اسلام نے ناموسِ نسواں کی اہمیت کو اجاگر کیا

ام حبیبہ

عصر حاضر میں عورت کی حیثیت سے متعلق معاشرہ اس ابہام کا شکار ہے کہ اسلام میں عورت کی حیثیت بہت زیادہ نہیں ہے خصوصاً مغربی معاشرہ یہ باور کروانے میں مصروف ہے کہ اسلام عورت کو چار دیواری میں قید کرکے رکھنا چاہتا ہے اور اس نظریے کا پرچاروہ آج کل میڈیا کے ذریعے بھرپور انداز میں کررہا ہے۔ بدقسمتی سے کچھ کم فہم لوگ اس نظریے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اسلام کے عورت کے بارے میں نظریات کو دقیانوسی قرار دیتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم اسلام سے قبل کے معاشروں کو اْٹھالیں وہی معاشرے جو آج سب سے زیادہ عورتوں کے حقوق کی بات کر رہے ہیں خود اْن کے ماضی میں عورت کے ساتھ کیا سلوک روارکھا گیا ہے چاہے وہ یونان ہو روم ہو، یورپ ہو یا ہندوستان ہو کس معاشرہ نے عورت کے ساتھ حسن سلوک کا رویہ رکھا اسلام کے آنے سے پہلے دنیا نے عورت کو ایک غیر مفید بلکہ مختلف تمدن عنصر سمجھ کر میدان عمل سے ہٹا دیا تھا اور اسے پستی کے ایک غار میں پھینک دیا تھا جس کے بعد اس کے ارتقا کی کوئی توقع نہ تھی اسلام نے دنیا کی اس روش کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیا اور بتایا کہ زندگی، مرد اور عورت دونوں کی محتاج ہے عورت اس لیے نہیں پیدا کی گئی کہ اسے دھتکار دیا جائے اور شاہراہِ حیات سے کانٹے کی طرح ہٹا دیا جائے کیونکہ جس طرح مرد اپنا مقصد وجود رکھتا ہے اس طرح عورت کی تخلیق کی بھی ایک غایت ہے اور قدرت ان دونوں اصناف کے ذریعہ مطلوبہ مقاصد کی تکمیل کر رہی ہے۔(عمری، ص: 65)

اسلام میں عورت کی حیثیت سے متعلق ڈاکٹر محمد طاہر القادری لکھتے ہیں:

اسلام کی آمد عورت کے لیے غلامی، ذلت اور ظلم واستحصال کے بعد حصول آزادی کا پیغام تھی۔ اسلام نے ان تمام قبیح رسوم کا قلع قمع کر دیا جو عورت کے انسانی وقار کے منافی تھیں اور عورت کو وہ حقوق عطا کیے جس سے وہ معاشرے میں اس عزت و تکریم کی مستحق قرار پائی جس کے مستحق مرد ہیں۔

(قادری، اسلام میں انسانی حقوق، ص: 365)

اسی طرح ظفیر الدین لکھتے ہیں:

اعتدال کے فطری نکتہ پر اسلام نے انسانوں کو لا کر کھڑا کر دیا جس کا جو حق تھا وہی اس کو دیا گیا ظلم و ستم کی چکیوں میں پسنے والی صنف نازک (عورت) کو بھی پوری قوت کے ساتھ اسلام نے اپنے دامن حمایت کے سایہ میں لیا ناموس نسواں کی قدروقیمت کے سوال کو زندہ کیا گیا اس راہ میں کسی قسم کی چشم پوشی روانہ رکھی گئی۔

(ظفیر الدین، اسلام کا نظام عفت و عصمت، ص: 44)

بلاشبہ اسلام نے عورت کو وہ حقوق دیئے جو مغرب میں عورت آج بھی پوری طرح حاصل نہیں کر سکی مگر ان تمام جامع حقوق کے باوجود آج اسلام کے بارے میں تصور کیا جاتا ہے کہ وہ عورت کو بنیادی حقوق دینے سے قاصر ہے اور عورت کو جہالت کے اندھیروں میں دھکیل رہا ہے افسوس کا مقام کہ جس اسلام نے پہلی مرتبہ عورتوں کو حقوق سے روشناس کروایا آج اس الزام کی زد میں ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ معاشرے کے اتار چڑھاو میں جہاں طبقاتی تقسیم آئی اور اسلام کے ساتھ دیگر تہذیبوں کا ارتباط ہوا وہیں عورت کو پھر سے معاشرتی حقوق سے محروم کر دیا گیا مگر پھر بھی اسلامی شریعت میں عورت کے جو حقوق مقرر کر دیئے گئے انہیں کوئی تبدیل نہیں کر سکا۔ آج دیگر مذاہب کی طرح اسلام بھی آزادی نسواں (Feminism) کے نعرہ کی زد میں ہے آزادی نسواں کی گونج دیگر ممالک کی طرح پاکستانی معاشرہ میں بھی سنائی دی گئی جس کا محرک اگرچہ کہیں نہ کہیں پاکستانی معاشرے میں موجود رسوم و رواج بھی ہیں جو عورت کو اس کے جائز حقوق جو اسلام نے متعین کیے تھے فراہم کرنے کے لیے موثر حکمت عملی وضع نہیں کرسکے یہی وجہ ہے کہ خواتین کی قرآن پاک سے شادی، کاروکاری جیسے قوانین کے ہوتے ہوئے پاکستانی عورت کو یوں محسوس ہو رہا تھا کہ وہ ظلم کی چکی میں پس رہی ہے۔

جبکہ اگر ہم اسلام میں حقوق نسواں پر نظر ڈالیں تو جس طرح اسلام نے عورت کی شخصیت کو Empowered کیا اس کی نظیر نہیں ملتی۔ اسلام نے عورت کی سماجی، معاشی، سیاسی حیثیت کا تعین کیا لہذا اسلام کے عورت سے متعلق نظریات کو دقیانوسی قرار دینا سراسر غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے چودہ سو سال قبل عورت کو انفرادی و اجتماعی حقوق میں آزادی دی وہ مغربی معاشرہ آج تک دینے سے قاصر ہے مثلاً خواتین کو انتخابات میں مردوں کے برابر حق رائے دہی نیوزی لینڈ نے 1893ئ، فن لینڈ میں 1906ء، ناروے 1917ء جبکہ برطانیہ میں 1928ء میں ملا (انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا) جبکہ اسلام نے یہ حق 14 سو سال قبل دیا۔ اسلام نے عورت کے انفرادی و اجتماعی سطح پر حقوق متعین کئے اور ان حقوق میں اسے تصرف کی مکمل آزادی دی کہ وہ جیسے چاہے اپنا حق استعمال کرے درحقیقت یہ اس کی حقیقی آزادی ہے اسلام نے درج ذیل حقوق کی صورت میں عورت کو آزادی دی۔

1۔ازدواجی زندگی میں آزادی

اسلام نے ازدواجی زندگی میں عورت کو درج ذیل حقوق فراہم کیے۔:

(i) نکاح کے فیصلہ کی آزادی:

شادی کے فیصلہ میں بھی اسلام نے عورت کو آزادی دی کہ اگر وہ رضا مند نہ ہو تو ولی اسکی اجازت کے بغیر نکاح نہیں کر سکتا اس سلسلے میں ڈاکٹر محمد طاہر القادری لکھتے ہیں۔

بالغ خاتون کو یہ اختیار حاصل ہے کہ اگر ولی نے اس کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح کیا ہو تو عدم رضا کی بنا پر اسے اس نکاح کو تسلیم نہ کرنے اور باطل قرار دینے کا اختیار حاصل ہے۔(قادری، ص: 392)

(ii) نان و نفقہ کا حق:

اسلام نے عورت کو نکاح کے ساتھ جو حق دیا وہ مرد کے ذمے عورت کا نان و نفقہ بھی ہے، مرد کو عورت کی جملہ ضروریات پوری کرنے کیلئے کفیل بنایا قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر مرد کو عورت کے حقوق پورے کرنے کا حکم دیا اور مرد کو عورت پر فضیلت دی۔

ایک شخص نے بارگاہِ رسالت میں عرض کیا! عورت کا خاوند پر کیا حق ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو خود کھائے تو اْسے بھی کھلائے، جو خود پہنے تو اسے بھی پہنائے، اس کے منہ پر نہ مارے اْسے برا نہ کہے اور گھر کے علاوہ تنہا نہ چھوڑے۔‘‘

(ابن ماجہ، سنن ابن ماجہ، 593:1، رقم الحدیث:185)

(iii) حق مہر کا تقرر:

مہر کا حق اگرچہ کسی نہ کسی صورت میں دیگر سامی مذاہب میں بھی موجود ہے مگر اسلام نے اس کی اہمیت کو مزید اْجاگر کر دیا ایک طرف عورت شادی کے بعد اپنے خرچے سے بے پروا ہو جاتی ہے کیونکہ اب یہ اْسکے شوہر کے ذمے ہے کہ وہ کما کر اس کی ضروریات پوری کرے دوسری طرف مہرکی صورت میں ایک ایسا حق عورت کو دے دیا کہ اس صورت میں ملنے والے مال پر عورت اختیار رکھتی ہے وہ اس کی ملکیت میں ہوتا ہے اور مرد کے ذمے ادا کرنا لازم ہوتا ہے پھر اس حق میں مزید خوبصورتی یہ عطا کی کہ اگر شوہر بیوی کو طلاق دے دے تب بھی وہ مہر جو وہ ادا کر چکا ہے واپس نہیں لے سکتا اس سلسلہ میں ارشاد ربانی ہے:

وَاٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةًط فَاِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَیْئٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَکُلُوْهُ هَنِیْئًا مَّرِیْئًا.

’’ اور عورتوں کو ان کے مَہر خوش دلی سے ادا کیا کرو، پھر اگر وہ اس (مَہر) میں سے کچھ تمہارے لئے اپنی خوشی سے چھوڑ دیں تو تب اسے (اپنے لئے) سازگار اور خوشگوار سمجھ کر کھاؤ ۔‘‘

(النساء ،4: 4)

(iv) حق خلع کی صورت میں آزادی:

اسلام نے جہاں عورت کو نکاح جیسے مقدس بندھن کا حق دیا وہیں مردوں کے مساوی یہ حق بھی دیا کہ اگر وہ شوہر کو ناپسند کرتی ہو یا شوہر اْس پر ظلم و ستم کرتا ہو یا وہ اپنے شوہر کی بداخلاقی سے تنگ ہو تو وہ شوہر سے خلع لے سکتی ہے جبکہ اس صورت میں عورت کو اپنا حق مہر جو شوہر کے ذمے ہے معاف کرنا ہوتا ہے یا واپس کرنا ہوتا ہے۔

’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت ثابت بن قیس کی اہلیہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئیں: یارسول اللہ! میں کسی بات پر ثابت بن قیس سے ناخوش نہیں ہوں، نہ ان کے اخلاق سے اور نہ ان کے دین سے، لیکن میں اسلام میں احسان فراموش بننا ناپسند کرتی ہوں۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: کیا تم ان کا باغ واپس دینا چاہتی ہو؟ اْنہوں نے کہا: ہاں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ان کا باغ دیدو اور ان سے طلاق لے لو۔‘‘

بخاری، الصحیح، کتاب الطلاق، باب الخلع ج: 5،ص: 2012، رقم: 4971

2۔ عزت نفس کے تحفظ کی آزادی:

عزت نفس کا تحفظ ہر انسان کا بنیادی حق ہے آج UNO اپنے چارٹر کے ذریعے کسی دوسرے کی عزت نفس مجروح کرنے سے منع کر رہا ہے جبکہ اسلام نے آج سے کئی سو سال قبل یہ حق مردو عورت دونوں کو عطا کر دیا تھا۔ عورت کی عزت نفس کے تحفظ کو اسلام نے یقینی بنایا مردوں کو عورت پر ظلم و ستم کرنے اور انہیں بْرا بھلا کہنے سے منع کیا کہ کہیں اْن کی عزت نفس کو ٹھیس نہ پہنچے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَاَمْسِکُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ سَرِّحُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ وَّلَا تُمْسِکُوْهُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْاج وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهٗط وَلَا تَتَّخِذُوْٓا اٰیٰتِ اﷲِ هُزُوًا وَّاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اﷲِ عَلَیْکُمْ وَمَآ اَنْزَلَ عَلَیْکُمْ مِّنَ الْکِتٰبِ وَالْحِکْمَةِ یَعِظُکُمْ بِهٖط وَاتَّقُوا اﷲَ وَاعْلَمُوْآ اَنَّ اﷲَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ.

’’ اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آپہنچیں تو انہیں اچھے طریقے سے (اپنی زوجیّت میں) روک لو یا انہیں اچھے طریقے سے چھوڑ دو، اور انہیں محض تکلیف دینے کے لئے نہ روکے رکھو کہ (ان پر) زیادتی کرتے رہو، اور جو کوئی ایسا کرے پس اس نے اپنی ہی جان پر ظلم کیا، اور اللہ کے احکام کو مذاق نہ بنا لو، اور یاد کرو اللہ کی اس نعمت کو جو تم پر (کی گئی) ہے اور اس کتاب کو جو اس نے تم پر نازل فرمائی ہے اور دانائی (کی باتوں) کو (جن کی اس نے تمہیں تعلیم دی ہے) وہ تمہیں (اس امر کی) نصیحت فرماتا ہے، اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ بیشک اللہ سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘

(البقره، 2: 231)

3۔ انفرادی آزادی کا حق:

اسلام نے عورت کو انفرادی سطح پر بھی آزادی کا حق دیا ہے جس کے تحت وہ اپنی زندگی کے کچھ معاملات کو اپنی مرضی کے مطابق چلا سکتی ہے اسلام نے انفرادی سطح پر عورت کو درج ذیل حقوق عطا کیے۔

(i) حق تعلیم و تربیت میں آزادی:

اسلام میں عورت کو مرد کے برابر تعلیم کے مواقع فراہم کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کرتے ہیں کہ خواتین نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ کے اوپر مرد غالب ہو گئے ہیں آپ اپنی طرف سے ہمارے لیے ایک دن مقرر کردیں۔ آپ نے ان سے ایک دن کا وعدہ فرمایا جس دن میں آپ نے ان سے ملاقات کی، ان کو نصیحت کی اور ان کو(کچھ اعمال کا) حکم دیا اور آپ نے ان سے جو کچھ فرمایا اس میں یہ بھی ارشاد تھا تم میں سے جو عورت بھی اپنے تین بچوں کو پہلے بھیج دے گی وہ اس کیلئے دوزخ کی آگ سے حجاب ہو جائیں گے ایک خاتون نے کہا اور دوآپ نے فرمایا اور دو بھی۔‘‘

بخاری، الصحیح، کتاب العلم، باب هل یجعل للنساء یوم، ص: 101-100، رقم:101

معاشرے میں افراد کے اچھے یا برے ہونے کا تعلق بھی عورت کی تعلیم و تربیت سے جڑا ہے ایک پڑھی لکھی ماں ہی اپنے بچوں کو معاشرے کا مفید رکن بنا سکتی ہے۔

اسی لیے اسلام کے آغاز سے ہی عورتوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی گئی عہد رسالت میں بہت سی صحابیات ایسی تھیں جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلیم و تربیت حاصل کرتیں اور صحابہ کرام کی طرح احادیث بھی روایت کرتی تھیں چند درج ذیل ہیں۔

اْم حکیم:

یہ سلیم بن عمروبن احوص کی والدہ ہیں۔ اسلام لائیں شرف بیعت حاصل کیا اور ان سے کچھ احادیث بھی مروی ہیں۔

البصری، محمد بن سعد ابو عبد اللہ، طبقات ابن سعد، ص:725، کراتشی دارالاشاعت

سرابنت نبھان غنویہ:

یہ بھی اسلام لائیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ احادیث مبارکہ روایت کرتی ہیں۔

ازواج مطہرات کے علاوہ صحابیات میں بھی علم کا ذوق بہت زیادہ تھا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مسائل کا حل دریافت کرتی تھیں۔

اْم ساع نامی خاتون نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا ہم اپنی اولاد کی طرف سے عقیقہ کریں فرمایا، ہاں لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری۔

البصری، ص: 529-527

(ii) تجارت کی آزادی:

اسلام صرف خواتین کیلئے تعلیم و تربیت کے مواقع ہی فراہم نہیں کرتا بلکہ مسلمان خواتین عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور بعدازاں تجارت بھی کرتی رہیں ہیں۔

ربیع بنت معوذ بن عفرا سے مروی ہے کہ میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں انصاری عورتوں کی ایک جماعت کے ساتھ ابوجہل کی ماں اسما بنت مخربہ کے پاس گئی ان کے بیٹے عبد اللہ بن ابی ربیعہ ان کیلئے یمن سے عطر بھیجا کرتے تھے اور اس کو فروخت کر دیا کرتی تھیں۔ ہم بھی ان سے عطر خریدا کرتے تھے بہر حال جب انہوں نے میری شیشی میں عطر ڈالا اور دوسری عورتوں کی طرح اس کا بھی وزن کیا تو کہا اے عورتو! اپنے اوپر میرا حق لکھ لو۔

البصری، 4: 522

اسلام میں خواتین کی حیثیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ تھیں تجارت کرتی تھیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انکا مال لیکر ملک شام گئے تھے اس کے بعد یہ سلسلہ خلفائے راشدین کے بعد تاریخ اسلام میں جاری رہا۔ اسلام نے کبھی خواتین کی حوصلہ شکنی نہیں کی انہیں بھی روزگار کے مواقع ویسے ہی میسر ہیں جیسے مردوں کو ہاں حدود کا تعین ضرور کر دیا تاکہ بہت سی برائیوں سے محفوظ رہا جا سکے۔

عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ریطہ بنت عبد اللہ جو کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی زوجہ تھیں ایک صنعت گر خاتوں تھیں ایک دن عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایک صنعت گر عورت ہوں اور اپنے ہاتھ کی بنی ہوئی چیزیں فروخت کرتی ہوں۔ میرے شوہر اور میری اولاد کے پاس کچھ بھی نہیں ہے یہ اصل میں پوچھ رہی تھیں کہ میں اپنے شوہر اور بچوں پر اپنے مال میں سے خرچ کر سکتی ہوں؟ آپ نے فرمایا کہ جو کچھ تم ان پر خرچ کرو گی تمہیں اجر ملے گا۔

البصری، 4: 516

غرض عہد رسالت میں ہی خواتین خود مختاری سے مال کما سکتی تھیں۔

4۔ عورت کو سیاسی حقوق میں آزادی:

اسلام نے خواتین کی تعلیم و تربیت پر ہی زور نہیں دیا بلکہ اپنے وجود کے ساتھ ہی اسلام نے ریاست کی تشکیل میں خواتین کو بھی شامل کیا تاریخ میں ایسی بہت سی خواتین کے نام سر فہرست ہیں جنہوں نے تشکیل مملکت کیلئے گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔

5۔ ریاست کے دفاع میں شرکت کا حق:

تاریخ اسلامی میں ایسی جنگجو خواتین کا ذکر بھی ملتا ہے جنہوں نے جنگی خدمات سرانجام دیں عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہی اس کا آغاز ہو گیا جن میں حضرت اْم عمارہ رضی اللہ عنہا کا نام سر فہرست ہے۔

(i) حضرت اْم عمارہ رضی اللہ عنہا:

اْم عمارہ اسلام کی دولت سے بہرہ ور ہوئیں یہ بیعت عقبہ والی رات بھی حاضر تھیں اور بیعت کا شرف بھی انکو حاصل ہے۔ غزوہ اْحد ، حدیبیہ، خیبر، حنین، جنگ یمامہ میں شریک رہیں اور جنگ یمامہ میں ان کا ہاتھ کاٹا گیا، یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ احادیث بھی نقل کرتی ہیں۔

البصری، 4: 577

(ii) حضرت اْم عطیہ انصاریہ:

یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بعض غزوات میں شریک رہیں حفصہ بنت سیرین اْم عطیہ سے نقل کرتی ہیں وہ فرماتی ہیں کہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سات غزوات میں شریک رہی، میں مجاہدین کیلئے کھانا تیار کرتی، ان کے خیموں کی نگرانی کرتی، زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی اور مریضوں کی دیکھ بھال کیا کرتی تھی۔

البصری، ص:603

(iii) حضرت اْم ورقہ:

یہ عبد اللہ بن حارث کی بیٹی تھیں۔ اسلام لائیں اور شرف بیعت حاصل کیا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے احادیث بھی نقل کرتی رہیں۔ ولید بن عبد اللہ بن جمیع اپنی دادی سے اور وہ اْم ورقہ سے نقل کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے ملاقات کیلئے تشریف لایا کرتے تھے اور ان کو شہیدہ کے لفظ سے پکارتے تھے آپ نے انہیں حکم فرمایا تھا کہ اپنے گھر والوں کی نماز میں امامت کیا کرو۔

البصری، 4: 348

6۔ سیاسی معاملات میں مشاورت کا حق:

اسلام سے قبل عورت ظلم کی چکی میں پس رہی تھی اسلام نے عورت کے حقوق متعین کیے ساتھ ساتھ خواتین کی رائے کو سیاسی معاملات میں بھی تسلیم کیا جاتا اور اس عمل کی بنیاد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود رکھی اس سلسلہ میں صلح حدیبیہ کا واقع کو دیکھا جائے تو جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام کو جو کہ کفارمکہ سے معاہدہ کے بعد مغموم تھے انہیں قربانی اور بال کٹوانے کا کہا تو صحابہ میں سے کوئی کھڑا نہ ہوا آپ حجرے میں تشریف لے گئے اْس وقت حضرت اْم سلمہ سے مشورہ کیا یہاں سے سیاسی معاملات میں عورت کی رائے کا تسلیم کیا جانا ثابت ہوتا ہے۔ اس کے بعد یہ عمل خلفائے راشدین نے بھی جاری رکھا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ خواتین کی رائے کو بہت اہمیت دیتے تھے آپ کے وصال کے بعد حضرت عبد الرحمن بن عوف کی سربراہی میں بنائی گئی مجلس شوری کا ایک اجلاس بعض روایات میں فاطمہ بنت قیس فہریہ اور بعض روایات میں ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں منعقد ہوا تاکہ انکی رائے بھی لی جاسکے۔

7۔ انتظامی ذمہ داریوں پر تقرری کی آزادی:

اسلام نے خواتین کیلئے ایسے مواقع بھی فراہم کیے جس میں وہ ریاست کے انتظامی معاملات پر بھی ذمہ داریاں سرانجام دے سکتی تھیں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں جب حضرت اْم کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہا نے بحیثیت قاصد ملکہ روم کو تحائف پیش کیے جواب میں ملکہ روم نے بھی حضرت اْم کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہا کو تحائف پیش کئے تھے۔

طبری، ابن جریر، تاریخ الامم والملوک، 3: 315

اس کے علاوہ جو خواتین غزوات میں شریک ہوئیں وہ مجاہدین کیلئے رہائش کھانے کا انتظام کرتی تھیں اس سلسلہ میں اْم عطیہ انصاریہ رضی اللہ عنہا کا نام بھی ہے جو غزوات میں مجاہدین کیلئے کھانا تیار کرتی، ان کے خیموں کی نگرانی بھی کیا کرتی تھیں۔

البصری، 3: 602

8۔ رائے دہی میں آزادی

عورت کو رائے دہی کی آزادی بھی اْس وقت دی جب عورت کو دیگر مذاہب نے نہایت حقیر سمجھ لیا تھا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورت کے حق رائے دہی کی بنیاد رکھی اور جس طرح مردوں سے بیعت لی عورتوں سے بھی باقاعدہ بیعت لی گئی۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

یٰٓـاَیُّهَا النَّبِیُّ اِذَا جَآئَکَ الْمُؤْمِنٰتُ یُبَایِعْنَکَ عَلٰٓی اَنْ لَّا یُشْرِکْنَ بِاﷲِ شَیْئًا وَّلَا یَسْرِقْنَ وَلَا یَزْنِیْنَ وَلَا یَقْتُلْنَ اَوْلَادَهُنَّ وَلَا یَاْتِیْنَ بِبُهْتَانٍ یَّفْتَرِیْنَهٗ بَیْنَ اَیْدِیْهِنَّ وَاَرْجُلِهِنَّ وَلَا یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ فَبَایِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اﷲَط اِنَّ اﷲَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.

’’اے نبی! جب آپ کی خدمت میں مومن عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کے لیے حاضر ہوں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہرائیں گی اور چوری نہیں کریں گی اور بدکاری نہیں کریں گی اور اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی اور اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان سے کوئی جھوٹا بہتان گھڑ کر نہیں لائیں گی (یعنی اپنے شوہر کو دھوکہ دیتے ہوئے کسی غیر کے بچے کو اپنے پیٹ سے جنا ہوا نہیں بتائیں گی) اور (کسی بھی) امرِ شریعت میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی، تو آپ اُن سے بیعت لے لیا کریں اور اُن کے لیے اللہ سے بخشش طلب فرمائیں، بے شک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔‘‘

(الممتحنة، 60 :12)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس سنت کو صحابہ کرام اور خصوصاً خلفائے راشدین نے بھی جاری رکھا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بعد جب خلافت کا مسئلہ درپیش تھا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان غنی کا نام لیا جبکہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام لیا تو اس پر لوگوں سے ووٹنگ کروائی گئی۔

اس سلسلہ میں حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں:

پھر عبد الرحمن بن عوف ان دونوں کے بارے میں لوگوں سے رائے لینے لگے اور ان آراء کو جمع کرنے لگے آپ عام لوگوں سے بھی ملے، سرداروں اور ذی و وجاہت لوگوں سے ملاقات کی، اجتماعی وانفرادی طور پر گفت و شنید کی ایک ایک دو دو سے ملے اعلانیہ اور خفیہ بات چیت بھی کی حتی کہ پردہ نشین عورتوں کے پاس بھی گئے اور اْن سے بھی پوچھا۔

ابن کثیر، عمادالدین، تاریخ ابن کثیر، 148

یوں عورتوں کو بھی حق رائے دہی دیا گیا اس سے بڑھ کر حق کی مثال اور کیا ہو سکتی ہے۔

طب میں مسلم خواتین کا کردار:

آغاز اسلام کے ساتھ ہی مسلمانوں کو جس مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اْس سلسلہ میں غزوات بھی وقوع پذیر ہوئے جس میں زخمیوں کو بھی امداد مسلمان خواتین فراہم کرتی تھیں۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نہ صرف مسلم خواتین اْن غزوات میں شریک ہوتیں بلکہ انتظامی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ طبی ذمہ داریاں بھی سرانجام دیتی تھیں ان میں ایک خاتون کعیبہ تھیں جو کہ سعد اسلمیہ کی صاحبزادی ہیں ہجرت کے بعد اسلام لائیں یہی خاتون ہیں جو مسجد میں رہا کرتی تھیں اور بیماروں و زخمیوں کی دوا اور دیکھ بھال کا اہتمام کیا کرتی تھیں جب غزوہ خندق میں سعد بن معاذ کو تیر لگا تو وہ انہیں کی زیر نگرانی تھے۔

البصری، طبقات ابن سعد، 715:3

اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک روایت ہے ربیع بنت معوذ فرماتی ہیں۔

حدثنا قتیبه بن سعد حدثنا بشر بن المفضل حدثنا خالدبن ذکوان عن الربیع بنتِ معوذ قالت لنا کنا نخزو مع رسول الله نسقی القوم وانخذ مهم ونرد القتلی والجرحی الی المدین.

’’ربیع بنت معوذ ذکوان غفراء بیان کرتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جہاد کرتے تھے اور لوگوں کو پانی پلاتی انکی خدمت کرتی اور ان زخمیوں کو مدینہ لے کر جاتے تھے۔‘‘

بخاری، الصحیح، ص: 745، رقم: 5679

اس کے علاوہ بھی بہت سے حقوق اسلام عورت کو دیتا ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے اسلام کے حیثیت نسواں سے متعلق حقیقی متوازن چہرہ دنیا کے سامنے لایا جائے۔ اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں خواتین کے حقوق کے نفاذ اور خواتین پہ تشدد کے واقعات کی روک تھام کے لیے موثر حکمت عملی بنائی جائے۔