آثارِ قلم: فلسفہ صوم

ماریہ عروج

معزز قارئین! بلاشبہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بے شمار صلاحیتوں سے نوازا ہے جن میں سے آپ کا علم و عرفان کا پیکر ہونا بھی ہے۔ آپ نے مختلف موضوعات پر بے شمار کتب تصنیف کرکے دنیائے اسلام کو علم کا سمندر عطا کردیا ہے۔ آپ کی تصانیف فصاحت و بلاغت کا مرقع ہیں ان کی اہمیت کے پیشِ نظر ماہنامہ دختران اسلام ’’آثار قلم‘‘ کے نام سے نئے سلسلہ کا آغاز کررہا ہے جس میں ہر ماہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کتب کا تعارف نذرِ قارئین کیا جائے گا جو یقینا آپ کے علم میں اضافہ کا باعث بنے گا۔ (ایڈیٹر)

مذہب کا اصل مقصد درحقیقت تصفیہ عقائد،تزکیہ نفس اور اخلاق حسنہ کی ترویج ہے۔دنیا کا ہر مذہب کسی نہ کسی صورت میں تزکیہ نفس اور روحانی طہارت کی اہمیت کو اجاگر کرتا رہتا ہے ان کے ہاں اس کے طرق مختلف ہیں ،مثلا ہندؤں کے ہاں پوجا کا تصور ہے،عیسائیوں کے ہاں رہبانیت کا تصور ہے اور بدھ مت کے ہاں جملہ خواہشات کو ترک کر دینا لازمی قرار دیا گیا ہے،لیکن اسلام وہ واحد دین ہے جو افراط و تفریط سے پاک ہے۔اسلام میں تقوی اور تزکیہ نفس کے لیے ارکان اسلام کی صورت میں ایسا لائحہ عمل دیا گیا ہے جو فطرت انسانی سے ہم آہنگ ہونے کے ساتھ ساتھ قابل عمل اور آسان ہے انہی ارکان اسلام میں سے روزہ ایک اہم ترین عمل ہے جو تزکیہ نفس کے لیے اکسیر کی حیثیت رکھتا ہے۔

قرآن میں روزہ ہر اس صاحب ایمان شخص پر فرض قرار دے دیا گیا ہے ،جو اپنی زندگی میں ماہ رمضان کو پالے۔ لوگوں کی اکثریت ایسی ہے کہ حسب ارشاد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سوائے بھوکے پیاسے رہنے کے ان کے ہاتھ کچھ نہیں آتا،کیونکہ وہ رمضان المبارک اور رمضان کے حقیقی تقاضوں سے ناآشنا ہوتے ہیں ۔روزہ کے حقیقی مفہوم اور تقاضوں سے آشنا کروانے کے لیے ’’ڈاکٹر طاہر القادری‘‘ کی کتاب فلسفہ صوم موجود ہے ،جو رمضان اور روزے کے حقیقی مفہوم اور تقاضوں کی طرف بہترین رہنمائی کرتی ہے۔یہ کتاب روزے کی حکمت اور فلسفہ پر مشتمل ہے، جس میں ڈاکٹر طاہر القادری نے انتہائی عام فہم انداز میں جدید سائنسی تحقیقات کے حوالے سے روزہ کی بعض حکمتیں سمجھائی ہیں اور بالخصوص تزکیہ نفس جیسی بنیادی حکمت کو انوکھے اور علمی انداز میں بیان کیا ہے۔اس کتاب کی اہمیت کے پیش نظر اس کے چند اہم مندرجات ذیل میں بیان کیے جا رہے ہیں :۔

روزہ کی اہمیت ازروئے قرآن و حدیث

کتاب فلسفہ صوم کے باب اول میں روزہ کی فرضیت ،اسکے واجبات و شرائط اور رمضان کی وجہ تسمیہ کو اختصار کے ساتھ جامع انداز میں بیان کیا گیا ہے۔اس ضمن میں شیخ الاسلام نے قرآن کی درج ذیل آیت مبارکہ کے ذریعے روزہ کے حقیقی مقصد پر روشنی ڈالی ہے:

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ.

(البقره، 2: 183)

اے ایمان والو ـ!تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں ،جس طرح تم سے پہلی امتوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم تقوی اختیار کرو۔

اس آیت مبارکہ کے مطابق روزے کا مقصد تقوی ہے ،یعنی روزہ انسان میں تقوی پیدا کرتا ہے۔اگر روزہ رکھ کر بھی انسان تقوی حاصل نہیں کرتا تو پھر انسان نے روزے کے حقیقی مقصد کو نہیں پایا۔روزے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتاہے کہ کتب احادیث میں کئی احادیث روزے کی اہمیت اور فضیلت کو اجاگر کرتی ہیں ۔فلسفہ صوم کے باب دوم میں احادیث مبارک کے ذریعے روزے کے فضائل بیان کیے گئے ہیں۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

من صام رمضان ایمانا و احتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه. (صحیح بخاری)

’’جس شخص نے ایمان اور احتساب کی نیت سے رمضان کا روزہ رکھا اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘‘

یعنی اس حالت میں روزہ رکھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت شدہ تمام اشیاء کی تصدیق کرے،روزہ کی حالت میں صبر کرے اور اپنے نفس کا محاسبہ کرتا رہے۔اگر کوئی شخص ان دونوں شرائط کو پورا کرتے ہوئے روزہ رکھتا ہے تو اس کے تمام صغیرہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں اور کبائر کی معافی کی امید رکھی جا سکتی ہے۔

روزے کی حکمتیں

اللہ تعالی کے دیگر احکامات کی طرح روزے کا حکم بھی حکمتوں سے خالی نہیں ہے۔فلسفہ صوم کے تیسرے باب میں نہایت خوبصورت انداز میں روزے کی پانچ حکمتیں بیان کی گئی ہیں:

روزے کی پہلی حکمت تقوی کا حصول ہے۔ہر سال ماہ رمضان میں اس ضبط نفس کی تربیتی مشق کا اہتمام، تاکہ انسان میں سال کے بقیہ گیارہ ماہ میں حرام و حلال کے امتیاز کا جذبہ فروغ پا جائے۔وہ زندگی کے ہر معاملے میں حکم ربانی کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہوئے حرام کے شائبے سے بھی بچ جائے۔

روزے کی دوسری حکمت صبر اور شکر کی مشق ہے۔تقوی انسان سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ کسی نعمت سے محرومی پر شکوہ اور شکایات کرنے کی بجائے خاموشی سے برداشت کرے اسکی طبیعت میں ملال اور پیشانی پر شکن کے آثار پیدا نہ ہونے پائیں ،بلکہ ہر پریشانی کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے پروردگار کا شکر ادا کرے جب انسان روزہ کی حالت میں ایک خاص مدت تک اللہ کی نعمتوں کو اپنے اوپر روک لیتا ہے تو اسکو ان نعمتوں کی قدر و قیمت کا احساس ہوتا ہے پس نعمت کی پہچان سے اسکے اندر شکر کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔

روزہ کی تیسری حکمت یہ ہے کہ روزہ میں بھوک اور پیاس کااحساس انسان کو معاشرے کے مفلوک الحال لوگوں کی محرومیوں کی طرف متوجہ کرتا ہے ۔روزہ کا ایک مقصد انسان کے دل میں دکھی انسانیت کی خدمت کا جذبہ پیدا کرنا ہے ،تاکہ ایسا اسلامی معاشرہ قائم ہو سکے،جسکی اساس ایثار،باہمی محبت و مروت اور دردمندی و غمخواری کی لافانی قدروں پر ہو۔

روزے کی چوتھی حکمت تزکیہ نفس ہے ۔مسلسل روزے کے عمل اور مجاہدے سے تزکیہ نفس کا عمل تیزتر ہونے لگتا ہے،جسکی وجہ سے روح کثافتوں سے پاک ہو کر لطیف تر اور قوی تر ہو جاتی ہے۔روزے کا منتہائے مقصودرضائے خداوندی کا حصول ہے۔ رب کا اپنے بندے سے راضی ہوجانا اتنی بڑی نعمت ہے کہ اس کے مقابل تمام نعمتیں ہیچ دکھائی دیتی ہیں ۔ایک بزرگ نے اپنے مرید سے پوچھا کہ تمہیں کس طرح پتا چلے گا کہ تمہارا رب تم سے راضی ہیـ؟تو اس نے جواب دیا :جب میں نے اپنے دل کو اپنے رب سے راضی پایا تو میں سمجھ گیا کہ میرا رب مجھ سے راضی ہے۔(الرسالہ القشیریہ)

گویا خدا کی رجا کی پہچان یہ ہوئی کہ بندہ اپنے معاملات کی طرف نگاہ ڈالے اور اپنے دل سے سوال کرے کہ کیا وہ اپنے رب سے راضی ہے؟ اس طرح خدا اور بندے کی رضا باہم مربوط ہے۔

جسم اور روح کی حقیقت

خداکی رضا اور خوشنودی کے حصول کے لیے تزکیہ نفس اور تصفیہ باطن مرکزی اہمیت کے حامل ہیں اور ان تصورات کو سمجھنے کے لیے انسانی جسم اور روح کی حیثیت کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔جسم اور روح کی حقیقت کا تعین اس کتاب کے باب چہارم میں کیا گیا ہے:

سائنس کی اصطلاح میں جسم کو مادہ اور روح کو توانائی (Energy) کا نام دے سکتے ہیں۔ عام سائنسی مشاہدہ اس حقیقت پر دلالت کرتا ہے کہ مادہ جس قدر کثیف ہوگا وہ اتنی ہی محدود جگہ پر محصور ہو گا اور جوں جوں وہ لطیف ہوتا جائے گا توں توں اسکا حصار بڑھتا چلا جائے گا اسی طرح روح اور توانائی میں بھی کثافت ولطافت کا فرق ہے ۔مثال کے طور پر اگر آپ کے منہ میں پانی ہے اور آپ کلی کی صورت میں باہر نکالیں گے تو اسکا فاصلہ اورپھیلاؤ محدود ہو گا،کیونکہ پانی مادہ ہونے کی بنا پر نسبتا محدود جگہ پر محدود رہ سکتا ہے اس کے برعکس آپکے منہ سے نکلنے والی آوازجو کہ توانائی کی ایک شکل ہے، دور تک جا رہی ہے۔

طبقات انسانی کے حوالے سے روزے کی اقسام

معاشرے کے تمام افراد کا روزہ ایک ہی نوعیت کا نہیں ہوتا ،بلکہ دینی اور روحانی مدارج اور مقامات کے لحاظ سے روزہ بھی اپنی نوعیت میں مختلف اقسام پر مشتمل ہے۔فلسفہ صوم کے باب پنجم میں چار طبقات انسانی کے حوالے سے روزے کی چار اقسام ذکر کی گئی ہیں:

پہلا طبقہ عوام الناس پر مشتمل ہے، جو محض رسماََ روزہ رکھتے ہیں ۔وہ روزے کے آداب و شرائط کا لحاظ نہیں رکھتے چناچہ اکثر و بیشتر سوائے بھوکا پیاسا رہنے کے ان کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔

دوسرا طبقہ خواص العام لوگوں کا ہے جو روزہ کے ساتھ ساتھ احکام خداوندی کی پاسداری بھی کرتے ہیں ۔چناچہ روزہ سے ان میں تقوی کا جوہر پیدا ہو جاتا ہے۔

تیسرا طبقہ خواص الخاص لوگوں کا ہے،جن کی زندگیاں نہ صرف تقوی کے رنگ میں رنگی ہوتی ہیں بلکہ وہ اپنے نفس کی ساری خواہشات کو روند ڈالتے ہیں۔حضرت بہاؤالدین ذکریا ملتانی سے روزہ کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرماہا ’’روزہ مجاہدہ ہے۔‘‘ پوچھا گیا مجاہدہ کیا ہے؟تو فرمانے لگے: ’’مجاہدہ یہ ہے کہ نفس جس چیز کی خواہش کرے اسے بیس سال تک پورا نہ کیا جائے۔‘‘ خواص الخواص لوگوں کا روزہ دراصل مجاہدہ ہی ہوتا ہے۔

چوتھا طبقہ اخص الخواص کاہے، جن کو مقام مشاہدہ پر متمکن کیا گیا ہے۔ اس مقام پر اللہ کا بندہ سوائے ذات خداوندی کے ہر شے کو بھول جاتا ہے اور کچھ یاد نہیں رہتا اس بات کو سمجھنے کے لیے حضرت جنید بغدادی کا قول ہے، آپ فرماتے ہیںکہ: ’’چالیس سال سے بہشت کو میرے سامنے پوری آرائش کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے، لیکن میں رغبت سے ایک نظر بھی اس پر نہیں ڈالتا اور تیس سال سے میں اپنا دل کھو چکا ہوں اور نہیں چاہتا کہ مجھے واپس ملے۔‘‘

رمضان الکریم میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اکابرین اسلاف کے معمولات

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احوال بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان ان کی روشنی میںاپنے عمل کی اصلاح کر سکے اور اپنی زندگی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہ اسوہ کے سانچے میں ڈھال سکے یہی وجہ ہے کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے فلسفہ صوم کے باب 6 اور 7 میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اکابرین کے معمولاتِ رمضان بیان کیے ہیں،تاکہ ہم ان سے رہنمائی لے کر ان کو اپنے معمولات کا حصہ بنائیں۔

رمضان المبارک میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولات ِ عبادت و ریاضت میں عام دنوں کی نسبت کافی اضافہ ہو جاتا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک سے اتنی محبت فرماتے تھے کہ اس کے پانے کی دعا اکثر کیا کرتے تھے ۔رمضان المبارک کا اہتمام ماہ شعبان میں ہی روزوں کی کثرت سے ہو جاتا تھا۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماہ رجب کے آغاز میں یہ دعا اکثر فرمایا کرتے تھے :

اللهم بارک لنا فی رجب و شعبان و بلغنارمضان. (مسند احمد بن حنبل)

اے اللہ ہمارے لیے رجب اور شعبان بابرکت بنا دے اور ہمیں رمضان نصیب فرما۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوسرے مبارک معمولات میں سے رمضان المبارک کی راتوں میں کثرت ِقیام، تراویح، ایک مرتبہ ختم قرآن، کثرت صدقہ و خیرات اور اعتکاف شامل ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے مسلمانوں کے معمولات ر مضان نمایاں اور امتیازی حیثیت رکھتے تھے لیکن امتداد زمانہ سے وہ سب زوال پذیر ہو چکے ہیں اور عبادت کا جوش و خروش ماضی کا حصہ بن چکا ہے ۔جہاں زندگی کے ہر شعبے میں جمود اور نحوست طاری ہو گئی ہے وہاں عبادات اور دینی معاملات میں بھی روحانی جوش اور انہماک واستغراق باقی نہیں رہا۔ ان ابواب میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اکابرین کے احوال ذکر کر کے امت مسلمہ کو احساس دلایا گیا ہے کہ،ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ ہم اس ماہ مبارک کا حق کہاں تک ادا کر پاتے ہیں۔

رمضان المبارک میں اعتکاف اور شب قدر کی اہمیت

رمضان المبارک میں دیگر عبادات کے ساتھ ساتھ اعتکاف غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو تعلیم دی ہے کہ وہ ایک دن کا کچھ حصہ گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر اپنے نفس کامحاسبہ کریں۔ یہ معمول زندگی بھر ہونا چاہئے لیکن رمضان المبارک چونکہ خصوصی رحمتوں کا مہینہ ہے، اس لیے اس ماہ میں خلوت نشینی کے تصور کو باقاعدہ ضابطے کے تحت اعتکاف کی صورت میں متعین کر دیا گیا ہے۔ اعتکاف کی حقیقت یہ ہے کہ انسان چند روز کے لیے علائق دنیوی سے الگ ہوکر گوشہ نشین ہو جائے۔ ایک محدود مدت کے لیے خلوت گزیں ہو کر اللہ کے ساتھ اپنے تعلق بندگی کی تجدید کر لے۔ اپنے من کو آلائش ِنفسانی سے علیحدہ کر کے اپنے خالق و مالک کے ذکر سے اپنے دل کی دنیا آباد کر لے۔ مخلوق سے آنکھیں بند کر کے اپنے خالق کی طرف لو لگا لے ان کیفیات سے بہرہ ور ہو کر جب انسان دنیا و مافیہاسے کٹ کر صرف اپنے خالق و مالک کے ساتھ لو لگا لیتا ہے تو اس کے یہ چند ایام سالوں کی عبادت اور محنت و ریاضت پر بھاری قرار پاتے ہیں۔فلسفہ صوم کے باب دہم میں اعتکاف کی حقیقت اور اسکے فضائل و مسائل کو جامعیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔

اعتکاف کے ساتھ ساتھ ذہن میں شب قدر کا تصور ابھرتا ہے۔رمضان المبارک کی راتوں میں سے ایک رات شب قدر کہلاتی ہے،جو بہت ہی قدر و منزلت اور خیر و برکت والی رات ہے اس رات کو اللہ تعالی نے ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا ہے اسکی فضیلت کے بارے میں باب دہم میں شیخ الاسلام نے درج ذیل حدیث مبارک نقل کی ہے ۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

من قام لیلة القدر ایماناو احتسابا غفرله ماتقدم من ذنبه. (صحیح البخاری)

جس شخص نے شب قدر میں اجر و ثواب کی امید سے عبادت کی ،اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رمضان المبارک کی آمد پر ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ان هذا اشهر قد حضرکم و فیه لیلة خیر من الف شهر من حرمها فقد حرم الخیر کله ولا یحرم خیرها الا حرم الخیر. (ابن ماجه)

یہ جو ماہ تم پر آیا ہے اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار ماہ سے افضل ہے جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا گویا وہ سارے خیر سے محروم رہااور اس رات کی بھلائی سے وہی شخص محروم رہ سکتا ہے جو واقعتا محروم ہو۔

ایسے شخص کی محرومی میں واقعتا کیا شک ہو سکتا ہے ،جو اتنی بڑی نعمت کو غفلت کی وجہ سے گنوا دے ۔جب انسان معمولی معمولی باتوں کے لیے کتنی راتیں جاگ کر بسر کر لیتا ہے تو اسی سال کی عبادت سے افضل عبادت کے لیے دس راتیں کیوں نہیں جاگ سکتا۔

فلسفہ صوم کے باب یاز دہم میں لیلۃ القدر کے بارے میں کئی جامع اور مستند معلومات اور روایات ذکر کی گئی ہیں۔ الغرض کہ یہ کتاب ’’فلسفہ صوم‘‘ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نادر اور نایاب کتب میں سے ایک ہے۔یہ کتاب روزے کی اصل مقصدیت اور حکمت و فلسفہ کی طرف ہماری رہنمائی کرتی ہے اس کتاب کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ قاری کے اندر جوش وجذبہ پیدا کرتی ہے ،کہ وہ اس فرض عبادت کو اس کی اصل روح اور مقصدیت کے ساتھ ادا کرے۔ اگر قارئین روزے کے حقیقی مفہوم سے آشنا ہونا چاہتے ہیں تو بالضرور اس کتاب سے استفادہ کریں۔