مرتبہ: عابدہ قاسم

اقوال زریں

  • دنیا کا سب سے خوبصورت پودا محبت کا ہوتا ہے جو زمین میں نہیں بلکہ دلوں میں اگتا ہے۔ (حضرت علی علیہ السلام)
  • معروف زندگی نماز کو بھی مشکل بنادیتی ہے لیکن نماز معروف زندگی کو بھی آسان بنادیتی ہے۔
  • اپنا سر اونچا رکھو کہ تم کسی سے نہیں ڈرتے لیکن اپنی نگاہیں نیچی رکھو تاکہ پتہ چلے کہ تم ایک باعزت گھرانے سے تعلق رکھتے ہو۔ (حضرت علی علیہ السلام)
  • مسرت تمام اعلیٰ خوبیوں کی ماں ہے۔
  • ہر چیز کی زکوٰۃ ہے۔ گھر کی زکوٰۃ مہمان ہے۔
  • واسطے اور وسیلے جس قدر زیادہ ہوں۔ اسی طرح راستہ روشن اور نزدیک ہوتا ہے۔
  • بدگمانی تمام فوائد کو بند کردیتی ہے۔
  • پرانا دوست سب سے بہترین آئینہ ہے۔
  • اپنی خامیوں کا احساس ہی کامیابیوں کی کلید ہے۔
  • جس دروازے سے شک اندر آتا ہے محبت اور اعتماد اس دروازے سے باہر نکل جاتا ہے۔
  • عقلمند وہ ہے جو ہر کام میں میانہ روی اختیار کرے۔
  • کمزور انسان کبھی بھی معاف نہیں کرسکتا معاف کرنا مضبوط لوگوں کی صفت ہے۔

(حفصه بی بی. بی ایس-vi)

اقوال زریں

  • تحریک منہاج القرآن کوئی فرقہ وارانہ یا ہنگامی نہیں بلکہ یہ ایک دائمی انقلابی تحریک ہے۔
  • انسان کو ذکر اور صبر ہر حال میں جاری رکھنا چاہئے۔
  • نمونہ کمال اسی طرز عمل کو قرار دیا جاسکتا ہے جو قابل تقلید بھی ہو۔
  • عشق سننے سنانے کی نہیں بلکہ چکھنے کی چیز ہے۔

اہم معلومات

  • کس شہر کو مدینۃ المساجد کہا جاتا ہے؟ (آزاد جموں کشمیر کے شہر کوٹلی کو)
  • مدینۃ الاولیاء کس شہر کو کہا جاتا ہے؟ (ملتان کو)
  • وہ کون سا پھول ہے جو کھایا جاتا ہے پر سونگھا نہیں جاتا؟ (گوبھی کا)
  • دنیا میں سب سے پہلا کپڑا کس چیز سے تیار کیا گیا؟ (اون سے)
  • ریشم کا کیڑا کس درخت پر پروان چڑھتا ہے؟ (شہتوت پر)
  • قرآن پاک میں کل کتنے انبیاء کرام کا نام آیا ہے؟ (26)
  • پاکستان سکّے اور نوٹ پہلی بار کب شائع ہوئے؟ (3 جنوری 1948ء)

تعمیر شخصیت

جب ہم تعمیر شخصیت کی بات کرتے ہیں تو سادہ الفاظ میں شخصیت کسی انسان کی اکتسابی و غیر اکتسابی خصوصیات کا مجموعہ ہے مثلاً اگر کوئی پوچھے کہ تمہارے دوست کی شخصیت کیسی ہے؟ تو ہم جواب میں فوراً اس کی چند صفات کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ محنتی، وقت کا پابند، ذہین اور مخلص ہے ان میں سے بہت ساری خصوصیات مستقل ہوتی ہیں لیکن طویل عرصے کے دوران ان میں کچھ تبدیلیاں بھی پیدا ہوتی رہتی ہیں اور انہی خصوصیات کی بنیاد پر ایک شخص دوسرے سے الگ نظر آتا ہے اور ہر معاملے میں دوسروں سے مختلف رویے کا اظہار کرتا ہے۔ علم نفسیات کی طرح شخصیت اور کردار کی تعمیر دین کا بھی اہم موضوع ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی جو ہدایت انبیاء علیہم السلام کے ذریعے دنیا میں بھیجی ہے اس کا بنیادی مقصد ہی یہی ہے کہ انسان کی شخصیت اور کردار کی صفائی کی جائے اسی کا نام ’’تزکیہ نفس‘‘ ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰـتِهٖ وَیُزَکِّیْهِمْ وَیُعَلِّمُهُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ.

’’وہی ہے جس نے ان پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (با عظمت) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا وہ اُن پر اُس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں۔ اور اُن (کے ظاہر و باطن) کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔‘‘

الجمعة، 62:92

انسان کے اندر بنیادی طور پر دو قسم کی صفات ہوتی ہیں ایک وہ جو اللہ کی طرف سے عطا کردہ ہوتی ہیں وہ قدرتی یا غیر اکتسابی صفات کہلاتی ہیں مثلاً رنگ و نسل، شکل و صورت اور ذہانت وغیرہ۔ ان صفات کو انسان بہت زیادہ نہیں بدل سکتا لیکن ان خصوصیات کا صحیح استعمال کرنا انسان کے اختیار میں ہوتا۔ یعنی اگر کسی انسان کو اللہ کی طرف سے ذہانت عطا ہوئی ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اسے اللہ کی راہ میں استعمال کرے اور اس سے اللہ کی معرفت حاصل کرے۔ انسان کے اندر دوسری وہ خصوصیات ہیں جنہیں انسان اپنے اندر یا تو خود پیدا کرسکتا ہے یا پھر اپنی قدرتی صفات میں کچھ تبدیلیاں پیدا کرکے انہیں حاصل کرسکتا ہے یا پھر یہ اس کے ماحول کی پیداوار ہوتی ہیں یہ اکتسابی صفات کہلاتی ہیں۔ مثلاً انسان کی علمی سطح، اس کا پیشہ، فکر وغیرہ۔ شخصیت کی تعمیر ان دونوں طرز کی صفات کو مناسب حد تک ترقی دینے کا نام ہے۔ انسان کو چاہئے کہ وہ اپنی شخصیت کو دلکش بنانے کے لیے اپنی قدرتی صفات کو ترقی دے کر ایک مناسب سطح پر لے آئے اور اکتسابی صفات کی تعمیر کا عمل بھی جاری رکھے۔ شخصیت کے باب میں آئیڈیل ترین شخصیت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخالفین نے بھی آپ کی شخصیت کے اعلیٰ ترین اور آپ کے اسوہ کا کامل ہونے کا کھلے لفظوں میں اقرار کیا ہے۔

شخصیت اور کردار کی تعمیر میں محاسبہ نفس اور تجزیہ ذات ایک بہت اہم چیز ہے۔ جس کے بغیر کسی شخصیت اور کردار کی تعمیر مناسب طریقے سے ممکن نہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنی ذات کے دو پہلو مضبوط پہلو اور کمزور پہلوئوں پر غوروفکر کرے پھر دیکھے کہ اس کے اندر کیا کیا خوبیاں ہیں ان کو اور زیادہ مضبوط کرے اور اپنی ذات کے کمزور پہلو کو ختم کرے پھر ہی ایک انسان کی شخصیت کی تعمیر مناسب طریقے سے ہوتی ہے۔ جب کوئی انسان اپنی ذات کا محاسبہ کرتا ہے تو اس کے بدلے میں اس کی ذات سے اخلاق رذیلہ یعنی غیبت، چغلی، جھوٹ، کینہ، تنگ نظری اور منفی سوچ وغیرہ کا خاتمہ ہوتا ہے اور اس کے بدلے میں اخلاق حسنہ یعنی احساس ذمہ داری، جوش ولولہ، قانون کی پاسداری، خود مختاری وغیرہ پیدا ہوتی ہے۔ انسان کی شخصیت کی بہتر تعمیر کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنے ماحول پر نظر رکھے اور اپنے ماحول کی برائیوں کو ختم کرنے کی کوشش کرے کیونکہ جو برائیاں ماحول میں پائی جاتی ہیں وہ جلد یا بدیر انسان کی شخصیت پر اثر انداز ہوتی ہے چاہے وہ اس سے جتنا بھی بچنے کی کوشش کرے۔ اس لیے ضروری ہے کہ تجزیہ ذات کیا جائے اور ماحول پر کڑی نظر رکھی جائے کیونکہ اس کے بغیر شخصیت اور کردار کی صحیح تعمیر ممکن نہیں۔ (ام کلثوم۔ قصور)