آثارِ قلم: حسنِ عمل عبادت ہے

مرتبہ: ماریہ عروج

حسن وہ صفت عالی ہے جس کو اللہ رب العزت نے ہر شے کی قدرو منزلت کے لیے مشروط کیا ہے۔ حسن عمل کی قبولیت ہے، حسن عمل کی قوت ہے، حسن عمل کی موثریت ہے اور حسن ہی عمل کی قیمت ہے۔ اسلام صرف عمل کی تاکید نہیں کرتا بلکہ حسن عمل پر زور دیتا ہے کیونکہ محض عمل عادت اور روٹین ہوتی ہے جبکہ حسن عمل عبادت اور بندگی۔ دور حاضر کی ایک قباحت یہ بھی ہے کہ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج وغیرہ جیسے اعمال کا جو اثر انفرادی زندگیوں اور معاشرے پر ہونا چاہئے وہ نظر نہیں آتا۔ صالحیت کا نور تب برستا ہے جب خلوص، تقویٰ اور خیر خواہی کا حسن انسان کی نیت کا محرک ہو۔

زیر مطالعہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کتاب حسن اعمال اسی موضوع پر لکھی جانے والی نادر کتاب ہے جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے، اعمال حسنہ کے اس ذخیرہ سے عبارت ہے، جس کے لیے ہم دست بدعا ہوکر ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ کے الفاظ کے ساتھ نماز کے بعد اپنے پروردگار سے دنیا و آخرت کی بھلائی کے طلبگار ہوتے ہیں کہ حسن عطا فرما اور آخرت میں بھی حسن سے نواز۔ ذیل میں کتاب حسن اعمال کے ابواب کا مختصر تعارف پیش کیا جارہا ہے:

1۔ توبہ و استغفار

صوفیا کرام کے نزدیک راہ حق کے طالبین کا پہلا قدم ہی توبہ ہے یعنی اگر خالق حقیقی سے ٹوٹا ہوا تعلق جوڑنا مقصود ہے تو بارگاہ خداوند میں صدق و اخلاص کے ساتھ توبہ ہی اس سفر کا نقطہ آغاز ہے۔

اس کتاب کے باب اول میں بہت احسن انداز میں توبہ کے حسن کو بیان کیا گیا ہے کہ درحقیقت گناہ پر پشیمان ہونا اور مستقبل میں اس گناہ کو ہمیشہ کے لیے ترک کردینے کا نام توبہ ہے۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ توبہ کے متعلق فرماتے ہیں:

یہ دل کی ندامت، زبان سے بخشش مانگنے، اعضائے ظاہری کے گناہ ترک کردینے کا نام ہے اور اس بات کو توبہ کہا جاتا ہے کہ توبہ کرنے والا دل میں یہ بات پوشیدہ رکھے کہ وہ لوٹ کر اب برا کام نہیں کرے گا۔

2۔ ذکر الہٰی

کتاب حسن اعمال کے باب دوم میں ذکر الہٰی کی اہمیت و فضیلت، آداب اور درجات بیان کرتے ہوئے اس عمل کے حسن پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ توبہ پر استقامت کی ایک شرط تعلق باللہ ہے۔ اللہ سے تعلق حبی استوار کئے بغیر توبہ پر استقامت حاصل نہیں کی جاسکتی۔ اس تعلق باللہ کو مضبوط کرنے کا بہترین ذریعہ ذکر الہٰی ہے۔

ذکر الہٰی کا مفہوم یہ ہے کہ بندہ ہر وقت اور ہر حالت میں، اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے اپنے محبوب حقیقی کو یاد رکھے اور اس کی یاد سے کبھی غافل نہ ہو۔ اس دور مادیت میں ہمارے احوال زندگی مجموعی طور پر بگاڑ کا شکار ہیں۔ ہماری روحیں بیمار اور دل زنگ آلود ہوچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے ہمارا تعلق بندگی معدوم ہوچکا ہے۔ لہذا ان بگڑے ہوئے احوال کو درست کرنے، بیمار روحوں کو صحت یاب کرنے اور محبوب حقیقی سے ٹوٹے ہوئے تعلق کو دوبارہ بحال کرنے کا واحد ذریعہ ذکر الہٰی ہے۔

حضرت غوث الاعظم سیدنا عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے ذکر الہٰی کا مفہوم بیان فرماتے ہیں:

’’اے سامعین! تم اپنے اور خدا کے درمیان ذکر سے دروازہ کھول لو مردان خدا ہمیشہ خدا کا ذکر کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ ذکر الہٰی ان سے ان کے بوجھ کو دور کردیتا ہے۔‘‘

3۔ نماز

ذکر الہٰی کا بہترین ذریعہ نماز ہے۔ نماز کی معنوی حقیقت یہ تقاضا کرتی ہے کہ بندہ زبان، دل اور ہاتھ پائوں وغیرہ سے رب کائنات کی گونا گوں نعمتوں کا شکر ادا کرے۔ اس کے سامنے اپنی بندگی کا اظہار کرے اور اس خدائے رحمن و رحیم کی یاد کو عملاً دل میں بسالے۔ گویا حسن مطلق کی حمدو ثنا، اس کی یکتائی اور بڑائی کا اقرار کرنا نماز ہے۔ حسن اعمال کے باب سوم میں نماز کی تفصیلاً وضاحت کی گئی ہے۔

حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے منقول ہے: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دن موسم خزاں میں باہر نکلے، درختوں کے پتے جھڑ رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک درخت کی ٹہنیوں کو پکڑا (اور ہلایا) تو اس سے پتے جھڑنے لگے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا: بلاشبہ مومن جب اللہ کی رضا کے لیے نماز پڑھتا ہے تو اس کے گناہ ان پتوں کی طرح جھڑ جاتے ہیں۔ (مسند احمد بن حنبل)

4۔ قیام اللیل

نماز تو وہ عمل ہے جو امت مسلمہ پر فرض قرار دیا گیا ہے۔ اپنے رب سے تعلق عبودیت کے رشتے کو مزید مضبوط کرنے کے لیے اگلا اہم عمل قیام اللیل ہے۔ یہ رضائے الہٰی کی خاطر رات کے کسی حصہ میں نوافل ادا کرنے، تلاوت قرآن، ذکر و اذکار اور بارگاہ الہٰی میں مناجات کرنے کا نام ہے۔ کتاب حسن اعمال کے باب چہارم میں بہت احسن انداز میں اس احسن عمل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

حضرت رابعہ عدویہ رحمۃ اللہ علیہ ہر رات کو وضو کرکے خوشبو لگاتیں پھر اپنے خاوند سے کہتیں: کیا آپ کو کچھ ضرورت ہے؟ اگر وہ کہتے نہیں تو پھر صبح تک نماز پڑھتی رہتیں اور اول شب میں دعا کرتیں اے اللہ! تمام آنکھیں سوگئیں ہیں اور ستارے نیچے چلے گئے ہیں اور دنیا کے بادشاہوں نے اپنے دروازے بند کرلیے ہیں لیکن ایک تیرا دروازہ ہے جو بند نہیں ہوتا پس تو مجھے بخش دے۔ پھر وہ نماز کے لیے قدم درست کرتیں اور دعا کرتیں مولا تیری عزت وجلال کی قسم! میں جب تک زندہ ہوں تیرے سامنے ہر شب یونہی کھڑی رہوں گی۔

5۔ تلاوت قرآن

جب اللہ کے نیک بندے اس حال تک پہنچتے ہیں کہ رات بھر قیام میں ذکر و اذکار سے یا مناجات کے ذریعے اپنے محبوب حقیقی سے محو کلام رہتے ہیں تو ان کی محبوب سے محبت یہ تقاضا کرتی ہے کہ ان کا رب بھی ان سے ہم کلام ہو۔ رب تعالیٰ کا کلام قرآن مجید ہے۔ لہذا کتاب حسن اعمال میں مصنف نے قیام اللیل سے اگلا باب تلاوت قرآن مجید رکھا ہے۔ قرآن مجید کی تلاوت نہ صرف بندے کو رب کی ہم کلامی کے شرف سے بخشتی ہے بلکہ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو اقوام عالم کو زندگی گزارنے کا سیدھا راستہ دکھاتا ہے۔ اس کتاب میں تلاوت قرآن مجید کے حقیقی مقصد پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ تلاوت قرآن کا بنیادی مقصد اس کے مضامین میں غورو فکر اور تدبر کے ساتھ اس کے صحیح معانی و مطالب اور مفاہیم تک رسائی ہے۔ اگر امت مسلمہ کو صحیح معنوں میں قرآن فہمی کی نعمت نصیب ہوجائے تو وہ ایک مرتبہ پھر زوال کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکل کر انقلاب آشنا ہوجائے۔ جیسا کہ اقبال نے فرمایا:

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدتِ کردار

6۔ درود و سلام

قرب خداوندی کا ایک بہترین ذریعہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام ہے۔ درود و سلام کو مقبول ترین اور فوری اثرات و نتائج کے حامل اعمال میں خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس مقبولیت اور اہمیت کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ محب اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے محبوب ہیں۔ جس طرح محبت کرنے والے کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ہر وقت اس کے محبوب کا ذکر ہوتا رہے۔ ایسے ہی اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کے محبوب کا نام ہر وقت اس کے بندوں کی زبان پر رہے، وہ ہر دم اسے جپتے رہیں اور اس کی شان دوبالا ہوتی رہے۔ مصنف نے کتاب کے باب ششم میں درود و سلام کے فضائل پر روشنی ڈالی ہے۔ اس عمل کی اہمیت کا ایک پہلو بیان کرتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انسانیت کے محسن ہیں۔ آپ کی بدولت اللہ تعالیٰ نے انسانیت کو ہدایت بخشی اور کفرو شرک کی تاریکیوں سے نکال کر اس کی من کی دنیا کو توحید کے اجالوں سے جگمگادیا۔ لہذا ہم پر لازم آتا ہے کہ اس عظیم ذات کی مدح و تعریف کی جائے۔ اس کے ذریعے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قلبی تعلق پیدا کرنا مقصود ہے۔

7۔ دعا

کتاب کا اگلا باب دعا اور آداب دعا کے متعلق ہے۔ اس باب میں دعا کے مفہوم، اہمیت، فضیلت، شرائط، آداب اور مسنون دعائوں کو جامعیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔

سورہ الزمر میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهٗ مُنِیْبًا اِلَیْهِ ثُمَّ اِذَا خَوَّلَهٗ نِعْمَةً مِّنْهُ نَسِیَ مَا کَانَ یَدْعُوْٓا اِلَیْهِ مِنْ قَبْلُ.

’’اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اپنے رب کو اسی کی طرف رجوع کرتے ہوئے پکارتا ہے، پھر جب (اللہ) اُسے اپنی جانب سے کوئی نعمت بخش دیتا ہے تو وہ اُس (تکلیف) کو بھول جاتا ہے جس کے لیے وہ پہلے دعا کیا کرتا تھا۔‘‘

(الزمر، 39: 8)

مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ تنگی و آسانی ہر حال میں بارگاہ صمدیت میں دست دعا دراز کرے۔ کچھ لوگ غم میں تو رب سے دعا کرتے ہیں اورجب مصیبت ٹل جائے تو دعا کا دامن چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ عمل اللہ کو سخت ناپسند ہے۔

8۔ صدقہ و خیرات

اگر انسان خلق خدا کی منفعت کو اپنا شعار بناکر بارگاہ خدا کی طرف متوجہ ہو تو اس کی دعائیں جلد قبول ہوجاتی ہیں کیونکہ خلق خدا کی منفعت کا ایک ذریعہ صدقات و خیرات ہیں۔ صدقہ اعمال میں سے ایک حسن عمل ہے جس کے حسن کو اس کتاب کے باب ہشتم میں احسن انداز میں بیان کیا گیا ہے۔

امام راغب اصفہانی لکھتے ہیں: صدقہ وہ مال ہے جس کا ادا کرنا واجب نہ ہو بلکہ خیرات دینے والا اس سے اصلاح و تقویٰ کا قصد کرے۔

قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر انفاق فی سبیل اللہ کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

یٰـٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰـکُمْ.

’’اے ایمان والو! جو کچھ ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اس میں سے (اﷲ کی راہ میں) خرچ کرو۔‘‘

(البقرة، 2: 254)

9۔ فاقہ و کم خوری

کتاب کے اگلے باب (نہم) میں فاقہ و کم خوری کی اہمیت و فضیلت اور فوائد کو بیان کیا گیا ہے۔ بھرا ہوا پیٹ طرح طرح کی نفسانی خواہشات اور اخلاقی برائیوں کی آماجگاہ ہوتا ہے۔ جو شخص باطنی و روحانی عوارض سے نجات، تزکیہ نفس کی دولت اور معرفت الہٰی کی منزل تک رسائی حاصل کرنا چاہتا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے نفس کو کم خوری اور فاقہ کا عادی بنائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے آل و اصحاب کی بھی یہی سنت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فقر اختیاری تھا اضطراری نہ تھا جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اگر ہم سیر ہوکر کھانا چاہتے تو کھالیتے لیکن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ذات پر (دوسروں کو) ترجیح دیتے تھے۔

10۔ خاموشی اور کم گوئی

وقت ایک قیمتی سرمایہ ہے، جو شخص اسے لا یعنی گفتگو میں صرف کرتا ہے وہ اپنے مال کو ضائع کرکے اپنی کم عقلی کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔ خاموشی وہ نعمت ہے، جس سے دل میں نئے خیالات اور افکار جنم لیتے ہیں۔ کتاب حسن اعمال کے باب دہم میں خاموشی اور کم گوئی کے فوائد و ثمرات پر بحث کی گئی ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: خاموشی سراسر حکمتوں کا نام ہے مگر اسے اختیار کرنے والے بہت کم ہیں۔

(شعب لاایمان)

11۔ خلوت نشینی

کم گوئی کے ساتھ ساتھ خلوت نشینی ایسا عمل ہے جو اللہ رب العزت کی بارگاہ میں قرب حاصل کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔ باب یاز دہم میں خلوت نشینی کی ضرورت و اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ خلوت سے مراد نفس کی اصلاح کے لیے دل کو مخلوق سے اس طرح جدا کرلینا ہے کہ خلوت وجلوت میں صرف خالق کی یاد ہی غالب رہے۔ اس دور زوال میں نوجوان نسل بالخصوص ذہنی و فکری طور پر مادہ پرستی کا شکار ہوکر دین سے دور ہورہے ہیں۔ اسلامی ممالک میں شراب نوشی اور رقص و سرور کی محافل معمول کی بات بن گئی ہیں۔ ریڈیو، ٹی وی، وی سی آر، کیبل اور انٹرنیٹ کے ذریعے فحاشی و عریانی کا سیلاب گھر کے بیٹوں اور بیٹیوں کی حیاء اور عفت و پاکیزگی کو خس و خاشاک کی طرح بہالے جارہا ہے۔ مساجد ویران ہیں۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ اصلاح امت پر توجہ مرکوز کی جائے۔ قرآن میں جگہ جگہ افلا یتدبرون اور افلا یتفکرون کے الفاظ کے ذریعے غوروفکر کی تلقین کی گئی ہے۔ یہ تفکر اور تدبر خلوت اور کم آمیزی سے ہی ممکن ہے۔ خلوت نشینی سے مراد یہ نہیں کہ ہاتھ میں سمارٹ فون اور لیپ ٹاپ لے کر الگ تھلگ بیٹھے سوشل میڈیا پر مصروف ہیں یا فحش پروگرام دیکھے جارہے ہیں۔ خلوت نشینی یہ ہے کہ عبادت و ریاضت، اصلاح باطن، صفائے قلب، محاسبہ نفس، روح کی تربیت، مولا سے ٹوٹا ہوا تعلق جوڑنے، اس کے حضور توبہ و استغفار اور مناجات کیلئے خلوت میں یکسوئی سے چند لمحات گزارنا۔

12۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر

جب انسان اعمال حسنہ کے ذریعے اپنے نفس کو دنیا کی آلائشوں سے پاک کرے اور اس کا دل میں دنیا سے بے رغبتی پیدا ہوجائے تو اس پر لازم ہے کہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دے۔ کتاب کے آخری باب دوازدہم میں اسی عمل کی اہمیت و فضیلت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر دعوت و تبلیغ کا حکم دیا گیا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَادْعُ اِلٰی رَبِّکَ.

’’اور تم لوگوں کو اپنے رب کی طرف بلاتے ہو۔‘‘

(القصص، 28: 87)

دعوت دو طرح کی ہوتی ہے، انفرادی اور اجتماعی۔ انفرادی دعوت سے مراد یہ ہے کہ امت مسلمہ کا ہر فرد انفرادی طور پر اسلام کی سربلندی کے لیے کوشش کرے جبکہ دعوت کی دوسری صورت اجتماعی دعوت دین ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ایک تحریک، تنظیم یا جماعت وجود میں لائی جائے جو اس فریضہ کو بحسن و خوبی انجام دینے کی ذمہ دار ہو۔ اس کام کے لیے مخصوص افراد کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا جائے۔

یہ کتاب حسن اعمال ایک کوشش، ایک آرزو اور ایک تحریک ہے جو حضور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے حسن باطن کا اظہار اور طلب ہے۔ آپ کی خواہش ایک ایسی کتاب کی تدوین تھی جو بے عملوں کو عمل اور عمل والوں کو حسن عمل کی نعمت سے سرفراز کرسکے۔ میری تمام قارئین سے گزارش ہے کہ وہ خلوص دل سے اپنے ظاہرو باطن کی اصلاح کی نیت سے اس کتاب کو پڑھیں، عمل کریں اور اپنے روٹین کے اعمال کو اعمال حسنہ میں بدلیں۔