اداریہ: اک ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں...

ایڈیٹر

8 اپریل 2018ء کے دن شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء نے چیف جسٹس سپریم کورٹ سے اپیل کی کہ انہیں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے انصاف دلوایا جائے جس پر چیف جسٹس آف سپریم کورٹ نے فوری نوٹس لیتے ہوئے انصاف میں تاخیر کی رپورٹ طلب کی۔ چیف جسٹس کے نوٹس لینے کے بعد سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کو روزانہ کی بنیاد پر سنا جارہا ہے، اگر اسی رفتار سے کیس کی سماعت آگے بڑھتی رہی تو بہت جلد اس کا فیصلہ بھی ہو جائے گا۔ 17 جون 2014ء کا دن عوامی تحریک اور تحریک منہاج القرآن کے کارکنان پر ہی بھاری نہیں تھا بلکہ پوری قوم اس سانحہ پر مغموم تھی کیونکہ وہ ریاستی ادارہ پولیس جسے عوام کے خون پسینے کے ٹیکسوں کی کمائی سے بندوقیں اور گولیاں اس لیے خرید کر دی گئی تھیں کہ وہ عوام کے جان و مال کو محفوظ بنائیں گے مگر پاکستان کی جمہوری تاریخ میں پہلی بار یہ دلدوز منظر دیکھا گیا کہ اسی پولیس نے اپنے ہی عوام پر فائر کھولا، 100 لوگوں کو گولیاں ماریں، 14 کو موقع پر شہید کر دیا۔ شہید ہونے والوں میں تنزیلہ امجد اور شازیہ مرتضیٰ بھی شامل تھیں۔ تنزیلہ امجد اور شازیہ مرتضیٰ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے گھر کے دروازے کے سامنے نہتی کھڑی تھیں اور پولیس اہلکار جنہیں انسان کہتے ہوئے شرم آتی ہے درندے بنے ہوئے تھے اور انہوں نے پہلے خواتین پر تشدد کیا اور پھر براہ راست گولیاں برسا کر دو کو موقع پر شہید کر دیا۔ پولیس کی وردی میں جن درندودں نے قوم کی بیٹیوں کو چھلنی کیا اگر ان کا کوئی خاندان ہوتا اور وہ انسانی معاشرے کا حصہ ہوتے یا ان کی کوئی اخلاقی تربیت ہوئی ہوتی تو وہ بہنوں، بیٹیوں کی عزت و تکریم سے ضرور واقف ہوتے۔ ان کا عمل یہ ثابت کررہا تھا کہ وہ انسان کے روپ میں درندے اور حیوان ہیں۔ ان کا اسلام تو کیا انسانیت سے بھی کبھی دور کا واسطہ نہیں رہا، انسداد دہشتگردی کی عدالت میں ایک موقع پر شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کی طرف سے وکلاء نے ایک اہم نکتہ پر بحث کی، سوال کیا گیا کہ اس کا کیا ثبوت ہے کہ وقت کے حکمران سانحہ میں ملوث ہیں تو اس حوالے سے شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کے وکیل رائے بشیر احمد ایڈووکیٹ نے ایک تاریخی بات کی کہ پوری دنیا کے مسلمان یزید کو اہل بیت کے قاتل کے طور پر لعن طعن کرتے ہیں اور یزید ملعون کو مقدس خون بہانے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں جبکہ یزید اہل بیت کو شہید کیے جانے کے وقت موقع پر موجود نہیں تھا، انہوں نے اپنی بحث کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ دو حوالوں سے یزید اہل بیعت کی توہین کے باعث ذمہ ٹھہرایا جاتا ہے۔ اس کی سلطنت کے اندر تاریخ عالم کا یہ اذیت ناک اور روح فرسا سانحہ پیش آیا جسے اس نے نہیں روکاحالانکہ امام عالیٰ مقام علیہ السلام کی آمد کی خبر اسے ہو چکی تھی۔ واقعہ کربلا کے بعد یزید نے اہل بیت کی شہادتوں کے ذمہ دار ریاستی عہدیداروں کو انعام و اکرام اور عہدوں سے نوازا، انہیں ترقیاں دیں، ان کی مراعات بڑھائیں اور سانحہ کربلا کے بعد اس کے جملہ اقدامات یہ ثابت کرنے کیلئے کافی تھے کہ سانحہ کربلا اس کی مرضی و منشاء کے مطابق رونما ہوا۔ رائے بشیر احمد ایڈووکیٹ نے کہا کہ ایک لمحہ کیلئے یہ بات مان بھی لی جائے کہ شریف برادران کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کا علم بعد میں ہوا تو پھر سانحہ میں ملوث افسران، اہلکاروں کو سزائیں دینے کی بجائے ان کو ترقیاں کیوں دی گئیں؟ ان کی مراعات کیوں بڑھائی گئیں؟ اور آج کے دن تک ان کا تحفظ کیوں کیا گیا؟ اہلیت نہ ہونے کے باوجود انہیں سفیر کے عہدوں سے کیوں نوازا گیا؟ انشاءاللہ اب وہ وقت قریب ہے جب سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قاتل اپنے عبرتناک انجام سے دو چار ہونگے۔