معروف سماجی رہنما مسرت مصباح سے دختران اسلام کی خصوصی گفتگو

انٹرویو: ام حبیبہ، زینب ارشد

س: اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں بتائیں؟

میں کراچی میں پیدا ہوئی میری 6 بہنیں اور دو بھائی ہیں۔ جب میں نے انٹر کیا 1978ء میں تو شادی ہوگئی میں فیملی میں سب سے بڑی تھی ہمارے گھر میں بڑوں کا ادب اور چھوٹوں سے پیار تھا بدقسمتی سے شادی ایسے گھر میں ہوئی جہاں اس کے برعکس ماحول تھا چند ماہ بعد شادی ختم ہوگئی اور میں اپنے بیٹے کے ساتھ ماں باپ کے گھر واپس آئی تو میرے نانا ابا جو بزرگ انتہائی مشفق انسان تھے۔ ان کے پاس جاکر میں نے رونا شروع کردیا نانا ابا نے کہا آپ نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ یہ میرے لیے پہلا سبق تھا کہ حالات کیسے بھی ہوں برے سے برے ہوں اللہ تعالیٰ کا شکر کرنا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بندے کے لیے دروازے کھولنے ہوتے ہیں۔ مجھے لگتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا؟ مجھے نہیں لگا تھا میرے رویے اور زبان میں کوئی ایسی چیز ہو جس کی وجہ سے یہ ہوا ہو۔ پھر میرے والدین نے مجھے choice دی کہ میں اپنی پڑھائی جاری رکھوں میں نے سوچا کہ میں نے اپنے پاؤں پر کھڑے ہونا ہے اپنے بیٹے کا خود خیال رکھنا ہے۔ یہ بہت بڑا تعاون ہوتا ہے جب آپ کے گھر والے آپ کو دوبارہ پاؤں پر کھڑا ہونے کے لئے مدد کرتے ہیں تو میں اپنے بیٹے کے ساتھ بیرون ملک چلی گئی۔ وہاں میں بچے کو اپنی امی کے پاس چھوڑ کر صبح اور شام دونوں کلاسز لیتی تھی تاکہ جلد بہت کچھ سیکھوں۔

س: Depilex بیوٹی سیلون بنانے کا خیال کیسے آیا؟

ج: جب میں 1980ء میں کورس مکمل کرکے واپس آئی تو میرے والدین نے ایک اپارٹمنٹ میں سیلون بنایا ہوا تھا جو کہ میرے لیے سرپرائز تھا بس میں نے کام کا آغاز کیا۔

س: بطور ورکنگ ویمن بچوں کی تربیت میں دشواری ہوئی؟

ج: میں نے اپنا وقت بچوں کے لیے مقرر کیا ہوتا تھا سکول خود لینے اور چھوڑنے جاتی میں نے اپنی مصروفیات میں اپنے بچوں کو نظر انداز نہیں ہونے دیا ان کی تعلیم و تربیت کا بھرپور خیال رکھا الحمدللہ آج میرا ایک بیٹا کراچی یونیورسٹی میں پڑھایاتا ہے، بیٹی کاروبار میں ہاتھ بٹاتی ہے۔

س: اپنی پیشہ وارانہ مصروفیات کے بارے میں کچھ بتائیں؟

ج: الحمدللہ آج میرے سیلون کی 64 برانچز ہیں۔ ٹریننگ سینٹر ہے۔ ایک کالج ہے جو برانچز کے سٹاف کو ٹریننگ دیتا رہتا ہے۔ ایک کالج ان بچیوں کو ٹریننگ دیتا ہے جو ڈپلومہ اور سرٹیفکیٹ لینا چاہتی ہیں ہم گورنمنٹ کے ساتھ بھی پروجیکٹ کرتے ہیں جیسے 500 بچیوں کو ہم مفت تعلیم دیتے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ خواتین معاشی اعتبار سے اپنے پاؤں پر کھڑی ہوں اور میں عملاً یہ سب کررہی ہوں۔

س: سمائل فاؤنڈیشن بنانے کا خیال کیسے آیا؟

ج: جیسا کہ میں نے بتایا کہ میں نے اپنا کام ہمیشہ محنت اور لگن سے کیا میری روٹین ہوتی ہے کہ صبح فجر کی نماز کے بعد سب سے پہلے آفس آتی اور شام سب سے آخر میں واپس جاتی ہوں۔ ایک شام میں گھر کے لیے نکل رہی تھی کہ ایک لڑکی مجھ سے ملنے آئی یہ 2003ء کی بات ہے۔ اس نے کہا آپ میری مدد کریں میرے ذہن میں آیا کہ کوئی مالی مدد لینا چاہتی ہے میں نے کہا کل آجانا اس نے کہا نہیں آپ جو بڑی بیوٹیشن بنی پھرتی ہیں مجھے ٹھیک کریں یہ کہہ کر اس نے اپنا نقاب ہٹادیا میرے سامنے ایک ایسی بچی کھڑی تھی جس کا چہرہ ہی نہیں تھا۔ اس کی آنکھ ضائع تھی ناک میں سوراخ نظر آرہا تھا گردن اور ٹھوڑی جڑی ہوئی تھی میں جو کھڑی تھی ایک دم بیٹھ گئی اس دن مجھے پتہ چلا ٹانگوں سے جان نکلنا کیا ہوتا ہے کیونکہ میں کھڑی ہونے کے قابل نہیں تھی میں نے کہا آپ کو کیا ہوا ہے؟ اُس نے کہا مجھ پر کسی نے تیزاب پھینکا ہے اُس وقت شام 7:30 کا ٹائم تھا میں نے کہا کل آجانا کچھ کرتے ہیں اُس نے کہا میں کہاں جاؤں میں اسٹیشن سے آئی ہوں وہاں سے PTV گئی انہوں نے مسرت مصباح کا نمبر دے دیا کہ بڑی بیوٹیشن ہیں وہ ٹھیک کردیں گی۔

بہر حال اس طرح میری زندگی بدل گئی میں اپنے گھر گئی اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر معافی مانگی کہ اللہ تعالیٰ میں اس قابل ہی نہیں ہوں جو کچھ تو نے مجھے دے دیا ہے ہم کتنی چھوٹی چھوٹی باتوں کی شکایت کرتے ہیں میرا تو شعبہ ہی ایسا ہے جس میں سب خوبصورتی کی باتیں کرتے ہیں میں نے معافی مانگی اللہ تعالیٰ مجھے معاف کردے مجھے بخش دے کہ اس چیز پر میرا پہلے دھیان کیوں نہیں گیا۔ تیزاب گردی کے اخبارات میں بے شمار چیزیں پڑھیں لیکن میرے ذہن میں کبھی آیا ہی نہیں کہ میں ان کے لیے کچھ کرسکتی ہوں جب وہ بچی آئی جہاں میں نے معافی مانگی وہاں میں نے شکر بھی ادا کیا یہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس قابل بنایا ہے کہ میں اس بچی کی مدد کرسکوں ہر وہ چیز جو اس نے مجھے عطا کی میں اس کے لائق ہی نہیں۔ چاہے وہ نام، گھر بار، کھانا پینا ہو، والدین ہوں ہر چیز یہ کرم ہے اللہ تعالیٰ کا کہ آپ کو بہت کچھ نواز دے۔ پندرہ سے بیس دن کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ میں کچھ اور بچیوں کی مدد بھی کرسکتی ہوں تو میں نے اخبار میں ایڈ دیا کہ اگر آپ تیزاب یا مٹی کے تیل سے جلی ہوئی ہیں تو طارق روڈ آجایئے۔ میں نے اپنے حساب سے ایک کاغذ پیپر رکھ لیا اور دو ڈاکٹرز کو بھی بلالیا جیسے فری میڈیکل کیمپ ہوتا ہے میری توقع تھی کہ 10لڑکیاں آجائیں گی مجھے اللہ تعالیٰ نے اتنا دیا ہے کہ میں ان کے علاج کا سلسلہ جاری کرلوں گی مگر حیرت انگیز طور پر اس دن 42 لڑکیاں آگئیں جو بہت زیادہ جلی ہوئی تھیں جن کا علاج اس لئے نہیں ہوسکا کہ ان والدین کے پاس پیسے نہیں تھے۔

2005 میں اس فاؤنڈیشن کو میں نے رجسٹر کرالیا۔ اب ہمارے پاس ایک سسٹم ہے میڈیا اس میں بہت اہم رول ادا کررہا ہے بڑی بریکنگ نیوز ہوتی ہے وہ عورت جس کو جلا دیا جاتا ہے مگر اس کے بعد کیا ہوتا ہے اس کو کبھی بھی نہیں بتایا جاتا اسی طرح کے زیادہ تر کیسز میں بچیاں بچ نہیں پاتی ہیں کیونکہ تیزاب بہت خطرناک ہوتا ہے بعض اوقات وہ بہت نقصان پہنچا چکا ہوتا ہے۔ چھوٹے علاقوں میں سہولیات بھی نہیں یہاں آتے آتے بعض زندگی ہار دیتی ہیں جو بچ جاتی ہیں ان کو رجسٹر کرواتے ہیں ان کا علاج پورا کرواتے ہیں۔

س: کیا مردوں کے اس رویہ کی وجہ تعلیم کا فقدان ہے؟

ج: میں مانتی ہوں کہ تعلیم کا فقدان ہوتا ہے مگر آدمی کا شعور نہیں ہوتا کیا؟ کون سا ایسا حصہ ہے جہاں مساجد نہیں ہے مساجد میں جمعہ کے خطبے ہوتے ہیں وہاں خواتین کے حوالے سے باتیں بتانا ناممکنات میں سے کیوں ہیں؟ اس لئے مردوں کو وہ تعلیم و تربیت نہیں دی جاتی جو بچیوں کو ملتی ہے بچیوں کو یہ کہا جاتا ہے کہ تم اس گھر سے مرکر ہی آؤ گی لڑکوں کو کہتے ہیں کہ اس کو قابو میں رکھو اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت پیارا بنایا ہے کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اسے نقصان پہنچائے تو بنیادی طور پر شعور کی کمی ہے مذہب سے دوری ہے اس پر ہم بات ہی نہیں کرنا چاہتے ان تمام چیزوں پر کام کرنا چاہئے۔ ہمارے اپنے مدرسوں، مساجد، سکول، کالج، یونیورسٹی میں اس کی تعلیم دی جانی چاہئے۔ قرآن سے آگاہی ہونی چاہئے دین و دنیاوی تعلیم ساتھ ساتھ ہونی چاہئے۔ ہم سب کرسکتے ہیں ہمیں چاہئے اپنے بچوں کو تعلیم و تربیت کے ساتھ شعور بھی دیں۔ قرآن کے ساتھ ترجمہ بھی پڑھائیں پس اس چیز کو بہتر کرنا چاہئے۔

س: لڑکیوں کو تیزاب سے جلانے کے وجوہات کیا ہوتی ہیں؟

ج: مختلف وجوہات ہوتی ہیں جیسے جہیز نہ لانا، بیٹیوں کی پیدائش، دشمنی، شادی سے انکار کو انا کا مسئلہ بنا لینا وغیرہ۔

س: تیزاب گردی کے واقعات روک تھام کے لیے کوئی بل پاس کروانے کی کوشش کی؟

ج: ہمارے ملک میں اس کا قانون موجود تھا اس کے اندر ترامیم آئیں مثلاً اگر کوئی تیزاب سے جلائے گا تو اس کو عمر قید کی سزا ہے اور جرمانہ بھی 10لاکھ روپے دینا ہوتا ہے۔ عمر قید سے مراد ہے 7 سال ہے لیکن کون اتنے عرصے جیل کے پیچھے رہتا ہے لوگ ضمانتیں کروالیتے ہیں جبکہ یہ بھی ایک قتل ہے چاہے غلطی بھی کیوں نہ ہو مگر کسی کو خاتون کو جلانے نقصان پہنچانے کا حق نہیں یہ اجازت اسلام نہ قانون دیتا ہے۔ جہیز کا مطالبہ کرنے والے ایک بار ضرور سوچیں اللہ کے رسولa کی بیٹی حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کو کیا جہیز ملا تھا؟ کس نے دیا تھا؟ یہاں وراثت پر ان بچیوں کو جلادیا جاتا ہے ہر چیز قرآن میں لکھی ہوئی ہے اگر ہم راہنمائی لینا چاہیں تو لیکن میرے پاس 7000 بچیاں رجسٹر ہیں جن کو تیزاب یا مٹی کے تیل سے جلایا گیا ہے ان میں حادثاتی طور پر جلنے والی بچیاں بھی ہیں وہ بچیاں جن کو جلایا گیا تھا ان میں سے بہت سی بچیوں کی ہم نے شادیاں بھی کی ہیں۔ ہم ان کی شادیاں کرتے ہیں انہیں ضروریات زندگی مہیا کرتے ہیں۔ ان کے شوہروں کے لیے روزگار کا بندوبست کرتے ہیں۔

س: آپ کی فاؤنڈیشن میں جلائی گئی خواتین کے علاج کا طریقہ کار کیا ہے؟؟

ج: خواتین چاہے حادثاتی یا غیر ارادی طور پر جلی ہوں ہم ہر کسی کا علاج کرتے ہیں۔ ہر سال 100 سرجریز کرواتی ہیں ان سو سرجری میں کئی نئی بچیاں اور کچھ پرانی بچیاں بھی ہوتی ہیں۔ ہمیں جو بھی علاج کے لیے ڈونیشن دیتا ہے ہم اسے مکمل معلومات فراہم کرتے ہیں باقاعدہ آڈٹ کا نظام ہے، ہم متاثرہ بچیوں کی ذہنی صحت کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے درس کا اہتمام کرتے ہیں جس میں وضو، غسل، قرآن، نماز پڑھنے کا صحیح طریقہ اور چھوٹی چھوٹی چیزیں بتاتے ہیں۔

س: ڈاکٹرز علاج کے لیے کس حد تک تعاون کرتے ہیں؟

ج: ڈاکٹرز ہمیں کم پیکج پر لیتے ہیں ہم پیسے بھی دیتے ہیں۔ بعض اوقات کوئی مشکل کیس ہوتا ہے اور ڈاکٹر کی خواہش کے مطابق مخصوص ہسپتال میں جانا پڑتا ہے ظاہر ہے وہاں پر رقم بڑھ جاتی ہے پھر ہم ان کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں۔ 50 ہزار روپیہ ایک آپریشن پر لگتا ہے جس میں اس بچی کا کھانا آنا جانا آپریشن کی سہولت ڈاکٹر کی فیس، ہسپتال کے اخراجات اور تین چار کے بعد دو بار چیک اپ وہ سب اس میں شامل ہوتا ہے آہستہ آہستہ لوگوں نے مالی تعاون کے حوالے سے ہماری حوصلہ افزائی کرنا شروع کردی ہے کیونکہ شروع میں لوگ یہ سوچتے تھے کہ میں ڈرامہ تو نہیں کررہی جلی ہوئی لڑکیوں کے ساتھ مل کر کمانے کا طریقہ بنایا ہوا یہ باتیں پہلے مجھے تکلیف دیتی تھیں اب نہیں دیتی جب میں ان بچیوں کو مسکراتا ہوا دیکھتی ہوں کام کرتے ہوئے دیکھتی ہوں تو خوشی ہوتی ہے۔

س: حکومتی سطح پر آپ کی اس کام میں مدد کی جاتی ہے؟

ج: خواتین کے مسائل گورنمنٹ کی ترجیحات ہی نہیں ہیں۔ بجلی، پانی نہیں آرہا کھانے میں ملاوٹ ہوگئی جیسے مسائل ہیں مگر عورت جل گئی اچھا کتنی جل گئی اس سے کوئی سروکار نہیں میں آپ کو بتاؤں میرے پاس 700 بچیاں ہیں ان کے لیے گورنمنٹ کی طرف سے اب تک جو ہوا ہے وہ یہ ہے کہ قانون میں ترمیم آگئی ہے مگر روک تھام اس وقت ہوتی ہے جب قانون لاگو ہوتا ہے ایسا قانون جس میں خوف ہو کہ اگر میں یہ کام کروں گا تو پکڑ اجاؤں گا اس چیز کا یقین جرم کو کم کرتا ہے مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہورہا۔

س: کیا عورت پر ظلم کی وجہ کہیں نہ کہیں خود عورت بنتی ہے؟

ج: ہمارے ہاں بچپن سے ماں بیٹے کو اعلیٰ و ارفع مقام دے دیتی ہے۔ پھر یہ بھی بھی ہوتا ہے کہ میرے ساتھ بُرا سلوک ہوا تھا میں نے بہو کے ساتھ بھی وہی رویہ رکھنا ہے انہوں نے اتنا برا وقت دیکھا ہوتا ہے کہ ان کو موقع مل جاتا ہے رد عمل دینے کا۔ عورتوں کو بھی چاہئے کہ ٹائم اپنے گھر، بچوں، میاں کو دیں۔ جب قرآنی تعلیم پر عمل کریں گی تو یہ سب چیزیں آسان ہوجائیں گی۔

س: آپ کے نزدیک Women Empowerment کیسے ممکن ہے؟

ج: میرے نزدیک عورت پہلے اپنی ذمہ داریاں نبھائے پھر اپنے حقوق کی بات کرو، میرے والدین مجھے اچھے انداز سے سپورٹ کرسکتے تھے لیکن مجھے یہ سمجھ میں آیا کہ مجھے ہر چیز خود کرنی ہے سب سے پہلے اپنی تعلیم مکمل کرنی ہے کون سے والدین ہیں جو اپنے بچوں کو اچھی باتیں نہیں سکھاتے۔ انسان کے اندر اچھائی و برائی کی تمیز ہوتی ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ کی تعلیم ہو۔ شیطان آپ کے اندر ہے شیطان کو مارنا اور قابو میں رکھنا ہی تو آپ کا چیلنج ہے۔ لہذا پہلے عورت اپنی ذمہ داریاں پوری کرلے پھر Empowerment کی بات کرے۔

س: خواتین پر تشدد کی روک تھام کے لیے میڈیا کو کیا کردار ادا کرنا چاہئے؟

ج: میڈیا کے ذریعے آپ قرآن کی تعلیم کو دوسروں تک پہنچاسکتے ہیں۔ مذہبی پہلوؤں کو اجاگر کرسکتے ہیں اب اگر میرا ذہن کہتا ہے کہ اس طرح ہونا چاہئے وہ میرے ذہن کی بات ہے اس خرابی کو بہتر سمت میں لانے کے لیے میڈیا کا مثبت کردار ہونا چاہئے۔ پہلے زمانے میں اگر کوئی رومانوی رول کرے تو آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیئے جاتے یا کہا جاتا کہ یہ ڈرامہ آپ کے دیکھنے کا نہیں ہے۔ اب وہی ڈرامہ ہر کوئی دیکھ رہا ہوتا ہے۔ ترکی کے ڈرامے آتے ہیں میں ترکی میں گئی تو ان کے تاریخ پر مبنی ڈراموں کی تعریف کی تو انہوں نے کہا کہ یہ ڈرامے سارے غلط ہیں یہ فتنے ہیں معاشرے میں شر پھیلانے کے لیے منظم طریقہ اپنایا جارہا ہے۔

س: کیا حقوق نسواں کے لیے این جی اوز اپنا حقیقی کردار ادا کررہی ہیں؟

ج: ہر این جی اوز کا ایک مشن ہوتا ہے اسی حوالے سے وہ کام کرتی ہے۔ کوئی تعلیم کے حوالے سے کام کرتی ہے اس کو دوسری چیزوں سے سروکار نہیں ہوتا جو کہ غلط ہے۔ سائیکالوجیکل سپورٹ کے لیے لیگل سپورٹ ہونا بھی ضروری ہے مختلف این جی اوز مختلف پلیٹ فارم کے تحت کام کررہی ہیں مثلاً میرا کام علاج کروانا ہے۔ میں لیگل پراسس پر نہیں جاتی کیونکہ میرے پاس وسائل نہیں ہیں جو بچیاں لیگل سپورٹ چاہتی ہیں میں ان کو لیگل این جی اوز میں بھجوادیتی ہوں کچھ این جی اوز ایسی بھی ہوسکتی ہیں جو اس سے فائدہ اٹھاتے ہوں اس کو تشہیر کے لیے رکھتے ہوں اس لیے جب تک ہمارے سسٹم مضبوط نہیں ہوں گے کوئی کام بہتر طور پر نہیں ہوسکتا۔ این جی اوز کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ علاج کی طرف آئے۔ اس کو دوبارہ آباد کرے یہ حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن ہم اس کو سپورٹ کرسکتے ہیں۔ چیزوں سے دور ہوں گے تو خرایباں جنم لیں گی۔

س: آج بھی خواتین جو مغرب پسندی کا شکار ہے اس بارے میں کیا کہیں گی؟

ج: کیوں خواتین مغرب کی طرف جاتی ہیں۔ دیکھتی ہیں کہ وہاں عورت کو نتائج مل جاتے ہیں پارلیمنٹ میں ایک برطانوی وزیر نے اس بات پر استعفیٰ دیا کہ وہ اپوزیشن سے خاتون کے پوچھے گئے سوال کا جواب نہ دے سکا اور اسی پر وہ مستعفی ہوگیا۔ مغرب نے کچھ اقدار اختیار کی ہیں وہ اقدار اسلام کی میراث ہیں ہمیں واپس اپنی اصل کی طرف لوٹنا ہوگا۔ سے وہ سوال تھا ایک خاتون کا جو نہیں دے سکا۔ یہ میری ذمہ داری تھی مجھے جواب دینا چاہئے تھا جو میں نے نہیں کیا اس لیے میں استعفیٰ دیتا ہوں وہاں کس قدر اصولوں کی پابندی ہے کیونکہ خواتین کو ان کے حقوق مل جاتے ہیں وہ شکایت کرتی ہیں کہ میرے میاں نے مجھے مارا ہے تو پولیس آجاتی ہے اس میں کمزوریاں ہیں بہر حال وہ سسٹم اتنا مضبوط ہے۔ خواتین کے لیے زندگی آسان ہوگئی ہے ہم سعودی عرب کو دیکھتے ہیں ہاتھ کٹ جائے گا چوری کرنے پر موبائل پر لڑکا اورلڑکی کی بات ہوئی۔ افیئر چلا ان کو سنسار کردیا جرات ہے کسی کی ایسا دوبارہ کرنے کی۔ اگر بچی کے ساتھ درندوں والا سلوک کرے تو ہمیں اچھائی کو فروغ دینا چاہئے کہ ہمارے ملک سے اچھائی کہیں چلی گئی ہے۔

س: ڈاکٹر طاہرالقادری کی شخصیت کو کیسے دیکھتی ہیں؟

ج: جو انسان کسی مقام پر پہنچتا ہے تو بڑی مشکل سے پہنچتا ہے مجھے ان کی شخصیت پسند ہے وہ جو بات کرتے ہیں دلائل سے کرتے ہیں جو اچھی بات وہ کرتے ہیں اس کو تسلیم کرنا چاہئے۔ میں نے انہیں ٹی وی پر ہی سنا ہے بہت اچھا بولتے ہیں اور بلاشبہ ایک عظیم علمی شخصیت ہیں۔