قائدِ انقلاب کی جُہدِ مسلسل

مسز فریدہ سجاد، انچارج ویمن ریسرچ اسکالرز فریدِ ملت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری اپنی نوکِ قلم اور اعجازِ سخن کے ذریعے ہمہ جہت پہلوؤں پر غلبہ دینِ حق اور احیائے اسلام کی تگ و دو میں مصروفِ عمل ہیں۔ برصغیر میں آپ کے نظریاتی لیڈر اقبال اور قائد اعظم ہیں۔ اقبال کے خواب کی تکمیل اور قائدِ اعظم کی امنگوں کی ترجمانی کے لیے قدرت نے آپ کا انتخاب کیا ہے۔ سنِ شعور سے ہی آپ نے مایوسی و ناامیدی کے سمندر میں غرق افرادِ ملتِ اسلامیہ کے جذبوں میں تلاطم، فکر میں جلا، خودی کا عرفان اور عزم میں پختگی عطا کی۔ آپ کے افکار و نظریات، طرز عمل اور جُہدِ مسلسل ملت کے لیے اکسیر حیات ثابت ہوئے ہیں۔ سالمیت اور تکمیلِ پاکستان کی جدوجہد میں قائدِ انقلاب اور ان کے کارکنان کی لازوال قربانیوں کی داستان اگرچہ بہت طویل ہے۔ تاہم سانحہ ماڈل ٹاؤن میری سرگزشت کا یقیناً ایسا درد اندوہناک واقعہ ہے، جسے رقم کرتے ہوئے بسا اوقات قوتِ ضبط بھی جواب دے جاتی ہے اور کبھی پورے جسم کا خون منجمد ہونے لگتا ہے۔

انسانی زندگی انفرادی و اجتماعی کرب سے عبارت ہے۔ انفرادی کرب تو ایک جسم اور ایک روح کا کرب ہے جو کسی کو اپنا سمجھ کر بیان کر دیا جائے تو بہت حد تک کم ہو جاتا ہے۔ مگر اجتماعی کرب انتہائی تکلیف دہ ہے کہ جب سب مشترکہ درد و الم میں گرفتار ہوں تو کون کسے آواز دے اور کون کس کا ناخدا بنے؟ بالکل ایسی ہی کیفیات اس وقت پیدا ہوئیں۔ جب قائدِ انقلاب نے ماہ جون 2014ء کو ’’سیاست نہیں ریاست بچاو‘‘ کے نعرے کو عملی شکل دینے کے لیے کرپٹ نظام کے خلاف آواز حق بلند کرتے ہوئے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔ ملت فروش حکمرانوں نے انہیں روکنے کے لیے ایک ایسا گھناؤنا منصوبہ بنایا جس کے تحت 17 جون 2014ء کو منہاج القرآن اور قائدِ انقلاب کے گھر کے سامنے سکیورٹی بیرئیرز ہٹانے کی آڑ میں پاکستان عوامی تحریک کے معصوم، نہتے اور بے گناہ کارکنان کے خون سے قیامت خیز ہولی کھیلی گئی۔ نعرہ تکبیر و رسالت اور یاعلی و یاحسین پکارنے والی سیدہ زینب کی باندیوں کے جبڑوں اور سینوں کو گولیوں سے چھلنی کیا گیا، ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے نظریاتی بیٹوں پر بے رحمانہ لاٹھی چارج کیا گیا اور انہیں گولیاں مار کر خاک و خون میں نہلایا گیا۔ ضعیف العمر افراد پر سفاکیت کی انتہا کرتے ہوئے انہی کے لہو سے ان کے جسموں کو سرخ کر دیا گیا۔ شہدا اور خون میں لُتھڑے زخمیوں کو ہسپتال لے جانے سے روکا گیا۔

ایک طرف سرکاری دہشت گردی کی انتہا تھی تو دوسری جانب عزم و استقلال کے کوہِ گراں ظلم کے طوفان کے سامنے ڈٹے کھڑے تھے۔ قتل و غارت گری پر مبنی دلخراش مناظر پوری دنیا نے میڈیا چینلز پر براہ راست دیکھے جس میں قاتل بھی صاف دکھائی دیئے اور مقتول بھی۔ پنجاب حکومت کے اس ظلم و بربریت کے نتیجے میں 2 خواتین سمیت 14 افراد نے جامِ شہادت نوش کیا اور 100 سے زائد افراد سیدھی گولیاں لگنے کی وجہ سے شدید زخمی ہوئے۔ انقلابی کارکنان نے اپنی جانوں کا نذرانہ تو دے دیا مگر اپنے قائد کے اہل خانہ اور مرکزی سیکرٹریٹ پر آنچ تک نہ آنے دی اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند زبانِ حال سے یوں عرض کناں رہے:

مٹا سکے نہ کوئی سیلِ انقلاب جنہیں
وہ نقش چھوڑے ہیں ہم نے وفا کے رستے میں

سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر درج نہ ہونے کی بنا پر پاکستان عوامی تحریک کے نڈر، مخلص اور بہادر کارکنان نے انصاف اور حصولِ قصاص کے لیے ظالم و جابر حکمرانوں کے ظلم و ستم سہتے ہوئے اپنے عظیم قائد کی جرات مندانہ قیادت میں 14 اگست 2014ء کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا۔ حکومتِ وقت کی جانب سے اس کاروانِ انقلاب کو روکنے کے لیے لاکھوں جتن کیے گئے اور ہر سُو خوف و ہراس مسلط کر دیا گیا۔لانگ مارچ سے قبل ہی ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا اور عامۃ الناس کو شمولیت سے روکنے کے لیے ریاستی دہشت گردی اور ظلم و جبر کی ایک تاریخ رقم کر دی گئی۔ لانگ مارچ میں شرکت کے لئے آنے والوں اور بعد ازاں اسلام آباد ڈی چوک میں دھرنا دینے والوں میں سے بھی 13کارکنوں نے جامِ شہادت نوش کیا، سیکڑوں زخمی ہوئے اور ہزاروں قید و بند کی صعوبتوں میں جھونک دیئے گئے جن کی اکثریت آج بھی سیاسی مقدمات میں کورٹ کچہری کے دھکے کھا رہی ہے ایسے حالات میں جہاں ایک لمحہ گزارنا کٹھن تھا وہاں ان انقلابیوں نے مسلسل جانی، مالی اور جسمانی مصائب و آلام کو صبر و استقامت کے ساتھ برداشت کرتے ہوئے دھرنے کے 70 دن گزارے اور آج بھی صبر و استقامت کا پہاڑ بنے مشکلات و مصائب کا مقابلہ کر رہے ہیں۔

بعد ازاں حکومتی اداروں کی طرف سے انصاف نہ ملنے پر کارکنان شدید تذبذب کا شکار ہو گئے ان کی اضطرابی کیفیات کو ختم کرنے کے لیے قائدِ انقلاب نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ کی روشنی میں کارکنوں کی دلجوئی، حوصلہ افزائی اور ان کے جذبوں میں از سرِ نو تحرک پیدا کرنے کے لیے بہت سے عملی اقدامات اور تربیتی نشستوں کا اہتمام کیا۔ اپنے انقلابی بیٹوں کو سینے سے لگا کر ان کی پیشانیوں کے بوسے لیے اور سیدہ فاطمۃ الزہراء کی باندیوں کے سروں پر دستِ شفقت رکھا۔ شہدا کے ورثاء کی حقِ وفاداری کو خراجِ تحسین پیش کیا، جنہوں نے وقت کے فرعونوں اور قارون کا خزانہ رکھنے والے حکمرانوں کی کروڑوں روپے کی پیشکش کو جوتے کی نوک پر رکھ کر ٹھکرا دیا اور ان کے جذبات کا عالم یہ تھا:

دنیا نے اپنے آپ کو بدلا گھڑی گھڑی
اک اہلِ عشق ہیں کہ جہاں تھے وہیں رہے

قائدِ انقلاب نے پیش آمدہ حالات سے احسن طریقے سے نبرد آزما ہونے کے لیے کارکنان کی تطہیرِ فکر کرتے ہوئے فرمایا:

’’حصولِ انقلاب کی تگ و دو میں مصائب و آلام کا سامنا کرنا اور استقامت سے ڈٹے رہنا انبیاء کرام کی سنت ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی 13سال مکہ مکرمہ میں رہ کر جدوجہد کی اور پھر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ کوئی ایمان والا یہ نہیں کہہ سکتا کہ معاذ اللہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ میں ناکام ہوگئے، اس لیے مکہ چھوڑ کر مدینہ چلے گئے۔ بلکہ مکہ میں رہ کر دعوت دینا بھی ایک حکمت عملی تھی اور مدینہ کی طرف ہجرت کرنا بھی ایک حکمت عملی ہے۔ انقلاب میں کبھی حضر آتا ہے کبھی سفر، کبھی قیام آتا ہے تو کبھی ہجرت، کبھی ایک جگہ پڑاؤ ہوتا ہے توکبھی دوسری جگہ۔ انقلاب کو ہمیشہ محاذ در محاذ تسلسل کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ سو ہم نے محاذ بدلا ہے مگر سفرِ انقلاب نہ رکا تھا، نہ رکا ہے اور نہ کبھی رکے گا۔

یہ ہماری اس انقلابی جدوجہد کا ایک باب تھا، ابھی کتاب مکمل نہیں ہوئی۔ ہم پیغمبرانہ جدوجہد بالخصوص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مبارکہ سے روشنی لیتے ہوئے اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہیں۔ یاد رکھیں کہ نظر ہمیشہ منزل پر رہے، راستے میں آنے والے رکاوٹیں، مشکلات اور نشیب و فراز سفر کو ختم کر دینے کے لئے نہیں بلکہ مزید جرات و استقامت سے آگے بڑھنے کی طرف راغب کرنے کے لیے آتے ہیں۔ فتح انہی کا مقدر بنتی ہے جو گرم و سرد حالات کی وجہ سے سفر چھوڑتے ہیں نہ سمجھوتہ کرتے ہیں، بلکہ قربانیاں دیتے رہتے ہیں۔ میرے بیٹوں اور بیٹیوں کی قربانیوں کا نہ کوئی نعم البدل ہے اور نہ ہی ان کی عظیم قربانیوں کا صلہ دیا جاسکتا ہے۔ ان شاء اللہ! اس شبِ ظلمت کی سحر آپ ہی کے دم قدم سے ہو گی‘‘۔

شب گریزاں ہوگی آخر جلوئہ خورشید سے

آپ نے عملی اقدامات کرتے ہوئے انقلابی جدوجہد کے دوران جسمانی و مالی طور پر متاثرین، اسیران، بے بنیاد اور جھوٹے مقدمات میں ملوث اوربے روزگار تحریکی کارکنان کے لیے داد رسی سیل قائم کرنے کا حکم صادر فرمایا جو حتی المقدور متاثرہ کارکنان اور اُن کی فیملیز کی مالی اعانت کر رہا ہے اس پر تحریک منہاج القرآن اب تک تقریباً کروڑوں روپے خرچ کر چکی ہے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری و ساری ہے۔

حصولِ قصاص کی جدوجہد میں حکومتی حواریوں نے آپ کی شخصیت پر بہت سے بے بنیاد الزامات لگائے۔ مثلاً شہدا کی دیت کے بدلے آپ پر اربوں روپے کی ڈیل، منی لانڈرنگ کا الزام آپ کو کینیڈین ہونے کا طعنہ دیا گیا اور جب آئین کے ابتدائی 40 آرٹیکلز پر عملدرآمد کی بات کی تو آپ کے خلاف بے بنیاد اور من گھڑت 40مقدمات بنا دیئے گئے۔ آپ نے بے بنیاد پروپیگنڈا کرنے والوں کو کھلم کھلا چیلنج کیاکہ ان الزامات کا اگر کسی کے پاس کوئی ثبوت ہے تو وہ لے آئے مگر وقت کے فرعون آج تک کوئی ایک الزام بھی ثابت کرنے کی جرات نہ کر سکے۔

رہے ہیں اور ہیں فرعون میری گھات میں اب تک
مگر کیا غم کہ میری آستیں میں ہے یدِ بیضا

آپ کی ساڑھے تین سال کی جُہدِمسلسل اور استقامت کے بعد جب جسٹس باقر نجفی رپورٹ منظرِ عام پر آئی تو اس پر بھی حکومتِ پنجاب نے دھوکہ دہی پر مبنی پروپیگنڈا مہم شروع کر دی کہ اس رپورٹ میںکہیں بھی سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ داروں کا تعین نہیں کیا گیا۔ آپ کی پی ایچ ڈی چونکہ کریمنالوجی (crimnology) پر ہے۔ آپ نے قانون اور جرم کے فلسفے کو سمجھتے ہوئے جسٹس باقر نجفی کمیشن کی مرتب کردہ رپورٹ سے ایسے پوائنٹس کی نشاندہی کی جو نواز شریف، شہباز شریف، رانا ثناء اللہ اور دیگر ملزمان کا جرم ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں اور واضح کیا کہ جسٹس باقر نجفی نے کمیشن کی کارروائی کا آغاز کرتے وقت پنجاب حکومت کو انکوائری ایکٹ کے سیکشن 11 کے تحت خط لکھا تھا کہ مجھے ذمہ داروں کے تعین کے اختیارات دئیے جائیں جو شہباز شریف کے حکم پر نہیں دئیے گئے جب کہ جسٹس باقر نجفی نے اپنی رپورٹ کے آخر میں ایک اہم جملہ بھی لکھا کہ رپورٹ پڑھنے والا خود ذمہ داری فکس کر لے گا کہ سانحہ ماڈل ٹائون کے ذمہ دار کون ہیں۔ ان حقائق کی روشنی میں آپ نے ثابت کیا کہ یہ رپورٹ مخصوص ہے اور اس میں ذمہ داروں کا واضح تعین کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں ذمہ داروں کو سزائیں دلوانے کیلئے مطلوبہ مواد موجود ہے۔

چونکہ یہ کمیشن ریاست پاکستان کے قانون کے مطابق بنایا گیا تھا سو حکومت کے اس پروپیگنڈا کو بھی آپ نے لغو قرار دیا کہ جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ آپ نے واضح کیا کہ ماضی میں عدالتی کمیشنز کی مرتب کی گئی انکوائریز کی روشنی میں عدالتوں سے فیصلے بھی آئے اور وہ رپورٹس ان فیصلوں کا حصہ بھی بنیں یہ ہائیکورٹ کے جج کی تحقیقات ہیں، اس کی تحقیقی اہمیت عام تحقیقات سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے ڈرافٹ کا اسلوب وہی ہے جو عدالتی فیصلوں کا ہوتا ہے۔

آپ نے پوری رپورٹ کو حرف بہ حرف پڑھنے کے بعد تمام میڈیا چینلز، صحافیوں اور خاص و عام کو بتایا کہ جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ تین حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلاحصہ صفحہ 1 سے 46 تک سانحہ ماڈل ٹائون کے ملزمان کے بیان حلفی پر مشتمل ہے۔دوسرا حصہ صفحہ 46 سے 60 تک ہے یہاں ایجنسیز کی رپورٹس اور میڈیا پرسنز کے بیانات ہیں۔ تیسرا حصہ جو نتیجہ پر مشتمل ہے صفحہ 61 سے 64 تک حقائق بیان کیے گئے ہیں کہ زمین پر ہوا کیا تھا؟ جس طرح عدالت اپنے فیصلے کے آخری حصے میں آرڈر آف دی کورٹ لکھتی ہے اسی طرح کمیشن conclusion کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔

جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کا منظرِ عام پر آنا اللہ تعالیٰ کے عظیم احتساب کا آغاز ہے اور تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں کا اپنے مسلکی اور سیاسی اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر قاتلوں، لٹیروں اور بربریت کرنے والوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے لیے تحریکِ منہاج القرآن کے ساتھ کھڑے ہونا ملکی تاریخ کا ایک قابلِ فخرباب بھی ہے۔ اس سلسلے میں 30 دسمبر 2017 کو آپ کی زیرِ صدارت آل پاٹیز کانفرنس منعقد ہوئی جس میں پاکستان پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، عوامی مسلم لیگ، پاکستان مسلم لیگ ق، جماعت اسلامی، مجلس وحدت المسلمین، پاک سرزمین پارٹی، مسلم کانفرنس، سنی اتحاد کونسل، بلوچستان نیشنل پارٹی اور دیگر جماعتوں نے متفقہ طور پر 10 نکات پر مشتمل ایک قرارداد پاس کی جس میں ختم نبوت کے حلف نامہ میں تبدیلی اور قوانین کو ختم کرنے کی پُر زور مذمت کرتے ہوئے ذمہ داروں کو کڑی سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا کیونکہ یہ کروڑوں مسلمانوں کی نہ صرف ایمانی اساس پر بلکہ آئین پاکستان پر بھی حملہ ہے اور تمام صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ سے مطالبہ کیا گیا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قتل عام کی منصوبہ بندی میں ملوث شہباز شریف، رانا ثناءاللہ اور ان کے دیگرحکومتی حواری، جملہ شریک ملزمان اوربیوروکریٹس کے استعفوں کے مطالبہ پر مبنی قراردادیں منظور کروائی جائیں۔ اے پی سی نے حکومت کو ان مطالبات پر عمل در آمد کے لئے 7 جنوری 2018ء کی ڈیڈ لائن دی، بصورتِ دیگر آئندہ کا لائحہ عمل دینے کا اعلان کیا۔ اسی تناظر میں 8 جنوری کو اے پی سی سٹیرنگ کمیٹی کی میٹنگ منعقد کی گئی جس میں حکومت کے خلاف 17 جنوری سے احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا گیااور یہ فیصلہ کیا گیا کہ اب استعفے مانگیں گے نہیں بلکہ استعفے لیے جائیں گے۔ 17 جنوری سے شروع ہونے والے اس احتجاج کا مرکزی نکتہ سانحہ ماڈل کے شہداء کا مقدس خون ہی ہے جس نے مختلف نظریات رکھنے والے اپوزیشن لیڈروں کو انصاف کے حصول کے لیے ایک ساتھ بیٹھنے پر مجبور کردیا۔ شہدا کی روحیں فیصلہ کُن کردار کی منتظر ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ قوم مہر بہ لب تماشا دیکھنے کی بجائے متحد ہو کر اپنی قوت و طاقت کا مظاہرہ کرے۔ معاشرے کے ہر فرد پر لازم ہے کہ حرمتِ انسانیت اور خونِ ناحق کا قرآن و سنت اور آئین کے مطابق انتقام لینے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں تاکہ وطنِ عزیز سے ناانصافی اور بدعنوانی کا خاتمہ ہو سکے۔ ان شاء اللہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کا خونِ شہادت رنگ لائے گا اوران کے قاتل تختہ دار پر لٹکائے جائیں گے اور وہ وقت دور نہیں جب

دربارِ وطن میں اک دن سب جانے والے جائیں گے
کچھ اپنی سزا کو پہنچیں گے، کچھ اپنی جزا لے جائیں گے

اے خاک نشینو! اُٹھ بیٹھو وہ وقت قریب آ پہنچا ہے
جب تخت گرائے جائیں گے، جب تاج اُچھالے جائیں گے

اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں، اب زندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھوم کے اُٹھے ہیں تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے

کٹتے بھی چلو، بڑھتے بھی چلو، بازو بھی بہت ہیں سر بھی بہت
چلتے بھی چلو کہ اب ڈیرے منزل پہ ہی ڈالے جائیں گے

اے ظلم کے ماتو لب کھولو، چپ رہنے والو چپ کب تک
کچھ حشر تو اِن سے اُٹھے گا، کچھ دور تو نالے جائیں گے