آثارِ قلم: توسل، قربِ الہٰی کے حصول کا ذریعہ

مرتبہ: ماریہ عروج

بندہ مومن کی زندگی کا مقصد اللہ کی رضا اور خوشنودی ہے۔ وہ اپنی زندگی میں ایسے اعمال بجا لانے کا پابند ہے جس سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی خوشنودی حاصل ہو۔ اسلام میں مسلمان کو فرائض کی بجا آوری کے ساتھ ساتھ بعض دیگر ایسے مستحسن طریقے اور ذرائع بھی میسر ہیں جس سے قرب خداوندی نصیب ہوتا ہے۔ ان طریقوں میں سے ایک پسندیدہ اور آسان طریقہ توسل ہے۔ بدقسمتی سے مسلمانوں کے اختلافات و انتشار کے باعث ایسے غیر متنازع اور خیر خواہی پر مبنی اعمال کی بجا آوری کو بھی مسلکی تعصب اور عناد کی بھینٹ چڑھا کر متنازع مسئلہ بنادیا گیا ہے۔ حتی کہ افراط و تفریط کا شکار لوگ اسے بدعت سمجھنے لگے ہیں۔

مفکر اسلام شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دیگر ہزاروں موضوعات کے ساتھ ساتھ اس موضوع کو بھی اپنے خطاب اور کتب کا عنوان بنایا ہے۔ زیر بحث کتاب کتاب التوسل میں روایتی تعصب اور عناد سے ہٹ کر توسل کے صحیح مفہوم کو قرآن و حدیث کے ٹھوس دلائل کے ساتھ واضح کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے سات ابواب ہیں، جن میں تفصیلی دلائل کے ساتھ عمومی اشکالات کا ازالہ کیا گیا ہے۔ ذیل میں اس کتاب کا مختصر خلاصہ پیش کیا گیا ہے۔

1۔ توسل کا مفہوم:

درحقیقت وسیلہ وہ چیز ہے جس کے ذریعے کسی تک پہنچا جائے اور اس کا قرب حاصل کیا جائے۔ (ابن منظور افریقی)

جو چیزیں قرب الہٰی کے حصول کا ذریعہ بنیں وہ وسیلہ ہیں چاہے ان کا تعلق اعمال سے ہو یا افراد سے کیونکہ قرآن نے وسیلہ کی تلاش کے حکم کو مقید نہیں کیا بلکہ مطلق حکم دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اﷲَ وَابْتَغُوْٓا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ وَجَاهِدُوْا فِیْ سَبِیْلِهٖ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ.

’’اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرتے رہو اور اس (کے حضور) تک (تقرب اور رسائی کا) وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم فلاح پاجاؤ۔‘‘

(المائدة، 5: 35)

کسی کو بطور وسیلہ پیش کرنے میں ہرگز یہ عقیدہ کارفرما نہیں ہوتا کہ وہ مقبول و مقرب بندہ جس کا وسیلہ دیا جارہا ہے وہ دعا کو قبول کرے گا یا (نعوذ باللہ) اللہ کو اس امر کے لیے مجبور کرے گا بلکہ وسیلہ پیش کرتے وقت سائل کے ذہن میں یہ تصور ہوتا ہے کہ جب وہ اپنی عاجزی اور بے بسی کا اظہار کرکے اللہ کی حمد و ثنا کے بعد اس کے کسی مقبول و مقرب بندے کا نام بطور وسیلہ پیش کرے گا تو اللہ اپنے اس اطاعت گزار اور مقرب بندے کا لحاظ کرتے ہوئے اس کی حاجت ضروری پوری کرے گا۔

2۔ توسل کے دلائل از روئے قرآن

پہلی دلیل

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَلَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَهُمْ جَآئُوکَ فَاسْتَغْفَرُوا اﷲَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اﷲَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا.

(النساء، 4: 64)

’’اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اوراللہ سے معافی مانگتے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے۔‘‘

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو ان کے گناہوں اور لغزشوں کی مغفرت کے لیے بارگاہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  میں آکر ان کا وسیلہ پکڑنے کا حکم دیا۔ یہ آیت کریمہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی حیات ظاہری تک محدود نہیں بلکہ بعد از وصال بھی اس کا حکم اسی طرح باقی ہے جس طرح ظاہری حیات میں تھا۔

دوسری دلیل:

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا.

(الاسراء، 17: 79)

’’یقینا آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا (یعنی وہ مقامِ شفاعتِ عظمیٰ جہاں جملہ اوّلین و آخرین آپ کی طرف رجوع اور آپ کی حمد کریں گے)۔‘‘

مقام محمود سے مراد وہ اعلیٰ اور رفیع مقام ہے جو روز قیامت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی شان نبوت کے لیے مختص ہوگا۔ اس مقام پر فائز ہونے کا مقصد امت کی شفاعت فرمانا ہے جو کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ گویا قیامت کے روز تمام لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ کی بارگاہ میں وسیلہ بنائیں گے۔

تیسری دلیل:

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَّکَفَّلَهَا زَکَرِیَّاط کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْهَا زَکَرِیَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًاج قَالَ یٰمَرْیَمُ اَنّٰی لَکِ هٰذَاط قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اﷲِط اِنَّ اﷲَ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ. هُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّهٗج قَالَ رَبِّ هَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّةً طَیِّـبَةًج اِنَّکَ سَمِیْعُ الدُّعَآءِ.

(آل عمران، 3: 37-38)

’’اور اس کی نگہبانی زکریا (علیہ السلام) کے سپرد کر دی۔ جب بھی زکریا (علیہ السلام) اس کے پاس عبادت گاہ میں داخل ہوتے تو وہ اس کے پاس (نئی سے نئی) کھانے کی چیزیں موجود پاتے، انہوں نے پوچھا: اے مریم! یہ چیزیں تمہارے لیے کہاں سے آتی ہیں؟ اس نے کہا: یہ (رزق) اﷲ کے پاس سے آتا ہے، بے شک اﷲ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق عطا کرتا ہے۔ اسی جگہ زکریا (علیہ السلام) نے اپنے رب سے دعا کی، عرض کیا: میرے مولا! مجھے اپنی جناب سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بے شک تو ہی دعا کا سننے والا ہے۔‘‘

آیت کریمہ کے الفاظ پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام کا معمول تھا کہ آپ پچھلی رات شب بیداری فرمایا کرتے تھے۔ اپنے معمول کے مطابق اس دن بھی آپ نماز میں مشغول ہوئے لیکن دعا کے لیے خصوصی طور پر حجرے کا انتخاب کیا گویا محبوب مقام پر کھڑے ہوکر دعا کرنا توسل کا آئینہ دار ہے۔

چوتھی دلیل:

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فَلَمَّآ اَنْ جَآءَ الْبَشِیْرُ اَلْقٰهُ عَلٰی وَجْهِهٖ فَارْتَدَّ بَصِیْرًاج قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّکُمْج اِنِّیْٓ اَعْلَمُ مِنَ اﷲِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ.

(یوسف، 12: 96)

’’پھر جب خوشخبری سنانے والا آ پہنچا اس نے وہ قمیض یعقوب (علیہ السلام) کے چہرے پر ڈال دیا تو اسی وقت ان کی بینائی لوٹ آئی۔‘‘

اس آیت کریمہ سے یہ ثابت ہوگیا کہ جس چیز کو انبیاء کرام و صلحاء عظام سے نسبت ہوجائے اس سے توسل کرنا توحید کے منافی نہیں ہے کیونکہ قمیض کو بھیجنے والے بھی نبی، اس سے فائدہ اٹھانے والے بھی نبی ہیں اور بیان کرنے والا ماحی شرک یعنی قرآن ہے۔ غیر نبی سے وسیلہ کرنا سنت انبیاء ہے اور سنت انبیاء کو شرک قرار دینا انبیاء سے بغض و عناد اور نادانی و کم فہمی کے سوا کچھ نہیں کیونکہ اس آیت کریمہ میں دو جلیل القدر انبیاء کی سنت بیان ہورہی ہے۔ اتنی بڑی صریح دلیل کی موجودگی میں کوئی مسلمان عقیدہ توسل سے انکار کی جسارت نہیں کرسکتا۔

پانچویں دلیل:

سورۃ الفاتحہ میں ارشاد ہوتا ہے:

صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَلا عَلَیْهِمْ.

(الفاتحه، 1: 6)

’’اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے اِنعام فرمایا۔‘‘

سورہ فاتحہ ہر نوع کے وسیلہ کی جامع دعا ہے۔ یہ پوری سورۃ گوریا سورہ وسیلہ ہے۔ اس میں توحید، رسالت اور شان ولایت سب جمع ہیں۔ لہذا جب نیک لوگوں کی راہ دکھانے کا ذکر ہوا تو ساتھ ہی ان کی نشاندہی کردی گئی اور ان لوگوں کی وجہ سے ہدایت ملنا دلیل توسل ہے۔

3۔ توسل کے دلائل از روئے حدیث:

1۔ بیٹیوں کی بہتر پرورش سے توسل:

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ارشادات گرامی میں جابجا ہمیں اس چیز کا ثبوت ملتا ہے کہ اپنی بچیوں کی بہتر پرورش اور تعلیم و تربیت ایک ایسا عمل صالحہ ہے کہ اس کے وسیلے سے ماں باپ کو جہنم کی آگ سے خلاصی نصیب ہوتی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا: جو کوئی بیٹیوں کے ذریعے آزمایا گیا اور اس نے ان سے اچھا سلوک کیا تو یہ اس کے لیے دوزخ سے حجاب بن جاتی ہیں۔ (صحیح بخاری)

2۔ سائلین کا توسل:

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا: جو شخص نماز کے ارادے سے اپنے گھر سے نکلے اور یہ دعامانگے: اے اللہ! میں تجھ سے تیرے سائلین کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں اور میں تجھ سے (نماز کی طرف اٹھنے والے) اپنے ان قدموں کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں، بے شک میں نہ کسی برائی کی طرف چل پڑا ہوں نہ تکبر اور غرور سے، نہ دکھاوے اورنہ کسی دنیاوی شہرت کی خاطر نکلا ہوں، میں تو صرف تیری ناراضی سے بچنے کے لیے اور تیری رضا کو حاصل کرنے کے لیے نکلا ہوں۔ پس میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ مجھے دوزخ کی آگ سے نجات دے۔ (سنن ابن ماجہ)

گویا اللہ کے سائلین کے توسل سے دعا کرنا بھی حدیث صحیح سے ثابت ہے۔

3۔ ضعفائے امت کا توسل:

نیک بندوں کے علاوہ مسافروں، مریضوں اور وہ سب جن پر اللہ تعالیٰ نے رحم فرمانے کی بات کی ہے ان کا وسیلہ پیش کرنا بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ارشاد گرامی سے ثابت ہے۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ کمزور لوگوں کی دعا، نماز اور خلوص کے باعث ہی تو اس امت کی مدد فرماتا ہے۔ (سنن نسائی)

حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے کمزور لوگوں میں تلاش کرو۔ بے شک کمزور لوگوں کے سبب ہی تمہیں رزق عطا کیا جاتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے۔

گویا ضعیف و نادار لوگوں کے توسل سے باری تعالیٰ امت مسلمہ کو نہ صرف اپنی مدد و نصرت سے نوازتا ہے بلکہ انہیں رزق اور وسائل بھی عطا کرتا ہے۔ لہذا ان کے وسیلہ سے مانگی گئی دعا بھی قبولیت سے نوازی جاتی ہے۔

6۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے توسل:

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی ذات اقدس سے توسل کا عمل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی تخلیق سے قبل، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی ظاہری حیات مبارکہ میں اور بعد از وصال ہر دور میں جاری و ساری رہا ہے۔

1۔ولادت سے قبل آپ کی ذات سے توسل: اللہ رب العزت کی بارگاہ میں اپنی خطائوں اور لغزشوں کی معافی کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ سے توسل کرنا ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کی بھی سنت ہے۔ امام طبرانی کی روایت میں ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے توبہ کے لیے ان کلمات توسل کا استعمال کیا: اے اللہ میں تجھ سے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں کہ میری مغفرت فرما۔

اسی طرح کی ملتی جلتی روایت مولانا اشرف علی تھانوی نے نشرالطیب میں نقل کی ہے۔ چنانچہ ان کلمات استغفار سے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے وسیلے سے ادا ہوئے آپ کی توبہ قبول ہوگئی۔ اسی طرح یہود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت سے قبل اپنے حریف مشرکین عرب پر فتح پانے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے وسیلہ سے بارگاہ رب العزت میں دعا کرتے۔

2۔ بعد از وصال حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسل: جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ابھی اس دنیا میں تشریف بھی نہ لائے تھے اور اس وقت اگر وسیلہ جائز تھا تو اب وصال کے بعد وسیلہ ناجائز کیسے ہوسکتا ہے۔ جو آیت کریمہ ظہور ولادت سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے توسل پر جواز کی دلیل ہے۔ یہی آیت بعد از وصال تھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسل اور وسیلہ کے جائز ہونے پر بھی دلالت کرتی ہے۔

3۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حیات ظاہری میں توسل: قرآن مجید میں صراحتاً اس بات کا ثبوت پایا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ نے امت مرحومہ پر بے شمار انعامات فرمائے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے توسل کیا۔ آپ نے ان کو یہ نہیں فرمایا کہ اللہ سے سوال کیا کرو بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود ان کو وسیلہ کی تعلیم دی۔

جیسا کہ حضرت عثمان بن حنیف فرماتے ہیں کہ ایک نابینا شخص حضور کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی: اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھے عافیت عطا فرمائے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا: اگر تو چاہے تو میں اس کو موخر کرتا ہوں اور یہ تیرے لیے بہتر ہے اور اگر تو چاہے تو دعا کروں۔ اس نے عرض کیا دعا فرمادیجئے پس آپ نے اسے وضو کرنے کا حکم دیا کہ اچھی طرح وضو کرکے دو رکعت نفل پڑھ پھر یہ دعا کر: اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نبی رحمت کے وسیلہ سے متوجہ ہوتا ہوں۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  میں آپ کے وسیلہ سے آپ کے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں تاکہ وہ میری یہ حاجت پوری فرمادے۔ اے اللہ! آپ اپنے نبی کی شفاعت کو میرے حق میں قبول فرمائیں۔ (مسند احمد بن حنبل)

یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ دعا کے کلمات خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے سکھائے ہیں۔ توسل میں فقط آپ کی ذات کو ہی وسیلہ نہیں بنایا جارہا بلکہ اللہ تعالیٰ کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا کردہ شان رحمت للعالمینی کو بھی وسیلہ بنایا گیا ہے۔

ان تمام دلائل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ توسل حکم ربانی اور ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی روشنی میں قرب الہٰی اور اس کی بارگاہ سے اپنی دعائوں کی قبولیت کے لیے ایک درست جائز اور شرعی طریقہ ہے۔ بدقسمتی سے آج ہم نے دینی احکام کو بھی اپنی طبیعت اور مسلک کے تابع کردیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جملہ دینی عقائد و اعمال کو افراط و تفریط سے ہٹ کر دین کی حقیقی روح کے ساتھ سمجھا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے۔