انوارالمصطفیٰ ہمدمی

کسی در پر بہاروں کا کوئی پیغام لکھا تھا
دعاؤں کی ہتھیلی پر تمہارا نام لکھا تھا

سنا ہے ڈھانپ رکھا تھا تجھے تاروں کی شالوں نے
سنا ہے پہلے چوما تھا ترا ماتھا اُجالوں نے

تری آواز سے نغموں کا جھرنا کوئی پھُوٹا تھا
تسلط شب کی دیواروں سے خاموشی کا ٹوٹا تھا

سنا ہے تجھ پہ خود قوسِ قزح نے رنگ چھڑ کے تھے
سنا ہے قافلے خوشبو کے تیرے گھر میں اترے تھے

سنہرے موسموں کی آہٹیں تھیں دھڑکنیں تیری
خدا رکھے سلامت جانِ جاناں نگہتیں تیری

اتر کے روزنوں سے تجھ کو کرنیں دیکھنے آئیں
ادائیں خود تری معصومیت میں ڈوبنے آئیں

قبولیت کی ساعت آرزو سے ملنے آئی تھی
سنا ہے صبح تیرے عارضوں پہ کھلنے آئی تھی

تمہاری بند مٹھی میں، سنا ہے قید تھے جگنو
سنا ہے کہکشاؤں کی علامت تھے ترے ابرو

اداسی میں گھرے ماحول کو تو نے نکھارا تھا
سنا ہے خود بلاؤں نے ترا صدقہ اتارا تھا

سلامی دی گلابوں کی رتوں نے تیرے ہونٹوں کو
سنا ہے بُو صبا نے پائی، چھو کے تیری سانسوں کو

سنا ہے تیری پہلی نیند کا منظر کچھ ایسا تھا
پروں پر تتلیوں کے تیرا پہلا خواب رکھا تھا

اِسی دن دستِ قدرت نے کوئی شمع جلائی تھی
سنا ہے زندگی بس، آج کے دن مسکرائی تھی