خواتین مزدوروں کی حالت زار

نوراللہ صدیقی

یکم مئی کا دن ہر سال شکاگو کے مزدوروں کی یاد میں منایا جاتا ہے جنہوں نے مزدوری کے حوالے سے اوقات کار کے تعین کے لیے وقت کی اشرافیہ کے خلاف لازوال جدوجہد کی اور بے مثال قربانیاں دیں ان قربانیوں کے نتیجے میں صنعتی اشرافیہ مزدوروں کو انسان سمجھنے پر مجبور ہوئی۔ ان قربانیوں کے نتیجے میں8گھنٹے اوقات کار کا تعین ہوا، انجمن سازی کا حق ملا، یکم مئی خالص مزدوروں کا دن ہے اس دن ملکی آبادی کا 52 فیصد خواتین کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ مزدوروں میں 70 فیصد تعداد خواتین کی ریکارڈ کی گئی ہے، زرعی کا کارکن سے لے کر ہر طرز کی چھوٹی صنعت، فیکٹری، فارما سیوٹیکل کمپنیوں، ادویہ ساز کمپنیوں، سپورٹس، بھٹہ خشت، ہوزری، ٹیکسٹائل، سلائی کڑائی، دستکاری، ہینڈیکرافٹس، مختلف النوع اشیاء کی تیاری اور تعمیراتی پروجیکٹس میں خواتین مزدوروں کا عددی حصہ مردوں سے زیادہ ہے۔ بھٹہ خشت میں خواتین مزدوروں کی شرح 35 فیصد، زرعی شعبہ میں خواتین مزدوروں کی تعداد 48 فیصد، قالین بافی کی صنعت میں 62 فیصد جبکہ غیر رسمی شعبہ جات میں خواتین مزدوروں کی شرح 60 فیصد سے زائد ہے، معاشی بدحالی کے باعث خواتین محنت کرنے پر مجبور ہیں، اگر ہم 1917ء کے حالات مزدوروں کے استحصال پر نظر دوڑائیں اور آج کے حالات کو پیش نظر رکھیں تو ہمیں ماسوائے کاغذی کارروائی کے اور عالمی چارٹرز مرتب کئے جانے کے سوا کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آئے گی۔ ترقی پذیر ممالک میں حالات انتہائی بدتر اور ناگفتہ بہ ہیں، مزدوروں کی رجسٹریشن نہیں کی جاتی انہیں سرکاری طور پر اعلان شدہ انتہائی کم معاوضہ جو 15ہزار روپے کے لگ بھگ ہے وہ بھی نہیں ملتا، کنٹریکٹ کے نام پر مزدوروں کا بدترین استحصال کیا جاتا ہے، مستقل تقرر نامے نہیں دیئے جاتے تاکہ نوکری سے بلا وجہ نکالے جانے پر وہ لیبر کورٹ سے رجوع نہ کرسکیں۔ تمام تر مزدور یونینز کے احتجاج مؤثر کردار کے باوجود پاکستان کے مزدوروں کی حالت زار ابتر ہے۔ حکومت پاکستان نے آئی ایل او کنونشن کو منظور کیا ہے لیکن سرکاری سطح پر اور نجی سطح پر مزدوروں کا استحصال جاری ہے۔ یہ حقائق انتہائی تکلیف دہ ہیں کہ 2014ء میں عالمی اقتصادی فورم کی جانب سے صنفی امتیاز کی فہرست میں پاکستان کو یمن کے بعد دوسرا بڑا بدترین ملک قرار دیا گیا۔ قیام پاکستان کے موقع پر خواتین کو سرکاری سطح پر برابر کا شہری تسلیم کیا گیا، 1958ء کے آئین اور 1973ء کے آئین میں بھی معاشرتی حقوق میں مساوات اور صنفی امتیاز کے خاتمے کی ضمانت دی گئی مگر شکاگو کی صنعتی اشرافیہ کی ذہنیت نسل در نسل منتقل ہوتی رہی اور وہ آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ پاکستان میں غیر سرکاری تنظیموں کے اعداد وشمار کے مطابق ملک بھر میں خام مال لا کر مصنوعات تیار کرنے والے ہوم بیسڈ ورکرز کی تعداد اڑھائی کروڑ سے زائد ہے جن میں 1 کروڑ 30 لاکھ سے زائد خواتین ہیں۔ ان مزدوروں کو مراعات دینا تو دور کی بات انہیں وہ حقوق بھی نہ مل سکے جن کی گارنٹی آئین اور مختلف عالمی وعلاقائی چارٹرز دیتے ہیں۔ خواتین مزدوروں کے ساتھ سلوک انتہائی اذیت ناک ہے۔ ہوم بیسڈ ورکرز کا جنسی استحصال، انہیں ہراساں کرنا، تشدد کا نشانہ بنانا انتہائی معمولی اجرت پر 24 گھنٹے کے لیے معصوم بچیوں اور خواتین سے مشقت لینا ایک عام پریکٹس ہے۔ ہوم بیسڈ ورکرز خواتین کے استحصال کے واقعات راجن پور، مظفر گڑھ، لیہ، شکار پور، سبی، ٹھٹھہ، چولستان اور تھر تک محدود نہیں بلکہ لاہور کے ڈیفنس، راولپنڈی کے کینٹ، اسلام آباد کراچی کی پوش ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے مکین بھی اس استحصال میں کسی سے کم نہیں۔ حال ہی میں طیبہ تشدد کیس میں ایک سیشن جج اور اس کی بیوی کو ایک سال کی سزا ہوئی اور اس طرح کے سینکڑوں واقعات ایسے ہیں جو میڈیا کی زینت نہ بن سکنے کی وجہ سے ایوان عدل میں بیٹھے ہوئے منصفوں کی نظروں سے اوجھل ہیں کیونکہ ہوم بیسڈ ورکرز کو تاحال ایک مزدور کا سٹیٹس نہیں ملا اور نہ بطور مزدور ان کی کوئی رجسٹریشن ہے اور نہ ہی ان کے تقرر اور مدت ملازم کے حوالے سے کوئی کوڈ آف کنڈکٹ یا کوئی ایس او پیز ہیں، اس لیے جہلاء کے ساتھ ساتھ پڑھے لکھے امراء بھی ہوم بیسڈ ورکرز خواتین کا جی بھر کر سماجی، معاشی، استحصال کرتے ہیں اور یہ سب کچھ حکمرانوں کی ناک کے نیچے ہوتا ہے۔ یہ بات دعوے سے کہی جاسکتی ہے کہ وزراء اور اعلیٰ بیوروکریٹس کے گھروں میں یہی ظلم اور استحصال ہورہا ہے، غریب والدین کی معاشی مجبوریوں کے پیش نظر ان کے لخت جگر رہن رکھ لیے جاتے ہیں اور پھر ان کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے ہر مزدور کا مطالبہ ہے کہ انہیں بطور مزدور رجسٹرڈ کیا جائے اور اس کا باقاعدہ اندراج ہونا چاہیے اور تنخواہ اوقات کار سمیت جملہ امور کا ڈیکلیریشن ہونا چاہیے اور اس ضمن میں ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کی خدمات لی جا سکتی ہیں جس طرح نکاح، فوتیدگی اور پیدائش کا اندراج مقام یونین کونسل میں ہوتا ہے اسی طرح گھروں میں کام کرنیوالی خواتین کا اندراج بھی مقام یونین کونسل میں ہونا چاہیے اور اس حوالے سے ابہام سے پاک قانون سازی کی جانی چاہیے۔ یہ قوانین وفاقی سطح پر بننے چاہیں اور چاروں صوبائی حکومتیں ان پر عملدر آمد کی پابند بنائی جانی چاہیں۔ تاریخ گواہ ہے عورت کو ابتدائے آفرینش سے ہی ایک غلام کے طور پر سلوک کیا گیا اسے خریدوفروخت کی جنس سمجھا گیا جس کے نہ کوئی حقوق تھے نہ کوئی اپنی پسند، ناپسند تھی۔ قدیم تہذیبوں یونان، مصر، عراق، ہند، چین الغرض ہر قوم ہر خطہ عورتوں پر ظلم کے پہاڑ توڑتا تھا، عورتوں کی خریدوفروخت کی جاتی تھی ان کے ساتھ حیوانوں سے بھی بد ترسلوک کیا جاتا تھا حتی کہ اہل عرب عورت کے وجود کو موجب عار سمجھتے تھے اور لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے، ہندوستان میں شوہر کی چتا پر اس کی بیوہ جلا دیا جاتا تھا، بعض مذاہب عورت کو گناہ کا سرچشمہ اور پاپ کا مجسمہ سمجھتے تھے، اس سے تعلق رکھنا روحانی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھا جاتا تھا، عورت باپ، شوہر اس کے بعد اولاد نرینہ کی تابع اورمحکوم تھی لیکن اسلام ایک ایسا مذہب اور ضابطہ حیات ہے جس نے عورت پر احسان عظیم کیا۔ اس کو ذلت و پستی کے گڑہوں سے نکالا اور اسے ماں، بہن، بیٹی، بیوی کی شکل میں عزت واحترام سے نوازا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحمۃ اللعالمین بن کر تشریف لائے۔ آپ نے پوری انسانیت کو اس آگ کی لپیٹ سے بچایا اور عورت کو بھی ذلت و رسوائی کے گڑھے سے نکالا، زندہ دفن کردی جانے والی عورت کو بے پناہ حقوق عطا فرمائے، قومی و ملی زندگی میں عورتوں کی کیا اہمیت ہے اس کو سامنے رکھ کر اس کی فطرت کے مطابق اس کو ذمہ داریاں سونپی۔ اسلام میں عورت پر سب سے پہلا احسان یہ کیا کہ عورت کی شخصیت کے بارے میں مردوعورت دونوں کی سوچ اور ذہنیت کو بدلا۔ اگر ہم اسلامی تعلیمات کے تناظر میںخواتین کے حقو ق کے بارے میںمطالعہ کریں تو ہمیںمساوات اور برابری نظر آتی ہے، یہ برابری زندگی کے ہر شعبہ کا احاطہ کئے ہوئے ہے اس میں مردوخواتین میںکوئی امتیاز روا نہیں رکھا گیا، اسلام دین فطرت ہے جو دنیا اور آخرت دونوں کے مقاصد کو انسان کی دنیاوی محنت کے حوالے سے اپنے اہل وعیال کے لیے حصول رزق کے مساوی مواقع فراہم کر تاہے۔ اسلام انسان کو دنیا میں عزت و احترام کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا درس دیتا ہے۔ مقبول عام وحدیث مبارکہ ہے کہ: الکاسب حبیب اﷲ: کہ محنت کرنیوالا اللہ کا دوست ہے۔ اور اللہ کے ان دوستوں کے ساتھ اہل ثروت، صاحب حیثیت اور صاحب اختیار کیا سلوک کر رہے ہیں؟ انہیں فرصت ملے تو ایک لمحہ کے لیے ضرور غور کریں، محنت اور رزق کا طلب کرنا انسانی زندگی کی ضروریات اور لوازمات میں سے ہے۔ اللہ تعالی نے اس کے لیے کئی ذرائع بنائے ہیں جن کا ذکر اللہ تعالی نے قرآنِ کریم میں واضح طور پر بیان فرمایا ہے اور اپنے رسولوں کو بھی اس کی ترغیب دی: اے رُسُلِ (عظام!) تم پاکیزہ چیزوں میں سے کھایا کرو (جیسا کہ تمہارا معمول ہے) اور نیک عمل کرتے رہو، بے شک میں جو عمل بھی تم کرتے ہو اس سے خوب واقف ہوں۔ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا: اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں عطا کی ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم صرف اسی کی بندگی بجا لاتے ہو۔ اسلام نے ہاتھ کے ساتھ محنت کر کے کمائی جانے والی روزی اور رزق کو اعلیٰ درجہ کا مقام دیا ہے اور اسے پاکیزہ کہہ کر پکارا ہے اور اس پاکیزہ روزی کے حصول اور اس کے استعمال پر ثواب اور اجر عظیم کی بشارت دی ہے۔ ہاتھ کے ساتھ کام کاج کرنا اور اپنے اہل وعیال کے لیے رزق ِحلا ل حاصل کرنا ایسا عمل ہے جس کے متعلق ہمارے نبی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت مسلمہ کو ترغیب دی اور اس نیک عمل پر ابھارا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے اعلیٰ اور اچھا کسب (کام)کونسا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا: آدمی کا اپنے ہاتھ کے ساتھ کام کرنا۔ (مسند احمد)

کسب ِ حلال کے متعلق کئی روایات ہیں جن میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو بشارت دی ہے۔ صحابہ کرام نے ایک ایسے آدمی کو دیکھا جو کسبِ حلال کی خاطر بہت محنت کرتا تھا، صحابہ کرام نے اُس کے متعلق پوچھا یار سول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اگر یہ شخص اللہ کے راستے میں اتنی محنت کرتا تو (اس کا اجر کیا ہوتا)تو جواباً حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:اگر یہ شخص اتنی محنت اپنے بچے کی روزی روٹی کے لیے کر رہا ہے تو یہ اللہ ہی کے راستے میں ہے۔ اور اگر یہ اتنی محنت و مشقت اپنے والدین کی خاطر کر رہا ہے تو بھی اللہ ہی کے راستے میں ہے اور اگر یہ شخص محنت و مشقت اپنے لیے کر رہا ہے تاکہ اسے رزق حلال کے ذریعے پاک و صاف رکھ سکے تو یہ بھی اللہ ہی کے راستے میں ہے۔ (طبرانی)

انبیاء کرام اور بالخصوص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہاتھ کے ساتھ کسب کرکے کھانے کو ترجیح دیا کرتے یہی وجہ ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسلامی تعلیمات میں سے ایک اعلیٰ تعلیم یہ بھی ہے کہ ہاتھ کے ساتھ محنت کر کے روزی کما کر خود بھی کھائی جائے اور اپنے اہل و عیال کو بھی کھلایا جائے مذکورہ بالا قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ محنت کرنے والے اللہ اور اس کے رسول کے محبوب ہیںاور انہیں اجر عظیم کی گارنٹیاں اور بشارتیں اللہ اور اس کے رسول نے دی ہیں لہذا انفرادی طور پر اور اجتماعی طور پر، ریاستی طور پر اور حکومتی طور پر یہ فرض ہے کہ محنت کرنے والوںکی قدر کی جائے، انہیں ان کی محنت کا پورا معاوضہ دیا جائے اور ان کے استحصال کی سوچ سے خود کو مبرا رکھا جائے۔ معاشرتی میدان میںجس طرح لادین معاشروںنے عورت کو کانٹے کی طرحزندگی کی رہ گزر سے ہٹانے اور مٹانے کی کوشش کی تو اس کے بالکل برعکس اسلامی معاشرہ میںبعض حالتوںمیں عورت کو مردوںسے زیادہ اہمیت فوقیت اور عزت واحترام سے نوازا۔ عورت کے قدموںمیںجنت ہے کہا گیا مگر یہ فضیلت اور اعزاز مرد کو نہیں دیا گیا۔ قرآن پاک میںحکم دیا گیا عورتوںسے حسن سلوک سے پیش آئو چنانچہ شوہر کو بیوی سے حسن سلوک اور فیاضی سے برتائو کرنے کی ہدایت کی گئی اور ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم میںسے بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے حق میںاچھے ہیں اور اپنے اہل عیال سے لطف و مہربانی کا سلوک کرنے والے ہیں۔ آج بھی یہ ذہنیت موجود ہے کہ عورت کو گھر کی نوکرانی کا درجہ دیا جاتا ہے ایسی سوچ رکھنے والے بھی مذکورہ قرآنی احکامات اور احادیث مبارکہ کو پیش نظر رکھیں اور اپنی سوچ کی اصلاح کریں۔