اعتکاف کے فضائل اور خواتین کے مسائل

مسز فریدہ سجاد

عربی زبان میں رمضان کا مادہ رَمَضٌ ہے، جس کا معنی سخت گرمی اور تپش ہے۔ رمضان میں چونکہ روزہ دار بھوک و پیاس کی حدت اور شدت محسوس کرتا ہے اس لیے اسے رمضان کہا جاتا ہے۔ ماہِ رمضان کے روزوں کو جو امتیازی شرف اور فضیلت حاصل ہے اس کا اندازہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی درج ذیل حدیث مبارک سے لگایا جا سکتا ہے ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ، وَسُلْسِلَتِ الشَّیَاطِیْنُ.

’’جب ماہ رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو پابہ زنجیر کر دیا جاتا ہے۔ ‘‘

(بخاری، الصحیح، کتاب بدء الخلق، باب صفة إبلیس و جنوده، 3: 1194، رقم: 3103)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم إذَا دَخَلَ رَمَضَانَ لَغَیَّرَ لَوْنُهُ وَ کَثُرَتْ صَلَا تُهُ، وابْتَهَلَ فِي الدُّعَاءِ، وَأَشْفَقَ مِنْهُ.

’’جب ماہ رمضان شروع ہوتا تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ مبارک متغیر ہو جاتا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نمازوں میں اضافہ ہوجاتا، اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا کرتے اور اس کا خوف طاری رکھتے۔ ‘‘

(بیهقی، شعب الایمان، 3: 310، رقم: 3625)

ماہ ِ رمضان میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول تھا کہ آپ صدقات و خیرات کثرت کے ساتھ کیا کرتے اور آپ کی سخاوت کا یہ عالم تھا کہ کبھی کوئی سوالی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در سے خالی نہ لوٹتا۔ یوں اس ماہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سخاوت اور صدقات و خیرات میں کثرت سال کے باقی گیارہ مہینوں کی نسبت اس قدر بڑھ جاتی کہ ہوا کے تیز جھونکے بھی اس کا مقابلہ نہ کر سکتے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے روزے کا آغاز سحری کھانے اور اختتام جلد افطاری سے کیا کرتے تھے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے سحری کھانے کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

تَسَحَّرُوْا فَاِنَّ فِی السُّحُوْرِ بَرَکَةً.

’’سحری کھایا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے۔ ‘‘

(مسلم، الصحیح، کتاب الصیام، باب فضل السحور و تأکید استحبابه…، 2: 770، رقم: 1095)

رمضان المبارک کے صیام و قیام کا بنیادی مقصد ایمان کی مضبوطی اور محاسبۂ نفس ہے۔ جیسا کہ ایک حدیثِ مبارک میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان المبارک میں قیام کرنے کی فضیلت کے بارے میں ارشاد فرمایا:

’’جس نے ایمان و احتساب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اور راتوں کو قیام کیا۔ وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے جس طرح وہ بطن مادر سے پیدا ہوتے وقت (گناہوں سے) پاک تھا۔ ‘‘

(نسائی، السنن، کتاب الصیام، باب ذکر اختلاف یحیی بن أبی کثیر والنضر بن شیبان فیه، 4: 158، رقم: 2208-2210)

رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اعتکاف کرنے کا معمول تھا۔ اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں:

أَنَّ النَّبِیَّ صلی الله علیه وآله وسلم کَانَ یَعْتَکِفُ الْعَشْرَ الأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتَّی تَوَفَّاهُ اﷲُ، ثُمَّ اعْتَکَفَ أَزْوَاجُهُ مِنْ بَعْدِهِ.

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کے آخری دس دن اعتکاف کرتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوگیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواجِ مطہرات نے اعتکاف کیا ۔ ‘‘

(بخاری، الصحیح، کتاب الاعتکاف، باب الاعتکاف فی العشر الا واخر والإعتکاف فی المساجد کلها، 2: 713، رقم: 1922)

اعتکاف عربی زبان کا لفظ ہے جس کا لغوی معنی ’’خود کو روک لینا، بند کر لینا، کسی کی طرف اس قدر توجہ کرنا کہ چہرہ بھی اُس سے نہ ہٹے‘‘ وغیرہ کے ہیں۔ جبکہ اصطلاح شرع میں اس سے مراد ہے انسان کا علائقِ دنیا سے کٹ کر خاص مدت کے لئے عبادت کی نیت سے مسجد میں اس لئے ٹھہرنا تاکہ خلوت گزیں ہو کر اﷲ کے ساتھ اپنے تعلقِ بندگی کی تجدید کر سکے۔

جب اللہ رب العزت کسی بندے کو گناہوں کی دلدل سے نکال کر اطاعت گزاری سے سرفراز کرنے کا ارادہ فرماتا ہے تواسے تنہائی سے مانوس کر دیتا ہے کیونکہ خلوت نشینی (اعتکاف)سے نہ صرف دنیوی بلکہ اخروی فلاح بھی حاصل ہوتی ہے اس کے ذریعے دین میں غور و فکر، روح میں طہارت، عبادت میں استقامت، باطنی پاکیزگی، روشن ضمیری، صفائے قلبی اورذکرِ الٰہی کی حلاوت نصیب ہوتی ہے ۔ نیز ریا کاری، غیبت بغض و عناد، حسد، جھوٹ، گالی، بداخلاقی اور برے اعمال سے چھٹکارا مل جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں مراقبہ با لغیب کی بھی سعادت ملتی ہے۔ گویا اعتکاف کا مقصد دنیا کے امور اور آلائشوں سے علیحدگی، خشوع اور خضوع سے اللہ تعالیٰ کی عبادت، راتوں کا قیام، لیلۃالقدر کی تلاش اور توبہ و استغفارہے۔

اعتکاف کی اقسام

اعتکاف کی درج ذیل تین اقسام ہیں:

  1. واجب اعتکاف (نذر و منت کا اعتکاف)
  2. مسنون اعتکاف
  3. نفلی اعتکاف

شریعت کی رو سے مسنون اعتکاف کا آغاز بیس رمضان المبارک کی شام اور اکیس کے آغاز یعنی غروب آفتاب کے وقت سے ہوتا ہے اور عید کا چاند دیکھتے ہی اعتکاف ختم ہوجاتا ہے۔ چاند چاہے انتیس تاریخ کا ہو یا تیس کا، دونوں صورتوں میں سنت ادا ہوجائے گی۔

اعتکاف بیٹھنے کی شرائط درج ذیل ہیں:

  1. مسلمان ہونا۔
  2. اعتکاف کی نیت کرنا۔
  3. حدث اکبر (یعنی جنابت) اور حیض و نفاس سے پاک ہونا۔
  4. عاقل ہونا۔
  5. مسجد میں اعتکاف کرنا۔
  6. اعتکاف واجب (نذر) کے لیے روزہ شرط ہے۔

دورانِ اعتکاف معتکف کو درج ذیل امور سر انجام دینے چاہئیں:

  1. فرض نمازوں کی باجماعت ادائیگی کا اہتمام اور ان میں خشوع و خضوع
  2. قرآنِ حکیم کی تلاوت کرنا
  3. درودِ پاک کا ورد کرنا
  4. علوم دینیہ کا پڑھنا پڑھانا
  5. وعظ و نصیحت سننا
  6. قیام اللیل کرنا
  7. ذکر و اذکار کرنا

درج ذیل کچھ امورایسے ہیں جن سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔

  1. بلا عذر مسجد سے باہر نکلنا
  2. حالتِ اعتکاف میں مباشرت کرنا
  3. عورت اعتکاف میں ہو تو حیض و نفاس کا جاری ہو جانا
  4. کسی عذر کے باعث اعتکاف گاہ سے باہر نکل کر ضرورت سے زیادہ ٹھہرنا۔

انفرادی و اجتماعی اعتکاف کے فضائل وبرکات:

اعتکاف کی حقیقت خلوت نشینی ہے اور یہ اللہ رب العزت کا اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تصدق سے امتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خصوصی لطف و کرم ہے کہ وصال ِحق کی وہ منزل جو اممِ سابقہ کو زندگی بھر کی مشقتوں اور مسلسل ریاضتوں کے نتیجے میں بھی حاصل نہیں ہو سکتی تھی آج وہ امتِ مسلمہ کو اعتکاف کے ذریعے باآسانی میسر آسکتی ہے۔ چنانچہ چند روز ہ خلوت نشینی (اعتکاف) سے انسان اپنے من کے آلائشِ نفسانی سے جدا ہوکر جو دنیا بساتا ہے اس کے عوض وہ سالہا سال کی عبادت و ریاضت کا اجر سمیٹ لیتا ہے۔

اعتکاف کی فضیلت درج ذیل حدیثِ مبارکہ سے ثابت ہے، حضرت عبد اﷲ بن عباس سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معتکف کے بارے میں ارشاد فرمایا:

’’وہ (یعنی معتکف) گناہوں سے کنارہ کش ہو جاتا ہے اور اُسے عملاً نیک اعمال کرنیوالے کی مثل پوری پوری نیکیاں عطا کی جاتی ہیں۔ ‘‘

(ابن ماجه، السنن، کتاب الصیام، باب فی ثواب الاعتکاف، 2: 376، رقم: 1781)

اس میں کوئی شک نہیں کہ اعتکاف کا مقصد نفس کی اصلاح، برائیوں سے اجتناب اور خلوت کا حصول ہے مگر یہ بھی قا بل توجہ امر ہے کہ اگر کوئی عمل جب تک کسی مستحکم بنیاد پر قائم نہ ہو، ثمر آور اور دیر پا نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح اگر کوئی عمل اپنے بنیادی مقصد کو حاصل کرنے کا ذریعہ نہ بنے تو وہ عمل بے معنیٰ اور بے فائدہ ہو جائے گا ۔ چنانچہ اعتکاف کی وہی صورت بہتر اور قابل عمل تصور ہو گی جس میں اصلاحِ ایمان و عمل، تربیتِ نفس اور توبہ و استغفار کا مقصد بدرجہ اتم حاصل ہوتا ہے۔

ہماری اجتماعی صورتِ حال اور دورِ حاضرکے تقاضوں کے پیشِ نظر اعتکاف میں فرد کی تربیت اور اصلاحِ معاشرہ سے تعلق رکھنے والی اجتماعی امور مجرد وظائف اور تسبیحات سے زیادہ اہم اور ضروری ہو چکے ہیں اور جب معاشرہ کلیتاً برائی اور بے راہ روی کا شکار ہو تو اس صورت میں احکام بدل جاتے ہیں۔

حضرت عمر بن عبدالعزیز بیان کرتے ہیں کہ:

ان اﷲ تبارک وتعالی لا یعذب العامة بذنب الخاصة ولکن إذا عمل المنکر جهارا استحقوا العقوبة کلهم.

’’بے شک اللہ تعالی خاص لوگوں کے گناہوں کے سبب عامۃ الناس کو عذاب نہیں دیتا۔ لیکن جب اعلانیہ برائی کی جانے لگے تو(خا ص وعام) سب لوگ بلا امتیاز عذاب کے مستحق ہو جاتے ہیں۔ ‘‘

(مالک، المؤطا، 2: 991، رقم: 1799)

اسی مقصد کے لیے اجتماعی اعتکاف کروایا جاتا ہے تاکہ کلی بگاڑ کی اصلاح کو ممکن بنایا جا سکے اسی لیے آئمہ فقہ نے اس کو جائز قرار دیا ہے۔ اجتماعی اعتکاف میں باقاعدہ نظام الاوقات کے تحت نماز پنجگانہ، تہجد، چاشت، اوّابین، وظائف، حمد و نعت خوانی، دروس ہائے قرآن و حدیث، حلقہ ہائے فقہ و تصوف، تربیتی لیکچرز، حلقہ ہائے فقہ و تصوف، خوفِ خدا، فکرِ آخرت، اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کی شمع دلوں میں فروزاں کرنا اورجدید ترین علمی و روحانی پیچیدگیوں کا قرآن و سنت اور عقل سلیم کی روشنی میں تسلی بخش حل بتایا جاتا ہے۔ انفرادی اعتکاف میں اِن تمام فوائد کا حصول ممکن نہیں ہوتا۔ علمائ، اولیائ، صوفیاء اور ائمہ دین کی سنگت و زیارت، ان سے مسلسل فیوض و برکات کا حصول، قرآن و سنت اور فقہ (قانون اسلامی) کی بیش بہا معلومات اجتماعی اعتکاف کی منفرد خصوصیات میں سے ہیں۔ اجتماعی اعتکاف میں ذکر و اذکار، درود و سلام، گریہ و زاری، توبہ و استغفار اور عبادت کی زبانی ہی نہیں بلکہ عملی مشق کروائی جاتی ہے۔ اجتماعی اعتکاف میں چند دن کے فیوض و برکات کی رحمت و برکت، تعلیم و تربیت اور ذوق و شوق کے وہ نقوش قلب و ذہن پر منقش ہو جاتے ہیں جن سے قلب و ذہن کے آئینے ہمیشہ چمکتے دمکتے رہیں گے۔ تنہا اعتکاف میں یہ سب کچھ کہاں میسر ہوتا ہے۔

خواتین کا اعتکاف

ماہِ رمضان میں خواتین بھی اعتکاف بیٹھ سکتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اَزواجِ مطہرات بھی اعتکاف بیٹھا کرتی تھیں جیسا کہ حدیث مبارک سے ثابت ہے:

’’اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ کے حکم سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال مبارک ہوگیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواجِ مطہرات نے بھی اعتکاف کیا ہے۔ ‘‘

(بخاری، الصحیح، کتاب الاعتکاف، باب الاعتکاف فی العشر الأواخر والاعتکاف فی المساجد، 2: 713، رقم: 1922)

خواتین کے لئے بہتر یہی ہے کہ اپنے گھر میں جو جگہ نماز کے لئے مخصوص ہو وہیں اعتکاف بیٹھیں۔ لیکن اگر ان کے لیے کوئی ایسی جگہ جہاں با پردہ اور باحفاظت اعتکاف کے ساتھ تعلیم و تربیت اور تزکیہ و تصفیہ کا اہتمام ہو تو وہاںخواتین کا اجتماعی اعتکاف بیٹھنا جائز ہے۔ بعض بڑی مساجد اور مراکز پر خواتین کے لیے با پردہ اعتکاف کا با قاعدہ انتظام ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ شب و روز کے معمولات کے لیے ایک نظام الاوقات مہیا کیا جاتا ہے اور تعلیم و تربیت اور تزکیہ نفس کا ایسا انتظام و اہتمام کیا جاتا ہے جو انفرادی اعتکاف میں ممکن نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں اجتماعی اعتکاف انفرادی کی نسبت زیادہ فائدہ مند اور باعثِ اجر بن جاتا ہے۔

علامہ ابن نجیم حنفی عورت کے مسجد میں اعتکاف بیٹھنے کے حوالے سے رقم طراز ہیں:

ان إعتکافها فی مسجد الجماعة جائز.

’’بے شک عورت کا جماعت والی مسجد میں اعتکاف جائز ہے۔ ‘‘

علامہ کاسانی کی بدائع الصنائع کے حوالہ سے آپ مزید لکھتے ہیں:

ان اعتکافها فی مسجد الجماعة صحیح بلا خلاف بین أصحابنا.

’’عورت کا مسجدِ جماعت میں اعتکاف بیٹھنا درست ہے۔ اس میں ہمارے ائمہ احناف کے مابین کوئی اختلاف نہیں۔ ‘‘

(ابن نجیم، البحر الرائق، 2: 324)

علامہ ابن عابدین شامی رد المحتار میں عورت کا مسجد میں اعتکاف بیٹھنا مکروہ تنزیہی قرار دیتے ہیں ساتھ ہی بدائع الصنائع کے حوالہ سے لکھتے ہیں:

صرح فی البدائع بأنه خلاف الأفضل.

’’البدائع و الصنائع میں علامہ کاسانی نے تصریح فرمائی ہے کہ مسجد میں عورت کا اعتکاف بیٹھنا خلافِ افضل ہے۔ ‘‘

(ابن عابدین شامی، رد المحتار، 2: 441)

مراد یہ ہے کہ عورت کا مسجد میں اعتکاف اگر چہ جائز ہے لیکن مسجد کی نسبت عورت کا گھر میں اعتکاف بیٹھنا افضل ہے۔

وضاحت

ہر مسجد میں عورتوں کے اعتکاف کا خاطر خواہ انتظام نہیں ہوتاجبکہ گھر میں باپردہ الگ تھلگ با عزت طور پر ان کے لئے محفوظ جائے اعتکاف کا اہتمام ہوتا ہے۔ یہی چیزیں مسجد میں عورتوں کے اعتکاف پر ممانعت کا شرعی جواز مہیا کرتی ہیں۔ مگر جس مسجد میں وسعت ہو، مردوں اور عورتوں کے لئے الگ الگ باپردہ محفوظ جائے اعتکاف ہو، تمام حاضرین کو ایک معقول و مفید نظام الاوقات کی پابندی سے تعلیم و تربیت، تزکیہ و طہارت اور فرائض و واجبات کے ساتھ ساتھ نوافل پر بھی عامل بنایا جائے، درود و سلام، ذکر و اذکار، وعظ و نصیحت اور وظائف پڑھنے کی پابندی لگائی جائے تو وہاں اعتکاف بیٹھنے کا فائدہ اور اجر و ثواب انفرادی اعتکاف سے بھی بڑھ جاتا ہے۔

تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام ہونے والا اجتماعی اعتکاف اسی کی ایک مثال ہے۔ خواتین اپنے محرموں کے ہمراہ دور دراز علاقوں سے یہاںاعتکاف کی سعادت حاصل کرنے آتی ہیں۔ جہاںدروسِ قرآن و حدیث، فقہ و تصوف کے حلقہ جات اور دیگر تعلیمی و تربیتی پروگرام باقاعدگی سے ہوتے ہیں۔ یہاں مردوں اور عورتوں کے لئے مسجد سے متصل وسیع و عریض رقبہ پر الگ الگ قیام و طعام اور رہائش کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ خواتین سے متعلق (indoor) معاملات کے اِنتظام و انصرام کے لئے سینکڑوں نوجوان طالبات اور ویمن لیگ کی ممبرز جبکہ بیرونی (outdoor) حفاظت کے لئے مسلح گارڈز چوبیس گھنٹے موجود رہتے ہیں۔ آنے والی خواتین کی باقاعدہ رجسٹریشن کی جاتی ہے۔ ان کی صحت و صفائی، قیام و طعام کا خیال رکھا جاتا جاتا ہے اور بصورت بیماری و حادثہ طبی ماہرین کی ٹیم ہر وقت موجود ہوتی ہے۔

خواتین کو اعتکاف میں در پیش مسائل اور ان کا حل

  • اعتکاف کے دورا ن اگرکسی خاتون کو کوئی ایسی بیماری لاحق ہو جائے جس کا علاج اعتکاف گاہ سے باہر جائے بغیر ممکن نہ ہو تو اس صورت میں اعتکاف توڑنا جائز ہے۔
  • والدین، بیوی بچوں یا بہن بھائیوں میں سے کسی کو کوئی شدید مرض لاحق ہو جائے یا کوئی حادثہ پیش آجائے اور گھر میں کوئی دوسرا تیمارداری کرنے والا موجود نہ ہو تو اس صورت میں اعتکاف توڑنا جائز ہے۔
  • شرعی عذر کو انجکشن، ٹیبلٹ یا دوائی سے روک کر اگرصحت پر برے اثرات مرتب ہونے کا اندیشہ نہ ہو توخواتین اعتکاف بیٹھ سکتی ہیںاور افطاری کے اوقات میں (یعنی غروبِ آفتاب سے لے کر اذانِ فجر سے قبل تک) ٹیبلٹ لے سکتی یا انجکشن لگوا سکتی ہیں۔ لیکن اگر انجکشن لگوانے یا گولیاں کھانے کے باوجود کسی وقت عذرِ شرعی لاحق ہوجائے - چاہے وہ تھوڑی دیر کے لیے ہی ہو تو مسنون اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔
  • رمضان المبارک میں معتکف یا معتکفہ (مرد یا عورت) کا کسی عذر کی وجہ سے مسنون اعتکاف ٹوٹ جائے، مثلًا ضرورت سے زائد اعتکاف گاہ سے باہر رہے یا معتکفہ (عورت) کو حیض آجائے یا نفاس (بچے کی پیدائش) ہو جائے یا کوئی اور بیماری یا تکلیف لاحق ہو جائے تو جتنے دن کا اعتکاف رہ جائے اور رمضان المبارک کے روزے بھی اتنے ہی ہوں تو عید کے بعد جب رمضان کے روزوں کی قضا کرے تو اعتکاف کی بھی قضا کر لے۔ اگر قضائے رمضان کے ساتھ اعتکاف نہیں کیا تو بعد میں نفلی روزے رکھ کر اعتکاف پورا کرے۔

دورِ حاضر میں اِصلاح احوال تربیتِ نفس اور توبہ و استغفار کا ماحول میسر ہونا اللہ رب العزت کی بہت بڑی نعمت ہے۔ تحریکِ منہاج القرآن کے تحت ہونے والا اجتماعی اعتکاف 1980ء سے صحبتِ صلحاء اور خلوت نشینی کے ذریعے قربِ الٰہی کا فیض تقسیم کر رہا ہے۔ ہر سال ہزاروں مرد و زن قبل از وقت اس اعتکاف کے لیے رجسٹریشن کرواتے ہیں اور توبہ و استغفار اور آنسوؤں کی بستی میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی صحبت میں اپنے رب کو منانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ رب العزت اس چشمے کو تا دمِ قیامت قائم و دائم رکھے اور تشنگانِ الٰہی اس چشمے سے ہمیشہ یونہی سیراب ہوتے رہیں۔ آمین