریشانیاں کالج کے گیٹ پر رکھ دیتی اور جب کالج سے باہر نکلتی تو گھر کے مسائل کی گٹھری میرے ذہن پر سوار ہوجاتی کیا پکانا ہے؟ کیا کیا کام کرنے ہیں؟ پھر میرا معمول ہمیشہ یہ رہا ہے کہ میں رات 9 بجے تک لازمی سوجاتی ہوں 9 بجے کے بعد ہمارے گھر میں کوئی فون کال تک اٹینڈ نہیں کرتا ہے۔ رات جلدی سونے کی وجہ سے مجھے صبح فجر کے بعد کافی وقت میسر آتا جس میں میں شاعری کرتی، کھانا بھی پکاتی حتیٰ کہ صفائی بھی خود کرکے ملازمت کے لیے روانہ ہوتی۔

س: شاعری کا شوق بچپن سے تھا؟

ج: ابا جی کو دیکھ کر ہم بہن بھائیوں کو بھی شاعری کا شوق ہوتا گرمیوں کی دوپہر میں ہمیں گھر سے نکلنے کی اجازت نہ ملتی تو ہم بہن بھائی گاؤتکیے لگاکر مشاعرہ کے انداز میں بیٹھ جاتے اور ’’ابا جی‘‘ نام کا کھیل کھیلتے جس میں ایک موضوع طے کرلیتے اور پھر اس پر شاعری کرتے یوں یہ شوق ساتھ ساتھ پروان چڑھا۔

س: احمد ندیم قاسمی صاحب آپ کی شاعری سے خوش ہوتے تھے؟

ج: جب ہم نظمیں لکھتے تو بسا اوقات امی وہ شاعری ابا جی کو دکھاتیں وہ غور سے پڑھتے، اصلاح بھی کرتے مگر کہتے کہ پہلے اپنی تعلیم مکمل کرلو۔

س: آپ اپنی زندگی کا قیمتی اثاثہ کسے سمجھتی ہیں؟

ج: میرے لیے میری زندگی بھر کی کمائی یہ ہے کہ میں احمد ندیم قاسمی کی بیٹی ہوں۔

س: آپ کی تصانیف کتنی ہیں؟

ج: تقریباً 10 کے قریب ہیں جن میں سے ایک بنجر دل سیراب کرو کے نام سے شعری مجموعہ ہے جس پر بی ایس سطح پر مقالہ بھی لکھا جاچکا ہے۔

س: زندگی میں کوئی خواہش جو ادھوری رہ گئی ہو؟

ج: ہر خواہش کی تکمیل تو کبھی بھی نہیں ہوتی مگر ایک خواہش جس کا مجھے قلق رہا وہ فائن آرٹ کے شعبہ میں جانے کی تھی جس کی راہ میں خاندانی عوامل رکاوٹ بنے اس قلق نے مجھے شاعری کی طرف زیادہ راغب کیا شاعری کا فائدہ یہ ہوا کہ ماچس کی بجھی ہوئی تیلی سے ماچس کی ڈبیا پر شعر لکھ لیتی ہوں۔

س: عورت بطور ماں، بیوی، بیٹی کے ذمہ داریوں میں توازن کیسے پیدا کرسکتی ہیں؟

ج: میں سمجھتی ہوں کہ کوئی شخص کسی کو کچھ نہیں بتاسکتا۔ ہر شخص کو اپنا راستہ خود ہی بنانا ہوتا۔ اپنی دلدل سے خود ہی نکلنا پڑتا ہے۔ یہ میری زندگی کا تجربہ ہے کسی کے کہنے یا بتانے سے آپ تھوڑی سی مدد لے سکتے ہیں آپ نے زندگی کی مختلف سٹیج کے بارے میں پوچھا ہر سٹیج مختلف ہوتی ہے بیٹی ہونے کی حیثیت سے میری حالت وہ نہ تھی بعد میں بدل گئی۔ شادی کے بعد عورت کو سسرال میں ایڈجسٹ ہونے میں 5 سال کا عرصہ لگتا ہے اس کے بعد اگلے 5 سال معاملات پر اس کی گرفت ہوتی ہے پھر زندگی رواں ہوتی ہے۔ ہم ہر ایک کو ایک مشورہ نہیں دے سکتے وقت کے ساتھ ساتھ حالات مختلف ہوجاتے ہیں اس صورت میں مایوس نہیں ہونا چاہئے کیونکہ ایک ہستی ہمیشہ آپ کے ساتھ ہوتی ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی اگر آپ کا تعلق اُس کے ساتھ ہوگا تو خود ہی راستے بنتے جائیں گے۔ زندگی میں اتار چڑھاؤ ہوتا ہے لیکن مشکل نہیں ہوتی۔

س: آپ کے نزدیک نوجوان نسل میں تربیت کا فقدان کیوں نظر آتا ہے؟

ج: آج نوجوان نسل خصوصاً بچیوں میں عدم برداشت کے فقدان کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے بچوں کی تربیت پر دھیان دینا چھوڑ دیا ہے ہم سمجھتے ہیں بچے گھر میں بیٹھے ہیں ہمارے سب کام ہورہے ہیں مگر جو قدم قدم پر تربیت ہمیں ملتی تھی اب وہ نہیں مل رہی۔ استاد بھی اب تربیت پر توجہ نہیں دیتے صرف سلیبس مکمل کروانے میں لگے ہوتے ہیں۔ آج بچوں کو پتہ ہی نہیں کیا چیز غلط ہے یا صحیح بچوں میں قربانی و ایثار کے جذبات کے بارے میں سکھایا ہی نہیں جاتا بڑے اپنے تجربات کی بنا پر انہیں سمجھاتے ہی نہیں جس کے باعث بچیوں میں عدم برداشت کا رویہ بڑھ رہا ہے۔

س: آپ کے نزدیک اردو ادب کی طرف نوجوان نسل کا رجحان کم کیوں ہوگیا ہے؟

ج: اس کی وجہ مادیت پرستی ہے اب تعلیم کے لیے شعبہ ملازمت کو پیش نظر رکھ کر چنا جاتا ہے۔ مادیت پرستی سے روحانیت کم ہورہی ہے، کوئی فنون پر دھیان نہیں دے رہا ہم فن کو پنپنے کا موقع نہیں دے رہے ہیں، اخبارات میں ادبی صفحہ کم ہوتا جارہا ہے۔

س: ڈاکٹر طاہرالقادری کی شخصیت کو کیسے دیکھتی ہیں؟

ج: ڈاکٹر صاحب علمی شخصیت ہیں میں زمانہ طالب علمی سے ان کے لیکچرز سنا کرتی تھی ان کی گفتگو بلاشبہ بند ذہنوں کو کھولتی ہے۔

س: قارئین کو کیا پیغام دینا چاہیں گی؟

ج: آج کے دور میں کوئی پیغام لینے کو تیار نہیں اب میرا 35 سال کا تجربہ ہے مگر کوئی اس تجربے سے فائدہ اٹھانے کو تیار نہیں۔ گورنمنٹ کا کوئی ایسا دارہ ہونا چاہئے جہاں تجربہ کار لوگوں کے تجربے سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔